پان کا رشتہ بڑا ہی پیارا ہے

پان کی محبت میں کوئی ایوان میں جگالی کرتا پکڑا جائے تو اس کی سزا پان کو نہیں، پان کھانے والے کو ملنی چاہیے

بھئی جو بھی ہے! پان کی شان آج بھی برقرار ہے، بس انداز و اطوار بدل گئے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

PARIS:
سندھ اسمبلی میں جب صوبائی وزیر قانون کو پان کا شوق پورا کرنے پر جھاڑ پلا کر باہر کی راہ دکھائی گئی تو سوچا کہ کیوں نہ پان اور اس پر وقت، پیسہ اور جان نچھاور کرنے والوں کے بارے میں لکھا جائے۔

سیاست سے لگاؤ صرف صحافت تک ہے، باقی تو مختلف موضوعات پر قلم دوڑانا اچھا لگتا ہے۔

دل کا رشتہ ہو یا پان کا رشتہ، بڑا ہی پیارا ہوتا ہے، انسان خودبخود کھنچا چلا جاتا ہے۔ بچپن میں دادی جی کا پاندان ہمیشہ نشانے پر ہوتا تھا، گھروالوں سے چھپ چھپا کر اس میں دھری میٹھی سونف اور سکے اڑا لے جاتے۔ پان پہلے وقتوں میں اور شاید اب بھی شادی بیاہ کا ایک اہم جزو تصور کیا جاتا ہے۔

مثل مشہور ہے ''پان سے پتلا، چاند سے چکلا'' یعنی نہایت نازک اور خوبصورت پان کھلانا۔ منگنی کی رسم ادا کرتے وقت بھی پان کھلایا جاتا، اور نکاح کے فوری بعد دولہے کو پان کا بیڑا پیش کیا جاتا، جس میں سے وہ تھوڑا سا پان کاٹ کر کھالیتا اور باقی دلہن کو دیا جاتا۔ اس کا مقصد دولہا دلہن کے درمیان پیار و محبت پروان چڑھانا ہوتا۔ فلمی گانوں میں بھی ''پان'' نے خوب شہرت پائی؛ جیسے کہ ' کھائیکے پان بنارس والا، کھل جائے بند عقل کا تالا۔'

گھر آئے مہمان کو پان پیش کرنا خاطر تواضع کے زمرے میں آتا ہے۔ پان پیش کرنے کے طریقے بھی جداگانہ ہیں۔ کہیں اسے تکونی شکل میں لپیٹا جاتا ہے، کہیں گلوری بنا کر خاصدان میں لگایا جاتا ہے تو کہیں بیڑا بنتا ہے۔

ویسے پان چھالیہ ہے ہی کمال چیز، جو اسے ایک بار کھالے، وہ پیچھا چھڑ ا ہی نہیں سکتا، اور ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے پان چھالیہ گنگنا رہے ہوں: 'نہ چھڑا سکو گے دامن، نہ نظر بچا سکو گے۔' اسی بات پر پان سے متعلق مومن خاں مومن کا رنگِ جداگانہ دیکھیے:

مسی آلودہ لب پہ رنگِ پاں ہے
تماشا ہے تہہِ آتش دھواں ہے


کوئی پان کی خوشبو پر فدا ہے تو کسی کو منفرد رنگ بھا جاتا ہے۔ کوئی تیزی کا عاشق ہے تو کوئی میٹھے کے ڈھنگ جدا چاہتا ہے۔ غرض کہ تھکے ہارے مزدور سے لے کر سوٹڈ بوٹڈ شخص تک، ہر کوئی اس کےلیے دیوانہ ہے۔

دل کی شکل کا پان کا پتّا دل کے بڑے قریب ہوتا ہے؛ اور اس میں ایسی کشش ہوتی ہے کہ لوگ ان جگہوں پر کھنچے چلے جاتے ہیں جہاں پان ملتے ہیں۔

پان کے پتے کی خاطر بیان سے باہر ہے۔ ہر پتّا کیوڑے اور عرقِ گلاب سے مَلا جاتا تھا۔ 11 پتوں کے پان کا ایک شاہی بیڑا ہوتا تھا۔ چھالیہ صندل کے پانی میں ابالی جاتی تھی اور چونا زعفران کی خوشبو سے مہک اٹھتا تھا۔ مغلیہ سلطنت کا ہر بادشاہ پان کے لطف کا قائل تھا اور بادشاہ کے پان کا بیڑا اٹھاتے ہی ہر ضیافت اپنے اختتام کو پہنچتی تھی۔

امیر خسرو جیسا فارسی کا عظیم شاعر بھی پان کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکا۔ مطلع یہ ہے:

نادرہ بَرگے چوگُل دربوستاں
خوب ترین نعمتِ ہندوستاں


یعنی پان باغ میں پھول کی طرح ایک نہایت نادر قسم کا پتا ہوتا ہے۔

پان کے لغوی معنی برگِ تنبول، ناگر بیل ہیں۔ برگِ تنبول فارسی میں پان کو کہا جاتا ہے۔ فارسی کے ایک محاورے میں پان کو ''برگ سبز'' کے طور پر پیش کیا گیا۔

''برگ سبز است تحفۂ درویش'' یعنی سبز پتّا (پان) فقیر کا ہدیہ ہے۔

اس سے یہ بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ درویشوں کے ہاں بھی پان کاچلن پایا جاتا ہے۔


''پان اور ایمان پھیرے ہی سے اچھا رہتا ہے،'' یعنی پان الٹ پلٹ کرنے سے اور ایمان توبہ کرتے رہنے سے ہی اچھا رہتا ہے۔ ''جامع اللغات'' مطبوعہ لاہور میں اسی سلسلے میں ایک ضرب المثل موجود ہے جس کا مطلب ہے ''پرانا پان، نیا گھی اور پاک دامن عورت تب ملتی ہے جب خدا خوش ہو۔'' ویسے یہ تینوں چیزیں قسمت والوں ہی کو ملتی ہیں۔

مصحفی امروہوی نے بھی پان کو اپنے ایک شعر میں کچھ یوں بیان کیا ہے:

پان کھانے کی ادا ہے یہ تو اک عالم کو
خون رلادے گا مری جان دہن سرخ ترا


پان کی ویسے تو بیسیوں قسمیں ہیں۔ مختلف علاقوں میں مختلف اقسام اور مختلف سائز کے پان پیدا ہوتے ہیں، جو لذت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے بالکل الگ ہوتے ہیں: مگدھی، بنگلہ پان، مہوبا (وسط ہند)، بلہری، کانپری، سانچی، مدراسی، بنارسی اور جیسوار وغیرہ۔

پان اکیلا نہیں کھایا جاتا۔ اس کے اور بھی ساتھی ہیں جیسے چھالیہ، چونا، کتھا، الائچی، لونگ، زردہ، سونف اور گل قند وغیرہ۔ پان میٹھا ہو تو گل قند اور سادہ ہو تو صرف الائچی کے دانے۔ غرض اس کے بنانے میں اور ان اجزاء کو ملانے میں پان بنانے والے کا سلیقہ اور تجربہ شاملِ کار ہوتے ہیں۔ چونا زیادہ ہو تو زبان زخمی اور کتھا زیادہ ہو تو منہ کڑوا۔

مختلف دھاتوں سے بنے پاندان، خاصدان، پیک دان، ان پر چڑھانے والے ریشمی غلاف، چونے اور کتھے کی خوبصورت چھوٹی چھوٹی ڈبیاں اور چمچے، چھالیہ کترنے کےلیے مختلف شکل کے سروتے، پان رکھنے کے جیبی بٹوے، پان پیش کرنے کی خوبصورت طشتریاں غرض پان سے جڑی یہ صنائع بہت سے لوگوں کےلیے آمدنی کا ذریعہ بن گئے۔

کراچی میں چار طرح کے پان، یعنی میٹھا، سادہ خوشبو، راجا صاحب اور تمباکو پسند کیے جاتے ہیں جن کی قیمت 5 روپے سے 150 روپے تک ہوتی ہے۔

میٹھا پان: میٹھے کھوپرے، میٹھے بھورے قوام کے ساتھ ہوتا ہے، جو دیکھنے میں سوجی کے حلوے جیسا لگتا ہے۔ پان والا اس میں منٹ فلیور (پودینے کی خوشبو) اور سفید یا سرخ کریمی اجزاء کا اضافہ بھی کرسکتا ہے جسے کریم کہا جاتا ہے مگر وہ دیکھنے میں ویپورب جیسا ہوتا ہے۔ شان ایک بے رنگ میٹھا سیال ہے کہ جو پان کو میٹھی خوشبو دیتا ہے جبکہ اس میں ننھی چاندی کی گیندوں (خوشبو) کو بھی مہک بڑھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

سادہ خوشبو پان میں بھی یہ سب کچھ ہوتا ہے مگر اس میں میٹھا کھوپرا نہیں ہوتا۔

راجا صاحب پان مٹھاس کے بجائے خوشبو سے بھرپور ہوتا ہے، مگر اس میں سپاریوں کی انواع و اقسام شامل کی جاتی ہیں۔

تمباکو والا پان: ہر تمباکو کا اپنا منفرد ذائقہ اور خوشبو ہوتی ہے جیسے راجا جانی، شہزادی، ظہور، بابا، جانی واکر، مراد آبادی، ممتاز تمباکو وغیرہ۔ وہ پان جو متعدد اقسام کے تمباکو سے بھرا ہوتا ہے اسے مکس پتی کے نام سے جانا جاتا ہے۔

دادی جی کے پاندان سے کھاتے تھے ہم پان، پھر نیا زمانہ آیا اور... روایات سے ہٹ کر کئی طرح کے فینسی پان ملنے لگے جن میں انناس کے تازہ ٹکڑے، چاکلیٹ اور چیری ہوتی ہے، انہیں فیوژن پان کہتے ہیں۔

بھئی جو بھی ہے! پان کی شان آج بھی برقرار ہے، بس انداز و اطوار بدل گئے۔ گھروں سے گلی محلوں اور دکانوں سے ایوانوں تک پان کی دھوم ہے۔

پان کی محبت میں کوئی آفس ڈیکورم بھول جائے یا ایوان میں جگالی کرتا پکڑا جائے تو اس کی سزا پان کو نہیں، پان کھانے والوں کو ملنی چاہیے، جو پان کھانے کے آداب اور اپنی اوقات بھول گئے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story