عمران خان کے 11 نکات پذیرائی حاصل کرنے میں کامیاب
گزشتہ 7 برس میں تحریک انصاف نے 4 مرتبہ مینار پاکستان کی گراونڈ کو پرجوش کارکنوں سے بھرا
میاں نواز شریف نے عمران خان کے مینار پاکستان جلسہ کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''شہر لہور دا، بندہ پشور دا، ایجنڈا کسے ہور دا''۔ حقیقت حال کے مطابق تو گزشتہ روز کے جلسہ میں 90 فیصد شرکاء خالص پنجابی تھے، میاں صاحب کا طنزیہ بیانیہ بالفرض درست تسلیم کر بھی لیا جائے تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ عمران خان نے تو پشاور سے لاکھ، سوا لاکھ بندہ لاہور لا کر بڑا جلسہ کر دکھایا جبکہ گزشتہ 7 برس میں تحریک انصاف نے 4 مرتبہ مینار پاکستان کی گراونڈ کو پرجوش کارکنوں سے بھرا اور ہر دفعہ اپنا ہی ریکارڈ توڑ کر نیا ریکارڈ بنایا ہے۔
دوسری جانب33 برس سے لاہور پر اندھا دھند خرچ کرنے اور اسے اپنا سیاسی قلعہ قرار دینے اور جی ٹی روڈ پنجاب کے شہروں کو اپنی سیاسی جاگیر قرار دینے والی مسلم لیگ(ن) آج تک مینار پاکستان کے میدان میں پی ٹی آئی طرز کا ایک بھی جلسہ کیوں نہیں کر سکی ہے۔10 برس سے پنجاب میں شہباز شریف وزیر اعلی ہیں، انہوں نے پنجاب کے دیگر 35 اضلاع بالخصوص جنوبی پنجاب کے عوام کے حصہ کا فنڈ بھی لاہور میں میٹرو بس اور اورنج ٹرین جیسے میگا ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کردیا ۔گردوں کا بڑا ہسپتال بنایا تو وہ بھی لاہور میں بنایا۔
انڈر پاس، فلائی اوور، نئی سڑکیں بھی لاہور کی جھولی میں ڈالیں تو آخر شریف فیملی میں یہ ہمت آج تک کیوں پیدا نہیں ہو ئی کہ وہ مینار پاکستان پر ایک بڑا جلسہ کر کے دکھا دیں اور ثابت کر دیں کہ لاہور سمیت پنجاب ن لیگ کا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مینار پاکستان گراونڈ سے اٹھنے والی سونامی میں میاں نواز شریف کی مسلم لیگ بہہ چکی ہے، لاہور نے 4 مرتبہ عمران خان کو سند محبت دی ہے چاہے میاں صاحب اسے جعلی ڈگری کہتے رہیں۔
عمران خان نے مینار پاکستان جلسہ سے جو خطاب کیا وہ کئی لحاظ سے منفرد ہے۔ خطاب میں کئی دفعہ عمران خان جذباتی بھی ہوئے لیکن ان کے دو، ڈھائی گھنٹے کے خطاب کے دوران نہ صرف جلسہ میں شریک بلکہ ٹی وی چینلز پر خطاب دیکھنے والے افراد بھی یہ محسوس کر رہے تھے کہ عمران خان جو بھی کہہ رہا ہے دل کی گہرائیوں سے کہہ رہا ہے،کپتان نے شاید1996 سے ابتک جتنے بھی خطاب کیئے ہیں ۔
29 اپریل والا خطاب ''مدر آف آل سپیچز'' تھا۔ بہت مدلل، واضح، پر اثر اور مستقبل کے روڈ میپ کی شفاف نشاندہی کرنے والے اس خطاب میں کپتان نے جو 11 نکات پیش کیے ہیں وہ صرف تحریک انصاف کا انتخابی منشور ہی نہیں بلکہ پاکستانی قوم کی ڈیمانڈ بھی ہے۔ پاکستان زرعی ملک ہے لیکن زراعت اور کسان ہمیشہ نظر انداز ہوئے ہیں اور اس کی بنیادی ذمہ داری شریف برادران پر عائد کی جاتی رہی ہے جو تاجر طبقے کے زیادہ قریب قرار دیئے جاتے ہیں۔ تحریک انصاف کی زرعی پالیسی بھی جہانگیر خان ترین کی بنائی ہوئی ہے۔ جہانگیر ترین پاکستان میں ترقی پسند کاشتکار کی کامیاب مثال ہیں۔
انہوں نے لودھراں کی بنجر زمینوں پر آم کے شاندار باغ اگا کر دکھا دیئے، ان کی شوگرملز ملک کی واحد شوگرملز ہیں جن کے ذمہ کسانوں کی کوئی رقم واجب الادا نہیں ہے، اس برس جبکہ حکمران خاندان کی ملکیتی ملز سمیت دیگر شوگر ملز 180 کی بجائے نہایت کم قیمت پر کسانوں سے گنا خرید رہی ہیں۔ جہانگیر ترین اپنے علاقے کے کسانوں کو بلا سود قرضے دیکر ان کی لاگت کاشت کم کروانے اور پیداوار بڑھانے کیلئے بھی متحرک رہتے ہیں۔
گزشتہ روز جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے شوگر مل مالک ہونے کے باوجود جہانگیر ترین نے کسانوں سے زیادتی کرنے والے شوگر مل مالکان پر سخت الفاظ میں تنقید کی ہے۔ عمران خان کے خطاب کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنی حکومت بننے کی صورت میں ٹیکس ٹیرف میں کمی، سرمایہ داروں کیلئے فرینڈلی ماحول فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ بجلی، ڈیزل، گیس پر لگائے گئے موجودہ ٹیکسز کو بھی کم کرنے کا اعلان کیا ہے جو کہ کاروباری طبقہ کیلئے بہت اطمینان کا باعث ہے۔
جنوبی پنجاب کو انتظامی بنیادوں پر صوبہ بنانے کا اعلان کر کے عمران خان نے جنوبی پنجاب کے ووٹ بنک میں اپنے شئیر کو بڑھا لیا ہے۔ پاکستان پر موجود 27 ہزار ارب روپے کے قرضے اتارنے کا اعلان بادی النظر میں مشکل معلوم ہوتا ہے لیکن عمران خان جیسے شخص کیلئے نا ممکن نہیں ہے۔کپتان اپنے 11 نکات کو عملی شکل دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو یقینی طور پر ایک نیا پاکستان دکھائی دینے لگے گا۔
مینار پاکستان جلسہ نے حکمران جماعت کو مزید خوفزدہ کردیا ہے اور مسلم لیگ(ن) کی انتخابی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ مینار پاکستان جلسہ کی کامیابی کا کریڈٹ عمران خان نے صدر سنٹرل پنجاب عبدالعلیم خان اور شعیب صدیقی کو شاندار الفاظ میں اپنے خطاب کے دوران دے دیا ہے جبکہ مقررین کی ترتیب کے اعتبار سے بھی علیم خان کی پارٹی پوزیشن سب پر واضح ہو گئی ہے بالخصوص ''سیاپا گروپ'' پر تو بجلیاں گری ہوں گی کپتان کی بات سن کر۔ جلسے کی کامیابی میں سنٹرل پنجاب اور بالخصوص لاہور کے رہنماوں نے بھرپور محنت کی ہے لیکن چند ایک ایسے بھی ہیں جو لہو لگا کرشہیدوں میں شامل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان سے اپنی گاڑی کے سوا کوئی گاڑی نہیں بھری گئی ہے۔
کارکردگی کے حوالے سے سب کے نام لکھنا تو ممکن نہیں لیکن لاہور میں اعجاز ڈیال،ظہیر عباس کھوکھر، جمشید چیمہ،ملک کرامت کھوکھر، منشا سندھو، ڈاکٹر یاسمین راشد، میاں محمود الرشید، مراد راس، میاں اسلم اقبال، بلال بھٹی،فیاض بھٹی، امجد خان، شبیر سیال، عبدالکریم کلواڑ،بلال اسلم بھٹی، فیصل حاکم بھٹی، علی امتیاز وڑائچ، مہر واجد عظیم، میاں جاوید علی،یاسر گیلانی،خالد گجر ( رائے ونڈ)،نذیرچوہان، فرخ مون سمیت بعض دیگر رہنماوں کی کارکردگی نمایاں رہی ہے۔
خواجہ آصف کی نا اہلی کے بعد سیالکوٹ میں تحریک انصاف زیادہ پر جوش ہو چکی ہے ایسے میں عمر ڈار، عثمان ڈار، بریگیڈئیر(ر) اسلم گھمن، عظیم نوری گھمن، عنصر فاروق چوہدری، چوہدری امیر حسین،آصف باجوہ اولمپئین، گوجرانوالہ سے سہیل ظفر چیمہ، احسان اللہ ورک، شیخوپرہ سے سعید ورک سمیت دیگر اضلاع سے بھی اہم رہنماؤں نے قابل ذکر تعداد پر مشتمل قافلوں کے ساتھ جلسہ میں شرکت کی ہے،جگہ کی قلت کی وجہ سے سب کے نام لکھنا ممکن نہیں۔
تحریک انصاف کی ممکنہ حکومت کی تشکیل کے حوالے سے وزارت اعلی پنجاب کے امیدوار کے نام پر بڑی بات ہو رہی ہے۔ ایک مخصوص گروپ نے چوہدری محمد سرور کی بھرپور لابنگ کی اور چوہدری سرور اسی وجہ سے صوبائی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑنا چاہتے ہیں لیکن اب نئی صورتحال میں چوہدری محمد سرور تحریک انصاف کی جانب سے وزارت اعلی کے امیدوار کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں بلکہ باہر ہی نکلتے دکھائی دے رہے ہیں۔
اور شاہ محمود قریشی آئندہ وزیر اعلی پنجاب کے عہدے کیلئے ''ہارٹ فیورٹ'' قرار پا چکے ہیں انہیں عبدالعلیم خان کی حمایت بھی حاصل ہے۔جہانگیر ترین نا اہل نہ ہوتے تو بلا شرکت غیرے وہ تنہا امیدوار تصور کیئے جاتے تھے۔ ایک رپورٹر کی حیثیت سے میری رائے اور اطلاع کے مطابق مجھے تو کم سے کم ایک برس تک عام انتخابات ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔
دوسری جانب33 برس سے لاہور پر اندھا دھند خرچ کرنے اور اسے اپنا سیاسی قلعہ قرار دینے اور جی ٹی روڈ پنجاب کے شہروں کو اپنی سیاسی جاگیر قرار دینے والی مسلم لیگ(ن) آج تک مینار پاکستان کے میدان میں پی ٹی آئی طرز کا ایک بھی جلسہ کیوں نہیں کر سکی ہے۔10 برس سے پنجاب میں شہباز شریف وزیر اعلی ہیں، انہوں نے پنجاب کے دیگر 35 اضلاع بالخصوص جنوبی پنجاب کے عوام کے حصہ کا فنڈ بھی لاہور میں میٹرو بس اور اورنج ٹرین جیسے میگا ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کردیا ۔گردوں کا بڑا ہسپتال بنایا تو وہ بھی لاہور میں بنایا۔
انڈر پاس، فلائی اوور، نئی سڑکیں بھی لاہور کی جھولی میں ڈالیں تو آخر شریف فیملی میں یہ ہمت آج تک کیوں پیدا نہیں ہو ئی کہ وہ مینار پاکستان پر ایک بڑا جلسہ کر کے دکھا دیں اور ثابت کر دیں کہ لاہور سمیت پنجاب ن لیگ کا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مینار پاکستان گراونڈ سے اٹھنے والی سونامی میں میاں نواز شریف کی مسلم لیگ بہہ چکی ہے، لاہور نے 4 مرتبہ عمران خان کو سند محبت دی ہے چاہے میاں صاحب اسے جعلی ڈگری کہتے رہیں۔
عمران خان نے مینار پاکستان جلسہ سے جو خطاب کیا وہ کئی لحاظ سے منفرد ہے۔ خطاب میں کئی دفعہ عمران خان جذباتی بھی ہوئے لیکن ان کے دو، ڈھائی گھنٹے کے خطاب کے دوران نہ صرف جلسہ میں شریک بلکہ ٹی وی چینلز پر خطاب دیکھنے والے افراد بھی یہ محسوس کر رہے تھے کہ عمران خان جو بھی کہہ رہا ہے دل کی گہرائیوں سے کہہ رہا ہے،کپتان نے شاید1996 سے ابتک جتنے بھی خطاب کیئے ہیں ۔
29 اپریل والا خطاب ''مدر آف آل سپیچز'' تھا۔ بہت مدلل، واضح، پر اثر اور مستقبل کے روڈ میپ کی شفاف نشاندہی کرنے والے اس خطاب میں کپتان نے جو 11 نکات پیش کیے ہیں وہ صرف تحریک انصاف کا انتخابی منشور ہی نہیں بلکہ پاکستانی قوم کی ڈیمانڈ بھی ہے۔ پاکستان زرعی ملک ہے لیکن زراعت اور کسان ہمیشہ نظر انداز ہوئے ہیں اور اس کی بنیادی ذمہ داری شریف برادران پر عائد کی جاتی رہی ہے جو تاجر طبقے کے زیادہ قریب قرار دیئے جاتے ہیں۔ تحریک انصاف کی زرعی پالیسی بھی جہانگیر خان ترین کی بنائی ہوئی ہے۔ جہانگیر ترین پاکستان میں ترقی پسند کاشتکار کی کامیاب مثال ہیں۔
انہوں نے لودھراں کی بنجر زمینوں پر آم کے شاندار باغ اگا کر دکھا دیئے، ان کی شوگرملز ملک کی واحد شوگرملز ہیں جن کے ذمہ کسانوں کی کوئی رقم واجب الادا نہیں ہے، اس برس جبکہ حکمران خاندان کی ملکیتی ملز سمیت دیگر شوگر ملز 180 کی بجائے نہایت کم قیمت پر کسانوں سے گنا خرید رہی ہیں۔ جہانگیر ترین اپنے علاقے کے کسانوں کو بلا سود قرضے دیکر ان کی لاگت کاشت کم کروانے اور پیداوار بڑھانے کیلئے بھی متحرک رہتے ہیں۔
گزشتہ روز جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے شوگر مل مالک ہونے کے باوجود جہانگیر ترین نے کسانوں سے زیادتی کرنے والے شوگر مل مالکان پر سخت الفاظ میں تنقید کی ہے۔ عمران خان کے خطاب کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنی حکومت بننے کی صورت میں ٹیکس ٹیرف میں کمی، سرمایہ داروں کیلئے فرینڈلی ماحول فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ بجلی، ڈیزل، گیس پر لگائے گئے موجودہ ٹیکسز کو بھی کم کرنے کا اعلان کیا ہے جو کہ کاروباری طبقہ کیلئے بہت اطمینان کا باعث ہے۔
جنوبی پنجاب کو انتظامی بنیادوں پر صوبہ بنانے کا اعلان کر کے عمران خان نے جنوبی پنجاب کے ووٹ بنک میں اپنے شئیر کو بڑھا لیا ہے۔ پاکستان پر موجود 27 ہزار ارب روپے کے قرضے اتارنے کا اعلان بادی النظر میں مشکل معلوم ہوتا ہے لیکن عمران خان جیسے شخص کیلئے نا ممکن نہیں ہے۔کپتان اپنے 11 نکات کو عملی شکل دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو یقینی طور پر ایک نیا پاکستان دکھائی دینے لگے گا۔
مینار پاکستان جلسہ نے حکمران جماعت کو مزید خوفزدہ کردیا ہے اور مسلم لیگ(ن) کی انتخابی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ مینار پاکستان جلسہ کی کامیابی کا کریڈٹ عمران خان نے صدر سنٹرل پنجاب عبدالعلیم خان اور شعیب صدیقی کو شاندار الفاظ میں اپنے خطاب کے دوران دے دیا ہے جبکہ مقررین کی ترتیب کے اعتبار سے بھی علیم خان کی پارٹی پوزیشن سب پر واضح ہو گئی ہے بالخصوص ''سیاپا گروپ'' پر تو بجلیاں گری ہوں گی کپتان کی بات سن کر۔ جلسے کی کامیابی میں سنٹرل پنجاب اور بالخصوص لاہور کے رہنماوں نے بھرپور محنت کی ہے لیکن چند ایک ایسے بھی ہیں جو لہو لگا کرشہیدوں میں شامل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان سے اپنی گاڑی کے سوا کوئی گاڑی نہیں بھری گئی ہے۔
کارکردگی کے حوالے سے سب کے نام لکھنا تو ممکن نہیں لیکن لاہور میں اعجاز ڈیال،ظہیر عباس کھوکھر، جمشید چیمہ،ملک کرامت کھوکھر، منشا سندھو، ڈاکٹر یاسمین راشد، میاں محمود الرشید، مراد راس، میاں اسلم اقبال، بلال بھٹی،فیاض بھٹی، امجد خان، شبیر سیال، عبدالکریم کلواڑ،بلال اسلم بھٹی، فیصل حاکم بھٹی، علی امتیاز وڑائچ، مہر واجد عظیم، میاں جاوید علی،یاسر گیلانی،خالد گجر ( رائے ونڈ)،نذیرچوہان، فرخ مون سمیت بعض دیگر رہنماوں کی کارکردگی نمایاں رہی ہے۔
خواجہ آصف کی نا اہلی کے بعد سیالکوٹ میں تحریک انصاف زیادہ پر جوش ہو چکی ہے ایسے میں عمر ڈار، عثمان ڈار، بریگیڈئیر(ر) اسلم گھمن، عظیم نوری گھمن، عنصر فاروق چوہدری، چوہدری امیر حسین،آصف باجوہ اولمپئین، گوجرانوالہ سے سہیل ظفر چیمہ، احسان اللہ ورک، شیخوپرہ سے سعید ورک سمیت دیگر اضلاع سے بھی اہم رہنماؤں نے قابل ذکر تعداد پر مشتمل قافلوں کے ساتھ جلسہ میں شرکت کی ہے،جگہ کی قلت کی وجہ سے سب کے نام لکھنا ممکن نہیں۔
تحریک انصاف کی ممکنہ حکومت کی تشکیل کے حوالے سے وزارت اعلی پنجاب کے امیدوار کے نام پر بڑی بات ہو رہی ہے۔ ایک مخصوص گروپ نے چوہدری محمد سرور کی بھرپور لابنگ کی اور چوہدری سرور اسی وجہ سے صوبائی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑنا چاہتے ہیں لیکن اب نئی صورتحال میں چوہدری محمد سرور تحریک انصاف کی جانب سے وزارت اعلی کے امیدوار کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں بلکہ باہر ہی نکلتے دکھائی دے رہے ہیں۔
اور شاہ محمود قریشی آئندہ وزیر اعلی پنجاب کے عہدے کیلئے ''ہارٹ فیورٹ'' قرار پا چکے ہیں انہیں عبدالعلیم خان کی حمایت بھی حاصل ہے۔جہانگیر ترین نا اہل نہ ہوتے تو بلا شرکت غیرے وہ تنہا امیدوار تصور کیئے جاتے تھے۔ ایک رپورٹر کی حیثیت سے میری رائے اور اطلاع کے مطابق مجھے تو کم سے کم ایک برس تک عام انتخابات ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔