ناکام جمہوریت آمریت کا موجب …
یہ آج کی بات نہیں ہے، ہم پچھلے 65 سال سے یہی تماشا دیکھ رہے ہیں۔
پرویز مشرف 5 سالہ خود ساختہ جلا وطنی ختم کر کے وطن واپس آ گئے۔ ان کے آنے سے قبل اس قدر شور شرابہ ہو رہا تھا کہ پرویز مشرف پاکستان واپس نہیں آئیں گے۔ ملک کے ہر کونے، ہر شہر سے ہرزہ سرائی سننے میں آ رہی تھی۔ کوئی ایسا موضوع نہیں چھوڑا جا رہا تھا جو کہ ان کی ہرزہ سرائی میں کمی رہنے دے بلکہ اس کو بام عروج پر پہنچایا جا رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا ملک میں ایسا کچھ اچنبھا ہو گیا ہے جیسے پرویز مشرف ہی وہ پہلی شخصیت تھی جو کہ ملک چھوڑ کر چلی گئی۔
اس سے پہلے بھی تو کئی شخصیات ملک چھوڑ گئی تھیں اور کسی شخص کے اپنے تئیں ملک چھوڑ جانا یعنی خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرنا، کوئی جرم نہیں بلکہ اس شخصیت کے لیے باعث فخر ہے کہ وہ کسی وجوہ کی بنا پر از خود ملک چھوڑنے کا فیصلہ کرے اور باعزت طریقے سے جلا وطنی کی زندگی گزارے۔ دوسرا یہ کہ خود ساختہ جلا وطنی تو ''ملک بدری'' سے بدرجہا بہتر ہوتی ہے۔ ملک بدری تو بدنام زمانہ لوگوں کے لیے ہوتی ہے۔ پرویز مشرف تو ایک فوجی تھے اور ہماری افواج کے سپہ سالار تھے۔
ان کا شمار بہترین ''کمانڈوز'' میں ہوتا ہے، جب کہ ہمارے قابل سیاسی لیڈر ان کی اس حیثیت کو سیاسی تناظر میں دیکھتے ہوئے ان پر ذاتی، طنزیہ اور اخلاق سوز حملے کر رہے ہیں۔ وہ ہماری ''افواج پاکستان'' کا سپاہی تھا کوئی غیر ملک کی فوج کا نہیں۔ ایسا کرنے سے ہم صرف ایک فوجی کی ہرزہ سرائی ہی نہیں کرتے ہیں بلکہ ایسا تاثر پیدا کرتے ہیں جیسے فوجی افسران اور جوان ہماری افواج سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ غیر ملکی افواج سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب سے ہمارے ہاں جمہوریت بحال ہوئی ہے اس وقت سے جمہوریت کے نام پر ''آمریت آمریت'' کے نام سے ڈھونگ رچائے جاتے ہیں۔ لیکن یہ نہیں سوچا جاتا کہ آخر آمریت، جمہوریت پر کیونکر غالب آتی ہے۔ بغور اس مسئلے کا جائزہ لیا جائے تو یہی جواب آئے گا کہ جمہوریت کی ناکامی ہی آمریت کو جنم دیتی ہے۔ آمریت خود سے نہیں آ جاتی بلکہ بلائی جاتی ہے۔
یہ آج کی بات نہیں ہے، ہم پچھلے 65 سال سے یہی تماشا دیکھ رہے ہیں۔ جب فوجی حکومت قائم ہو جاتی ہے تو پھر ''ڈکٹیٹرشپ'' کا شور کیوں برپا کیا جاتا ہے۔ کیا فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت کے علاوہ ملک کے اندر پھیلے ہوئے انتشار کو روکنے کے لیے بھی اپنا فرض ادا کرنا نہیں ہے؟ کیونکہ کسی ملک کے اندرونی حالات خراب ہوں تو بیرونی طاقتوں کی نظریں سرحدوں کی طرف ہو جاتی ہیں۔ ایسی صورت حال پیدا ہونے سے قبل ہی افواج کو فوراً ملک کے اندرونی حالات پر قابو پانے کی ضرورت ہوتی ہے اور پھر سب سے بڑھ کر یہ بات اہم ہے کہ افواج کی اس انداز میں ہرزہ سرائی سے کیا ہماری افواج کی بدنامی نہیں ہوتی اور غیر ممالک میں کیا تاثر جاتا ہے۔
یہ بہت اہم مسئلہ ہے جس کی طرف ہر سیاستدان ہی نہیں عوام کی توجہ ہونی چاہیے، مگر اس ملک کی بدقسمتی کہیے کہ ہمارے سیاسی لیڈر اپنی کمپنی کی مشہوری کے لیے آمریت، آمریت کا چورن بیچنے سے باز نہیں آتے اور نہ آ رہے ہیں، اور اس بات کی طرف توجہ نہیں دیتے کہ آمریت کے آنے کے ذمے دار ہم خود جمہوریت کے علمبردار ہیں۔ اگر ہمارا جمہوری نظام مضبوط ہو، ٹھیک طریقے سے چل رہا ہو، عوام خوشحال ہوں، ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو، ملک کی معیشت مضبوط اور مستحکم ہو رہی ہو تو ایسے میں آمریت کا کیا کام۔ اب تو صحیح راستے کا رخ اختیار کر لیجیے، کیا پچھلے 5 سالہ دور جمہوریت کا حشر نہیں دیکھا، کیا درگت بنی جمہوری عوام کی اور خود ''جمہوریت'' کی۔ اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو آنے والے انتخابات کے بعد جو ''جمہوری حکومت'' قائم ہو گی اس کا بھی حشر پچھلی جمہوری حکومتوں سے مختلف نہ ہو گا۔
دراصل ڈکٹیٹر شپ کے دور میں بھی سول حکمران فائدے حاصل کرتے ہیں۔ فوجیوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ ان کو فوج سے سول حکومت کی طرف راغب کرتے ہیں۔ انھیں بدعنوانیوں کا شکار بنا لیتے ہیں بلکہ ان کو بھی بدعنوان، کرپٹ بنا دیتے ہیں اور پھر الزامات فوجی حکومت ہی پر ڈالتے ہیں۔ جیسے خود دودھ کے دھلے ہوں۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ سیاست نام ہی جھوٹ کا ہے۔ اس میں ''سچ'' کا کیا کام۔ اگر حقیقی معنوں میں ''سچ کی سیاست'' کی جاتی تو آج ہمارے ملک کا حشر ایسا نہ ہوتا جو ہم دیکھ رہے ہیں۔ گھر کے لائق چراغوں سے گھر کو آگ لگ رہی ہے اور عوام بے خانماں و برباد ہو رہے ہیں، مسائل کے دلدل میں دھنستی جا رہے ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ ''لنگڑی لولی جمہوریت، آمریت سے بہتر ہوتی ہے''۔ جمہوریت تو کیا لنگڑی لولی ہوئی الٹا عوام 'معذور' ہو گئے، اسی لیے تو اب وہ آیندہ انتخابات کی بیساکھی کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ شاید اس بیساکھی کے سہارے ہی عوام اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل ہو جائیں۔
بات ہو رہی تھی ''ڈکٹیٹر یا آمر'' کی لیکن کہیں سے کہیں نکل گئی۔ کیا کریں آمریت کا ڈھول سیاسی مقصد کے لیے پیٹا جا رہا ہے۔ ایک سیاسی ''اسٹنٹ'' کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے تا کہ عوام کو اسی موضوع میں الجھا دو اور اپنا راستہ صاف کر لو۔ اب ایک ''آمر'' (بقول ہمارے سیاسی لیڈران کے) آ ہی گیا ہے تو کیوں نہ اسی کو اپنا شکار بنائیں اور ہر کوئی اپنا اپنا جال ڈال رہا ہے کہ یہ ''آمر'' کسی کے جال میں تو پھنسے گا۔ اس سارے منظر میں صرف دو ہی شکاری سرگرم عمل ہیں۔ وہی ایسی فضا یا ماحول پیدا کر رہے ہیں کہ ''شکار'' کسی صورت ہمارے جال میں پھنس جائے۔
ایک اور بات جو سوچنے کی ہے کہ کیا ہمارے ملک میں یہی ایک ڈکٹیٹر آیا تھا؟ ان 65 برسوں میں اور دوسرے ڈکٹیٹر بھی تو آئے اور چلے گئے، کسی نے ان کو شکار کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ حالانکہ سب ہی اپنے اپنے دور حکومت کے اختتام کے بعد عرصے تک بقیدِ حیات رہے۔ اب موجودہ شکار کچھ زیادہ عرصہ ہی زندہ رہ گیا ہے تو اب اس کو پھندہ لگانے کی ترکیبیں کی جا رہی ہیں جیسا کہ ماضی میں ایک ''سول ایڈمنسٹریٹر'' کو تختہ دار پر پہنچا دیا گیا، وہی نقشہ کچھ اب نظر آ رہا ہے۔ خدا کرے کہ میرے اور میرے جیسے دوسرے سوچنے والوں کی سوچ اور اندازے غلط ہوں۔ کیونکہ حالات و واقعات کے زد پذیر ہونے سے ہی اندازے اور خدشے قائم ہوتے ہیں۔ کیا موجودہ حالات اسی ڈگر پر نہیں چل رہے ہیں؟
اﷲ تعالیٰ ہی اچھے اور برے حالات کا پیدا کرنے اور ختم کرنے پر قادر ہے۔ انسان تو صرف عقل کے ماتحت سوچتا اور عمل کرتا ہے۔ ایسے میں ہی تو انسان کے کیے گئے فیصلوں میں عقلمندی یا ہوش مندی کا انحصار ہوتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ وہ ہمارے ملک کے آنے والے سیاسی و معاشی حالات پر اپنا کرم فرمائے اور اس ملک کو جو پہلے ہی نازک موڑ پر پہنچ چکا ہے امن و سلامتی کی طرف اس کا رخ موڑ دے ۔