وزارت اطلاعات اور آرٹیکل 19

ہندوستان میں برطانوی ہند حکومت نے باقاعدہ وزارت اطلاعات قائم کی تھی۔


Dr Tauseef Ahmed Khan April 16, 2013
[email protected]

سپریم کورٹ کی ہدایت پر وزارت اطلاعات نے اپنے خفیہ فنڈ کا ریکارڈ پیش کردیا۔ اب یہ معزز عدالت کا صوابدیدی اختیار ہے کہ وہ اس خفیہ ریکارڈ کی تفصیلات افشا ہونے کی اجازت دے یا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت اس ریکارڈ کو خفیہ رہنے دے۔ وزارت اطلاعات کی نگرانی کرنے والے وزیر اور افسران ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ یہ رقم مفلس صحافیوں کی مدد اور انتقال پا جانے والے صحافیوں کے لواحقین کو دی جاتی ہے۔

گزشتہ برسوں سے متعلقہ وزیر اطلاعات بیمار صحافیوں کے علاج کے لیے بھی اس فنڈ کو استعمال کرنے کا ذکر کرتے رہے ہیں، مگر معاملات ان بیانات سے زیادہ گہرے ہیں۔ ہر برسر اقتدار حکومت کے دور میں یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ صحافیوں کو خریدنے کے لیے یہ فنڈ بے دردی سے استعمال ہوا کیونکہ یہ فنڈ خفیہ فنڈز کی فہرست میں شامل ہے۔ اسی بنا پر اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان (AGPR) اس فنڈ کا آڈٹ نہیں کرسکتا۔ یوں قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بھی اس فنڈ کا تنقیدی جائزہ نہیں لے سکتی۔ پارلیمنٹ کے منتخب اراکین بھی اس فنڈ کی تفصیلات سے واقف نہیں ہوسکتے۔ یوں عوام کے ٹیکسوں کی آمدنی سے بننے والا فنڈ احتساب کے ہر طریقہ کار سے مبرا ہے۔

ہندوستان میں برطانوی ہند حکومت نے باقاعدہ وزارت اطلاعات قائم کی تھی۔ وزارت اطلاعات نے پہلے دو عالمی جنگوں کے دوران اخبارات میں شایع ہونے والے مواد کو کنٹرول کرنے اور برطانوی حکومت کے مؤقف کے حق میں مہم چلانے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ جب ہندوستان کی آزادی کے لیے کانگریس نے جیل بھرو تحریک اور ہندوستان چھوڑ دو تحریکیں شروع کیں اور کمیونسٹ پارٹی کی حمایت سے بھارتی نیوی میں بغاوت ہوئی تو وزارت اطلاعا ت نے پریس ایڈوائس اور سنسرشپ کے ذریعے ان تحریکوں کی خبروں کو اشاعت سے روکا تھا۔ انگریزوں کی وزارت اطلاعات نے صحافیوں میں رقم تقسیم کرنے کی روایت ڈالی تھی۔

کہا جاتا ہے کہ 1947 تک کئی بڑے صحافی برطانوی حکومت کے پے رول پر تھے۔ پاکستان بننے کے بعد وزارت اطلاعات کا حجم بڑھنا شروع ہوا۔ قائداعظم کی 11 اگست 1947 کی آئین ساز اسمبلی میں تقریر کو وزارت کے ڈائریکٹر کرنل مجید ملک نے سیکریٹری جنرل اسٹیبلشمنٹ چوہدری محمد علی کی ہدایت پر شایع ہونے سے روکنے کی کوششیں کی تھیں۔ پھر اسی زمانے میں حکومتوں کے حق میں مہم چلانے کے لیے اشتہارات اور نیوز پرنٹ کے کوٹے کے علاوہ ایڈیٹروں اور صحافیوں کو علیحدہ سے رقم دینے کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا تھا۔ پہلے فوجی سربراہ جنرل ایوب خان نے اقتدار سنبھالا تو نوجوان افسر الطاف گوہر کو سیکریٹری اطلاعات مقرر کیا گیا۔

الطاف گوہر نے اخبارات میں شایع ہونے والے مواد کو محض ایوب خان حکومت کی حد تک محدود کرنے کے لیے ایک جامع پالیسی تیار کی۔ اس پالیسی کے تحت اشتہارات اور نیوز پرنٹ کے کوٹے کے ساتھ ساتھ صحافیوں کو نوازنے کے لیے بھی مربوط طریقہ کار وضع کیا گیا تھا۔ اس طریقہ کار کے تحت خفیہ فنڈ سے ایڈیٹروں اور صحافیوں کو رقم ادا کی جاتی تھیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بعض لوگوں کو اخبارات شایع کرنے کے لیے رقوم دی جاتی تھیں۔اخبارات میں محض ایوب خان حکومت کے کارناموں کے علاوہ کچھ اور شایع نہیں ہوتا تھا اور بعض صحافیوں کے ذمے محض یہ ٹاسک تھا کہ وہ ایوب خان کی شان میں قصیدے لکھنے کے علاوہ مخالفین کی کردار کشی بھی کریں۔

جب محمد علی جناح کی بہن فاطمہ جناح نے ایوب خان کے خلاف صدارتی انتخابات میں حصہ لیا تو بعض صحافیوں کو فاطمہ جناح کی کردار کشی کا فریضہ سونپا گیا۔ جنرل یحییٰ خان کے دور میں اس خفیہ فنڈ کا بھرپور استعمال ہوا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس وقت کے وزیر اطلاعات جنرل نوابزادہ شیر علی خان کی ہدایات پر پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو اور عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن کے خلاف چلائی جانے والے مہم بھی اسی سلسلہ کا حصہ بنی۔ جب پاکستانی فوج نے مارچ 1971 میں مشرقی پاکستان میں فوج کشی کی اور بنگلہ دیش کے عوام نے مزاحمتی تحریک شروع کی اور سابقہ مشرقی پاکستان میں حالات انتہائی مخدوش ہوگئے تو وزارت اطلاعات نے مغربی پاکستان کے صحافیوں کے مشرقی پاکستان کے دوروں کا اہتمام کیا۔

ان صحافیوں نے مشرقی پاکستان سے واپسی پر وہاں کے حالات کے پرامن ہونے اور پاکستان سے بنگالیوں کی محبت کی جو تفصیلات بیان کی تھیں وہ اس خفیہ فنڈ کا ہی کرشمہ تھا۔ اگرچہ پیپلز پارٹی نے اپنے 1970 کے منشور میں وزارت اطلاعات کی ہیئت تبدیل کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر بھٹو صاحب نے وزارت کو اخبارات کو کنٹرول کرنے اور صحافیوں کو ہراساں کرنے کے لیے زیادہ مؤثر طریقوں سے استعمال کیا تھا۔ بھٹو دور میں بہت سے صحافی اس خفیہ فنڈ کے طفیل مخالف جماعتوں کے رہنماؤں کی خبروں کی فراہمی کا فریضہ انجام دیتے تھے۔ کچھ کا فریضہ پیپلز پارٹی کی حکومت کی مدح سرائی اور نیشنل عوامی پارٹی کے رہنماؤں کی کردار کشی کرنا تھا۔ جب جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کیا تو انھوں نے صحافیوں کے ساتھ منصفانہ سلوک کا وعدہ کیا۔

حکومت کی ہدایت پر بعض سینئر صحافیوں نے بھٹو حکومت کے دور میں وزارت اطلاعات کی کارکردگی کے بارے میں وائٹ پیپر تیار کیا مگر جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے زیادہ بہیمانہ انداز میں وزارت کو استعمال کرنا شروع کیا۔ مسلم لیگ (ن )کے مرد آہن راجہ ظفر الحق اس زمانے میں وزیر اطلاعات اور لیفٹیننٹ جنرل مجیب الرحمن سیکریٹری اطلاعات تھے۔ جنرل مجیب الرحمن نے الطاف گوہر کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے خفیہ فنڈز کو بھٹو خاندان کی کردار کشی اور جنرل ضیاء الحق کے اسلامی نظام کے کارناموں کی ترویج کے لیے استعمال کیا۔

یہ حقیقت اب تک راز ہے کہ جنرل مجیب الرحمن کے دور میں اشتہارات اور نیوز پرنٹ کے کوٹے نے اخبارات کو کنٹرول کرنے اور صحافیوں کو خریدنے میں مؤثر کردار ادا کیا یا وزارت کے خفیہ فنڈز نے، نتیجتاً دائیں بازو کے بعض صحافیوں کے وارے نیار ے ہوگئے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب جنرل ضیاء الحق نے سی آئی اے کے منصوبے کے تحت افغان جہاد میں شرکت کی تو پھر امریکی سفارتخانہ بھی دائیں بازو کے بعض صحافیوں کے حالات کار کو بدلنے میں معاون ثابت ہوا۔

1988 سے 1999 کے دوران بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے ادوار میں وزارت اطلاعات کا کردار نسبتاً کچھ کم ہوا۔ بے نظیر بھٹو حکومت نے نیوز پرنٹ کا کوٹہ ختم کردیا تھا اور ہر شہری کو نیوز پرنٹ درآمد کرنے کا اختیار دیا تھا۔ یوں اب یہ کام وزارت کے ذمے نہیں رہا۔ پھر اخبارات کو دیے جانے والے اشتہارات کا معاملہ خاصا زیرِ بحث آیا۔ اس لیے وزارت اطلاعات نے کسی حد تک اس معاملے میں میرٹ کا اصول اپنایا مگر خفیہ فنڈز ہمیشہ وزیر اطلاعات اور سیکریٹری اطلاعات کی صوابدید پر رہا۔ ان ادوار میں مختلف صحافیوں پر وزارت اطلاعات کے پے رول پر ہونے کے الزامات لگے مگر اس فنڈ کا معاملہ خفیہ ہی رہا۔

یہ انکشافات بھی ہوئے کہ صرف وزارت کے پاس ہی خفیہ فنڈز نہیں ہیں بلکہ صوبائی حکومتیں اور خفیہ ایجنسیاں بھی صحافیوں کو پے رول پر رکھتی ہیں۔ 50 کی دہائی میں لاہور میں ہونے والے اینٹی قادیانی فسادات کی تحقیقات کرنے والے جسٹس منیر کمیشن نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ میاں ممتاز دولتانہ کی پنجاب حکومت نے اینٹی قادیانی تحریک کو مستحکم کرنے کے لیے بعض اخبارات کو محکمہ اوقات کے خفیہ فنڈ سے رقوم فراہم کی تھیں۔

گزشتہ سال سپریم کورٹ نے ایئر مارشل اصغر خان کے مہران بینک اسکینڈل کا فیصلہ کیا تو اس فیصلے میں سابق چیف آف اسٹاف مرزا اسلم بیگ سمیت کئی سیاست دانوں اور نامور صحافیوں کے نام بھی رقوم سمیت درج تھے۔ سپریم کورٹ نے اب وزارت اطلاعات کے خفیہ فنڈ کے معاملات پر توجہ دی ہے تو یہ معاملہ خفیہ ایجنسیوں، پولیس، ایف آئی اے اور صوبائی حکومتوں تک وسیع ہونا چاہیے۔ ایک اور اہم معاملہ وزارت اطلاعات کی موجودگی کا بھی ہے۔ انسانی حقوق کے ماہرین کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 19 اور 19-A کے تحت وزارت اطلاعات کی ضرورت نہیں ہے۔

ہر وزارت کا اپنا افسر تعلقات عامہ کا شعبہ قائم ہونا چاہیے اور اشتہارات کی تقسیم کا فریضہ ایک خودمختار ادارے کے سپرد کرنا چاہیے جو اخبارات کی حقیقی اشاعت کی بنیاد پر اشتہارات جاری کرے۔ اسی طرح علاقائی اور چھوٹے اخبارات کی مدد کے لیے واضح طریقہ کار وضع ہونا چاہیے۔ برطانیہ، امریکا اور یورپی ممالک میں جہاں ریاستیں آرٹیکل 19 کے تحت آزادی صحافت کی پابند ہیں وہاں یہ وزارت ختم ہوچکی ہے۔ یہ اچھا موقع ہے کہ انتخابات میں اس معاملے پر بحث ہونی چاہیے۔ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ تحریک انصاف کے علاوہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے منشور میں یہ اہم معاملہ شامل ہی نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں