وزارت اطلاعات کا خفیہ فنڈ آج سپریم کورٹ میں تفصیلات پیش کی جائینگی
11 اپریل کی سماعت میں 18 ادائیگیوں کو خفیہ رکھنے کی استدعا کی گئی تھی
وزارت اطلاعات حکومتی سیکرٹ فنڈ کے استعمال سے متعلق فہرست آج سپریم کورٹ میں پیش کرے گی۔
سابقہ دور حکومت میں وزارت اطلاعات اور دیگر کئی وزارتوں اور ڈیپارٹمنٹس نے اربوں روپے کے سیکرٹ فنڈز استعمال کئے اور سپریم کورٹ کے بار بار احکام کے باوجود ان فنڈز کے استعمال کو سامنے نہیں لایا گیا۔ 11 اپریل کی سماعت میں وزارت کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ وزارت اطلاعات کی تمام ادائیگیوں کی فہرست عام نہیں کی جاسکتی جبکہ انٹیلی جنس بیورو خفیہ فنڈز کی تفصیلات سپریم کورٹ کے سامنے پیش کرچکی ہے۔
اصول و ضوابط کے مطابق خفیہ فنڈز کا مقصد قومی سلامتی کیلئے ضروری معلومات کا حصول ہے اسے ایمرجنسیز اور حادثات کے حوالے سے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد حکومت واضح طور پر کہہ چکی ہے کہ قومی خزانے سے خرچ ہونے والے ہر پیسے کا آڈٹ ہوگا۔ بار بار کے عدالتی احکام اور تین ماہ گزر جانے کے باوجود وزارت نے گزشتہ5 سالوں کے دوران خفیہ فنڈز کے نام پر استعمال ہونے والے 4 ارب 70 کروڑ روپے کی تفصیلات عدالت کو فراہم نہیں کیں۔ مشرف دور میں اس مد میں کل رقم 6 ارب 86 کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔ فنڈز کا زیادہ حصہ وزارت آئی ٹی کو منتقل ہوا۔
خفیہ فنڈز کے دیگر وصول کنندگان میں وزارت داخلہ، وزارت کمیونیکیشن، وزارت خارجہ، نیب، اے ایس ایف اور ایف بی آر شامل ہیں۔ آڈیٹر جنرل کی طرف سے بار بار یاد دہانیوں کے باوجود ان وزارتوں اور ڈیپارٹمنٹس نے خفیہ فنڈز کی تفصیلات نہیں بتائیں۔ 11 مئی کی سماعت میں چار خفیہ فائلیں پیش کی گئیں اور وزارت اطلاعات کے ڈائریکٹر طاہر حسن نے کل 200 میں سے 18 ادائیگیوں کو خفیہ رکھنے کی استدعا کی تھی، آج حکومت سیکیورٹی وجوہات کی بناء پر کچھ معلومات کو نکال کر خفیہ اخراجات کی نظرثانی شدہ فہرست پیش کرے گی جس پر عدالت حتمی فیصلہ لے گی۔ عدالت 18 ادائیگیوں کو خفیہ رکھنے کے مطالبے کا بھی جائزہ لے گی اور وزارت کو اس بات کا دفاع کرنا ہوگا کہ ان معلومات کہ خفیہ رکھا جانا چاہیے۔ یاد رہے حامد میر، ابصار عالم اور اسد کھرل نے صحافیوں کی رقوم کی تقسیم کی تحقیقات کے حوالے سے درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔
سابقہ دور حکومت میں وزارت اطلاعات اور دیگر کئی وزارتوں اور ڈیپارٹمنٹس نے اربوں روپے کے سیکرٹ فنڈز استعمال کئے اور سپریم کورٹ کے بار بار احکام کے باوجود ان فنڈز کے استعمال کو سامنے نہیں لایا گیا۔ 11 اپریل کی سماعت میں وزارت کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ وزارت اطلاعات کی تمام ادائیگیوں کی فہرست عام نہیں کی جاسکتی جبکہ انٹیلی جنس بیورو خفیہ فنڈز کی تفصیلات سپریم کورٹ کے سامنے پیش کرچکی ہے۔
اصول و ضوابط کے مطابق خفیہ فنڈز کا مقصد قومی سلامتی کیلئے ضروری معلومات کا حصول ہے اسے ایمرجنسیز اور حادثات کے حوالے سے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد حکومت واضح طور پر کہہ چکی ہے کہ قومی خزانے سے خرچ ہونے والے ہر پیسے کا آڈٹ ہوگا۔ بار بار کے عدالتی احکام اور تین ماہ گزر جانے کے باوجود وزارت نے گزشتہ5 سالوں کے دوران خفیہ فنڈز کے نام پر استعمال ہونے والے 4 ارب 70 کروڑ روپے کی تفصیلات عدالت کو فراہم نہیں کیں۔ مشرف دور میں اس مد میں کل رقم 6 ارب 86 کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔ فنڈز کا زیادہ حصہ وزارت آئی ٹی کو منتقل ہوا۔
خفیہ فنڈز کے دیگر وصول کنندگان میں وزارت داخلہ، وزارت کمیونیکیشن، وزارت خارجہ، نیب، اے ایس ایف اور ایف بی آر شامل ہیں۔ آڈیٹر جنرل کی طرف سے بار بار یاد دہانیوں کے باوجود ان وزارتوں اور ڈیپارٹمنٹس نے خفیہ فنڈز کی تفصیلات نہیں بتائیں۔ 11 مئی کی سماعت میں چار خفیہ فائلیں پیش کی گئیں اور وزارت اطلاعات کے ڈائریکٹر طاہر حسن نے کل 200 میں سے 18 ادائیگیوں کو خفیہ رکھنے کی استدعا کی تھی، آج حکومت سیکیورٹی وجوہات کی بناء پر کچھ معلومات کو نکال کر خفیہ اخراجات کی نظرثانی شدہ فہرست پیش کرے گی جس پر عدالت حتمی فیصلہ لے گی۔ عدالت 18 ادائیگیوں کو خفیہ رکھنے کے مطالبے کا بھی جائزہ لے گی اور وزارت کو اس بات کا دفاع کرنا ہوگا کہ ان معلومات کہ خفیہ رکھا جانا چاہیے۔ یاد رہے حامد میر، ابصار عالم اور اسد کھرل نے صحافیوں کی رقوم کی تقسیم کی تحقیقات کے حوالے سے درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔