الفاظ کو احتیاط سے برتا کیجیے
فلمی دنیا میں عام لوگوں کی زبان بولنے اور لکھنے والے بہت کم افراد ہوتے ہیں۔
KARACHI:
دنیاکے بہت سارے لوگ جو ہمیں اپنی خداداد صلاحیت اور محنت سے حیران کر دیتے ہیں، ان ہی میں سے ایک نامConnie Haham کا بھی ہے جن کی پرورش ٹیکساس میں ہوئی، اسپین میں رہائش اختیارکرنے کے بعد انھوں نے اپنی تعلیم بھی وہیں مکمل کی اور پھر فرانس میں اپنا گھر بنایا، جہاں انگریزی پڑھانے کے ساتھ پیرس کے رنگ برنگے ماحول سے بھی لطف اندوز ہوئیں، دنیا بھرکی فلمیں بھی دیکھیں اور آخر کار ہندی فلموں پر تحقیق شروع کر دی۔ ان کی پہلی کتاب Enchantment of the Mind کے نام سے دوہزار سولہ میں منظر عام پر آئی جو من موہن ڈیسائی کی فلموں سے متعلق تھی۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے آپ کو پیرس اور آسٹن میں مصروف رکھا جہاں وہ اردو اور ہندی کا مطالعہ کرتی رہیں۔
ان کی دوسری کتاب Show Me Your Words دوہزار سولہ میں چھپی جو انڈین فلم انڈسٹری کی لسانی ترقی سے متعلق تھی۔ اس کتاب کا آغاز اردو کے معروف شاعر فراق گورکھپوری کے ان الفاظ سے ہوتا ہے ''الفاظ کو احتیاط سے برتا کیجیے۔ ان میں جان ہوتی ہے۔'' بھارت میں اردو ہندی اور انگریزی زبانوں میں بننے والی فلمیں جس انداز سے جدید دور میں داخل ہوئیں اور پھر لسانی تجربے کرتے ہوئے پچھلے تیس سال تک پہنچنے کے بعد موجودہ دور میں داخل ہوئیں اس کا جائزہ لینے کے لیے مصنفہ نے انڈین فلم انڈسٹری سے جڑے اہم افراد سے بات چیت کی۔
انھوں نے اپنی کتاب میں جہاں فلم انڈسٹری سے جڑے بہت سارے لوگوں کی زندگی سے پردہ اٹھایا وہاں جاوید اختر، شبانہ اعظمی، جاوید صدیقی اور قادر خان کو بھی زندگی کے تلخ تجربات کے ساتھ اپنے چاہنے والوں کے سامنے لائیں۔قادرخان انڈین فلم انڈسٹری کا روشن ستارہ ہیں مگر ان کی زندگی انتہائی غربت میں پروان چڑھی، اس کے باوجود اپنی محنت اور جدو جہد سے انھوں نے فلمی دنیا میں جو نام پیدا کیا وہ بہت کم افراد کو نصیب ہوا۔ قادر خان کابل میں عبدالرحمن خان کے گھر پیدا ہوئے جو فارسی اور عربی کے استاد اور امام مسجد تھے اور ان کی والدہ اقبال بیگم کا تعلق پشین بلوچستان سے تھا۔
اوپر تلے تین بھائیوں کے انتقال کے بعد جب قادر خان پیدا ہوئے تو ان کی ماں نے کہا کہ میں اپنے بیٹے کو موت سے بچانے کے لیے یہاں سے کہیں اور چلی جاؤں گی جس کے بعد یہ گھرانہ ممبئی کی اس بدنام زمانہ کچی بستی میں جا کر آباد ہوا جہاں وہاں کے ''گینگ وار'' سے تعلق رکھنے والوں اور منشیات فروشوں کا قبضہ تھا۔ قادر خان کے ماں باپ غربت کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ نباہ نہ کر سکے اور ان میں علیحدگی ہوئی تو آٹھ سالہ قادر خان کی زندگی پر اس واقعے کا بہت اثر ہوا۔ وہ ممبئی کے ایک قبرستان میں جاکر دو قبروں کے درمیان بیٹھ جاتے اور اپنے آپ سے فلمی انداز میں طرح طرح کے سوالات کرتے۔ اپنے دور کے معروف ہدایت کار محبوب خان کی فلم ''روٹی'' میں اداکاری کرنیوالے اشرف خان ان دنوں ایک ڈراما ''عذرا وامق'' تیار کر رہے تھے جس کے لیے انھیں ایک ایسے لڑکے کی تلاش تھی جو ننھے شہزادے کا کردار ادا کر سکے۔
لوگوں نے انھیں بتایا کہ قبرستان میں دو قبروں کے درمیان بیٹھ کر ایک لڑکا فلمی ڈائیلاک بولتا رہتا ہے اس سے جا کر ملو شاید تمہارا کام بن جائے۔ اشرف خان رات کو ٹارچ لے کر قبرستان میں داخل ہوئے تو انھیں ڈائیلاگ بولنے کی آ واز آئی۔ قادر خان کو اپنے پاس بلا کر پوچھا کہ کیا بولتے رہتے ہو؟ قادر خان نے کہا جو اچھا لگتا ہے وہ بولتا رہتا ہوں۔ اشرف خان نے انھیں ڈرامے سے متعارف کروایا جو انتہائی کامیاب رہا اور پھر کامیابی کے دروازے ان پر کھلتے چلے گئے۔
اسی دوران قادر خان کے رشتے داروں نے ان کی ماں کی شادی ایک اور شخص سے کر دی جو اس پر تشدد کرتا اور گھر میں اکثر کھانے پینے کو بھی کچھ نہ ہوتا۔ سوتیلے باپ کے نفرت بھرے رویے کے ساتھ قادر خان نے جو زندگی بسر کی وہ کسی عذاب سے کم نہیں تھی، مگر انھوں نے مزدوری کے ساتھ تعلیم بھی جاری رکھی اور ماں کی دو وقت کی روٹی کے لیے طرح طرح کی مصیبتیں برداشت کیں۔
فلمی دنیا میں عام لوگوں کی زبان بولنے اور لکھنے والے بہت کم افراد ہوتے ہیں، مگر جو اس بات کو سمجھ لیتے ہیں وہ دیکھتے ہی دیکھتے شہرت اور کامیابی کے آسمان کو چھو لیتے ہیں۔ قادر خان میں بھی یہ فن پوری طرح موجود تھا۔ کافی عرصے تک تھٹیر میں کام کرنے کے بعد جب انھیں فلم انڈسٹری کے لیے لکھنے اور کام کرنے کا موقع ملا تو وہ راتوں رات ایک بڑے لکھاری اور اداکار بن کر لوگوں کے سامنے آئے۔ سعادت حسن منٹو سے متاثر قادر خان کا کہنا ہے کہ کوئی بھی بڑی بات آسان الفاظ میں اور عام لوگوں کی زبان میں بیان کرنیوالا لکھاری ہی سب سے بڑا لکھاری ہوتا ہے۔ 1977ء میں''امر، اکبر انتھونی'' کے لیے ڈائیلاگ لکھنے والے قادر خان اپنے اسی انداز کی وجہ سے من موہن ڈیسائی کے دل میں اتر گئے اور انھوں نے پہلی فلم کا اسکرپٹ لکھنے پر قادر خان کو ایک لاکھ اکیس ہزار روپے پیش کیے جو اس دور میں بہت بڑی رقم تھی۔
وقت کے ساتھ کسی بھی زبان اور بول چال میں جو تبدیلیاں اور ترقی ہوتی ہے اس سے کوئی بھی نہیں بچ سکتا۔ انڈین فلم انڈسٹری میں زبان کی تبدیلی و ترقی کا بھی یہی دور تھا جس سے بہت سارے لوگوں نے اختلاف بھی کیا۔ اس سے قبل فلم انڈسٹری کو اپنے قلم سے اعزاز بخشنے والے، شکیل بدایونی، ساحر لدھیانوی، کیفی اعظمی، جانثار اختر، علی سردار جعفری، حسرت جے پوری، مجروح سلطان پوری، ندا فاضلی، گلزار، راجا مہدی علی خان، خواجہ احمد عباس، کمال امروہوی، راجندر سنگھ بیدی اور اختر الایمان کے گیت اور کہانیاں فلم انڈسٹری میں جو روایتی ادبی، سماجی اور معاشرتی رکھ رکھاؤ لیے چل رہی تھیں، ان میں استعمال ہونے والی زبان میں اچانک تبدیلی آئی اور اسی تبدیلی کے زیر اثر قادر خان کی لکھی ہوئی آنٹی نمبر ون، بھائی، ہنو مان، یارانہ اور قلی جیسی فلموں کا نیادور شروع ہوا۔
قادر خان نے فلم انڈسٹری کو تیس سال دیے کروڑوں روپے کماکر غربت کو شکست دی اور موجودہ دور میں شدت سے آنیوالی تبدیلی کو خوش آمدید کہتے ہوئے فلم انڈسٹری سے الگ ہو کر کینیڈا جا بسے۔ قادرخان کی زندگی جہاں محنت اور جدوجہد کا راستہ دکھاتی ہے وہاں کونی ہام کی مختلف زبانوں سے محبت بھی ہمیں دنیا بھر کے انسانوں سے بھائی چارے کا سبق دیتی ہے۔ لگ بھگ ایک سال قبل بھارت میں قادر خان کے چاہنے والوں نے ان کی موت کی خبر سنی تو ان پر سکتہ طاری ہو گیا مگر یہ خبر جھوٹی نکلی تو سب نے سکھ کا سانس لیا۔ قادر خان گھٹنوں میں تکلیف اور یاداشت کی کمزوری کی وجہ سے علاج کروانے کے لیے اچانک کینیڈا میں مقیم اپنے بیٹے کے پاس چلے گئے تھے اور اب تک وہیں مقیم ہیں۔