رات گزری تھی کہ پھر رات آئی

کیا عالمی یوم مزدور پر ہم ایک دن سکون سے انھیں گزارنے کی اجازت دے پاتے ہیں۔

''مزدورکا پسینہ خشک ہونے سے بیشتر اس کی مزدوری ادا کر دی جائے'' یہ وہ حکم ہے سرورعالمﷺ نے ہم مسلمانوں کو دیا، ہم اس حدیث پر کتنا عمل کرتے ہیں بلکہ اکثر اجرت کی رقم بھی ہضم کرجاتے ہیں، سیکڑوں گھروں، ہوٹلوں، دکانوں میں چھوٹے چھوٹے ہاتھ اپنی بساط سے بڑھ کرکام کرتے ہیں۔

کیا عالمی یوم مزدور پر ہم ایک دن سکون سے انھیں گزارنے کی اجازت دے پاتے ہیں۔ یہ وہ سوال ہے جو ہمیں اپنے آپ سے پوچھنے کی ضرورت ہے۔ یکم مئی وہ تہوار ہے جو ساری دنیا کے مزدور ایک ساتھ مناتے ہیں یہ ان لو گوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کی ایک چھوٹی سی کوشش ہے جنھوں نے مزدوروں کی زندگی بہتر بنانے کے لیے اپنی زندگی کو خون سے رنگی داستان بنا دیا۔

1888ء کو شکاگو کے جوشیلے انقلابی مزدوروں نے اپنے حقوق کے لیے مکمل ہڑتال کی، یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر پاک وہند کے باسی اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے اور دوسر ی جانب یورپ میں نئی صنعتیں، تعلیمی ادارے قائم ہو رہے تھے، کارخانوں کے جال بچھائے جا رہے تھے، صنعتی ترقی کے لیے پرانے انجن کی جگہ مشینی قوتیں عمل میں آ رہی تھیں، نئے جہاں آباد کیے جا رہے تھے، اشرافیہ طبقہ اپنی بقاء کی تنظیم نو کر رہا تھا لیکن! ان سب میں ہمیشہ کی طرح جو طبقہ اپنے حقوق کھو رہا تھا، دن رات محنت کے باوجود اسے پیٹ بھر روٹی نصیب نہ تھی وہ مزدور تھا جو دن بدن بدحالی کی جانب بڑھ رہا تھا، سرمایہ دار اپنی تجوریاں بھرنے کے لیے مزدوروں کے حقوق کو پامال کرنے میں مصروف عمل تھے۔

دوسری جانب کارل مارکس اور فریڈرک اینگلزکی تحریریں مزدوروں میں اپنے حقوق کا شعور بیدارکر رہی تھیں، ان کے حقوق غضب کرنے والے سرمایہ دار اور حکومتی اراکین کے خلاف مزدوروں میں نفرتیں اور اشتعال بڑھتا جا رہا تھا۔ انھیں اس بات کا بھی غصہ تھا کہ دن رات کی محنت کے باوجود وہ اپنے خاندان کی اشیائے ضرورت خریدنے سے بھی قاصر تھے۔

ان حالات میں شکا گوکے جرات مند مزدوروں نے سر پرکفن باندھا، اس مثال کے مصداق کہ ''ابھی نہیں توکبھی نہیں'' ان مزدوروں نے پہلی مکمل ہڑتال کی اور جلوس کی شکل میں شکاگو کی اہم شاہراہ کی جا نب رواں ہوئے، اینگلز نے ایک عظیم فقرہ ''دنیا کے مزدوروں ایک ہوجاؤ'' کا نعرہ دیا۔ مزدوروں نے اسے گرہ میں باندھ لیا اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے کا عزم کیا مگر حکمرانوں سرمایہ داروں کو ان کی یکجہتی ایک آنکھ نہ بھائی انھوں نے نہتے مزدوروں پرگولیوں کی بوچھاڑ کردی۔

محنت کش ہاتھوں میں ہاتھ تھامے پر عزم رہے، سفید پرچم خون سے سرخ ہوا، اسی سرخ رنگ پرچم کو مزدوروں نے اپنا رنگ بنا لیا۔ عہد کیا جب تک ان کے مطالبات پورے نہیں ہو جاتے وہ کام نہیں کریں گے، اپنے ساتھیوں کی جانوں کے نذرانے کو یوں ضایع نہیں ہونے دیں گے۔

آخرکار سرمایہ داروں اور حکومت وقت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے مزدوروں کے جائز مطالبات جو صرف یہ کہ ان کے آٹھ گھنٹے کے اوقات کار کو تسلیم کیا جائے، اس سے زائد کام کروانے کا اختیار کسی مل مالک یا سرمایہ کار کو نہیں ہو گا۔ آج جو اوقات کار آٹھ گھنٹے ساری دنیا میں رائج ہے، شکاگو کے ان محنت کش مزدوروں کے مرہون منت ہے جنھوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے مل مالکان اور سرمایہ داروں کو یہ سوچنے پر مجبورکیا کہ ان کے کارخانوں کو چلانے والے ملا زمین کا بھی کچھ حق ہے۔


کا رل مارکس کے بقول ''ہر وہ شخص جو اپنی محنت بیچتا ہے وہ مزدور ہے جو یہ محنت خریدتا ہے وہ سر مایہ دار اوراستحصالی ہے'' مزدور طبقہ شروع دن سے معاشی استحصال کا شکار ہے ایک مزدور اور سرمایہ کارکا رشتہ روح اور جسم کے مترادف ہے مگر دنیا میں بہت کم ایسے ادارے ہوں گے، جہاں مزدورکو ان کے کام کے مطابق مراعات، تنخواہ، سہولتیں اور بہتر ماحول دیا جاتا ہے اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ قیام پاکستا ن کے بعد مزدوروںکی آج تیسری نسل بھی مزدور ہی ہے۔

نسلوں کے اس سفر میں دادا فیکٹری مزدورتھا، باپ کان کن اور اب بیٹا گاڑی میکینک ہے۔ پاکستان میںعوام کو تو انائی کے بحران نے بھی بیروزگارکر دیا ہے، لوڈ شیڈنگ نے مستقل بنیادوں پر کام کرنے والوں کو نہیں بخشا پھر ان دیہا ڑی مزدوروں کو کام کہاں سے ملے گا۔

اس وقت مزدور طبقہ اور ان کے خاندان سخت کسمپرسی کا شکار ہیں۔ آج کے تناظر میں دیکھا جائے تو پوری دنیا مالیاتی بحران کا شکار نظر آتی ہے، ایک طرف سرمایہ دار طبقہ عالمی معاشی زوال کے سبب دیوالیہ ہو رہے ہیں تو دوسری طرف اسی سبب مزدوروں کو بیروزگاری، سہولیات اور پینشنوں میں کٹوتی جیسے مسائل کا سامنا بھی ہے۔

دوسرے الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ تمام معاشی بحران کا بوجھ محنت کش طبقہ کو ہی برداشت کر نا پڑ رہا ہے۔ اپنی تاریخ کی سو سالہ جدوجہد اور قربانیوں کے باوجود آج تک مزدور طبقے کے حالات بہتر نہیں ہو سکے، اس ناکامی کی کئی وجوہات میں خود ٹریڈ یونین اور ان کی روایتی پارٹیاں بھی شامل ہیں۔

کال مارکس کے نزدیک سب سے اہم چیز معیشت ہے یہی وہ بنیاد ہے جس کے اوپر انسان کی اخلا قی ومذہبی تصورات اس کے تمدن علوم و فنون کی بنیادکھڑی ہے۔ مارکس کے خیال میں انسان کو سب سے پہلی فکر غذا حاصل کرنے کی ہوتی ہے۔ اس لیے سماجی انقلاب میں سب سے بڑا ہاتھ ان تبدیلیوں کا ہوتا ہے جو پیداوار اور دولت کے تبادلے سے پید ا ہوتی ہیں اور یہ ہم سب جانتے ہیں کہ پیدا وار بڑھانے کا واحد ذریعہ افرادی قوت ہے، جب تک ان کے حالات زندگی بہتر نہیں ہوں، ان کی جدوجہد جاری رہے گی، دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ مزدورطبقے کے مسائل کبھی بھی حکمراں سرمایہ دار طبقہ حل نہیں کر سکا ہے، اسے مزدوروں نے انقلابی اجتماعی کوششوں سے حل کیا ہے۔

مشہور انقلابی کامریڈ روز الیگزمبرگ نے سچ کہا ہے کہ ''یوم مئی اس وقت تک منایا جاتا رہے گا، جبتک محنت کش کی اپنے حقوق کے لیے سرمایہ داروں کے خلا ف جدوجہد جاری رہے گی اور اگر محنت کش طبقہ عالمی سطح پر اپنے حقوق حاصل کرنے میں کامیاب ہو بھی گیا تو شائد اس کے بعد اس جدوجہد کرنے والے شہیدوں کی یاد میں یوم مئی منایا جاتا رہے گا، لیکن میرے ملک کے مزدوروںکی زندگیوں میں خوشحالی کا سورج کب طلوع ہوگا، جو ان کی زندگیوں میں چھائی تاریکیوں کو مٹا سکے، کہ بقول احمداشفاقؔ ؔؔ

صبح ہوتی نہیں دیکھی ہم نے

رات گزری تھی کہ پھر رات آئی
Load Next Story