قوم کی حالت
جو حکمران آج ووٹ کو عزت دینے کی بات کررہے ہیں وہ ووٹرکو جب تک عزت نہیں دیں گے۔
CHARLOTTE:
وطن عزیز میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت اپنی مدت کے آخری مراحل سے گزر رہی ہے۔ اس حکومت نے اپنا چھٹا اور آخری بجٹ بھی پیش کردیا ہے اس سے قبل کسی حکومت کو چھ بجٹ پیش کرنے کا اعزاز حاصل نہیں ہوا۔ لہٰذا یہ ایک ریکارڈ ہے لیکن یہ صرف اعداد و شمار کی حد تک ہی ریکارڈ ہے کسی معاشی ترقی یا اقتصادی اہداف کے حصول کے اعتبار سے کسی قسم کا ریکارڈ نہیں۔
کاش حکومت نے اپنے آغاز میں جو وعدے اور دعوے کیے تھے اور ملک کو معاشی طاقت بنانے کے جو خواب دکھائے تھے وہ حکومت کے ان آخری ایام میں بھی کسی حد تک اگر پورے ہوجاتے تو یقینا یہ ایک قابل تحسین عمل قرار پاتا لیکن حکومتی دعوؤں کے برخلاف ملک پر بیرونی قرضوں کا بوجھ مزید بڑھ گیا۔
حکومت نے ریکارڈ قرضے لیے جس کی بدولت معاشی و اقتصادی ماہرین کی تشویش میں مزید اضافہ ہوا اور قیاس آرائیوں کا عجیب وغریب بازار بھی گرم ہوگیا جس کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔ نیز حالیہ بجٹ بھی گزشتہ ادوارکی طرح اعداد و شمار کے گورکھ دھندے کے سوا اور کچھ نہیں، غریب اور عام آدمی کے ریلیف کی کوئی خاص نوید نہیں۔
حکومتی کارکردگی بد ترین ہونے کے باوجود حیرت انگیز طور پر گیلپ سروے کے مطابق مسلم لیگ ن آج بھی مقبول ترین جماعت ہے اور اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا ہے جس حکمران جماعت کا سربراہ ملک کے اعلیٰ ترین عدلیہ کے فیصلے کے مطابق صادق و امین نہیں، خیانت کا مرتکب اور تاحیات نا اہل ثابت ہوچکا ہے اس کی اور اسی جماعت کی مقبولیت میں اضافہ عوام کے معیار پر سوالیہ نشان کے مترادف ہے۔
پھر یہی عوام ہیں جو وطن عزیز کے قیام کے 70 برس گزرنے کے باوجود آج بھی بد ترین خسارے میں ہیں اور مسلسل مشکلات اور مسائل و چیلنجز سے دو چار نیز بھاری قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے ملک کا بچہ بچہ مقروض ہے علاوہ ازیں ملک کو شدید اندرونی و بیرونی خطرات لاحق ہیں لا محدود وسائل اور متعدد مواقعے کے باوجود ہم اپنے حالات بدلنے سے قطعی قاصر رہے جو ملک ہم نے اسلام کے نام پر حاصل کیا وہاں اسلامی خصوصیات ڈھونڈے نظر نہیں آتیں، اسلامی نظام کا نفاذ تا حال عمل میں نہ لاسکے، ہم اپنی قسمت کا درست فیصلہ آج تک نہ کرسکے، بس ایک بھیڑ چال ہے پوری قوم اس میں چل رہی ہے۔
جن حکمرانوں نے تین تین چار چار بار اس ملک پر حکومت کی وہ اس ملک و قوم کو کوئی ڈھنگ کا ایسا اسپتال، اسکول، کالج یا یونیورسٹی تک نہ دے سکے جس میں خود ان کا علاج ہو پاتا یا ان کے بچے ہی پڑھ سکتے۔ لیکن بدقسمت عوام کا تمام تر دارومدار ان ہی اسپتالوں اور اسکولوں وکالجوں پر ہے جو حکمران آج ووٹ کو عزت دینے کی بات کررہے ہیں وہ ووٹرکو جب تک عزت نہیں دیں گے۔ ووٹ کو عزت دینے کا تقاضا کبھی پورا نہیں ہوسکے گا۔
ووٹ کی عزت، ووٹر سے منسلک ہے جب تک ووٹر ذلیل و خوار ہوتا رہے گا تب تک ووٹ کو عزت دینے کی بات محض فریب کے سوا اور کچھ نہیں جب تک حکمران اور ووٹر کے معیار زندگی میں کھلا تضاد ختم نہ ہوگا، ووٹ کو حقیقی معنوں میں کبھی عزت ملنے کی نہیں، حقیقی حکمرانی کا تقاضا ہے کہ حکمرانوں اور ان کے اہل خانہ کا علاج بھی ان ہی اسپتالوں میں ہو جہاں غریب ووٹر اور ان کے اہل خانہ کا ہوتا ہے اور حکمرانوں کے اہل خانہ بھی وہیں تعلیم حاصل کریں جن تعلیمی اداروں میں ایک عام ووٹر اور ان کے اہل خانہ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ مساوات کا یہ عمل ہر شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں طور پر نظر آنا چاہیے۔ بصورت دیگر ووٹر کو حکمرانوں کو شدید محاسبہ کرنا چاہیے کہ اتنا تضاد کیوں؟ اور آخر کب تک؟
جو آج ووٹ کو عزت دینے کی بات کر رہے ہیں اور نظریاتی ہونے کا دعویٰ کررہے ہیں وہ ماضی قریب میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو مسند اقتدار سے اتارنے کے لیے اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ ووٹ کی حرمت پامال کرنے میں پیش پیش رہے اور انھیں بلند بانگ کہتے سنا گیا کہ ''آپ تحقیقات تک کرسی سے علیحدہ ہو جائیں اگر فیصلہ آپ کے حق میں آجائے تو آجائیں، ورنہ گھر چلے جایئے'' آج خود جب فیصلہ ان کے خلاف آیا تو چیخ چیخ کر دُھائی دے رہے ہیں۔ ''مجھے کیوں نکالا؟ اور توہین عدالت کا کوئی موقع اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے۔
ان کا موجودہ طرز عمل نے ن لیگ کے 1997ء میں سپریم کورٹ پر حملے کی یاد کو مزید تازہ کردیا تاہم ان کا حالیہ طرز عمل 1997ء کے عمل سے زیادہ شدید معلوم ہوتا ہے کہ جس کی پاداش میں نواز شریف کے بعد اب خواجہ آصف بھی تا حیات نا اہل ہوچکے ہیں نیز مزید فیصلے بھی متوقع ہیں۔
ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ طاقتور شخصیات کا محاسبہ ہوا ہے ان کی خیانت بے نقاب ہوئی ہے اور سیاسی اثرورسوخ کے ذریعے بھاری قرضے معاف کروانے والے اور رقوم بیرون ملک منتقل کرنے والے بھی قانون کی گرفت میں لائے جا رہے ہیں۔
اعلیٰ شخصیات کی چوریاں بے نقاب ہورہی ہیں اور عوام کے سامنے سب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوچکا ہے، اب یہ قوم کا کام ہے کہ وہ اس درست وقت میں اپنی تقدیر کا درست فیصلہ کرے، آزمائے ہوئے کھوٹے سکوں کو دوبارہ نہ آزمائیں تمام کام عدلیہ ہی کا نہیں ہے کچھ کام عوام کا بھی ہے قوم کو بھی اپنے ووٹ کی طاقت کا بخوبی اندازہ ہونا چاہیے دیکھیے مریم نواز کا یہ بیان کہ ''نا اہل ہونے کے بعد اب لوگ خواجہ آصف کے سایہ کو بھی ووٹ دیںگے'' اپنے دامن میں کس قدر تشویش سمیٹے ہوئے ہے، اگر واقعی بالفرض ایسا ہوگیا تو سمجھیے کہ ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کا یہ نادر موقع بھی اہل وطن نے گنوا دیا، یہ وطن امانت ہے اور ہم سب اس کے امین ہیں۔
ہم سب ہی پر اس کے روشن مستقبل کی بھاری ذمے داری عاید ہوتی ہے، ہم اس کی ترجمانی اور فکر نہیں کریںگے تو کون کرے گا؟ ہم اس کی حفاظت نہیں کریںگے تو بھلا اور کون کرے گا؟ انقلاب نہ سہی تبدیلی ہی لایئے، 70 برس میں نہ لاسکے خدارا 70 برس بعد ہی لایئے، اپنے لیے، اس مادر وطن کے لیے لایئے، اس نایاب موقعے کو قوم کو اپنی خوش نصیبی سمجھتے ہوئے، درست سمت میں اپنی تقدیرکا فیصلہ کرنا چاہیے، ایسا برحق فیصلہ جس کا یہ وطن 70 برس سے منتظر ہے، ہماری تقدیرکا فیصلہ خود ہمارے ہی ہاتھوں میں ہے بس اک ذرا شعور، ادراک، آگہی اور احساس کی ضرورت ہے، پس ضرورت ہے اس امرکی ہے کہ ہمیں اپنے ووٹ کی طاقت کا حقیقی معنوں میں درست اندازہ ہو۔ دیکھیے۔ اقبال نے کیا خوب کہاکہ:
افراد کے ہاتھوں میں اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
وطن عزیز میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت اپنی مدت کے آخری مراحل سے گزر رہی ہے۔ اس حکومت نے اپنا چھٹا اور آخری بجٹ بھی پیش کردیا ہے اس سے قبل کسی حکومت کو چھ بجٹ پیش کرنے کا اعزاز حاصل نہیں ہوا۔ لہٰذا یہ ایک ریکارڈ ہے لیکن یہ صرف اعداد و شمار کی حد تک ہی ریکارڈ ہے کسی معاشی ترقی یا اقتصادی اہداف کے حصول کے اعتبار سے کسی قسم کا ریکارڈ نہیں۔
کاش حکومت نے اپنے آغاز میں جو وعدے اور دعوے کیے تھے اور ملک کو معاشی طاقت بنانے کے جو خواب دکھائے تھے وہ حکومت کے ان آخری ایام میں بھی کسی حد تک اگر پورے ہوجاتے تو یقینا یہ ایک قابل تحسین عمل قرار پاتا لیکن حکومتی دعوؤں کے برخلاف ملک پر بیرونی قرضوں کا بوجھ مزید بڑھ گیا۔
حکومت نے ریکارڈ قرضے لیے جس کی بدولت معاشی و اقتصادی ماہرین کی تشویش میں مزید اضافہ ہوا اور قیاس آرائیوں کا عجیب وغریب بازار بھی گرم ہوگیا جس کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔ نیز حالیہ بجٹ بھی گزشتہ ادوارکی طرح اعداد و شمار کے گورکھ دھندے کے سوا اور کچھ نہیں، غریب اور عام آدمی کے ریلیف کی کوئی خاص نوید نہیں۔
حکومتی کارکردگی بد ترین ہونے کے باوجود حیرت انگیز طور پر گیلپ سروے کے مطابق مسلم لیگ ن آج بھی مقبول ترین جماعت ہے اور اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا ہے جس حکمران جماعت کا سربراہ ملک کے اعلیٰ ترین عدلیہ کے فیصلے کے مطابق صادق و امین نہیں، خیانت کا مرتکب اور تاحیات نا اہل ثابت ہوچکا ہے اس کی اور اسی جماعت کی مقبولیت میں اضافہ عوام کے معیار پر سوالیہ نشان کے مترادف ہے۔
پھر یہی عوام ہیں جو وطن عزیز کے قیام کے 70 برس گزرنے کے باوجود آج بھی بد ترین خسارے میں ہیں اور مسلسل مشکلات اور مسائل و چیلنجز سے دو چار نیز بھاری قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے ملک کا بچہ بچہ مقروض ہے علاوہ ازیں ملک کو شدید اندرونی و بیرونی خطرات لاحق ہیں لا محدود وسائل اور متعدد مواقعے کے باوجود ہم اپنے حالات بدلنے سے قطعی قاصر رہے جو ملک ہم نے اسلام کے نام پر حاصل کیا وہاں اسلامی خصوصیات ڈھونڈے نظر نہیں آتیں، اسلامی نظام کا نفاذ تا حال عمل میں نہ لاسکے، ہم اپنی قسمت کا درست فیصلہ آج تک نہ کرسکے، بس ایک بھیڑ چال ہے پوری قوم اس میں چل رہی ہے۔
جن حکمرانوں نے تین تین چار چار بار اس ملک پر حکومت کی وہ اس ملک و قوم کو کوئی ڈھنگ کا ایسا اسپتال، اسکول، کالج یا یونیورسٹی تک نہ دے سکے جس میں خود ان کا علاج ہو پاتا یا ان کے بچے ہی پڑھ سکتے۔ لیکن بدقسمت عوام کا تمام تر دارومدار ان ہی اسپتالوں اور اسکولوں وکالجوں پر ہے جو حکمران آج ووٹ کو عزت دینے کی بات کررہے ہیں وہ ووٹرکو جب تک عزت نہیں دیں گے۔ ووٹ کو عزت دینے کا تقاضا کبھی پورا نہیں ہوسکے گا۔
ووٹ کی عزت، ووٹر سے منسلک ہے جب تک ووٹر ذلیل و خوار ہوتا رہے گا تب تک ووٹ کو عزت دینے کی بات محض فریب کے سوا اور کچھ نہیں جب تک حکمران اور ووٹر کے معیار زندگی میں کھلا تضاد ختم نہ ہوگا، ووٹ کو حقیقی معنوں میں کبھی عزت ملنے کی نہیں، حقیقی حکمرانی کا تقاضا ہے کہ حکمرانوں اور ان کے اہل خانہ کا علاج بھی ان ہی اسپتالوں میں ہو جہاں غریب ووٹر اور ان کے اہل خانہ کا ہوتا ہے اور حکمرانوں کے اہل خانہ بھی وہیں تعلیم حاصل کریں جن تعلیمی اداروں میں ایک عام ووٹر اور ان کے اہل خانہ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ مساوات کا یہ عمل ہر شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں طور پر نظر آنا چاہیے۔ بصورت دیگر ووٹر کو حکمرانوں کو شدید محاسبہ کرنا چاہیے کہ اتنا تضاد کیوں؟ اور آخر کب تک؟
جو آج ووٹ کو عزت دینے کی بات کر رہے ہیں اور نظریاتی ہونے کا دعویٰ کررہے ہیں وہ ماضی قریب میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو مسند اقتدار سے اتارنے کے لیے اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ ووٹ کی حرمت پامال کرنے میں پیش پیش رہے اور انھیں بلند بانگ کہتے سنا گیا کہ ''آپ تحقیقات تک کرسی سے علیحدہ ہو جائیں اگر فیصلہ آپ کے حق میں آجائے تو آجائیں، ورنہ گھر چلے جایئے'' آج خود جب فیصلہ ان کے خلاف آیا تو چیخ چیخ کر دُھائی دے رہے ہیں۔ ''مجھے کیوں نکالا؟ اور توہین عدالت کا کوئی موقع اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے۔
ان کا موجودہ طرز عمل نے ن لیگ کے 1997ء میں سپریم کورٹ پر حملے کی یاد کو مزید تازہ کردیا تاہم ان کا حالیہ طرز عمل 1997ء کے عمل سے زیادہ شدید معلوم ہوتا ہے کہ جس کی پاداش میں نواز شریف کے بعد اب خواجہ آصف بھی تا حیات نا اہل ہوچکے ہیں نیز مزید فیصلے بھی متوقع ہیں۔
ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ طاقتور شخصیات کا محاسبہ ہوا ہے ان کی خیانت بے نقاب ہوئی ہے اور سیاسی اثرورسوخ کے ذریعے بھاری قرضے معاف کروانے والے اور رقوم بیرون ملک منتقل کرنے والے بھی قانون کی گرفت میں لائے جا رہے ہیں۔
اعلیٰ شخصیات کی چوریاں بے نقاب ہورہی ہیں اور عوام کے سامنے سب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوچکا ہے، اب یہ قوم کا کام ہے کہ وہ اس درست وقت میں اپنی تقدیر کا درست فیصلہ کرے، آزمائے ہوئے کھوٹے سکوں کو دوبارہ نہ آزمائیں تمام کام عدلیہ ہی کا نہیں ہے کچھ کام عوام کا بھی ہے قوم کو بھی اپنے ووٹ کی طاقت کا بخوبی اندازہ ہونا چاہیے دیکھیے مریم نواز کا یہ بیان کہ ''نا اہل ہونے کے بعد اب لوگ خواجہ آصف کے سایہ کو بھی ووٹ دیںگے'' اپنے دامن میں کس قدر تشویش سمیٹے ہوئے ہے، اگر واقعی بالفرض ایسا ہوگیا تو سمجھیے کہ ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کا یہ نادر موقع بھی اہل وطن نے گنوا دیا، یہ وطن امانت ہے اور ہم سب اس کے امین ہیں۔
ہم سب ہی پر اس کے روشن مستقبل کی بھاری ذمے داری عاید ہوتی ہے، ہم اس کی ترجمانی اور فکر نہیں کریںگے تو کون کرے گا؟ ہم اس کی حفاظت نہیں کریںگے تو بھلا اور کون کرے گا؟ انقلاب نہ سہی تبدیلی ہی لایئے، 70 برس میں نہ لاسکے خدارا 70 برس بعد ہی لایئے، اپنے لیے، اس مادر وطن کے لیے لایئے، اس نایاب موقعے کو قوم کو اپنی خوش نصیبی سمجھتے ہوئے، درست سمت میں اپنی تقدیرکا فیصلہ کرنا چاہیے، ایسا برحق فیصلہ جس کا یہ وطن 70 برس سے منتظر ہے، ہماری تقدیرکا فیصلہ خود ہمارے ہی ہاتھوں میں ہے بس اک ذرا شعور، ادراک، آگہی اور احساس کی ضرورت ہے، پس ضرورت ہے اس امرکی ہے کہ ہمیں اپنے ووٹ کی طاقت کا حقیقی معنوں میں درست اندازہ ہو۔ دیکھیے۔ اقبال نے کیا خوب کہاکہ:
افراد کے ہاتھوں میں اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ