سفر امریکا کی ڈائری

اختر حمید خاں کی ڈائری 3 ستمبر 1969ء سے شروع ہوتی ہے۔ مقام پرنسٹن، امریکا ہے۔


Rafiuzzaman Zuberi May 03, 2018

ISLAMABAD: ''سفر امریکا کی ڈائری'' کے مصنف اختر حمید خاں کا تعارف فاروق احمد نے یوں کرایا ہے۔''اورنگی پائلٹ پروجیکٹ ان کا امتیازی نشان ہے۔ وہ انسان دوست، روشن خیال، سلطانی جمہور پر ایمان رکھنے والے روشن ضمیر انسان تھے۔ جو نہیں جانتے ان کے لیے جاننا لازم ہے کہ انسانیت کی نظر میں اختر حمید خاں کا مقام وہی ہے جو عبدالستار ایدھی اور ڈاکٹر ادیب رضوی کا ہے۔'' راشد اشرف نے اسے زندہ کتابوں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔

اختر حمید خاں کی ڈائری 3 ستمبر 1969ء سے شروع ہوتی ہے۔ مقام پرنسٹن، امریکا ہے۔ لکھتے ہیں ''8 اگست کو ڈھاکہ سے روانہ ہوکر کراچی پہنچا۔ تب سے برابر چھٹی منا رہا ہوں۔ اب بیس پچیس دن کے بعد تفریح سے جی اکتا گیا۔ پابندی کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔ نیا پروگرام بنا رہا ہوں۔ اس کی نوعیت کیا ہو۔ یہ پانچ مہینے کیوں کر گزاروں؟ پہلی ضرورت یہ ہے کہ صحت کو بہتر اور جسم کو مضبوط بناؤں ورنہ سب کچھ بے مزہ ہو جاتا ہے۔

ویسے اب بڑھاپے کا دور ہے۔ زندگی کے اہم کام تمام ہو چکے، اب تو محض مرنا باقی ہے جو کچھ سیکھا ہے اس کو سمجھنا اور سمجھانا ہے۔ میرا منصوبہ کہ علمی کام کروں شاید غلط ہے۔ بیشتر وقت تو غیر علمی مصروفیت میں تمام ہوا۔ علمی کام کے لیے برسوں کا مطالعہ اور غوروفکر شرط اول ہے۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ اپنا عملی مشغلہ جاری رکھوں اس طرح جتنا وقت ملے غنیمت ہے۔ مضمون بھی مخصوص نہیں ہونا چاہیے۔ اس دوران ناول پڑھنے چاہئیں۔ جدید دور کے تبصرے دیکھنے چاہئیں۔ نئی تحریکوں اور طالب علموں کی بغاوت سے واقف ہونا چاہیے۔''

اختر حمید خاں جب سابق مشرقی پاکستان میں کومیلا ورکس پراجیکٹ پر کام کر رہے تھے تو فورڈ فاؤنڈیشن کی طرف سے انھیں پرنسٹن یونیورسٹی میں ورکس پروگرام پر چھ لیکچر دینے اور اپنی مرضی کی ریسرچ کرنے کی پیشکش ہوئی تھی اور اسی غرض سے وہ امریکا آئے تھے اور ستمبر 69ء سے 30 فروری 70ء تک انھیں یونیورسٹی کی فیکلٹی کا ممبر رہنا تھا۔

پرنسٹن آتے وقت انھوں نے یہ طے کیا تھا کہ ساڑھے چار مہینے کے اس سفر امریکا میں وہ روزنامچہ لکھیں گے اور جو دیکھیں اور سنیں گے وہ سب لکھیں گے۔اختر حمید خاں کا پہلا لیکچر 28 اکتوبر کو ہوا۔ اس سے پہلے وہ آزاد تھے کہ لیکچروں کی تیاری کریں یا گھومتے پھریں، فلیڈیلفیا جائیں، بوسٹن جائیں، واشنگٹن یا نیویارک جائیں۔ اپنے پہلے لیکچر کا ذکر کرتے ہوئے وہ اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں۔ ''کئی دن سے اس کی تیاری تھی ایک قسم کی پریشانی تھی۔ معلوم نہیں اچھا ہو یا خراب۔ میرے پاس دس صفحے پر نوٹس لکھے ہوئے تھے۔ ڈیڑھ گھنٹے میں لیکچر ختم نہ کرسکا۔ مزید پندرہ منٹ بولتا رہا۔''

اختر حمید خاں کے اگلے چار لیکچر نومبر میں اور آخری چھٹا لیکچر 2 دسمبر کو ہوا۔ اس لیکچر میں پرنسٹن کے پروفیسر لوئس جو شروع ہی سے ان کے ساتھ کوآرڈینیٹر کی طرح تھے اور دوسرے کئی پروفیسر بھی موجود رہے۔ تین گھنٹے گفتگو ہوتی رہی بہت سوال کیے گئے۔ ان کے پرنسٹن یونیورسٹی آنے کا مشن پورا ہوگیا۔3 دسمبر کو روزنامچے میں اختر حمید لکھتے ہیں۔ ''صبح اٹھا تو چلنے کی تیاری میں لگ گیا۔ کپڑے دکان پر دھلنے کے لیے دیے۔ یونیورسٹی اسٹور میں اس مہینے کا بل ادا کیا۔ دفتر کے کمرے میں سے کتابیں اور کاغذات اکٹھے کرکے سیکریٹری کو دیے اور دفتر اور اسکول کے دروازے کی چابیاں واپس کیں۔ رخصت کی رسومات پوری ہوگئیں تو چائے بناکر پی اور ڈائری لکھی۔''

اختر حمید خاں نے اپنی ڈائری میں ہر روز کا احوال لکھا ہے اور جیساکہ انھوں نے ابتدا ہی میں طے کر لیا تھا، ہر بات جو دیکھی یا سنی لکھی ہے۔ عموماً ان کا روزنامچہ اس طرح شروع ہوتا کہ اس دن کتنے سویرے آنکھ کھلی، پھر کتنی ورزش کی، ناشتے میں کیا کھایا، کتنی دیر کتنی دور ٹہلنے گئے۔ دوپہر کیا کھایا، شام کہاں گزری، رات کب سوئے۔ دن میں کس سے ملے، کیا دیکھا اور کیا سنا۔ مثلاً 4 ستمبر کے روزنامچے میں لکھتے ہیں۔ ''ساڑھے چھ بجے اٹھا۔ ساڑھے سات بجے ٹہلنے نکلا۔ بازار میں ناشتہ کیا پھر آرتھر لوئس کے گھر تک گیا اور واپس آگیا۔ راستے میں ایک عمارت کے سامنے سے گزرا جس کے احاطے کی دیوار بہت اونچی ہے، لوہے کے کواڑ ہیں۔ دروازے کے دونوں طرف کھمبے ہیں اور ہر کھمبے کے اوپر پتھر کا ایک شیر گھٹنوں کے بل بیٹھا ہے۔

بائیں جانب والا شیر تو صاف ستھرا تھا لیکن دائیں جانب والے شیر کو سبز بیلوں نے ڈھک دیا تھا۔ بیلوں کے نیچے شیر کی وضع معلوم ہوتی تھی لیکن چہرہ یا جسم کا کوئی حصہ نظر نہیں آتا تھا۔ میں نے سوچا یہ شیر اپنی شیرنی کو برقعہ پہنا کر لے جا رہا ہے جیسے اس دن کراچی کے ایئرپورٹ پر ایک بزرگ اپنی اہلیہ کو ڈھانکے ہوئے ساتھ لے جا رہے تھے۔''

پرنسٹن یونیورسٹی کے بارے میں اختر حمید خاں اپنے ایک روزنامچے میں لکھتے ہیں۔ ''یہاں کا علمی ماحول بہت اچھا ہے۔ کتب خانوں میں خاموشی اور آرام ہے۔ کلاس کے کمرے روشن اور صاف ہیں۔ طالبعلم مستعد اور تن درست ہیں۔ استادوں کو مطالعے کے لیے فرصت ہے۔''

ایک دن ڈائری میں لکھتے ہیں۔ ''میں نے طے کیا ہے کہ آج کے دن سوچ بچار کروں گا۔ آج کہیں نہیں جاؤں گا۔ صرف اپنی حالت پر غور کروں گا۔ میں نے خود کو یاد دلایا کہ میری عمر کا بیشتر حصہ گزر چکا ہے اب مجھے لمبی چوڑی اسکیمیں نہیں بنانی چاہئیں۔ بوڑھوں کو مہینوں اور دنوں کا حساب کرنا چاہیے برسوں کا نہیں۔ میں نے سوچا مجھے اجنبی لوگوں کو چھوڑ کر اپنوں سے تعلق گہرا کرنا چاہیے، اپنے خاندان سے محبت کرنا چاہیے۔''

20 اکتوبر کو اختر حمید خاں واشنگٹن گئے۔ دوسرے روز پاکستان کے سابق وزیر خزانہ، شعیب صاحب سے ملنے ان کے دفتر گئے۔ روزنامچے میں لکھتے ہیں۔ ''شعیب صاحب عالمی بینک کے نائب صدر ہیں۔ ان کی سیکریٹری نے مجھے بٹھایا، نیویارک ٹائمز پڑھنے کو دیا۔ پانچ منٹ بعد شعیب صاحب بریف کیس لیے جلدی جلدی آئے۔ ان کے سر کے بال بالکل اڑ گئے ہیں۔ رنگ کالا ہوگیا ہے۔ ورزش اور پرہیز کرتے ہیں۔ انھوں نے قہوہ منگایا، خود پیا، مجھے دیا اور یہ کہہ کر کہ آج مصروفیت کا دن ہے، مجھے جانا ہے، اگلی دفعہ آؤ گے تو اطمینان سے باتیں ہوں گی، چلے گئے۔''

4 نومبر کو اختر حمید خاں کا دوسرا لیکچر تھا۔ 3 نومبر کا سارا دن فکر و پریشانی میں گزرا۔ نیویارک ٹائمز میں خبر تھی کہ ڈھاکہ میں بنگالیوں اور غیر بنگالیوں میں لڑائی ہوئی ہے۔ سات آدمی اب تک مارے جاچکے ہیں۔ بلوائیوں نے کاروں اور پٹرول پمپ کو آگ لگا دی ہے۔ اپنے روزنامچے میں لکھتے ہیں۔ ''ان فکروں میں اپنے لیکچر کی تیاری لغو معلوم ہونے لگی۔ مشرقی پاکستان برباد ہونے والا ہے اور میں ورکس پروگرام کی کہانی سنا رہا ہوں۔ ورکس پروگرام کی کیا حیثیت ہے۔ کیا پدی یا پدی کا شوربہ۔''

یکم دسمبر کے روزنامچے میں لکھتے ہیں۔ ''صبح بھی برف گر رہی تھی۔ سفید ریت سی چاروں طرف بکھری ہوئی تھی۔ موٹروں کی چھتوں پر برف کے ڈھیر تھے۔ دفتر جاتے ہوئے لمبا گشت کیا۔ کل میرا آخری لیکچر ہے۔ اس کے بعد آزاد ہو جاؤں گا لیکن آج میں خوش ہونے کی بجائے اداس ہوں۔ کسی کام کی تکمیل یا مقام سے وداع دراصل موت کی تکمیل اور وداع سے مشابہ ہے۔ دونوں موت کی چھوٹی بہنیں ہیں۔ میری زیست کے صرف تھوڑے دن باقی ہیں اور وہ تیزی سے گزر رہے ہیں۔''

15 جنوری 1970ء کو اختر حمید الدین نیویارک کے کینیڈی ایئرپورٹ سے وطن واپس جانے کے لیے لندن روانہ ہوئے۔ ان کا طیارہ سات بجے شام اڑا اور جب لندن پہنچا تو وہاں کے وقت کے مطابق صبح کے سات بج رہے تھے۔

اختر حمید خاں کی سفر امریکا کی ڈائری کا آخری صفحہ 21 جنوری کا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔ ''شام کو ایک چینی ریستوران میں کھانا کھایا۔ کمرے میں آکر شب خوابی کے کپڑے پہنے اور ہیٹر کے سامنے بیٹھ کر روزنامچہ لکھا۔ آج روزنامچے کا آخری اندراج ہے۔ ساڑھے چار مہینے سے یہ پابندی عائد تھی کہ جو دیکھوں اور سنوں اس کو قلم بند کروں۔ اسٹالن سیاسی قیدیوں کو ایسی کوٹھریوں میں رکھتا تھا جن میں دن رات بتی روشن رہتی تھی اور دروازے کے سوراخ سے ہر وقت قیدیوں کی نگرانی کی جاتی تھی۔

میری بھی ایک طرح سے یہی کیفیت تھی۔ میں ہر وقت اپنی نگرانی کرتا تھا۔ اب بتی کو بجھائے دیتا ہوں اور دروازے کے سوراخ سے جھانکنا بند کرتا ہوں۔ کچھ دن اپنی حماقتوں کا حساب نہیں رکھوں گا۔ یہ زمانہ عیش میں گزرا۔ جسم نے آرام پایا اور دماغ نے تفریح۔ بڑا اچھا ماحول تھا۔ کل میں یہاں لندن سے رخصت ہوجاؤں گا۔''

اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میرؔ

پھر ملیں گے اگر خدا لایا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں