سیالکوٹNA111 ڈاکٹرفردوس عاشق کوسخت چیلنج درپیش

سیالکوٹ میں سب سے بڑا سیاسی میدان این اے 111 میں لگنے والا ہے۔

2008ء کے عام انتخابات میں یہاں سے پیپلز پارٹی کی امیدوار ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے 78925ووٹ لے کر پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔ فوٹو : فائل

سیالکوٹ این اے 111میں رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 307465ہے حلقہ 26یونین کونسلز اور 400 دیہات پر مشتمل ہے۔

جہاںپر گجر، جاٹ، ارائیں اور اعوان برادری بہت بڑی تعداد میں رہائش پذیر ہیں جبکہ حلقہ میں علاقہ بجوات کے 85دیہات کے علاوہ رحمت آباد ،اگوکی،عدالت گڑھا،گوہد پور ،ماچھی کھوکھر،حسن وال، بلانوالہ، شیر پور، ہموں گھکٹر، ہرناہ،ڈھلے والی، میانی پٹھاناں، کوٹلی بھٹہ، کوٹلی لوہاراں،ہیڈ مرالہ ،پنڈی کھوکھراں، چپراڑ، گوندل،شہنی ،کوٹلی سید امیر، کوبے چک، مراکیوال، کھروٹہ سیداں،گل بہار، ڈ الو والی ،بھڑتھ بوتھ،جیسے قصبے قابل زکر ہیں جب ضلع کے اس حلقہ کی انفرادی خوبی یہ ہے 1988ء سے لیکر آج تک جو بھی اُمیدوار یہاں سے کامیاب ہوئے وہ پاکستانی سیاست میں اہم عہدوں پر فائزرہے۔

ان میں صدر پاکستان،وزیر قانون، وزیر پا رلیمانی امور،سپیکر قومی اسمبلی، وزیراطلاعات ونشریات،و دیگر وزراتوں کے قلمدان شامل ہیں اگر گزشتہ سے پیوستہ صورتحال کو دیکھا جائے تو 2008ء کے عام انتخابات میں یہاں سے پیپلز پارٹی کی امیدوار ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے 78925ووٹ لے کر پہلی اور مسلم لیگ ق کے امیدوار چوہدری امیر حسین نے 42513 ووٹ لے کر دوسری اور مسلم لیگ ن کے امیدوار ادریس باجوہ نے 38192 ووٹ لے کر تیسری پوزیشن حاصل کی تھی اس حلقہ میں سابق سپیکر قومی اسمبلی چوہدری امیر حسین نے اپنی سیاست کا آغاز 1985ء کا غیر جماعتی الیکشن جیت کر کیا اور پھر چار دفعہ اسی حلقہ سے میں الیکشن جیت کر رکن قومی اسمبلی کی حیثیت سے مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی۔



1993ء میں انہیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (جونیجو)کے مشترکہ امیدوار چودھری اختر وریو نے شکست دی مگر 1997میں انہوں نے دوبارہ اسی حلقہ سے مسلم لیگ ن کی سیٹ پر سابق صوبائی وزیر چوہدری اختر وریو مرحوم کے بیٹے خوش اختر سبحانی کو شکست دے کر کامیابی حاصل کر لی۔ مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں وفاقی وزیر قانون بھی رہے۔ مشرف مارشل لا کے بعد انہوں نے مسلم لیگ ن چھوڑ کر مسلم لیگ ق میں شمولیت اختیار کر لی ۔ 2002ء کے الیکشن میں کامیابی کے بعد قومی اسمبلی کے سپیکر رہے۔

2008 ء کے الیکشن میں انہیں اس حلقہ سے دوسری باراور تاریخ میں پہلی بار پیپلز پارٹی کی امیدوار ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے شکست دی۔ اب الیکشن 2013 میں بھی سابقہ ادوار کی طرح ضلع سیالکوٹ میں قومی اسمبلی کے پانچ حلقوں میں سب سے زیادہ دلچسپ اور کانٹے دارمقابلہ این اے 111 میں متوقع ہے قومی اسمبلی کی ا س ایک نشست کے لیے کاغذات نامزدگی جمع ہوچکے ہیں تمام امیدواروں کی جانچ پڑتال مکمل ہوگئی ہے جب کہ عام انتخابات کادوسرا مرحلہ 17 اپریل کو مکمل ہوجائے گا اور18اپریل 2013ء تک امیدوار کاغذات نامزدگی واپس لے سکیں گے اور پھر اسی روز سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ ہولڈر ہونے کے دعویدارورں کو اپنے ریٹرنگ آفیسر کو سامنے پارٹی ٹکٹ پیش کرنا لازمی ہوگاورنہ ان کو آزادامیدوار کی حیثیت سے انتخابی نشان الاٹ کر دیاجائے گا۔

سیالکوٹ میں سب سے بڑا سیاسی میدان این اے 111 میں لگنے والا ہے اب حلقہ میں سیاسی گہماگہمی شروع ہو چکی ہے ہر طرف سیاست کے کھلاڑی میدان میں اتر چکے ہیں ڈیرے آبا د ہو گئے ہیں جب کہ روٹی کپڑا اور مکان کے روایتی نعروں کے ساتھ بر سر اقتدار آنے والی پیپلز پارٹی نے اپنے پانچ سالہ دور میں جمہوریت کو تو بچالیامگرپوری عوام کو لوڈ شیڈنگ ، گیس کے بحران ، مہنگائی ، غربت اور افلاس کے مہیب اندھیروں میں غرق کر دیا لیکن اس کے باوجود ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان جن کا تعلق پیپلزپارٹی سے ہے جو حلقہ میں اعوان برادری، فقہ جعفریہ سے تعلق ، پیپلزپارٹی ووٹوں اور وجود زن کی خصوصیات کے ساتھ موجود ہیںمگر شروع شروع میں ڈاکٹر فردوس کے مقابل ادریس باجوہ کا نام آتا تھا۔



ادریس باجوہ جو کہ مسلم لیگ(ن) کے ضلعی صدر بھی ہیں اور دو دفعہ اس حلقہ سے ہار چکے ہیں اورعوامی رائے کے مطابق ایک کمزور امیدوار تھے کی شروع میں نامزدگی پر ڈاکٹر فردوس عاشق نے مٹھائی بھی تقسیم کی تھی اور جوش خطابت میں میاں نواز شریف کو بھی اپنے مد مقابل الیکشن لڑنے کی دعوت دے ڈالی تھی لیکن ڈاکٹر فردوس کی اس للکار نے مسلم لیگ ن کو اس نامزدگی کو تبدیل کرنے پر مجبور کر دیاپھر اچانک میاں محمد نواز شریف نے ایک مثبت اور سیاسی فیصلہ کرتے ہوئے ادریس باجوہ کی جگہ ذاتی ووٹ بنک کے حامل اوربااثر سیاسی خاندان چودھری ارمغان سبحانی کا ٹکٹ فائنل کر دیا۔

جس سے حلقہ کی سیاسی فضاء یکسر تبدیل ہوگئی ہے۔ارمغان سبحانی کی نامزدگی کے باعث ڈاکٹر فردوس یقیناً اپنی (بڑھک) پر پچھتارہی ہو نگی کیونکہ بڑ ھکیں مارنے والے تکبر کے زمرے میں آتے ہیں اور تکبر کو اللہ پسند نہیں فرماتا۔ جبکہ نفرت کی آمیزش بے رنگ ہوتی ہے جس طرح 2008 ء میں اسی حلقہ میں چوہدری امیر حسین کو پرویز مشرف کی نفرت لے ڈوبی تھی اب ایسے لگتا ہے کہ ڈاکٹر فردوس کو صدر زرداری کی نفرت لے ڈوبے گی۔ دوسری طرف سونامی کے امیدوار موجود ہیں، تحریک انصاف نے 23مارچ 2012 کو سیالکوٹ میں ایک جلسہ کیا تھا ۔


جس میں سیالکوٹ کی نامور سیاسی شخصیات سابقہ ضلع ناظم اکمل چیمہ، سابقہ صوبائی وزیر اجمل چیمہ،میاں نعیم جاوید،سابقہ سپیکر قومی اسمبلی چوہدری امیر حسین نے تحریک انصاف میں شمولیت کی تھی اسی حوالے سے اب ایک سال بعد الیکشن میں ٹکٹ کے حصول کے لیے سب نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے جب کہ اس حلقہ سے چار مرتبہ منتخب ہونے والے چوہدری امیر حسین کو شدید خواہش کے باوجود ٹکٹ نہ مل سکا تو تحریک انصاف نے یہاں پر سابقہ ضلعی ناظم اکمل چیمہ کے بھائی اور سابقہ صوبائی وزیر اجمل چیمہ کو ٹکٹ جاری کر دیا ہے،اس کے باوجود چیمہ برادران کا موجودہ الیکشن میں کوئی خاص کردار نظر نہیں آرہا مگر دوسرے لیڈروں کی طرح وہ بھی اپنی سیاسی بقاء اورانا کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔



مگر یہاں کچھ سیاسی اکابرین کا کہنا ہے کہ کسی دور میں ارمغان اور چوہدری امیر حسین کا چاچا بھتیجا کا رشتہ رہا ہے اس لیے ممکن ہے کہ پس پردہ چوہدری امیر حسین اخلاقی طور پر ارمغان کی حمایت کردیں اور کسی کو پتہ بھی نہ چلے ۔جس طرح اسی حلقہ میں رانا برادران نے سابقہ ادوار میں مسلم لیگ ن کی طرف سے الیکشن لڑتے ہوئے پیپلزپارٹی کی ڈاکٹر فردوس کی حمایت کی تھی اور ڈاکٹر فردوس نے کامیابی حاصل کی تھی ۔اسی حلقہ میں جماعت اسلامی ،ایم کیو ایم ،اور دیگر آزاد امیدوار ووٹ تقسیم کریں گے اور کچھ نئے چہرے بھی اس الیکشن میں متعارف ہونگے لیکن اصل مقابلہ پیپلزپارٹی کی ڈاکٹر فردوس اور مسلم لیگ (ن)کے ارمغان سبحانی کے درمیان ہو گا این اے 111 کے زیر سایہ صوبائی اسمبلی کے تین حلقے پی پی 125,124,121آتے ہیں۔

پی پی121 سال 2002 کے الیکشن سے قبل پی پی 104 تھا یہاں سے 1985 کے غیر جماعتی الیکشن میں وریو خاندان کے سربراہ چوہدری اختر علی مرحوم پہلی کامیابی حاصل کرتے ہوئے ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اور بعد میں 1988 اور 1990 کے الیکشن میں مسلم لیگ ن کی سیٹ پر کامیاب ہوئے۔1993ء کے عام انتخابات میں انہوں نے مسلم لیگ (ج ) کے ٹکٹ پراین اے 85سے الیکشن جیتا ۔نئی حلقہ بندی کے تحت یہ حلقہ پی پی 121 میں تبدیل ہو گیا۔ 2002ء کے الیکشن میں اس حلقہ سے ق لیگ کے سابق صوبائی وزیر اجمل چیمہ نے 43113 ووٹ لیکرکامیابی حاصل کی ۔

جبکہ ان کے مدمقابل مسلم لیگ ن کے صبور کسانہ نے 19744ووٹ لیکر دوسری ،پیپلزپارٹی کے یوسف خلجی نے 10859ووٹ لیکر تیسری پوزشن حاصل کی ۔بعدازں 2008کے الیکشن میں سیاسی صورتحال نے کروٹ لی اور اس حلقہ سے مسلم لیگ ن کے طارق ہرناہ نے 49392 ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی ان کے مد مقابل ق لیگ کے اجمل چیمہ نے 26916 ووٹ لیکر دوسری اور پیپلز پارٹی کے میجریوسف نے 12342 ووٹ لیکر تیسری پوزشن حاصل کی ،مگر چھ ماہ بعد ہی کامیاب ایم پی اے رانا طارق ہرناہ کا کار کے حادثے میں انتقال ہو گیا اور حلقہ میں ضمنی الیکشن ہوا اور مسلم لیگ ن کی سیٹ پر ان کے والدرانا اقبال ہرناہ 38740 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے۔

رانا اقبال کے مقابلے میں ڈاکٹر فردوس عاشق کے حمایت یافتہ پیپلز پارٹی کے اُمیدوار چوہدری محمد صغیر18452 ووٹ لیکر دوسری اور وریو خاندان کے سپوت خوش اختر سبحانی نے آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے16590ووٹ حاصل کیے تھے۔ الیکشن 2013میں حلقہ کے سرگرم مسلم لیگی کارکنوں نے اس نشست کوحاصل کرنے کے لیے سر توڑ کوششیں شروع کردی ہیں ۔ن لیگ نے پی پی 121میںرانا عارف اقبال کی بجائے ان کے والد سابقہ ایم پی اے رانا محمد اقبال ہرناہ کو ہی ٹکٹ جاری کر دیاہے اور رانا اقبال نے اپنے ایم این اے ارمغان سبحانی کے ساتھ مل کر الیکشن مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ اس کے برعکس ڈاکٹر فردوس نے مقامی سطح پر مسلم لیگ کے کارکن عابد جاوید آف بھیڑی کو اپنے ساتھ پیپلزپارٹی میں شامل کر لیا ہے اور پی پی 121 میں پیپلزپارٹی کا ٹکٹ بھی کنفرم کروادیا ہے۔

جب کہ تحریک انصاف نے اسی حلقہ سے سابقہ سپیکر چوہدری امیر حسین کے بیٹے آصف امیر حسین کو ٹکٹ جاری کر دیا ہے۔عابد جاوید کا تعلق آرائیں برادری سے ہے اور حلقہ میں آرائیں برادری کی اکثریت بھی ہے مگر اب ہونے والا الیکشن برادری ازم کے ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے اوررانا محمد اقبال کی پوزیشن مضبوط ہے۔ پی پی 124 میں 2002ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کے امیدوار طاہر اختر اعوان نے 15800 ووٹ لیکر پہلی ،مسلم لیگ ن کے محمد سعید نے15352 ووٹ لیکر دوسری ،مسلم لیگ ق کے ذوالفقار گھمن نے 15050 ووٹ لیکر تیسری پوزشن حاصل کی تھی ۔

2008 ء کے الیکشن میںپی پی 124 سے مسلم لیگ ن کے ایم پی اے راناشمیم خان کے بیٹے عبد الستار نے پہلی مرتبہ سیاست میں قدم رکھتے ہوئے 24994 ووٹ لیکر پیپلز پارٹی کے امیدوار ملک طاہر اختر اعوان اور مسلم لیگ ق کے امیدوار میاں ریاض کو شکست دی اور رانا عبدالستار نے دوسرے حلقہ این اے 112 سے الیکشن لڑتے ہوئے مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت کے مقابلے میں 92182 ووٹ لیکرچوہدری شجاعت کو بدترین شکست سے دوچار کیا تھا۔اس مرتبہ مسلم لیگ کی قیادت نے رانا شمیم احمد خان کو پی پی 124سے اٹھا کر این اے 112میں جہاں سے انکے بیٹے عبدالستار ایم این اے تھے الیکشن لڑنے کا ٹارگٹ دے دیا ہے اور ان کی جگہ ان کے بیٹے رانا عبدالستار کو ایم پی اے کا ٹکٹ جاری کر دیا ہے۔

ان کے مدمقابل پیپلزپارٹی کے ضلعی صدر ملک طاہر اختر اعوان ،ق لیگ کے خالد پرویز آف کلووال ،تحریک انصاف کے بیرسٹر جمشد غیاث ،اور ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے حمایت یافتہ عنصر فاروق ہیں مگر تمام تر کوششوں ،رکاوٹوں اور سیٹ ایڈ جسٹمنٹ کے باوجود اس دفعہ بھی یہاں سے رانا عبدالستار کی پوزیشن مضبوط نظرآرہی ہے ،پی پی 125 جہاں سے 2002 ء میں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر خوش اختر سبحانی نے 30563 ووٹ لیکر الیکشن جیتا اور دوسری دفعہ ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے 2008 ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کے امیدوار طاہر ہندلی ایڈووکیٹ نے 27721ووٹ لیکر مسلم لیگ ق کے امیدوار خوش اختر سبحانی کو شکست دی تھی ۔اب بھی مسلم لیگ (ن) کے چوہدری طارق سبحانی ،پیپلزپارٹی کے طاہر ہندلی ۔

تحریک انصاف کے شاہ نواز چیمہ امیدوار ہیں اس حلقہ میں بھی این اے 111کی طرح دلچسپ اور کانٹے دار مقابلہ دیکھنے کو ملے گا۔این اے 111میں تمام سیاسی پارٹیوں کے امیدوار فائنل ہو چکے ہیں اور سیاست کے کھلاڑی اپنے اپنے ذرائع استعمال کررہے ہیں مگر یہاں ایک امر قابل ذکر ہے کہ اس حلقہ پر 23سال حکمرانی کرنے والے نگران صدر پاکستان ،وزیر قانون،پارلیمانی امور،سپیکر قومی اسمبلی چوہدری امیر حسین کی سیا ست بند گلی میں داخل ہوچکی ہے۔سیاسی اکابرین کا کہنا ہے کہ اس الیکشن میں چوہدری امیر حسین ،چیمہ برادران اپنی سیاسی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیںاور اب مقامی ایم پی اے رانا اقبال کے بیٹے مسلم لیگ ن کے پی پی 121 سے امیدوار رانا عارف اقبال ہرناہ بھرپور طریقے سے الیکشن کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ راناعارف کوحلقہ سے نامور سیاسی گھرانوں کی حمایت حاصل ہے اور حلقہ میں ترقیاتی کاموں کی بدولت اور راناطارق شہید کی ہمدردی کے باعث رانا عارف کو کامیاب قرار دیا جارہا ہے ۔

اس کے برعکس اس حلقہ سے حق نواز بھلی مسلم لیگ ق،چوہدری احسان اللہ آف جنگ موڑتحریک انصاف کے متوقع اُمیدوار ہونگے جبکہ پیپلز پارٹی کے متوقع اُمیدوارسید ریاض حسین رضوی چوہدری سکند ر ، طاہر سلطان، مہر ارشدمحمود ، شفقت علی (سابقہ ناظم) ، اور آزاد کشمیر اسمبلی کے سابق ایم ایل اے شوکت وزیر چوہدری، سید اشتیاق الحسن الیکشن لڑنے کے لئے کوشش میں مصروف ہیں مگر ٹکٹ کا فائنل فیصلہ ضلع سیالکوٹ میں پیپلزپارٹی کی واحدایم این اے ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کریں گی مگر اب جب کہ پیپلزپارٹی کاق لیگ کے ساتھ الیکشن کے لئے اتحاد فائنل ہو گیا ہے اس صورت میں مشترکہ امیدوار بھی میدان میں آ سکتا ہے کیونکہ اس حلقہ میں چوہدری شجاعت اور نائب وزیر اعظم پرویز الٰہی کے رشتہ دار بھی آباد ہیں۔
Load Next Story