چھٹا بجٹ اور عوام
وہی مراعات یافتہ طبقات جو پچھلے پانچ وفاقی بجٹس سے بھرپور فیض پاتے رہے
پنجابی کی ایک کہاوت ہے کہ ''اجڑیاں باغاں دے گالھڑ پٹواری''یعنی اجڑے ہوئے باغوں کا حساب کتاب گلہریاں رکھتی ہیں، وہ وہیں اچھلتی کودتی پھرتی ہیں۔اگر کوئی معاملہ بگڑ جائے تو اسے سُدھارنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اس وقت ہمارے ملک کی معاشی حالت بھی اس اُجڑے باغ کی طرح ہے جس میں ''گلہری'' مزے مزے سے اچھل کود رہی ہیں ۔ مسلم لیگ ن کے حالیہ چھٹے بجٹ کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے ۔حالانکہ یہ بجٹ یکم جولائی کے بعد اگلی حکومت وںنے کرنا ہے تو ایسے میں کیا مصیبت پڑی تھی کہ تین چار ماہ پہلے ہی ''عوام دوست'' بجٹ پیش کر دیا جائے۔ اور اگر آنے والی اگلی حکومتیں اس میں ردو بدل کریں تو اسے سیاسی طور پر کیش کرا لیا جائے۔
ہمارے پردھان منتری شاہد خاقان عباسی عجیب و غریب منطق پیش کرتے نظر آتے ہیں کہ چار ماہ بعد انھوں نے دوبارہ آتو جانا ہے، اس لیے وہ اس بجٹ کو پیش کرنے کے حقدار ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اگر انھوں نے اس یقین کی بنیاد پر کہ انھوں نے چار ماہ بعد آ تو جانا ہے اپنی رخصتی سے ایک ماہ پہلے ایک ایسا بجٹ پیش کردیا ہے جس کا عملی اطلاق ان کی حکومت سے رخصتی کے بعد شروع ہوگا تو انھیں یہ حق بھی پہنچتا ہے کہ وہ اپنے اس یقین کی بنیاد پر مزید پانچ بجٹ بھی پیش کردیں کہ بقول ان کے چار ماہ بعد انھوں نے اگلے پانچ سال کے لیے آنا توہے ہی لہٰذا وہ اگلے پانچ سال کا ایک ہی بجٹ پیش کر دیتے تاکہ ان کے اس بہترین بجٹ سے ملک و قوم صرف ایک سال کے لیے نہیں بلکہ پانچ سال کے لیے مستفید ہو جاتے۔اور پھر عباسی صاحب فرماتے ہیں کہ یہ بجٹ پچھلے پانچ بجٹوں سے سب سے اچھا ہے، بندہ پوچھے کہ پچھلے پانچ بجٹ کیا قرون اولیٰ کی حکومتوں نے پیش کیے تھے، اور اگر یہ بات سچ مان بھی لی جائے توسابق وزیر خزانہ کے خلاف کھلی بغاوت ہوگی کیونکہ انھوں نے گزشتہ پانچ سال میں ہر بجٹ کو ''تاریخی'' قرار دیا تھا۔
بہرکیف بجٹ کیا تھا؟ عوام کے لیے کیا تھا؟ غریبوں کو کیا ملا؟ کچھ علم نہیںاور ویسے بھی جس طرح تھانے کچہری عدالتوں کی زبان عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہے اور وہ قانونی موشگافیوں سے نا واقف ہوتے ہیں۔ اسی طرح مالی بجٹ میں استعمال کی گئی زبان یا اصطلاحات بھی عام آدمی کے سر سے گزر جاتی ہیں مگر اس کا بنیادی سوال اپنی جگہ پر برقرار رہتا ہے کہ تعلیم، روزگار اور صحت کی مناسب سہولیات فراہم کرنے کی ذمے دار ریاست ہے۔ اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ بجٹ خسارہ کیا ہوتا ہے یا ٹیکسز کی شرح میں رد و بدل سے کیا انقلاب آتا ہے۔ اسے صرف اس بات سے مطلب ہوتا ہے کہ وہ اپنے گھر کا چولہا جلا سکے۔
موجودہ بجٹ پر شاہ جی کا خیال ہے کہ جاتے جاتے ایسا بجٹ پیش کرنا بالکل حلوائی کی دکان پر نانا جی کی فاتحہ والا معاملہ ہے۔ ٹیکس کم کرکے انھوں نے قوم کو خوش کرنے کی کوشش تو کی ہے لیکن خوش کرنے کی یہ جعلی حرکت ہے کہ اس کا سارا وزن اگلی آنے والی حکومت کو اٹھانا پڑے گا یعنی مشکل آنے والوں کے لیے ہوگی اور اس بجٹ کو مسلم لیگ ن والے آنے والے الیکشن میں اپنی کامیابی کا ڈھنڈورہ پیٹنے کے لیے استعمال کریں گے۔ یہی حال میاں شہباز شریف نے اورنج ٹرین والے معاملے میں کیا ہے۔ ایک سو پینسٹھ ارب روپے کی خطیر (بلکہ خطیر اس کے لیے بڑا لفظ ہے) رقم سے ستائیس کلومیٹر لمبے ٹریک پر مشتمل اس ٹرین منصوبے کا افتتاح تو لشٹم پشٹم میاں شہبازشریف اپنی حکومت کے خاتمے سے قبل کر لیں گے اور اس منصوبے کی بنیاد پر لاہوریوں سے ووٹ بھی مانگیں گے لیکن یہ 165ارب روپے کی رقم کی ادائیگی وہ کریں گے جو بعد میں آئیں گے۔
یہ بجٹ محض کسی کی خوش آمد، عوام میں اچھی شہرت اور کاروباری حضرات کو چند ایک نئے شوشے اور جھوٹے دعووں کے لیے بنایا گیا ہے۔ جس طرح بجٹ میں 11سو ارب روپے کا دفاعی بجٹ بھی سیاست لگتی ہے جو بادی النظر میںاگلی آنے والی حکومت کے لیے مسئلہ ہوگا کیونکہ اگلی حکومت نے اس میں سے قدرے کٹوتی کردی تو اسٹیبلشمنٹ کے نئی نویلی حکومت کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے یہ ایک اچھا طریقہ تلاش کیا گیا ہے۔ اسی طرح 97 ارب روپے تعلیم اور بنیادی صحت کے لیے 37 ارب روپے مختص کیے گئے۔آیندہ مالی سال کے بجٹ پر نرم سے نرم الفاظ میں تبصرہ یہ ہوگا کہ بنیادی طور پر یہ بجٹ عوام کے نہیں بلکہ مراعات یافتہ طبقات کے لیے ہے۔
وہی مراعات یافتہ طبقات جو پچھلے پانچ وفاقی بجٹس سے بھرپور فیض پاتے رہے۔ دیہی آبادی کا معیار زندگی بہتر بنانے کے لیے کوئی منصوبہ نہیں۔ خیراتی پروگرام میں اضافہ ایک بار پھر اس سوال کو جنم دیتا ہے کہ اربوں روپے خیرات کرنے سے زیادہ بہتر نہیں کہ کاٹیج انڈسٹری کے لیے بلاسود قرضے دیے جائیں تاکہ غربت و بیروزگاری کی شرح میں کمی کی جاسکے۔سیاق و سباق کو دیکھا جائے تو بات واضح ہوجاتی ہے کہ جس طرح آخری ایام میں ٹیکس ایمنسٹی اسکیم پیش کرنا پری پول رگنگ تھی۔
اسی طرح اس موقع پر بجٹ پیش کرنا بھی انتخابی فوائد سمیٹنے کے سوا کچھ نہیں۔ بجٹ میں عام آدمی کو کتنی عزت ملے گی، اس کا اندازہ بہت جلد ہوجائے گا کیونکہ حکمرانوں کا زور ابھی بھی ووٹ کی عزت پر ہے۔ ووٹرز کی عزت کا مرحلہ ابھی بہت دور ہے۔خیر عوام کواس'' بجٹ''سے کوئی لینا دینا نہیں، انھیں محض یہ علم ہے کہ 2013ء میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت رخصت ہوئی تو قرضہ کی فی کس شرح 58 ہزار روپے تھی جو اب ایک لاکھ پچیس ہزار روپے ہے یعنی نون لیگ کے پانچ برسوں میں 67 ہزار روپے فی کس قرضے کا اضافہ ہوا تقریباً ساڑھے 12ہزار روپے سالانہ۔ انھیں یہ علم ہے کہ حکومت کی مدت ختم ہوجاتی ہے لیکن لوڈ شیڈنگ جیسی بلا ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔
غریب کسان کا تو حال ہی مت پوچھیں۔ رمضان المبارک میں چینی 70 روپے کلو بکے گی جب کہ غریب کاشتکاروں کا گنا 120 روپے من لیا جا رہا ہے جسکی ادائیگی میں بھی شوگر ملز کے مالکان مہینوں لگا دیتے ہیں۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ شوگر ملز کی ایک بڑی تعداد کے مالک حکومت اور اپویشن کے صفِ اول کے رہنما ہیں۔ 5900 ارب کا بجٹ پیش کرنے والے وزیرِ خزانہ سے پرانا گھسا پٹا سوال تو بنتا ہے کہ 15000 روپے آمدنی والے مزدور کے گھر کا بجٹ بنا کے دکھاؤ تو مانیں!