’’جمہوریت کے دس سال‘‘

گزشتہ دس سال میں ایٹمی طاقت اور 22 کروڑ آبادی والے ملک پاکستان پر 2منتخب مگر کرپٹ ترین حکومتیں براجمان رہیں۔


[email protected]

دنیا بھر کے میڈیا میں جہاں بھی پاکستان کا نام آئے، دل کی دھڑکن بلاوجہ تیز ہو جاتی ہے کہ اﷲ خیر کرے، کیوں جب سے پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا ساتھ دیا ہے تب سے پاکستان عالمی خبروں کی زینت ہے۔

ایک وقت تو ایسا تھا کہ دنیا کے بڑے بڑے تمام میڈیا گروپس میں پاکستان کی خبروں پر نظر رکھنے کے لیے الگ ''ڈیسک'' بنا دیے گئے تھے، جہاں سے پاکستان کا چہرہ مسخ کرنے کے لیے خبریں شایع یا آن ائیر کر دی جاتی تھیں، لیکن جوں جوں پاکستان میں دہشتگردی کم ہوتی گئی عالمی ذرایع ابلاغ کی دلچسپی بھی کم ہوتی گئی۔

لیکن نیویارک ٹائمز، لندن ٹائمزاور یورپ کے بڑے اخبارات میں آج بھی پاکستان کی سیاست کے حوالے سے اداریے اور مضامین شایع ہوتے رہتے ہیں۔ ابھی چند دن پہلے جنوبی ایشیائی ممالک کی سیاست پر خاص نظر رکھنے والے جرمن صحافی سائمن ٹیمپلر کے ایک آرٹیکل پرنظر پڑی، جس کا عنوان ''پاکستان میں جمہوریت کے تباہ کن دس سال'' اس مضمون میں سے چند پیراگراف ملاحظہ فرمائیں۔

مصنف لکھتا ہے کہ ''گزشتہ دس سال میں ایٹمی طاقت اور 22 کروڑ آبادی والے ملک پاکستان پر 2منتخب مگر کرپٹ ترین حکومتیں براجمان رہیں۔ یہ دونوں حکومتیں مغربی ''ڈیل''کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں جب 2006ء میں جنرل مشرف نے امریکی و یورپی دباؤ میں آکر ''این آر او'' جیسے معاہدے کو قانونی حیثیت بخشی جس سے تمام سیاستدانوں کی سابقہ کرپشن اور گناہ معاف کر دیے گئے۔

اس کے بعد ''جلاوطن''سیاستدان پاکستان آئے، بینظیر بھٹو کو 2007ء کے آخر میں قتل کر دیا گیا...جن کے بعد اُن کا شوہر اقتدار میں آگیا جو مغرب کے ساتھ اُسی ڈیل کا نتیجہ تھا جس کے مطابق آرمی کو پیچھے دھکیلنا اور اس کی طاقت کو کم کرنا تھا۔ زرداری کا اقتدار میں آنا تھا کہ سیاستدانوں، بیوروکریسی اور کرپٹ افراد کے لیے کرپشن کے دروازے کھل گئے۔ زرداری دور کے دوران ''ڈیل'' کے مطابق نواز شریف نے چپ سادھے رکھی اور زرداری کو مدت پوری کرنے دی، کیوں کہ اسے علم تھا کہ معاہدے کے مطابق اگلی باری اُن کی ہے۔

خیر جیسے تیسے کرکے 2013ء میں نواز شریف کی باری بھی آگئی۔ اس کے بعد اسی دور حکومت میں طارق فاطمی جیسے لوگوں کو سیکریٹری فارن افئیرز لگا کر ایک بار پھر امریکا کو خوش کیا گیا، نیوز لیکس منظر عام پر آئی، جس کے بعد ان حکمرانوں کا کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہو گیا۔ پھر پاناما لیکس آگئیں جس سے دنیا بھر کے لیڈروں کی چھپی ہوئی رقوم عیاں ہوئیں اور ساتھ ہی شریف خاندان کے عروج کا دھڑن تختہ ہو گیا۔معاملہ عدالتوں میں آیا تو عدالتوں نے نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا۔گزشتہ 10سال عوام کے لیے اس لیے بدترین ثابت ہوئے کہ سول سروس سٹرکچر کو تباہ کر دیا، اقرباء پروری عروج پر رہی، پنجاب میں خاص طور پرمن پسند لوگوں کو اوپر لایا گیا۔

المختصر کہ گزشتہ دس سال میں عوام ایک طرف رہے اور مختلف معاملات ایک طرف رہے، نہ تو کسی نے تعلیم پر توجہ دی، نہ صحت پر اور نہ ہی رولز آف لاء پر بلکہ غیر ضروری پراجیکٹس پر پیسے خرچ کر کے کمیشن بنایا جاتا رہا جس سے ملک کھربوں ڈالر کے قرضے تلے دب گیا، سوال یہ ہے کہ حکومت تو ختم ہونے کو ہے مگر عوام کے ان زخموں پر مرہم کون رکھے گا جو اسے دس سال تک لگائے جاتے رہے۔''

مذکورہ بالا تحریر پڑھی تو ڈیل ڈیل کھیلنے والے ان سیاستدانوں پر حقیقت مزید عیاں ہوگئی، چونکہ سائمن ٹیمپلر جنوبی ایشیائی ممالک پر کڑی نظر رکھنے والے لکھاری ہیں، یہ وہ لکھاری ہیں جنہوںنے سب سے پہلے سعودی ولی عہد شاہ سلمان کے اقدامات پر کڑی تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ سعودی شہنشاہت بہت سے غلط فیصلے کر رہی ہے جس سے اُس کے خاندان کا زوال شروع ہو گیا ہے۔ سائمن نے پاکستان کے دس سال کا جو نقشہ کھینچا ہے اس کے بارے میں شاید پاکستانیوں کو بھی علم نہ ہو، لیکن سچائی یہی ہے کہ ہم جس جمہوریت کو روتے رہتے ہیں وہ حقیقت میں جمہوریت نہیں ''ڈیلز '' کا شاخسانہ ہوتی ہے۔بقول شاعر

شاہ بکتے ہیں ،فقیر بکتے ہیں

یاں صغیر و کبیر بکتے ہیں

کچھ سرعام،کچھ پس دیوار

اس شہر میں ضمیر بکتے ہیں

آج الیکشن سر پر ہیں 12کروڑ ووٹرز نے ایک بار پھر اگلے پانچ سال کے لیے اپنے نمایندوں کو منتخب کرنا ہے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ سازشوں کے تحت کیا یہی حکمران دوبارہ آتے ہیں یا کوئی نئی قیادت پاکستان کا مقدر بنتی ہے۔ ہمیں اپنی مریضانہ سوچ اور رویوں کو ری وزٹ کرنا ہوگا،گزشتہ 70سالوں میں جو مسائل ہم نے پال لیے ہیں وہ ہمیں ہی ختم کرنا ہوں گے۔

گورے نے تو 90سالہ راج میں ''رعایا'' کو ریلوے سے لے کر نہری نظام تک، زرعی کالجوں سے لے کر میڈیکل کالجوں تک، نئے شہروں سے لے کر لا اینڈ آرڈر تک، عدالتی نظام سے لے کر میرٹ تک جانے کیا کیا کچھ دیا جب کہ ان حکمرانوں نے 70سال میں جو کچھ کیا، وہ سامنے ہے اس لیے ڈھیٹوں کی طرح ٹویٹس سے باہر نکل کر اپنے اپنے گریبانوں کے اندر جھانکنا پڑے گا،کیوں کہ یہ انتہائی مکاری سے سسٹم کے ریشوں، بافتوں اور ڈی این اے میں گھس بیٹھے جو بدترین جمہوریت دشمنی ہے۔

جب تک ان سے چھٹکارا نہیں پایا جاتا ملک میں جینوئن جمہوریت نہیں آسکتی ہے اور ہم انھیں جعلی جمہوریت دانوں کے گرداب میں پھنسے رہ جائیں گے! اور اگلے دس سالوں میں بھی ہم پچھتا رہے ہوں گے جب ملک کا قرض اس سے بھی کئی گنا بڑھ چکا ہوگا!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں