3 مئی آزادئ صحافت کا عالمی دن

آمریت ہو یا جمہوریت، ہر دور کے حاکموں نے صحافت کی آزادی کے حق کو دبانے کی ناکام کوششیں کی ہیں۔

پریس فریڈم ڈے منانے کا آغاز 1993 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے فیصلے کے بعد سے عمل میں آیا۔ فو؁و:انٹرنیٹ

تین مئی کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں آزادی صحافت کے عالمی دن ''ورلڈ پریس فریڈم ڈے'' کے طور پر منایاجاتا ہے جس کا مقصد پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی میں پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کو درپیش مشکلات، مسائل، اور صحافیوں کی زندگیوں کو درپیش خطرات سے متعلق دنیا کو آگاہ کرنا، آزادی صحافت پر حملوں سے بچاؤ کےلیے حکمت عملی مرتب کرنا، اور فرائض کی انجام دہی کے دوران قتل، زخمی یا متاثر ہونے والے صحافیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا ہے۔

دنیا بھر میں '' پریس فریڈم ڈے'' کے منانے کا آغاز 1993 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے فیصلے کے بعد سے عمل میں آیا۔ ہرسال اس دن کے موقع پر اقوام متحدہ کا ادارہ یونیسکو ایک بڑی تقریب منعقد کرتا ہے۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ورلڈ پریس فریڈم ڈے کے موقع پر صحافتی تنظیموں کے زیر اہتمام سیمینارز، ریلیوں اور مختلف تقاریب کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ صحافت بجا طور پر ریاست کا چوتھا ستون ہے، جو باقی تینوں ستونوں انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کو بھی طاقت مہیا کرتا ہے، جس سے ریاست کی امارت مضبوط بنیادوں پر استوار ہوتی ہے۔

صحافی عوامی مسائل اورانتظامی اداروں کے بارے میں اطلاعات فراہم کرتے اور سچ کی کھوج لگا کر اسے عوام تک پہنچاتے ہیں۔ بلکہ حکومت اور رعایا کے مابین پل کا کردار ادا کرتے ہیں، اور اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران کئی ایک لقمہ اجل بھی بن جاتے ہیں۔ صحافتی اداروں اور شخصیات کو ہر دور میں مختلف نوعیت کی پابندیوں کا سامنا رہا ہے، بہت سے ظالموں نے شعبہ صحافت سے وابستہ کارکنوں پر بدترین تشدد اور ظلم وجبر کرکے ان کی جانیں تک لینے سے گریز نہیں کیا۔

ہم خراج تحسین پیش کرتے ہیں صحافت سے وابستہ ایسی تمام شخصیات کو جنہوں نے اپنی ثابت قدمی سے جابر حکمرانوں کے تمام مکروہ عزائم کو ناکام بنایا۔ بلاشبہ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا وہ آئینہ ہے جس میں کرپٹ عناصر اپنا اصل چہرہ دیکھ کر خوفزدہ ہو جاتے ہیں، اور پھر اپنا عمل اور کردار درست کرنے کی بجائے آئینہ توڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔

پاکستان میں صحافی نہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں، بلکہ قبائلی سرداروں اور جاگیرداروں، مذہبی گروہوں اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے ہاتھوں بھی حبسِ بے جا میں رکھے گئے، زدوکوب کیے گئے اور مارے پیٹے گئے ہیں۔ آمریت ہو یا جمہوریت، ہر دور کے حاکموں نے صحافت کی آزادی کے حق کو دبانے کی ناکام کوششیں کی ہیں۔


بلاشبہ آزادی صحافت پر قفل لگانا یوں ہے کہ جیسے انسانی ذہن کی آزاد سوچ کے کھلے دریچوں کو بند کر نا۔ اگر ہم تاریخ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ماضی میں پسماندہ یا غریب ممالک کے لوگ جب ایک عرصے تک اپنی بدحالی میں مست رہے اور وہ اپنی غربت، جہالت، بیماریوں یا دیگر مسائل زندگی کو برداشت کرتے رہے تو وہاں خاص طور پر میڈیا ہی نے آ کر ان لوگوں کو فرسودہ خیالات سے آزاد کروانے میں اہم کردار ادا کیا، اور ان ممالک کی عوام میں ایسا شعور بیدار کیا کہ وہ بھی دوسرے ممالک کی طرح جدید سائنسی ترقی سے فائدہ اٹھا کر اپنا معیار زندگی کو بہتر بناسکیں۔

مارٹن لوتھر نے کہا تھا: ''اگر آپ دنیا کو بدلنا چاہتے ہیں تو اپنا قلم اٹھائیں اور لکھنا شروع کردیں۔'' اس وقت صحافت ہی ایک ایسا پیشہ ہے جس کے ذریعے آپ عوام کے مسائل اور اپنے نظریات دونوں کا پرچار کرسکتے ہیں، مگر یہ سفر اتنا آسان نہیں ہے جتنا لوگ اسے سمجھتے ہیں؛ اور خاص کر اس عہد میں جہاں ہر شے کا مقصد مال بنانا یا بٹورنا ہو۔

بلاشبہ صحافت ایک مشکل ترین شعبہ ہے، پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ تمام لوگ خراج تحسین کے مستحق ہیں جن کی بدولت عوام کو زندگی کے تمام شعبوں سے متعلق آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ بلاشبہ نیوز ایڈیٹنگ، پروف ریڈنگ، پیسٹنگ، کاپی میکنگ اور پرنٹنگ سمیت ہر ایک کام انتہائی محنت طلب ہوتا ہے۔ جب ساری دنیا سو رہی ہوتی ہے تب صحافی جاگ کر اپنی قلم چلاتے ہیں۔ اور جب ایک صحافی عوام کو آگاہی دینے کےلیے، پاکستان کی سلامتی کےلیے، معاشرے کے ناسوروں کو ان کے انجام تک پہنچانے کےلیے حقائق کو سامنے لانے کی کوشش کرتا ہے تو انہیں دھمکیاں دی جاتی ہیں، اس طرح انہیں جان کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔

مگر اس کے باوجود آج بھی نظریاتی صحافتی ادارے اور سنجیدہ فکر صحافی آزادی اظہار اور حرمت قلم کےلیے سربکف ہیں۔ پاکستان کی صحافی برادری نے ہمیشہ جمہوریت کی ترویج اوراستحکام کےلیے جدوجہد کی ہے، مگر خود صحافیوں کے تحفظ کےلیے کوئی موثر قانون نہیں بنایا جاسکا۔ پاکستان میں صحافی جتنی مشکلات میں کام کر رہے ہیں، اس کا اندازہ پوری دنیا میں ہونے والے سروے کی رپورٹس سے لگایا جاسکتا ہے۔

لمحہ فکریہ ہے کہ صحافیوں کی زندگیوں کو لاحق خطرات کے باوجود آخر ان کو تحفظ فراہم کرنے کےلیے سنجیدہ اقدامات کیوں نہیں کیے جاتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ حکومت صحافیوں کے تحفظ کےلیے جرنلسٹ سیفٹی لاء کے نفاذ کےلیے سنجیدہ کوششیں کرے، تاکہ صحافی ہر جگہ بلا خوف و خطر صحافتی امور سر انجام دے سکیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story