دیوانے کی بڑ

چیف جسٹس اپنے کراچی کے اگلے دورے میں تھوڑا وقت نکالیں اور میرے ساتھ اس علاقے کو وزٹ کریں


سردار قریشی May 02, 2018

اب تو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی کہہ دیا ہے کہ ملک میں طلب سے زیادہ بجلی موجود ہونے کے باوجود جن علاقوں میں بجلی چوری ہوتی ہے وہاں لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ جاری رہے گا جو ان کی طرف سے اس بات کا گویا اعتراف ہے کہ بجلی چوروں کو پکڑنا اورچوری کا سد باب کرنا واپڈا اور دیگر بجلی کمپنیوں کی طرح حکومت کے بس میں بھی نہیں ہے۔ چوروں کو بجلی چرانے کی کھلی چھوٹ ہوگی اور بل ادا کرنے والے صارفین اس وجہ سے لوڈ شیڈنگ کا عذاب جھیلیں گے کہ ان کے علاقوں میں بجلی چوری ہوتی ہے۔

یہ ایک طرح سے حکومت کی جانب سے بل ادا کرنے والے صارفین کو بھی بجلی چوری کرنے کے لیے اکسانے کے مترادف ہے لیکن وہ ہیں کہ بدھو بنے بل بھرے جا رہے ہیں اور بجلی کمپنیاں خواہ حکومت کی غیر اعلانیہ پیشکش سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ نتیجے کے طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ بجلی چور تو لوڈ شیڈنگ کے اوقات میں بھی اس کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہوتے ہیں جب کہ بل ادا کرنے والے قانون پسند شہریوں کو سخت گرمی میں اس کی سزا بجلی اور پانی کی عدم دستیابی کی صورت میں بھگتنا پڑتی ہے۔ دن بھرکام کرکے گھر لوٹنے والے تھکے ہارے لوگ راتیں بھی جاگ کر گزارتے ہیں، صبح جن بچوں نے اسکول جانا ہوتا ہے وہ ٹھیک سے سو نہیں سکتے، نہا دھو نہیں سکتے اور کئی کئی دن میلے کچیلے یونیفارم پہنے رہتے ہیں۔

بجلی ہو تو واشنگ مشینیں چلیں اور پانی ہو تو یہ دھلیں، جب یہ دونوں چیزیں ہوتی ہیں تو بچے اسکول گئے ہوئے ہوتے ہیں اور جب بچے گھر پر ہوتے ہیں تو یہ دونوں چیزیں غائب ہوتی ہیں۔ جہاں تک کراچی کا تعلق ہے تو یہاں اس حوالے سے چیخ و پکار یوں بھی زیادہ ہے کہ بجلی کے بغیر یہاں زندگی کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر مستزاد یہ کہ گرمی کی شدت میں روز بروز اضافے کے ساتھ رمضان المبارک کی بھی آمد آمد ہے جس کے تقدس کا تقاضہ ہے کہ لوگوں کو اس ماہ مبارک کے دن اور راتیں سکون سے عبادت میں گزارنے کا موقع دیا جائے۔

لیکن اس کے برعکس ایک طرف کے الیکٹرک تو دوسری جانب حکومت کے خلاف لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے ہڑتالوں، دھرنوں اور مظاہروں کے پروگرام بن رہے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کو چھوڑیں خود سندھ کے وزیر اعلیٰ لوگوں کو کال دے رہے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ ملکر وفاقی حکومت کے خلاف احتجاج کریں۔ پچھلے دنوں یہ معاملہ عدالتوں میں بھی زیر سماعت تھا جہاں سے صادر ہونے والے فیصلے کی رو سے سوئی سدرن گیس کمپنی، کے الیکٹرک کو مطلوبہ مقدار میں گیس فراہم کرنے اور کے الیکٹرک، گیس کمپنی کو واجبات ادا کرنے کے ساتھ ساتھ شہریوں کوبجلی کی بلا تعطل فراہمی کی پابند بنائی گئی تھیں لیکن ڈھاک کے وہی تین پات کے مصداق صورتحال جوں کی توں رہی۔

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو اپنی گوناں گوں مصروفیات میں سے وقت نکال کر خود یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے کراچی آنا پڑا اور فریقین سے بطور خاص لوڈ شیڈنگ کے مسئلے پر بریفنگ لینے کے بعد انھوں نے جہاں سوئی سدرن گیس کمپنی کو یہ حکم دیا کہ کے الیکٹرک کو مطلوبہ مقدار میں گیس فراہم کی جائے وہاں کراچی کے شہریوں کو یہ مژدہ بھی سنایا کہ جن علاقوں میں بجلی چوری ہوتی ہے، وہاں لوڈ شیڈنگ بدستور جاری رہے گی۔ یہ تو وہ بات ہوئی کہ چور کوکہو چوری کر اورگھر والوں سے کہو ہوشیار رہو۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ بجلی چوروں کوکھلی چھوٹ ہونی چاہیے، ہمیں گلہ یہ ہے کہ آپ ان کے آگے اتنے بے بس کیوں ہیں اور انھیں پکڑتے کیوں نہیں، سزا کیوں نہیں دیتے، ان کے جرم کی سزا جائز طریقے سے بل ادا کرکے بجلی استعمال کرنے والوں کو کیوں دیتے ہیں؟ یہ تو محض ایک بہانہ ہے ورنہ شہرکا کوئی علاقہ ایسا نہیں جہاں بجلی کم یا زیادہ چوری نہ ہوتی ہو۔

ڈیفنس،کلفٹن اور دوسرے پوش علاقوں میں لوڈشیڈنگ کیوں نہیں ہوتی جب کہ وہاں بجلی چوری کا تناسب متوسط اور غریب طبقوں کے رہائشی علاقوں سے کہیں زیادہ ہے، اگر لالو کھیت، گولیمار، نیوکراچی اور سرجانی ٹاؤن جیسے علاقوں کے کچھ گھروں میں ایک دو بلب اور پنکھے چلانے کے لیے بجلی چرائی جاتی ہے تو آپ اس کی سزا پورے علاقے کی بجلی بند کر کے ان لاکھوں شہریوں کو بھی دیتے ہیں جنہوں نے یہ جرم نہیں کیا مگر پوش علاقوں میں جہاں کوٹھیوں کے تمام کمروں، حتیٰ کہ باتھ رومز، سرونٹ کوارٹرز اور ڈاگ ہاؤسز میں بھی کنڈے لگا کر رات دن ایئرکنڈیشنر چلائے جاتے ہیں وہاں آپ بھیگی بلی بن جاتے ہیں، جرم ہوتا دیکھ کر منہ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں ہم نے نہیں دیکھا، شتر مرغ کی طرح جو ریت میں گردن ڈال کر سمجھتا ہے کہ خطرہ ٹل گیا۔

ہم پوچھتے ہیں اگر حکومتیں بھی اس طرح بے بس ہونے لگیں تو کام کیسے چلے گا، حکومتوں کے ہونے کا کیا جواز رہ جائے گا؟ آج آپ بجلی بند کر رہے ہیں کل کیا پولیس تھانوں اور کورٹ کچہریوں کو بھی یہ کہہ کر تالے ڈال دیں گے کہ لوگ جرائم سے باز نہیں آتے پھر حکومت ان پر اتنا پیسہ کیوں خرچ کرے؟ اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو کیا یہ دْہرا معیار نہیں ہے؟ جو بات صحیح ہے وہ سب کے لیے صحیح ہے اور جو غلط ہے وہ سب کے لیے غلط ہے، اس میں کوئی فرق اور امتیاز نہیں ہونا چاہیے، ہوگا تو توازن قائم نہیں رہ پائے گا اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ توازن بگڑنے کے نتیجے میں ہمیشہ تباہی آتی ہے۔ آج کل ہر جگہ چیف جسٹس ثاقب نثار کے از خود نوٹس لینے کا چرچا ہے، وہ چھوٹے بڑے ہر معاملے میں مداخلت کرتے ہیں، نہیں کرتے تو اس معاملے میں نہیں کرتے، کراچی کے کروڑوں شہریوں کے ساتھ ایک مدت سے ہونے والی یہ زیادتی انھیں جانے کیوں نظر نہیں آتی۔

کے الیکٹرک والے بجلی چوروں کو نہ پکڑنے کا جواز یہ دیتے ہیں کہ ان کے پاس نہ تو قانون نافذ کرنے کا اختیار ہے اور نہ اس پر عملدرآمد کرانے والی کوئی فورس، پولیس کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ تعاون نہیں کرتی تو کیا سب یونہی چلتا رہے گا؟ ہماری گلی میں کوئی پچاس ساٹھ دکانیں اور ہوٹل وغیرہ ہیں جن میں سے کسی ایک کے پاس بھی میٹر نہیں ہے اور وہ سب کنڈے لگاکر بجلی چوری کرتے ہیں۔

چیف جسٹس اپنے کراچی کے اگلے دورے میں تھوڑا وقت نکالیں اور میرے ساتھ اس علاقے کو وزٹ کریں، اگر واقعی ایسا ہوتا ہوا دیکھیں تو یہ سب دکانیں (جو ویسے ہی غیر قانونی طور پر قبضہ کرکے بنائی گئی ہیں) سیل کرواکر ان کے مالکان کو جیل بھجوائیں اور پھر دیکھیں بجلی چوری کیسے ختم نہیں ہوتی۔ سندھی میں کہاوت ہے کہ بیٹی کو مار پڑنے سے بہو سیکھتی ہے،کراچی میں خبریں ویسے بھی جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی ہیں، صبح کو ہماری گلی میں ہونے والی اس کارروائی کی خبر دوپہر سے پہلے شہر بھر میں گرم ہوگی اور سب کو پتہ چل جائے گا کہ بجلی چرانے کا انجام کیا ہوتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں