ناپرساں کی ایک بہت بہت بڑی خبر

لپالپ ،شپاشپ اور ہڑپا ہڑپ ہے میرا پورا نام لیکن آپ ’’ ہپاہپ ‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں


Saad Ulllah Jaan Baraq May 02, 2018
[email protected]

ہمیں یقین ہے کہ آپ نے مملکت اللہ داد نا پر ساں کی خبر توسن لی ہوگی جسے اس صدی کی سب سے بڑی نیوز اسٹوری یا بریکنگ ،کرشنگ، ڈیمالشنگ اور گرائنڈنگ نیوزکہا جا سکتا ہے، خبرکے مطابق مملکت ناپرساں کے تاحیات صدر، خاندانی حکمران اور جدی پشتی آمر مطلق جناب جبار خان قہار خان نے ایک آرڈیننس کے ذریعے تمام جرائم کو قانونی اور مجرموں کو سرکاری ملازم قرار دیا ہے۔

آیندہ لوٹنے، چوری کرنے، قتل و قتال، فراڈ، نوسر بازیوں اور ڈکیتوں کے سارے کام حکومت کی نگرانی میں قانون کے ذریعے ہوں گے، انفرادی طور پر کسی نے ککھ بھی چرایا تو اسے ٹکٹکی پرکھینچا جائے گا ۔

اس قسم کے تمام کام جو پہلے لوگ انفرادی طور پر کرتے تھے، ان کے لیے ایک الگ محکمہ قائم کر دیا گیا جن میں مجرموں اور وکلاء پر مشتمل تھنک ٹینک شامل ہوں گے، محکمے کی وزارت محترمہ شاہدہ بیگم کے زیر مشاہدہ ہوگی ۔

پہلی مرتبہ چینل '' ہیاں سے ہواں '' تک کو یہ فخر حاصل ہو رہا ہے کہ صرف اس نے اس اہم ترین خبر پر ٹکاٹک اور کٹھاکھٹ کرنے کے لیے اپنا مشہور ٹاک شو لانچ کیا اور مملکت اللہ داد نا پرساں سے ایک ایسی ہستی کومدعو کیا ہے جسے جرائم اور قوانین دونوں کی ماں ہونے کا شرف حاصل ہے اور ان کی خدمات سے ملک کے جرائم پیشہ واقف ہیں، ظاہر ہے ان کی سنگت کے لیے ہمارے پاس بھی دو عدد رسوائے زمانہ چونچیں موجود ہیں تو چلو چونچیں لڑائیں ۔

اینکر :ہاں تو جناب لپالپ صاحب۔

ہپا: لپالپ ،شپاشپ اور ہڑپا ہڑپ ہے میرا پورا نام لیکن آپ '' ہپاہپ '' بھی کہہ سکتے ہیں ۔

اینکر : جی ہپاہپ جی ۔ یہ مملکت ناپرساں میں واقعی جرائم کی انڈسٹری کو قومیا بلکہ '' سرکار یا لیا گیا ہے ۔

ہپا:بے شک اوریہ ہمارے جناب تا حیات صدر مملکت جناب جبار و قہار خان کا ایسا کارنامہ ہے جسے قیامت تک بھلایا نہیں جا سکے گا۔

علامہ :جناب چپاچپ اوہ سوری ہپاہپ صاحب یہ جو آپ نے نام لیا ہے وزیرہ محترمہ کا ،

ہپا : بی بی شاہدہ بیگم ۔

علامہ : یہ اگر زندہ ہے تو شہیدہ کیسے ہوئی ۔

ہپا : جناب عالی آپ کی شکل سے لگتا ہے کہ آپ کا تعلق کچھ نہ کچھ دین سے ہے ۔

چشم : جی ہاں علامہ کا تعلق دین ہی سے ہے لیکن ناجائز

ہپا : کیا مطلب ؟

چشم : ہمارے علامہ دین نہیں سمجھتے۔

ہپا : ایسے تو بہت سارے لوگ ہیں ہمارے یہاں بھی۔

چشم : لیکن یہ کچھ زیادہ ہی ہیں ۔

ہپا : وہ کیسے ؟

چشم : وہ ایسے کہ یہ دین کی مختلف مصنوعات جسے تعویذات و عملیات اور تعلمیات مدرسہ جات اور معجونات و چورنات بنا کر بیچتے ہیں ۔

علامہ: دیکھو یک چشم نا ہنجار نا بکار بلکہ کانامن الکا فرین

باز آجاؤ ورنہ

چشم : ورنہ کیا

علامہ :کفر کا فتویٰ دھردوں گا، پھر ڈھونڈتے پھروگے اپنی ہی گمشدہ اور مسخ شدہ لاش کو ۔

ہپا: یہ کیا کہہ رہے ہیں۔

اینکر : یہ ان دونوں کا آپس میں اظہار محبت ہے، آپ ہمیں اس خبر کے بارے میں بتائیے ۔

ہپا: وہ تو سیدھی بات ہے تمام جرائم پیشہ لوگوں کو سرکاری ملازم ڈیکلیر کردیا گیا ۔اینکر : ان کی ڈیوٹی کیا ہوگی ؟

ہپا : عوام کو لوٹنا اور لوٹنے کے نئے نئے آئیڈیئے سوچنا اور طریقے ایجاد کرنا ۔

چشم : مگر یہ کام تو ہمارے ہاں بھی تقریباً تمام سرکاری محکمے کرتے ہیں، پھر الگ سے نیا محکمہ بات کچھ بن نہیں رہی ہے۔

ہپا: یہی تو لوگوں کی ناسمجھی ہے جب کہ ہمارے صدر محترم جبار خان قہار خان بہت دور کی سوچتے ہیں چنانچہ انھوں نے کافی دنوں تک غورکے حوض میں ڈبکیاں لگا کر نادر آئیڈیا نکالا ہے ۔

اینکر : مگر اس کا فائدہ کیا دوسرے محکموں اور اس نئے محکمے میں کیا خاص بات ہے ۔

ہپا: خاص بات یہ ہے کہ دوسرے محکمے تو ان کو لوٹتے ہیں جو ان کے پاس جاتے ہیں لیکن نیا محکمہ لوگوں کے پاس جا جا کر لوٹے گا ۔

اینکر : کچھ اور تفصیلیے ۔

ہپا : اب تک بہت سارے مقامات ایسے باقی تھے جہاں عوام کو '' لٹنے '' کے مواقع میسر نہ تھے مثلاً سٹرک پر تو ٹیکس کی صورت میں خودکو لٹوا دیتے لیکن سٹرک اترنے چڑھنے پلوں پر سے ادھر ادھر دیکھنے بازاروں میں خریداری کے ساتھ مفت سیرکرنے کے مواقع ایک دوسرے سے ملنے ہاتھ ملانے بغلگیر ہونے بات چیت کرنے یا یہ سب نہ کرنے کی خدمات مفت وصول کرتے تھے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں