پی ٹی آئی سے فارغ اراکین اپنا مستقبل محفوظ بنانے کیلئے کوشاں
پی ٹی آئی سے فارغ اراکین اپنا مستقبل محفوظ بنانے کیلئے کوشاں ہیں
تحریک انصاف کے اندرسینیٹ انتخابات میں ووٹوں کی خریدوفروخت کے معاملے پر اٹھنے والا طوفان ابھی موجودہے جس کے نتیجے میں پارٹی کے مزید تین ارکان پیپلزپارٹی کو پیارے ہو چکے ہیں اور مزید بھی کئی ارکان پیپلزپارٹی کے ساتھ رابطوں میں ہیں۔
تاہم پیپلزپارٹی کی قیادت نے ہاتھ ذرا ہولا رکھنے کی ہدایت کی ہے تاکہ کہیں پی ٹی آئی کے ارکان کی مسلسل آمد سے خود ان کے اپنے متوقع امیدوار ہی بغاوت نہ کردیں، تحریک انصاف کی خاتون رکن دینا ناز پارٹی قیادت کی جانب سے شوکاز نوٹس کے اجراء سے پہلے ہی پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئی تھیں جبکہ مزید جو تین ارکان پیپلزپارٹی میں شامل ہوئے ہیں ان میں زاہد درانی، عبیداللہ مایار اور نگینہ خان شامل ہیں، جو ارکان تحریک انصاف سے اڑکر پی پی پی کی منڈیر پر پہنچے ہیں۔
یہ وہی ارکان ہیں جن کے نام ووٹوں کی خریدوفروخت کے حوالے سے پہلے دن ہی سے زیر گردش تھے کیونکہ پی ٹی آئی کے بیشتر ارکان کو آنے والے عام انتخابات کے حوالے سے اپنا مستقبل تاریک ہوا دکھائی دے رہا تھا اور انھیں امید تھی کہ ٹکٹوں کے اجراء کے معاملے میں انھیں نظر انداز کیا جائے گا اسی لیے انہوں نے پہلے ہی اپنا انتظام کر لیا ہے۔
یقینی طور پر پیپلز پارٹی کے ساتھ مزید جو ارکان رابطوں میں ہیں وہ بھی اپنا سیاسی مستقبل محفوظ بنانے کے لیے کوشاں ہیں ۔ تاہم پیپلزپارٹی یہ ضرور دیکھے گی کہ چاہے وہ مرد ارکان ہوں یا خواتین،انھیں اگر صرف وکٹیں اڑانے کے شوق میں پیپلزپارٹی میں شامل کیا جاتا ہے تو اس سے وقتی طور پر تو پیپلزپارٹی کی جے جے کار ہو جائے گی تاہم جب عام انتخابات کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم کا مرحلہ آئے گا تو اس موقع پر پیپلزپارٹی کے اپنے وہ امیدوار جو سالہا سال سے پیپلزپارٹی کے ساتھ اس کی پالیسی کے مطابق چل رہے ہیں ان کا کیا بنے گا؟
اسی لیے پی ٹی آئی کے شوکاز نوٹس پانے والے ارکان کی شمولیتوں کا معاملہ قدرے ٹھنڈا پڑگیا ہے اور مزید ارکان کی شمولیتوں سے فوری طور پر گریز کرتے ہوئے چھان بین اور پارٹی کے اندرونی معاملات کو دیکھنے کے بعد ہی انھیں شامل کیا جائے گا، دوسری جانب تحریک انصاف کی قیادت کو ارکان کی جانب سے شوکازنوٹسز کے جواب بھی موصول ہو رہے ہیں اور اب تک پانچ ارکان کے جوابات موصول ہو چکے ہیں جبکہ کچھ مزید بھی پارٹی قیادت کو شوکاز نوٹس کا جواب دیتے ہوئے انھیں مطمئین کرنے کی کوشش کرینگے۔
پی ٹی آئی کی قیادت نے سینٹ انتخابات میں پارٹی سے وفاداری تبدیل کرنے کے الزامات کے تحت بیس ارکان کے خلاف کاروائی جیسا بڑا اقدام کر تو لیا تاہم یہ بات پی ٹی آئی کی قیادت بھی جانتی ہے کہ عام انتخابات کا مرحلہ آسان نہیں ہوگا اور اس میں اسے دیگر کے علاوہ مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کے ساتھ بھی نبردآزما ہونا ہے اس لیے وہ بھی کچھ ارکان کے جوابات پر اطمیان کا اظہار کرتے ہوئے انھیں پرانی پوزیشن دے گی تاکہ اس کی بھی مشکلات کم ہوں کیونکہ ایسا نہ ہونے کی صورت میں پی ٹی آئی کو بیرونی طور پر موجود خطرات سے نمٹنے کے علاوہ اندرونی طور پر بھی مشکلات درپیش ہونگی۔
یہ معاملہ یقینی طور پر تحریک انصاف کی قیادت کے مد نظر ہے یہی وجہ ہے کہ انضباطی کمیٹی جو ابتدائی طور پر وزیراعلیٰ پرویزخٹک کی سربراہی میں تشکیل دی گئی تھی اس میں اب ترمیم کرتے ہوئے سپیکر صوبائی اسمبلی اسد قیصر کو کمیٹی کا سربراہ مقرر کردیا گیاہے جبکہ وزیراعلیٰ اس کمیٹی کا حصہ نہیں رہے کیونکہ جن ارکان کو شوکازنوٹس جاری کیے گئے ہیں ان کی اکثریت اسے وزیراعلیٰ کی جانب سے کیا گیا اقدام تصور کر رہے تھے۔
اس صورت حال میں اگر وزیراعلیٰ کی سربراہی میں قائم کمیٹی ان ارکان کی جانب سے موصول ہونے والے شوکاز نوٹسز کے جوابات کا جائزہ لیتی اور اس پر مزید فیصلے کرتی تو اس صورت میں شفافیت متاثر ہو سکتی تھی یہی وجہ ہے کہ صوبائی اسمبلی کے سپیکراسد قیصر کو کمیٹی کی سربراہی حوالے کی گئی ہے کیونکہ جن ارکان کو شوکاز نوٹسز جاری کیے گئے ہیں ۔
ان میں سے کسی ایک نے بھی سپیکر پر انگلی نہیں اٹھائی اس لیے لگ یہی رہا ہے کہ تحریک انصاف نے جو کھٹراگ چھیڑا تھا اب اسے سمیٹنے کی کوشش کی جائے گی اورمئی کے پہلے ہفتے میں اس حوالے سے صورت حال واضح ہونا شروع ہوجائے گی کیونکہ مئی کے پہلے ہفتے ہی میں صوبائی اسمبلی کا اجلاس بھی منعقد ہونے جا رہا ہے حالانکہ بجٹ 14مئی کو پیش کیاجانا ہے تاہم تحریک انصاف کی حکومت اسمبلی کے اندر کے حالات کو جانچنا چاہتی ہے کہ مذکورہ ارکان جنھیں شوکازنوٹس جاری کیے گئے تھے وہ صوبائی حکومت کو کتنا ٹف ٹائم دیتے ہیں اور اپوزیشن جماعتیں کس حد تک صوبائی حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کے موڈ میں ہیں اور اسی صورت حال کو دیکھتے ہوئے ہی بجٹ پیش کرنے یا نہ کرنے کا حتمی فیصلہ کیاجائے گا۔
گوکہ صوبائی حکومت نے آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش نہ کرنے کے اعلان کے بعد یوٹرن لیتے ہوئے بجٹ پیش کرنے کا اعلان تو کردیا ہے تاہم اس کا انحصار اپوزیشن کی جانب سے ملنے والے تعاون پر ہے، اگر تواپوزیشن جماعتوں نے پرویزخٹک حکومت کو جو صوبائی اسمبلی میں اکثریت بہرکیف کھو بیٹھی ہے، سہارا دے دیا تو حکومت آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کرے گی اور اس بات کے امکانات کافی حد تک روشن ہیں کہ اپوزیشن جماعتیں پی ٹی آئی حکومت کو سپورٹ دینگی یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں ایک ہفتہ گزرنے کے باوجودکوئی متفقہ لائحہ عمل وضع نہیں کرسکیں، اس بات کے امکانات بھی موجود ہیں کہ اپوزیشن جماعتیں بجٹ کے موقع پر ایوان میں احتجاج کرتے ہوئے واک آؤٹ کر جائیں۔
ان کی یہ حکمت عملی بھی حکومت کو سپورٹ فراہم کرنے کے ہی مترادف ہوگی جس کی بدولت حکومت ایوان میں موجود اپنے ارکان کی سپورٹ سے بجٹ کی منظوری کرالے گی، تاہم اپوزیشن کی حکمت عملی اب تک سامنے نہیں آسکی اور ہفتہ رواں کے دوران ہی یہ منظر عام پر آئے گی جس کے بعد صورت حال واضح ہو سکے گی۔
پرویزخٹک حکومت کو اس موقع پر جماعت اسلامی کی حمایت حاصل ہوگی، جماعت اسلامی اگرچہ صوبائی حکومت سے اپنی راہیں الگ کرنے کا اعلان کر چکی ہے اور یہ امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ جے یوآئی(ف) اورجماعت اسلامی دونوں ہی 27 اپریل کے ایم ایم اے سربراہی اجلاس میں مرکز اورخیبرپختونخوا میں حکومتوں سے الگ ہونے کا اعلان کریں گی لیکن ایسا نہیں ہو سکا اور یہ معاملہ 2مئی کے ورکرز کنونشن تک ٹال دیا گیا ہے جس کے بعد ہی یہ پارٹیاں حکومتوں سے الگ ہوں گی۔
تاہم پیپلزپارٹی کی قیادت نے ہاتھ ذرا ہولا رکھنے کی ہدایت کی ہے تاکہ کہیں پی ٹی آئی کے ارکان کی مسلسل آمد سے خود ان کے اپنے متوقع امیدوار ہی بغاوت نہ کردیں، تحریک انصاف کی خاتون رکن دینا ناز پارٹی قیادت کی جانب سے شوکاز نوٹس کے اجراء سے پہلے ہی پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئی تھیں جبکہ مزید جو تین ارکان پیپلزپارٹی میں شامل ہوئے ہیں ان میں زاہد درانی، عبیداللہ مایار اور نگینہ خان شامل ہیں، جو ارکان تحریک انصاف سے اڑکر پی پی پی کی منڈیر پر پہنچے ہیں۔
یہ وہی ارکان ہیں جن کے نام ووٹوں کی خریدوفروخت کے حوالے سے پہلے دن ہی سے زیر گردش تھے کیونکہ پی ٹی آئی کے بیشتر ارکان کو آنے والے عام انتخابات کے حوالے سے اپنا مستقبل تاریک ہوا دکھائی دے رہا تھا اور انھیں امید تھی کہ ٹکٹوں کے اجراء کے معاملے میں انھیں نظر انداز کیا جائے گا اسی لیے انہوں نے پہلے ہی اپنا انتظام کر لیا ہے۔
یقینی طور پر پیپلز پارٹی کے ساتھ مزید جو ارکان رابطوں میں ہیں وہ بھی اپنا سیاسی مستقبل محفوظ بنانے کے لیے کوشاں ہیں ۔ تاہم پیپلزپارٹی یہ ضرور دیکھے گی کہ چاہے وہ مرد ارکان ہوں یا خواتین،انھیں اگر صرف وکٹیں اڑانے کے شوق میں پیپلزپارٹی میں شامل کیا جاتا ہے تو اس سے وقتی طور پر تو پیپلزپارٹی کی جے جے کار ہو جائے گی تاہم جب عام انتخابات کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم کا مرحلہ آئے گا تو اس موقع پر پیپلزپارٹی کے اپنے وہ امیدوار جو سالہا سال سے پیپلزپارٹی کے ساتھ اس کی پالیسی کے مطابق چل رہے ہیں ان کا کیا بنے گا؟
اسی لیے پی ٹی آئی کے شوکاز نوٹس پانے والے ارکان کی شمولیتوں کا معاملہ قدرے ٹھنڈا پڑگیا ہے اور مزید ارکان کی شمولیتوں سے فوری طور پر گریز کرتے ہوئے چھان بین اور پارٹی کے اندرونی معاملات کو دیکھنے کے بعد ہی انھیں شامل کیا جائے گا، دوسری جانب تحریک انصاف کی قیادت کو ارکان کی جانب سے شوکازنوٹسز کے جواب بھی موصول ہو رہے ہیں اور اب تک پانچ ارکان کے جوابات موصول ہو چکے ہیں جبکہ کچھ مزید بھی پارٹی قیادت کو شوکاز نوٹس کا جواب دیتے ہوئے انھیں مطمئین کرنے کی کوشش کرینگے۔
پی ٹی آئی کی قیادت نے سینٹ انتخابات میں پارٹی سے وفاداری تبدیل کرنے کے الزامات کے تحت بیس ارکان کے خلاف کاروائی جیسا بڑا اقدام کر تو لیا تاہم یہ بات پی ٹی آئی کی قیادت بھی جانتی ہے کہ عام انتخابات کا مرحلہ آسان نہیں ہوگا اور اس میں اسے دیگر کے علاوہ مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کے ساتھ بھی نبردآزما ہونا ہے اس لیے وہ بھی کچھ ارکان کے جوابات پر اطمیان کا اظہار کرتے ہوئے انھیں پرانی پوزیشن دے گی تاکہ اس کی بھی مشکلات کم ہوں کیونکہ ایسا نہ ہونے کی صورت میں پی ٹی آئی کو بیرونی طور پر موجود خطرات سے نمٹنے کے علاوہ اندرونی طور پر بھی مشکلات درپیش ہونگی۔
یہ معاملہ یقینی طور پر تحریک انصاف کی قیادت کے مد نظر ہے یہی وجہ ہے کہ انضباطی کمیٹی جو ابتدائی طور پر وزیراعلیٰ پرویزخٹک کی سربراہی میں تشکیل دی گئی تھی اس میں اب ترمیم کرتے ہوئے سپیکر صوبائی اسمبلی اسد قیصر کو کمیٹی کا سربراہ مقرر کردیا گیاہے جبکہ وزیراعلیٰ اس کمیٹی کا حصہ نہیں رہے کیونکہ جن ارکان کو شوکازنوٹس جاری کیے گئے ہیں ان کی اکثریت اسے وزیراعلیٰ کی جانب سے کیا گیا اقدام تصور کر رہے تھے۔
اس صورت حال میں اگر وزیراعلیٰ کی سربراہی میں قائم کمیٹی ان ارکان کی جانب سے موصول ہونے والے شوکاز نوٹسز کے جوابات کا جائزہ لیتی اور اس پر مزید فیصلے کرتی تو اس صورت میں شفافیت متاثر ہو سکتی تھی یہی وجہ ہے کہ صوبائی اسمبلی کے سپیکراسد قیصر کو کمیٹی کی سربراہی حوالے کی گئی ہے کیونکہ جن ارکان کو شوکاز نوٹسز جاری کیے گئے ہیں ۔
ان میں سے کسی ایک نے بھی سپیکر پر انگلی نہیں اٹھائی اس لیے لگ یہی رہا ہے کہ تحریک انصاف نے جو کھٹراگ چھیڑا تھا اب اسے سمیٹنے کی کوشش کی جائے گی اورمئی کے پہلے ہفتے میں اس حوالے سے صورت حال واضح ہونا شروع ہوجائے گی کیونکہ مئی کے پہلے ہفتے ہی میں صوبائی اسمبلی کا اجلاس بھی منعقد ہونے جا رہا ہے حالانکہ بجٹ 14مئی کو پیش کیاجانا ہے تاہم تحریک انصاف کی حکومت اسمبلی کے اندر کے حالات کو جانچنا چاہتی ہے کہ مذکورہ ارکان جنھیں شوکازنوٹس جاری کیے گئے تھے وہ صوبائی حکومت کو کتنا ٹف ٹائم دیتے ہیں اور اپوزیشن جماعتیں کس حد تک صوبائی حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کے موڈ میں ہیں اور اسی صورت حال کو دیکھتے ہوئے ہی بجٹ پیش کرنے یا نہ کرنے کا حتمی فیصلہ کیاجائے گا۔
گوکہ صوبائی حکومت نے آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش نہ کرنے کے اعلان کے بعد یوٹرن لیتے ہوئے بجٹ پیش کرنے کا اعلان تو کردیا ہے تاہم اس کا انحصار اپوزیشن کی جانب سے ملنے والے تعاون پر ہے، اگر تواپوزیشن جماعتوں نے پرویزخٹک حکومت کو جو صوبائی اسمبلی میں اکثریت بہرکیف کھو بیٹھی ہے، سہارا دے دیا تو حکومت آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کرے گی اور اس بات کے امکانات کافی حد تک روشن ہیں کہ اپوزیشن جماعتیں پی ٹی آئی حکومت کو سپورٹ دینگی یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں ایک ہفتہ گزرنے کے باوجودکوئی متفقہ لائحہ عمل وضع نہیں کرسکیں، اس بات کے امکانات بھی موجود ہیں کہ اپوزیشن جماعتیں بجٹ کے موقع پر ایوان میں احتجاج کرتے ہوئے واک آؤٹ کر جائیں۔
ان کی یہ حکمت عملی بھی حکومت کو سپورٹ فراہم کرنے کے ہی مترادف ہوگی جس کی بدولت حکومت ایوان میں موجود اپنے ارکان کی سپورٹ سے بجٹ کی منظوری کرالے گی، تاہم اپوزیشن کی حکمت عملی اب تک سامنے نہیں آسکی اور ہفتہ رواں کے دوران ہی یہ منظر عام پر آئے گی جس کے بعد صورت حال واضح ہو سکے گی۔
پرویزخٹک حکومت کو اس موقع پر جماعت اسلامی کی حمایت حاصل ہوگی، جماعت اسلامی اگرچہ صوبائی حکومت سے اپنی راہیں الگ کرنے کا اعلان کر چکی ہے اور یہ امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ جے یوآئی(ف) اورجماعت اسلامی دونوں ہی 27 اپریل کے ایم ایم اے سربراہی اجلاس میں مرکز اورخیبرپختونخوا میں حکومتوں سے الگ ہونے کا اعلان کریں گی لیکن ایسا نہیں ہو سکا اور یہ معاملہ 2مئی کے ورکرز کنونشن تک ٹال دیا گیا ہے جس کے بعد ہی یہ پارٹیاں حکومتوں سے الگ ہوں گی۔