ثنااﷲ زہری پر نہیں پاکستان پر حملہ ہوا

خیبر پختونخوا میں اسفند یار ولی چیخ رہے ہیں کہ ان کی پارٹی کے لیڈروں اور کارکنوں کو مارا جا رہا ہے۔

latifch910@yahoo.com

الیکشن کے اس ماحول میں لکھنے' بولنے اور شور مچانے کے لیے موضوعات بہت ہیں۔ الیکشن کمیشن روز کوئی نہ کوئی ہدایت نامہ جاری کرتاہے' عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کی سماعت کے دوران ریمارکس سامنے آتے رہتے ہیں' سب سے بڑھ کر انتخابی اکھاڑے میں اترنے والے سیاستدانوں کے بیانات' سرگرمیاں اور جوڑ توڑ ہے، جس سے سیاسی ماحول میں حدت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ انھی کے درمیان کہیں اے این پی اور ایم کیو ایم کی آہ و بکا بھی سنائی دیتی ہے اور جنرل پرویز مشرف بھی کسی کے رنگ میں بھنگ ڈالنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔

اس گرم ماحول کا ایک سنگین پہلو ایسا بھی ہے جس پر نگراں حکومت' الیکشن کمیشن، عدلیہ اور سیاسی رہنما سب سے کم توجہ دے رہی ہیں۔یہ سنگین پہلو دہشت گرد ہیں۔ اے این پی اور ایم کیو ایم تو زخم خوردہ ہیں' نگراں دور میں ہی ان کے کئی کارکن مارے جاچکے ہیں' اس لیے وہ تو واویلا کر رہی ہیں لیکن مسلم لیگ ن' جے یو آئی' جماعت اسلامی اور تحریک انصاف اپنی موج میںمست سیاست کررہی ہیں۔ ان کی نظروں میں دہشت گردی شاید کوئی خطرہ نہیں ہے۔ بعض حلقے بڑے تواتر سے کہتے آرہے ہیں کہ عام انتخابات نہیں ہوں گے اور اس کا سبب دہشت گردی ہو گا۔ الیکشن مہم کے دوران کوئی بڑا سانحہ سارا کھیل بگاڑ سکتا ہے۔

چار روز قبل سوات میں اے این پی کے ایک رہنما کی بم دھماکے میں ہلاکت ہوئی، اس سے پہلے ایم کیو ایم کے حیدر آباد سے صوبائی اسمبلی کے ایک امیدوار کو ٹارگٹ کر کے قتل کیا گیا۔ ان واقعات کے بعد بھی اقتدار کے ایوانوں میں پر اسرار خاموشی چھائی رہی۔سیاسی قیادت بھی خاموش رہی ، صرف وہی روتے رہے جن کا بندہ مارا گیا۔ اب مسلم لیگ ن بلوچستان کے صوبائی صدر نواب ثناء اللہ زہری کے انتخابی قافلے پر بے رحمی سے حملہ کیا گیا' اس حملے میں نواب ثنا اﷲ زہری کے صاحبزادہ'بھتیجے' بھائی اور گارڈز جاں بحق ہو گئے۔ یہ کھلی دہشت گردی ہے۔ اب شاید مسلم لیگ ن کی قیادت کو بھی احساس ہو جائے گا کہ دہشت گردی پر یقین رکھنے والی قوتیں عام انتخابات کے لیے کتنا بڑا خطرہ بن سکتی ہیں۔

نواب ثناء اللہ زہری پر حملہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے چالیس پچاس کے قریب اپنے سیکیورٹی گارڈ زرکھے ہوئے ہیں، اس کے باوجود ان کے قافلے پر حملہ ہونا آنے والے خطرات کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔ بلوچستان میں عام انتخابات کا انعقاد پاکستان کی بقا اور سلامتی کے لیے لازم ہے۔ سب کو یہ ماننا پڑے گا کہ مسلم لیگ ن نے بلوچستان میں اہم پیش رفت کی ہے۔ بی این پی(مینگل) کے سربراہ اختر مینگل کا پاکستان آنا اور الیکشن میں حصہ لینا میاں نواز شریف کی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے' دو تین روز قبل میاں شہباز شریف بھی بلوچستان گئے تھے' ان کا یہ دورہ بی این پی اور مسلم لیگ ن کے درمیان انتخابی ایڈجسٹمنٹ کے سلسلے میں تھا۔

بعض افراد کا کہنا تھا کہ بی این پی کی قیادت نے واضح کر دیا ہے کہ اگر بی این پی اور مسلم لیگ ن انتخابات میں کامیاب ہوتی ہیں تو وزیراعلیٰ کا منصب سردار اختر مینگل کو ملے گا۔ مسلم لیگ ن کی قیادت اس حوالے سے تذبذب کا شکار ہے لیکن بی این پی وزیراعلیٰ سے کم راضی نہیں ہوئی' اب اس سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے مسلم لیگ ن کے سیکریٹری جنرل مشاہد اللہ بلوچستان میں ہیں۔ بی این پی کا عام انتخابات میں حصہ لینا' بلوچستان سے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے۔ وہ قوتیں جو بلوچستان میں الیکشن نا ممکن بنانا چاہتی ہیں' وہ سیاسی تنہائی کا شکار ہیں لیکن وہ بندوق کے زور پر الیکشن ملتوی کرانا چاہتی ہیں۔ ثناء اللہ زہری پر حملے سے اسٹیبلشمنٹ اور بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں جو خطرات کا اس کے حجم کے مطابق ادراک نہیں کر رہیں۔


خیبر پختونخوا میں اسفند یار ولی چیخ رہے ہیں کہ ان کی پارٹی کے لیڈروں اور کارکنوں کو مارا جا رہا ہے۔ حکومت سیکیورٹی فراہم کرے۔ ادھر ایم کیو ایم کراچی میں واویلا کر رہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ سنے کون۔ نگرانوں کی حالت یہ ہے کہ ان کے پلے کچھ نہیں ہے۔ ساری سیاسی جماعتوں نے باہمی مشورے سے ڈھونڈ کر ایسے نگراں تلاش کیے' جن کا شخصی اثرورسوخ اور رعب داب نہ ہونے کے برابر ہے۔ نگراں وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو ہوں' وفاقی کابینہ کے ارکان اور نگراں وزیراعلیٰ سب اندر سے گھبرائے ہوئے لگتے ہیں۔انھیں شاید یقین نہیں آرہاکہ وہ واقعی حکمران بن گئے ہیں۔ ہفتے کو پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ نجم سیٹھی کے ڈنر میںشریک ہوا۔

وہاں سب کے سامنے نگراں وزیراعلیٰ نے اعتراف کیا' ان کے اختیار میں کچھ نہیں ہے۔ نگراں وزیراعظم ہوں یا وزرائے اعلیٰ' یہ شخصیات ایماندار' اصول پسند اور غیر جانبدار تو ہو سکتی ہیں لیکن اسٹیبلشمنٹ کے سامنے یہ کمزور لوگ ہیں۔ بیورو کریسی کے شاطر دماغ چند روز کے عارضی حکمرانوں کو اہمیت نہیں دے رہے۔ موجودہ نگراں حکومتیں کسی نادیدہ طاقت نے نہیں انھی سیاسی جماعتوں نے قائم کرائی ہیں جو پچھلی حکومت چلا رہی تھیں اور اب عام انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں' سچی بات یہ ہے کہ موجودہ حالات میں مضبوط اور بااثر شخصیات پر مشتمل نگراں حکومت کی ضرورت تھی تاکہ بیورو کریسی ان سے خائف ہوتی۔

پاکستان پر حکومت کرنے کا مطلب عوام پر حکومت نہیں ہوتا بلکہ بیورو کریسی پر کنٹرول حاصل کرنا ہوتا ہے' پاکستان میں بیورو کریسی اتنی طاقتور ہے کہ میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو جیسے پاپولر اور رعب و دبدبے والے حکمران دھوکہ کھا گئے۔ یہ بیچارے نگراں کس کھیت کی مولی ہیں۔ پاکستان کے آئین میں جو متنازعہ یا مبہم دفعات اور شقیں آج سب کو نظر آ رہی ہیں' یہ کن قوتوں نے شامل کرائی ہیں' یہ سب کچھ ان کا کارنامہ ہے جو عوام کے نمایندے نہیں تھے بلکہ قانونی طور پر ان کے ملازم تھے۔ سیاسی لیڈر شپ کا المیہ یہ ہے کہ وہ بیورو کریسی سے مات کھاتی آئی ہے اور اب دہشت گردی کے خطرات کا ادراک بھی نہیں کر رہی۔

بلوچستان میں نواب ثناء اللہ زہری کے قافلے پر حملہ' پاکستان کی بات کرنے والوں کی زبان بند کرنے کی کوشش ہے۔ سردار اختر مینگل بھی خطرات میں گھرے ہوئے ہیں۔ دہشت گرد اور دیگر اینٹی پاکستان قوتیں عام انتخابات کی منسوخی چاہتی ہیں۔ پیپلز پارٹی' اے این پی اور ایم کیو ایم تو دہشت گردوںسے زخم کھا چکی ہیں' اب مسلم لیگ ن کو بلوچستان میں زخم لگا ہے' یہ بڑا کاری وار ہے' اسے محض بلوچستان تک محدود کر کے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

کوئی مجھ سے پوچھے تو میں ہزار اختلافات کے باوجود یہ کہوں گا کہ اسفند یار ولی اور ان کے ساتھی خیبر پختونخوا میں جب کہ سردار ثناء اللہ زہری ، اختر مینگل اور ان کے دوست بلوچستان میں بیٹھ کر پاکستان کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ میں لاہور میں پرسکون بیٹھا ہوں، یہ اس لیے ہے کہ کوئی خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں میرے لیے دہشت گردوں اور علیحدگی پسندوں سے جنگ لڑ کر اپنا خون بہا رہا ہے۔ ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے۔
Load Next Story