الیکشن کمیشن کے حیران کن فیصلے

ہماری تاریخ کے پہلے آزادانہ الیکشن کمیشن نے منصفانہ انتخابات کی خاطر اب امیدواروں کو بڑی سختی سے بتا دیا ہے۔


Nusrat Javeed April 16, 2013
[email protected]

مولانا فضل الرحمن کی طرح میں بھی الیکشن کمیشن کے اس فیصلے پر بہت حیران ہوا ہوں جس کے تحت آیندہ انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار مذہب اور فرقہ کے نام پر ووٹ نہیں مانگ سکیں گے۔ امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی کی پڑتال کرتے وقت تو اسی الیکشن کمیشن کے لیے کام کرنے والے ریٹرننگ افسروں کو پوری طرح یاد تھا کہ 14 اگست 1947ء کے روز پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ اس مملکت میں اسلام کے حقیقی نفاذ کے لیے قائم ہوا تھا۔ اس مشن کو قومی عہد کے طور پر قراردادِ مقاصد کی صورت میں پوری دُنیا کے سامنے لایا گیا۔

مگر مغربی جمہوری نظام سے مرعوب فوجی اور سیاسی حکمرانوں نے اسے بھلائے رکھا۔1973ء کا آئین منظور کرتے وقت بھی اس کو محض دیباچے کی حیثیت دی گئی۔ خدا کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے جناب ضیاء الحق شہید کو جنہوں نے قراردادِ مقاصد کو آئین کا باقاعدہ حصہ بنایا اور اس کی روشنی میں آئین کے 62\63 والے آرٹیکلز میں ایسی ترامیم کیں جن کا مقصد اس امر کو یقینی بنانا تھا کہ صرف صادق اور امین شہری انتخابات میں حصہ لے سکیں۔

اگر ان ترامیم میں کوئی برائی ہوتی تو رضا ربانی، افراسیاب خٹک اور ڈاکٹر عبدالمالک جیسے اپنے تئیں سیکولر بنے انقلابیوں پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی 18 ویں ترمیم کرتے وقت انھیں آئین سے خارج کرا دیتی۔ ان ترامیم کو جوں کا توں رکھ کر انھوں نے تو اس امر کا اثبات کیا کہ ایک فوجی آمر ہوتے ہوئے بھی اس شہید جرنیل نے پاکستان میں اس کے قیام کے حقیقی مقاصد کی طرف راغب کرنے والا سیاسی نظام متعارف کرایا تھا۔

مذہب کا انتخابی نظام سے کوئی تعلق نہ ہوتا تو ریٹرننگ افسر مختلف امیدواروں سے اذانیں، چوتھے اور چھٹے کلمے یا دُعائے قنوت نہ سنتے۔ ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے والوں کو یہ بات بھی ثابت کرنا پڑی کہ وہ ان سب کے ساتھ مساوی سلوک برتتے ہیں۔ کئی خواتین امیدواروں کو اپنے شوہروں سے یہ بیانات بھی دلوانے پڑے کہ وہ اپنے مجازی خدائوں کی باقاعدہ اجازت کے ساتھ انتخابی عمل میں حصہ لے رہی ہیں۔ اگرچہ کئی ریٹرننگ افسروں نے انھیں بڑے خلوص سے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ قومی یا صوبائی اسمبلیوں میں پہنچ جانے کے بعد شادی شدہ خواتین اپنے عائلی فرائض سے غفلت کی مرتکب ہو سکتی ہیں۔

کاغذاتِ نامزدگی کی ایسی دقیق اور صالح پڑتال کے بعد عوام سے ووٹ مانگنے والوں کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ ہمیں تفصیل سے بتائیں کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ اور ان کی جماعتیں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دین کے موثر نفاذ کے لیے کون کون سے ٹھوس اقدامات اٹھائیں گے۔ ایسا کرنا ان کا حق بھی ہے اور فرض بھی اور میری دانست میں الیکشن کمیشن کو انھیں اس فریضے سے روکنے کا کوئی دینی، قانونی اور اخلاقی حق حاصل نہیں ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی جمعیتِ علمائے اسلام الیکشن کمیشن کے ہاں ایک سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹرڈ ہے۔ جماعتِ اسلامی کا بھی یہی معاملہ ہے۔

ان جیسی جماعتوں کا نام اس بات کا واضح اظہار کرتا ہے کہ وہ انتخابات جیسی مشق میں کن مقاصد کے تحت حصہ لیں گی۔ کچھ اسی طرح کا معاملہ مسلک کے ضمن میں بھی ہے۔ مثال کے طور پر سنی تحریک الیکشن کمیشن کی طرف سے باقاعدہ تسلیم شدہ جماعت ہے۔ اس کا نام ہی اس کے مخصوص مسلک کو اُجاگر کرتا ہے۔ اسی طرح اور جماعتیں بھی ہیں۔ مگر ان کا الگ الگ تذکرہ کرتے ہوئے میں بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کی جسارت نہیں کر سکتا۔ فی الوقت الیکشن کمیشن سے محض اتنی التجا ہے کہ وہ آیندہ انتخاب میں حصہ لینے کے خواہش مند افراد کو اس بات کا پورا موقع فراہم کرے کہ وہ اپنی ذات اور جماعت کی طرف سے اس ملک میں اسلام کے حقیقی نفاذ کے لیے سوچے منصوبوں کو لوگوں کے سامنے لے کر آئیں۔

امیدواروں کو دین و فرقہ کے ذریعے ووٹروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے سے روکنے کے بجائے الیکشن کمیشن کو آیندہ چند دنوں میں بڑی تفصیل کے ساتھ عام لوگوں کو بتانا چاہیے کہ اس نے انھیں اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے کونسی سہولتیں فراہم کرنا ہے۔ شہروں میں بیٹھ کر ریموٹ کے بٹنوں سے کھیلتے ہمارے شہریوں کی اکثریت کو اندازہ ہی نہیں کہ چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہات میں رہنے والے ووٹروں کے گھروں سے ایسے پولنگ اسٹیشن جہاں ان جیسے لوگ ووٹ ڈالنے کے مجاز ہوتے ہیں کتنے فاصلے پر واقع ہوتے ہیں۔

ماضی میں ہونے والے انتخابات کے دوران امیدوار بسیں، ویگن اور ٹریکٹر ٹرالیاں کرائے پر حاصل کرنے کے بعد اپنے ووٹ ''بھگتوایا'' کرتے تھے۔ ہماری تاریخ کے پہلے آزادانہ الیکشن کمیشن نے منصفانہ انتخابات کی خاطر اب امیدواروں کو بڑی سختی سے بتا دیا ہے کہ وہ اپنے ممکنہ ووٹروں کو ٹرانسپورٹ فراہم نہیں کر سکتے۔ سوال یہ ہے کہ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن خود بھی کوئی سہولت فراہم کرے گا یا نہیں۔

اگر نہیں تو تربت کے کسی نواحی گائوں میں بیٹھے ایک بلوچ پر کیا مصیبت ہے کہ وہ اپنے پسند کے امیدوار کو ووٹ ڈالنے کے لیے میلوں کا سفر طے کرے۔ ایساکرتے ہوئے ان لوگوں کو مشتعل بھی کرے جو ''پاکستان کے انتخابات'' میں بلوچوں کو حصہ لینے سے منع کر رہے ہیں اور مئی کی دھوپ بھی برداشت کرے۔ بلوچ اور قبائلی علاقے تو دور کی بات ہیں۔ میانوالی، ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک وغیرہ میں بے تحاشہ ایسی بستیاں ہیں جہاں سیکڑوں کی تعداد میں ووٹر رہتے ہیں۔ مگر وہ پولنگ اسٹیشن جہاں ووٹ ڈالے جا سکتے ہیں ان کے گھروں سے بہت دور بنائے جاتے ہیں۔ غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دلوانے کے لیے مرے جانے والے کچھ ان کی بھی فکر کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں