پھر اتنی ہنگامہ خیزی کیوں…
عدلیہ کی بحالی اور پھر عدلیہ کی جرات پرواز کے بعد ہر محب وطن شہری اور ہر محکوم پاکستانی کی امید کی دنیا عدلیہ ٹھہری۔
بالادست طبقے کی عیاشیوں اور ملکی خزانے پر ڈالے گئے ڈاکوں کی ہوش ربا کہانیاں میڈیا میں چھپ رہی ہیں، یہ گمنام نہیں بلکہ 'بائی لائن' نیوز اسٹوریاں ہیں جن میں ہر بالادست کے کردار کو کھل کر بیان کیا گیا ہے، ہر چیز واضح ہے کہ کس نے کس طرح سے قومی خزانے کو لوٹا؟ نکتہ چینی والا نکتہ یہ ہے کہ ان تما م بالادستوں کو ہماری پیاری عدلیہ سے تعلق رکھنے والے ریٹرنگ افسران نے ''کلین چٹ'' سے نوازا ہے، الیکشن کمیشن تک کرپشن کے تضادات کے ان مجمعوں کی سن گن نہیں پہنچی؟ بالکل نہ ماننے والی بات ہے۔ کھری سی امید قوم کو عدلیہ اور الیکشن کمیشن سے تھی اور ہے۔
قوم کو سب سے زیادہ ایمان عدلیہ پر ہے اور فخرالدین جی ابراہیم کے الیکشن کمیشن آمد کے بعد قوم نے اس ادارے کو بھی آنکھو ں کا تارا اور جان سے پیارا گردان لیا تھا، لیکن کرپشن، قرضوں کی غیر قانونی معافیاں اور نادہندگی کی کہانیوں سے پردہ افشا ہونے کے بعد قوم عدلیہ اور الیکشن کمیشن سے سراپا سوال ہے کہ ہو کیا رہا ہے؟ جن لوگوں پر ملکی خزانے پر ڈاکا ڈالنے کا الزام لگ رہا ہے، جن بالادستوں کے نام کرپشن کے 'آسما ن' پر چاند کی مانند چمک رہے ہیں، ان کی کرپشن کے بارے میں کیوں خاموشی ہے؟ اگر کرپشن کے باب میں درج انھی پردہ نشینوں نے پھر سے اقتدار میں آنا ہے تو پھر انتخابات کے نام پر اتنی ہنگامہ خیزی کیوں؟ اگر انھی لوگوں کو واپس اقتدار میں لانا ہے تو انتخابات کے نام پر اربوں روپے کے ضیاع کا فائدہ؟ بڑی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں عوام نے عدلیہ اور الیکشن کمیشن سے۔
عدلیہ کی بحالی اور پھر عدلیہ کی جرات پرواز کے بعد ہر محب وطن شہری اور ہر محکوم پاکستانی کی امید کی دنیا عدلیہ ٹھہری، اگر ایک آزاد اور آئین کی پاسدار اور پابند عدلیہ اور غیر جانب داری کے دعوے دار الیکشن کمیشن کی ناک کے نیچے سے وہ معززین پھر اقتدار کے 'توشہ دان' میں داخل ہو جا تے ہیں اس صورت میں شفاف الیکشن، آ زاد عد لیہ اور غیر جانب دار الیکشن؟ بلکہ شاید اس سے بھی کہیں زیادہ تعداد میں سوالات جنم لیں گے۔
ماضی کی حکومتی ایوانو ں میں براجمان کیوں عوام کی امیدوں پر پورا نہیں اتر سکے؟ کہ چور دروازے ان سیاسی مافیاز کے لیے ہر دور میں کھلے چھوڑے گئے، قوم کے سینے پر کرپشن کی مونگ دلنے کے بعد پھر سے یہ اقتداری ٹولہ چور دروازوں اور ''مک مکا'' کے وتیرے سے اقتدار میں آ جاتا، لیکن 2013 کے الیکشن سے ہر طبقہ فکر کو قوی امید یہ ہے کہ صرف اچھے کردار کے حامل لوگ اوپر جائیں گے اور ملک اور ملکی وسائل پر ڈاکے ڈالنے والوں کی راہ عدلیہ اور الیکشن کمیشن دونوں مل کر کھوٹا کریں گے، لیکن باسٹھ، تریسٹھ کی چھری کو صرف کلمہ سنانے اور دعائے قنوت تک محدود کر کے ان مہربانوں کو ''کلین چٹ'' دے دی گئی جو گزشتہ کئی دہائیوں سے حکومت در حکومت کا حصہ چلے آ رہے ہیں۔
انتخابی میدان میں موجود امیدواروں کی طویل فہرست کا بغور مطالعہ و مشاہدہ کر لیجیے، لوٹ مار اور ملکی وسائل کو اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال پر مال مفت کی طرح لٹانے والے اس فہرست میں آپ کو نظر آئیں گے، جب ان آزمودہ اور فرسودہ ہستیوں نے ہی پھر سے اقتدار میں آنا ہے یا ان کے آنے کا 'سامان' کرنا ہے جنہوں نے جو آج کیا کل پھر یہی سے سلسلہ اقتدار کی شروعات اور ملک کے خزانے کی لوٹ مار کی ابتدا کرنی ہے، اگر ان بالادستوں کے سامنے ہر ادارہ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہے پھر انتخابات کے کھیل کی نکیل عوام کی ناک میں کیوں ڈالی جا رہی ہے؟ اس انتخاب نامی مشق کا کیا فائدہ؟ اس 'قلیل فیصد' کو ننانوے سال کی لیز پر ملک کا اقتدار دے دیں۔
اﷲ اﷲ خیر صلا۔ باسٹھ، تریسٹھ کی صدائیں بلند کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا، تبدیلی محض نعروں سے نہیں آیا کرتی، اس ملک میں تبدیلی لانی ہے تو قانون کی 'الف ب' کو لاگو کرنا ہو گا۔ دوسروں کے گریبانوں میں جھانکنے کے ساتھ ساتھ اپنے گریبان پر بھی نظر ڈالنی ہو گی، دوسروں کو نصیحت اور خود میاں فضیحت کی چال ترک کرنی ہو گی، زبانی اور لفاظی جادوگری کی جگہ عملی طور پر قوم کا خادم اور قوم کو جواب دہ ہونے کا سلیقہ اور قرینہ اختیار کرنا ہو گا۔ ایک زمانہ تھا کہ بادشاہ خود کو قوم کا 'خادم' کہلوانے پر فخر محسوس کرتا تھا اور آج؟ آج سیاسی عہدے، وزارتیں اور اقتدار 'ذاتی تعلقات' دکھانے اور بنانے کے لیے 'حاصل زندگی' بن گیا ہے۔
ملک میں آئین کی حکمرانی اور قانون کے نفاذ کی جادوگری کامل طور پر ہوتی تو کرپشن کے بہت سے مگرمچھ سیاست سے راہ فرار اختیار کر کے کوئلوں کی دلالی کا کاروبار کر رہے ہوتے، لیکن؟ آگے کی کہانی آپ سب کے سامنے آشکار ہے۔ عدلیہ کے احکامات کے باوجود نفاذ کا ڈنڈا ان کے ہاتھوں میں ہے جو 'من مرضی' کے مالک ہیں۔ سو ملکی وسائل پر ہاتھ بھاری اور دل ہلکا کرنے کے وصف سے آراستہ 'قلیل فیصد' کے لیے سب ٹھیک ہے۔ لیکن الیکشن چرانے اور الیکشن میں 'جھاڑو' پھیرنے کا عمل اس الیکشن میں بھی دہرا نے کی کو شش کی گئی۔ پھر؟ قوم کے انداز و اطوار بگڑ سکتے ہیں، جن سے جہاں غریب کی جھونپڑی جلے گی وہیں امیروں کے محلات بھی سلامت نہیں رہ پائیں گے۔ بہت ہو گئی اس ملک اور ملک کے عوام کے ساتھ ڈرامہ بازی۔ اب تو عوام کے حال پر رحم کیجیے اور قوم کو نعروں کی جگہ عمل کا تحفہ عنایت کیجیے۔