نقاب در نقاب چہرے

چہروں کی اس کتاب نے ہماری سماجی زندگی میں بھونچال برپا کر دیا۔


Shabnam Gul May 03, 2018
[email protected]

فیس بک کے بعد سماجی زندگی میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔ پاکستان میں چوالیس ملین لوگ ہیں جو فیس بک استعمال کرتے ہیں۔ پندرہ سے بیس ملین مرد جب کہ پانچ یا چھ ملین خواتین شامل ہیں جب کہ ٹین ایجرز اور نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد فیس بک کی رسیا ہے، اگر دیکھا جائے تو انٹرنیٹ کے استعمال کے بے شمار فوائد ہیں۔

تعلیمی، معلوماتی و معاشی و سائل کے نکتہ نگاہ سے یہ انٹرنیٹ کا مثبت پہلو ہے۔ بہت سے لوگ گھر بیٹھے روزگار حاصل کر سکتے ہیں۔ معلومات کے منفی و مثبت پہلو ہیں۔ بے جا معلومات فائدے کے بجائے نقصان کا سبب بنتی ہے۔ ذہن کو منتشر اور فرد کو اپنے اصلی مقصد سے ہٹا دیتی ہے۔ حد سے زیادہ معلومات ہتھیار سے زیادہ مہلک ثابت ہوتی ہے۔

چہروں کی اس کتاب نے ہماری سماجی زندگی میں بھونچال برپا کر دیا، چونکہ ہماری روایت منفی باتوں، شکایتوں و رویوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی ہیں۔ لہٰذا فیس بک نے یہ مقصد پورا کر دکھایا ہے۔ ہم اس وقت جو نقصانات اٹھا رہے ہیں وہ کچھ اس طرح سے ہیں:

وقت کا زیاں۔ وقت بہت قیمتی ہے۔ لیکن فیس بک کے زیادہ استعمال کی وجہ سے وقت کا بے دریغ زیاں ہو رہا ہے۔ اگر ایک دن میں 24 گھنٹے ہیں، ایک گھنٹے میں 60 منٹ تو ہمارے پاس پورے دن میں 1440 منٹ ہوتے ہیں۔ اگر آٹھ گھنٹے کام کے اوقات کے نکال دیں تو بھی ہمارے پاس کافی وقت ہوتا ہے دیگر کاموں کے لیے۔ حالت یہ ہے کہ تعلیمی اداروں، اسپتالوں، آفیسز اور گھروں میں روزانہ فیس بک گھنٹوں کے حساب سے استعمال کیا جاتا ہے۔

آپ یہ بات بھی بھول جاتے ہیں کہ آپ کی اصلی ذمے داری کیا ہے۔ تفریح کا تصور ہر معاشرے میں الگ ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں کام کے وقت کام اور تفریح کے وقت تفریح کا تصور ملتا ہے۔ دونوں کو علیحدہ کردیا جاتا ہے، مگر ہماری سماجی زندگی میں کام کے وقت تفریح کا عنصر شامل ہو چکا ہے۔ ایشیا، یورپ اور امریکا میں کام کے اوقات میں آپ ذاتی کام نہیں کرسکتے۔ کیونکہ یہ اخلاقی بدعنوانی ہے فقط مالی کرپشن نہیں ہوتی بلکہ یہ کرپشن مہذب طریقے سے بھی کی جاتی ہے۔ جسے اخلاقی بد عنوانی کا نام دیا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔ اگر ہم وقت کو منصوبہ بندی اور سچائی کے ساتھ کریں تو ہمارے کئی کام وقت پر ہوسکتے ہیں۔ ہماری ذاتی ذمے داری اہم ہونی چاہیے نہ کہ دکھاوا۔

فیس بک کی وجہ سے ذہنی بیماریوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ذہنی طور پر صحت مند شخص وہ ہے جو اپنے تمام ترکام وقت پر کرتا ہو۔ لوگ اس کی موجودگی میں خود کو اچھا اور محفوظ تصور کریں وہ وقت پر فیصلے کرنے کا عادی ہو۔ خوش و مطمئن زندگی گزارے، نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ میجر ڈپریشن کا شکار لوگ زیادہ فیس بک استعمال کرتے ہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ یہ بناوٹی دنیا مایوسی کی کیفیات کو مزید بڑھا دیتی ہے۔ یہ حسد، رقابت، نفرت و تعصب کو ہوا دیتی ہے۔ جھوٹ سے انسان کو وقتی تسکین حاصل ہو سکتی ہے مگر یہ وقتی خوشی دائمی نقصانات میں بدل جاتی ہے۔

فیس بک پر دوستیاں عداوتوں میں تبدیل ہو چکی ہیں ایک منفی مقابلے کا رجحان نظر آتا ہے۔ کیونکہ ہم لمحے لمحے کی خبر رکھتے ہیں۔ بچوں کی کامیابیاں ہوں یا سفر، تقریبات ہوں یا دیگر دلچسپیاں لمحہ لمحہ دوسروں کو خبر دی جاتی ہے حالانکہ بہت کم لوگ دوسروں کی کامیابیوں میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ہر لمحہ، ہر جذبہ، ہر تصویر یا کیفیت بتانے کی نہیں ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قیاس آرائیاں، ڈرامے، جھوٹ، واہمے ودیگر منفی رویے زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ بقول جم گینر کے کہ ''میں ہفتے کے آخر میں مینٹل آڈٹ کرتا ہوں تا کہ اندازہ لگا سکوں کہ میرا کیریئر اور ذاتی زندگی میں کس قدر توازن برقرار ہے۔''

مجھے بھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ فیس بک کے استعمال کرنے والوں کو خود احتسابی کے عمل سے گزرنا چاہیے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہم کب تک حقائق کا سامنا کرنے سے کتراتے رہیںگے اور فراریت کے تکلیف دہ راستوں پر بے مقصد آوارہ گردی کرتے رہیںگے۔

یہ حقیقت ہے کہ انسان فقط مادی اشیا سے دل نہیں بہلاسکتا۔ اسے اچھی زندگی گزارنے کے لیے اچھے اور مخلص دوست و رشتے دار درکار ہوتے ہیں۔ فیس بک کے بعد دوست بھی ایک دوسرے کی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہیں مگر وہ جو سامنے بیٹھ کر ایک دوسرے کے دکھ بانٹے جاتے تھے اس کا لطف ہی کچھ اور تھا۔ اب تو فیس بک پر اکثر لوگ خوبصورت، خوش، کامیاب، بہادر اور مثبت سوچ کے حامل دکھائی دیتے ہیں۔ لہٰذا بانٹنے کے لیے دکھ رہے کب ہیں۔ اب تو دکھوں کے بھی اشتہار نظر آتے ہیں۔ پہلے خوشیوں کا جشن منایا کرتے تھے اب دکھوں کا عذاب بھی مناتے ہیں۔ پہلے گھر کے فرد کا (خدانخواستہ) انتقال ہوتا تو کئی دن ہوش ٹھکانے نہیں لگتے دکھائی دیتا۔ اب تو عزیز کی موت سے دفن کرنے سوئم و چالیسویں تک اپ ڈیٹس ملتی رہتی ہیں۔

آج کل زیادہ تر لوگ ذاتی دشمنی پر اتر آتے ہیں۔ غیر مہذب زبان استعمال کی جاتی ہے اور خوب ایک دوسرے کو برا بھلا کہاجاتا ہے۔ اس برائی میں تمام لوگ حصہ لینا نہیں بھولتے۔

چہروں کے اس کتاب کے منفی رویے بے شمار ہیں۔ لوگ نقاب در نقاب اوڑھے ہوئے ملیںگے۔ محبت کرنے والے کم مگر نفرت کرنے والے بے شمار کیونکہ ہم نے اپنے ذہن میں معیار و نظریوں کے مختلف خانے بنا رکھے ہیں جو ان پر پورا نہیں اترتا اسے نظر انداز کردیاجاتا ہے۔ آج کل فیس بک نے نئے قوانین تیار کیے ہیں جنھیں کمیونٹی اسٹینڈرڈ کا نام دیا گیا ہے یعنی تشدد یا دھمکی پر مبنی مواد۔ جرائم کو ہوا دینے کی کوشش، نفرت انگیز مواد پوسٹ کرنا، تشدد کی تصاویر پوسٹ کرنا وغیرہ ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ ایسے لوگوں کے اکاؤنٹ بند کردیے جائیںگے۔

مارک زکر برگ نے آن لائن ڈیٹنگ کا نیا آپشن متعارف کروانے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فیس بک پر دو سو ملین لوگ ایسے ہیں جو کنوارے ہیں۔ جو اب اس سوشل ویب سائٹ کے ذریعے اپنے ساتھی کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ ڈیٹنگ ہوم پر جا کر ڈیٹنگ پروفائل کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے کے لیے بہت سی باتیں قابل قبول نہیں ہیں، مگر فیس بک اب ہماری ثقافت کا حصہ بنا جا رہاہے جو دیگر اخلاقی بد حالی کے ساتھ شادیوں و طلاق کا سبب بھی بن چکا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔