پی پی کو مشکلات کا سامنا
بہرحال قصہ تو بہت لمبا ہے مگر مختصر یہ کہ اس نے اپنا رابطہ عوام سے ہمیشہ جوڑے رکھا۔
پاکستان میں اس وقت سیاسی پارٹیوں نے سیاست کو یہ سمجھا ہے کہ لوگوں کو سبز باغ دکھاؤ، جھوٹے وعدے کرو اور جب الیکشن جیتو تو ایسے گھر جاؤ جیسے دھوئیں میں سامنے آنے والی چیز گم ہوجاتی ہے۔ کیونکہ پاکستان کے لوگ سادہ لوح اور اعتماد پر اعتماد کرنے والے ہیں۔ پانچ سال گزرگئے الیکشن کا موقع آیا اب پھر بھولی ہوئی چیز یاد آئی۔ جیسا کہ لاڑکانہ میرا اپنا ضلع اور شہر ہے اور میں نے اپنی زندگی بچپن سے لے کر اب تک وہاں گزاری ہے اور پھر ایک ایسے محکمے میں نوکری کی ہے جس کی وجہ سے مجھے سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے قریب رہنے کا موقع ملا ہے۔
مجھے ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر، بے نظیر بھٹو تک جتنے بھی چھوٹے بڑے سیاستدان لاڑکانہ کی سیاست میں آئے انھیں دیکھنے اور ان کے کام اور انداز کو پرکھنے کا موقع ملا ہے۔ لیکن بھٹو صاحب کے ساتھ تو ایک کارکن کی حیثیت سے بھی رہے اور ایک سرکاری ملازم کے حوالے سے بھی۔ اس شخص کو میں نے دیکھا کہ وہ عوام کو کیا سمجھتے تھے اور ان کو اپنے قریب لانا اور انھیں اپنے دل میں جگہ کیسے دیا کرتے تھے۔ وہ بظاہر تو انسان لگتا تھا مگر وہ کام ایک مشین کی طرح کرتے تھے۔
بہرحال قصہ تو بہت لمبا ہے مگر مختصر یہ کہ اس نے اپنا رابطہ عوام سے ہمیشہ جوڑے رکھا اور ان کے دکھ سکھ میں ان کے ساتھ رہا اور یہی وجہ ہے کہ اب تک عوام اسے دل و جان سے یاد کرتے ہیں۔ اس کے بعد بے نظیر بھٹو آئیں، وہ بھی لوگوں کے دل میں گھر کرگئیں اور بھٹو صاحب کی طرح ہر عید پر لاڑکانہ آنا، لوگوں سے ملنا، کھلی کچہری کرنا اور عام آدمی کو بغیر کسی ریفرنس کے نواز دیتی تھیں۔ یہ بھی تھا کہ وہ اپنے کارکنوں کو بھی فوقیت دیتی تھیں مگر دوسروں کو بھی کچھ ملتا تھا اور آپ نے دیکھا اس کی شہادت پر کیا حشر برپا ہوا۔
عوام نے بے نظیر کی قربانی کی وجہ سے خاص طور پر سندھ میں اپنا حق ادا کیا۔ کامیاب ہونے والے امیدوار آگئے، کچھ وزیر کچھ دوسرے مشیر بن گئے۔ مرکز اور سوائے پنجاب کے باقی صوبوں میں ان کی اپنی اور مخلوط حکومتیں بنیں۔ عوام امیدوں کا ایک طوفان لے کر کھڑے ہوگئے مگر حکومت کا وقت صرف اپوزیشن کو فیس کرنے اور اپنی مخلوط پارٹیوں کے لیڈروں کو راضی کرنے میں لگ گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں پہلی مرتبہ کسی حکومت نے پانچ سال پورے کیے ہیں اور اس میں اپوزیشن، فوج اور عدالت نے بھی آئین اور جمہوریت کو بچانے کے لیے ساتھ دیا ہے۔
یہ اچھی بات ہے کہ ڈکٹیٹر کا راستہ بند کردیا گیا اور پچھلے دروازے سے اقتدار میں آنے والوں کو بھی خبردار کیا گیا۔ ریکارڈ پر ریکارڈ پی پی پی نے قائم کیے جس میں صدر، وزیراعظم، چیف منسٹرز، قومی اسمبلی کے اسپیکر سے لے کر صوبائی اسپیکرز تک اور سینیٹ کے چیئرمین بلامقابلہ کامیاب ہوئے۔ ہمارے وزیراعظم عدالت میں پیش بھی ہوئے اور ایک وزیراعظم کو پیچھے ہٹنا بھی پڑا۔ وقت پر اسمبلیاں تحلیل بھی کردی گئیں، الیکشن کمشنر اور عبوری حکومت کا قیام بھی عمل میں آگیا اور اب الیکشن کی طرف ملک رواں دواں ہے۔
لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو امیدوار جیت گئے، اقتدار کے ایوان میں پہنچ گئے اور واپس لوٹ بھی آئے، اب عوام پوچھنا چاہتے ہیں کہ انھوں نے ان کے لیے کیا کیا؟ مہنگائی کہاں تک ختم ہوئی، عام کھنے پینے کی اشیا کی قیمتیں کہاں تک کم ہوئیں، کتنے غریب اور میرٹ والے بچوں کو نوکریاں ملی ہیں، پورے سندھ میں جو ترقیاتی کام ہوئے ہیں وہ کون سی جگہ پر ہوئے ہیں؟
میں جب بھی اپنے شہر گیا تو شہر اور باہر کے روڈ بری حالت میں دیکھے اور جب بھی بھٹو صاحب اور بے نظیر کی برسی ہوتی تھی تو حکومت یہ کہہ کر لوگوں کو مطمئن کردیتی تھی کہ کام پورے نہ ہونے کا سخت نوٹس لے لیا گیا ہے اور کام جلد مکمل ہوجائے گا اور پھر پورا سال انتظار میں کٹ جاتا تھا۔ اس دوران شدید بارشیں بھی آئیں، سیلاب بھی آئے مگر عوام کا کوئی حال پوچھنے والا نہ تھا۔ صرف اخبار، ریڈیو اور ٹی وی پر خبریں اور پریس کانفرنسز دیکھنے میں آئیں۔ جب بھی جاؤ تو معلوم ہوتا بجلی کئی دنوں سے نہیں ہے اور اگر آتی بھی ہے تو کچھ پلک جھپک کے لیے۔
شہر میں گلیوں اور سڑکوں پر گٹر کا پانی پھیلا ہوا ہے، اسٹریٹ لائٹس نہیں ہیں، شہر میں امن وامان کا حال برا تھا، ہر روز موٹرسائیکلیں چھننا، گھروں میں گھس جانا اور دکانداروں کو لوٹنا ایک معمول بن گیا تھا۔ ہمارے محلے دڑی میں ایک مرتبہ بجلی کا ٹرانسفارمر خراب ہوگیا جس کے لیے پیسے مانگے گئے مگر جب سی ایم ہاؤس میں کام کرنے والے کسی افسر نے فون کروایا تو وہ بغیر پیسے لیے ایک دم لگ گیا۔ اس سلسلے میں کوئی دن خالی نہیں تھا کہ لوگ سڑکوں پر نکل نہ آئے ہوں اور بجلی کے بحران کے خلاف احتجاج نہ کیا ہو۔
جب بے نظیر بھٹو کے شہر کا یہ حال ہے تو باقی علاقوں میں کیا صورت حال ہوگی یہ آپ بھی سمجھ سکتے ہیں۔ اب یہ نمائندے عوام کے سامنے کون سا منہ لے کر جائیں گے کیونکہ انھوں نے تو اپنے اقتدار کے دور میں وہ پالیسیاں مرتب کیں جن سے انھیں اپنے ووٹ بینک میں دھچکا لگا ہے۔ جس میں لوکل بورڈ نظام سرفہرست ہے۔ ان کی ان پالیسیوں کی وجہ سے سندھ میں علاقائی پارٹیوں کو اہمیت ملی۔ اب تو مسلم لیگ (ف) بھی ایک اچھی پارٹی کی حیثیت سے ابھری ہے اس لیے کہ موجودہ پیرصاحب کے والد اپنی طبیعت کی ناسازی سے باہر نکل نہیں سکتے تھے مگر اب موجودہ پیر پگارا عوام میں آگئے ہیں اور اس نے کچھ تبدیلیاں بھی کی ہیں اور اس کے علاوہ سندھ کے خلاف ہونے والے خدشات کی مخالفت کھل کر کی ہے جس سے اب سندھ کو ایک نئی متحرک قیادت مل گئی جس سے پی پی پی کو سندھ کارڈ استعمال کرنے میں مدد نہیں ملے گی۔
دوسری بات یہ کہ پرانے پی پی پی کے لوگوں کو ایک طرف کرکے نئے دوسری پارٹیوں کے لوگوں کو فوقیت دینے پر بھی پرانے ووٹرز دلبرداشتہ ہوئے ہیں۔ بلاشبہ اس بار انتخابات میں لارکانہ جو پی پی پی کا قلعہ تھا اب اسے الیکشن میں اس حلقے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔مقابلہ تو دل ناتواں خوب کرے گا مگر دیکھیے کیا ہوتاہے۔