خودکش حملہ آور
چند دن کے وقفے کے بعد عائشہ نے خدا جانے کیا سوچا اور اچانک ایک خودکش حملہ کر ڈالا۔
خودکش حملہ آور جب حملہ کرنے جاتا ہے تو اسے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ حملے کے بعد خود اس کے جسم کے چیتھڑے اڑ جائیںگے۔ اس اذیت ناک موت کو وہ اس لیے برداشت کرتا ہے کہ وہ اپنے دشمن حقیقی یا غیر حقیقی سے اتنی شدید نفرت کرتا ہے کہ اسے موت کے گھاٹ اتارنے یا اس کے دوستوں، چاہنے والوں، ماتحتوں وغیرہ کو موت سے ہمکنار کرنے کے بعد ایسی موت اس کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔
حکومت وقت سے نفرت کی صورت میں یہ اقدام رعایا کے خلاف بھی جائز سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس طرح رعایا میں ایک طرف خوف و ہراس اور پست ہمتی پھیلتی ہے تو دوسری طرف رعایا حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوتی ہے جو حملہ آورکا اصل مقصد ہوتا ہے، اگر یہ مقاصد پورے نہ ہوں یا معمولی سی تکمیل پائیں تو خودکش حملہ آور صرف خودکشی کا حامل قرار پائے گا۔
کئی ماہ قبل پاکستان تحریک انصاف کی ایک سرگرم خاتون رکن عائشہ گلالئی نے الزام عاید کیا کہ پارٹی کے سربراہ عمران خان ان کو گندے اور غلیظ پیغامات ارسال کرتے رہے ہیں وہ کہتی رہیں کہ اس غرض کے لیے وہ اپنا موبائل فون تحقیقاتی کمیٹی یا عدالت کو پیش کرنے کو تیار ہیں بشرطیکہ عمران خان بھی اپنا بلیک بیری ایسے کسی ادارے کے حوالے کر دیں۔ اپنی بات کی صداقت کے لیے انھوں نے اپنے موبائل سے چند پیغامات ملک کے ایک بڑے معروف اینکر کو دکھائے بھی۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ الزام پارلیمنٹ کے ایک ممبر نے دوسرے ممبر پر عاید کیا تھا اس لیے اسپیکر اس سلسلے میں آگے آتے اور دونوں کے موبائل لیتے اور ایک با اختیار کمیٹی سے تحقیقات کراتے مگر شاید اسپیکر صاحب نے سوچا ہوکہ وہ مسلم لیگ کے آدمی ہیں کہیں ان پر جانبداری کا الزام نہ لگ جائے اس لیے انھوں نے کوئی اقدام سرے سے کرنا ہی ضروری نہ سمجھا۔
رہا کسی عدالت کی طرف سے از خود نوٹس لینا تو عدالت کو بھی اس کی ضرورت نہیں پڑی اور اس سے نواز شریف سے کی اس چیخ و پکار میں صداقت نظر آتی ہے کہ ان کو عضو ضعیف سمجھ لیا گیا ہے اس لیے نزلہ انھیں پرگرتا رہا ہے ورنہ ایمان کی تو یہی ہے کہ اس پر بھی ''از خود نوٹس'' لیا جانا چاہیے تھا کہ یہ ایک خاتون کو ہراساں کرنے کا معاملہ تھا اور ایک پارٹی کے سربراہ اور معزز رکن پارلیمنٹ کی بدنامی ہو رہی تھی اور عزت داؤ پر لگی ہوئی تھی۔
عمران خان کی طرف سے اس سلسلے میں بڑی بودی تردید کی گئی البتہ ان کے حواریوں نے جھٹ مسلم لیگ پر الزام لگایا کہ وہ ان خاتون کو مسلم لیگ ایسے الزامات کے لیے اکسا رہی ہے۔ اس سلسلے میں خاص طور پر صوبہ سرحد مسلم لیگ ن کے سربراہ امیر مقام صاحب پی ٹی آئی کے لگائے گئے الزامات کی زد پر رہے۔ امیر مقام اور عائشہ گلالئی دونوں نے ایک دوسرے سے ملاقات ہی کی تردید کر دی اور امیر مقام نے تو مدتوں سے عائشہ سے ملاقات نہ ہونے کا اعلان کیا۔
عائشہ گلالئی چند دن بڑی سرگرم رہیں، پارلیمنٹ میں پگڑی باندھ کر آتی رہیں مگر پھر نہ جانے کیا ہوا کہ وہ اپنے موقف میں کمزور پڑ گئیں، ان کی آواز کی گھن گرج جاتی رہی، اور ان کے دم خم وہ نہ رہے جس سے انھوں نے ابتدا کی تھی تو پھر ملک کے مجموعی ضمیر کوکیا پڑی تھی کہ وہ ان کی مدد کو اٹھ کھڑا ہوتا، عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ کو بھی کیا تکلیف تھی کہ وہ از خود نوٹس لیتی اس وقت تک وہ شریف فیملی کے الجھاؤں میں مبتلا تھے۔
چند دن کے وقفے کے بعد عائشہ نے خدا جانے کیا سوچا اور اچانک ایک خودکش حملہ کر ڈالا۔ انھوں نے عمران خان کی جان چھوڑی اور نواز شریف کی جان لیوا بن گئیں جو پہلے ہی سانپ کے منہ کی چھچھوندر بنے ہوئے تھے۔ فرمانے لگیں کہ نواز شریف، عمران خان سے بھی زیادہ خطرناک آدمی ہیں یہی وہ مرحلہ تھا جب انھوں نے اپنی جیکٹ کا بٹن دبایا۔
انھوں نے کہاکہ مسلم لیگ نے مجھے سینیٹ کا ٹکٹ آفر کیا اور اس کے بدلے میں مجھے فوج پر تنقید کرنے پر اکسایا مگر میں نے یہ کہہ کر انکارکر دیا کہ فوج کے خلاف لب کشائی بغاوت کے زمرے میں آتی ہے اور میں محب وطن ہوں۔ مسلم لیگی ان کے پیچھے پڑگئے کہ اس شخص کا نام بتاؤ جس نے سینیٹ کے ٹکٹ کی پیش کش کی تھی مگر وہ یہ کہہ کر ٹال گئیں کہ وہ اس کا نام عدالت میں یا متعلقہ کمیٹی میں بتائیںگی۔
پھر انھوں نے اپنے بیان میں ایک معنی خیز ترمیم کی انھوں نے کہاکہ سینیٹ کے ٹکٹ کی پیشکش براہ راست میرے والد کو کی گئی اور کہا گیا وہ پس پشت رہ کر فوج پر تنقید روا رکھیں اور والد سینیٹ کی ممبری سے لطف اٹھاتے رہیں۔
مسلم لیگ کے خلاف ان کے الزامات نے عمران خان پر ان کے الزامات کو بھی بے وزن کر دیا اور ہو سکتا ہے جن لوگوں نے انھیں مسلم لیگ کے خلاف بیانات کے لیے اکسایا ہو وہ عمران خان کا بہترین دفاع اسی میں سمجھتے ہوں۔ حالانکہ عمران خان کا کوئی بال بیکا نہیں کر سکتا تھا۔ بقول نواز شریف کے وہ اس وقت لاڈلے بنے ہوئے ہیں۔
گلالئی کے بدلتے ہوئے بیانات نے ایک طرف عمران خان کو ایسا ریلیف پہنچا دیا جس کا وہ خواب میں بھی تصور نہیں کر سکتے تھے اور شاید ان کی پیرنی نے بھی ایسے سکون و اطمینان کی پیش گوئی کی ہو۔
دوسری طرف مسلم لیگ کا بھی وہ کچھ نہ بگاڑ سکیں، کیونکہ وہ کسی طرح یہ ثابت نہیں کر سکتی تھیں کہ ان کو یا ان کے والد کو سینیٹ کے ٹکٹ کی پیشکش کی گئی۔
نتیجہ یہ ہوا کہ عمران خان پر انھوں نے جو الزامات عاید کیے تھے ان کی طرف سے تو سرے سے توجہ ہٹ گئی اور مسلم لیگ پر لگائے گئے الزامات محض دو جماعتوں کے درمیان توازن پیدا کرگئے جس کی مطلق ضرورت نہیں تھی۔
گلالئی کا یہ آخری اقدامات وہ خودکش حملہ ثابت ہوا جس میں حملہ آور ہی ہلاک ہوا اور کسی کا کچھ نہ بگڑا اور حملہ آور اپنے جس دشمن یا جن دشمنوں کی سرکوبی کے لیے اپنی جان گنوانے کو تیار ہوا تھا وہ زندہ اور مطمئن ہیں، البتہ گلالئی کا خودکش حملہ خودکشی ثابت ہوا۔ اب پاکستانی سیاست میں نہ ان کا نام لیا جاتا ہے نہ انھیں کوئی اہمیت دیتا ہے انھیں شہادت کے مرتبے پر فائز کرانے والے بھی ان کی ''حرام موت'' کے باعث اب ان کی مغفرت کی دعا سے بھی گئے۔
ان کا خودکش حملہ ان کی خودکشی ثابت ہوا جو شاید ان کی سیاسی موت بھی ہو۔
حکومت وقت سے نفرت کی صورت میں یہ اقدام رعایا کے خلاف بھی جائز سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس طرح رعایا میں ایک طرف خوف و ہراس اور پست ہمتی پھیلتی ہے تو دوسری طرف رعایا حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوتی ہے جو حملہ آورکا اصل مقصد ہوتا ہے، اگر یہ مقاصد پورے نہ ہوں یا معمولی سی تکمیل پائیں تو خودکش حملہ آور صرف خودکشی کا حامل قرار پائے گا۔
کئی ماہ قبل پاکستان تحریک انصاف کی ایک سرگرم خاتون رکن عائشہ گلالئی نے الزام عاید کیا کہ پارٹی کے سربراہ عمران خان ان کو گندے اور غلیظ پیغامات ارسال کرتے رہے ہیں وہ کہتی رہیں کہ اس غرض کے لیے وہ اپنا موبائل فون تحقیقاتی کمیٹی یا عدالت کو پیش کرنے کو تیار ہیں بشرطیکہ عمران خان بھی اپنا بلیک بیری ایسے کسی ادارے کے حوالے کر دیں۔ اپنی بات کی صداقت کے لیے انھوں نے اپنے موبائل سے چند پیغامات ملک کے ایک بڑے معروف اینکر کو دکھائے بھی۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ الزام پارلیمنٹ کے ایک ممبر نے دوسرے ممبر پر عاید کیا تھا اس لیے اسپیکر اس سلسلے میں آگے آتے اور دونوں کے موبائل لیتے اور ایک با اختیار کمیٹی سے تحقیقات کراتے مگر شاید اسپیکر صاحب نے سوچا ہوکہ وہ مسلم لیگ کے آدمی ہیں کہیں ان پر جانبداری کا الزام نہ لگ جائے اس لیے انھوں نے کوئی اقدام سرے سے کرنا ہی ضروری نہ سمجھا۔
رہا کسی عدالت کی طرف سے از خود نوٹس لینا تو عدالت کو بھی اس کی ضرورت نہیں پڑی اور اس سے نواز شریف سے کی اس چیخ و پکار میں صداقت نظر آتی ہے کہ ان کو عضو ضعیف سمجھ لیا گیا ہے اس لیے نزلہ انھیں پرگرتا رہا ہے ورنہ ایمان کی تو یہی ہے کہ اس پر بھی ''از خود نوٹس'' لیا جانا چاہیے تھا کہ یہ ایک خاتون کو ہراساں کرنے کا معاملہ تھا اور ایک پارٹی کے سربراہ اور معزز رکن پارلیمنٹ کی بدنامی ہو رہی تھی اور عزت داؤ پر لگی ہوئی تھی۔
عمران خان کی طرف سے اس سلسلے میں بڑی بودی تردید کی گئی البتہ ان کے حواریوں نے جھٹ مسلم لیگ پر الزام لگایا کہ وہ ان خاتون کو مسلم لیگ ایسے الزامات کے لیے اکسا رہی ہے۔ اس سلسلے میں خاص طور پر صوبہ سرحد مسلم لیگ ن کے سربراہ امیر مقام صاحب پی ٹی آئی کے لگائے گئے الزامات کی زد پر رہے۔ امیر مقام اور عائشہ گلالئی دونوں نے ایک دوسرے سے ملاقات ہی کی تردید کر دی اور امیر مقام نے تو مدتوں سے عائشہ سے ملاقات نہ ہونے کا اعلان کیا۔
عائشہ گلالئی چند دن بڑی سرگرم رہیں، پارلیمنٹ میں پگڑی باندھ کر آتی رہیں مگر پھر نہ جانے کیا ہوا کہ وہ اپنے موقف میں کمزور پڑ گئیں، ان کی آواز کی گھن گرج جاتی رہی، اور ان کے دم خم وہ نہ رہے جس سے انھوں نے ابتدا کی تھی تو پھر ملک کے مجموعی ضمیر کوکیا پڑی تھی کہ وہ ان کی مدد کو اٹھ کھڑا ہوتا، عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ کو بھی کیا تکلیف تھی کہ وہ از خود نوٹس لیتی اس وقت تک وہ شریف فیملی کے الجھاؤں میں مبتلا تھے۔
چند دن کے وقفے کے بعد عائشہ نے خدا جانے کیا سوچا اور اچانک ایک خودکش حملہ کر ڈالا۔ انھوں نے عمران خان کی جان چھوڑی اور نواز شریف کی جان لیوا بن گئیں جو پہلے ہی سانپ کے منہ کی چھچھوندر بنے ہوئے تھے۔ فرمانے لگیں کہ نواز شریف، عمران خان سے بھی زیادہ خطرناک آدمی ہیں یہی وہ مرحلہ تھا جب انھوں نے اپنی جیکٹ کا بٹن دبایا۔
انھوں نے کہاکہ مسلم لیگ نے مجھے سینیٹ کا ٹکٹ آفر کیا اور اس کے بدلے میں مجھے فوج پر تنقید کرنے پر اکسایا مگر میں نے یہ کہہ کر انکارکر دیا کہ فوج کے خلاف لب کشائی بغاوت کے زمرے میں آتی ہے اور میں محب وطن ہوں۔ مسلم لیگی ان کے پیچھے پڑگئے کہ اس شخص کا نام بتاؤ جس نے سینیٹ کے ٹکٹ کی پیش کش کی تھی مگر وہ یہ کہہ کر ٹال گئیں کہ وہ اس کا نام عدالت میں یا متعلقہ کمیٹی میں بتائیںگی۔
پھر انھوں نے اپنے بیان میں ایک معنی خیز ترمیم کی انھوں نے کہاکہ سینیٹ کے ٹکٹ کی پیشکش براہ راست میرے والد کو کی گئی اور کہا گیا وہ پس پشت رہ کر فوج پر تنقید روا رکھیں اور والد سینیٹ کی ممبری سے لطف اٹھاتے رہیں۔
مسلم لیگ کے خلاف ان کے الزامات نے عمران خان پر ان کے الزامات کو بھی بے وزن کر دیا اور ہو سکتا ہے جن لوگوں نے انھیں مسلم لیگ کے خلاف بیانات کے لیے اکسایا ہو وہ عمران خان کا بہترین دفاع اسی میں سمجھتے ہوں۔ حالانکہ عمران خان کا کوئی بال بیکا نہیں کر سکتا تھا۔ بقول نواز شریف کے وہ اس وقت لاڈلے بنے ہوئے ہیں۔
گلالئی کے بدلتے ہوئے بیانات نے ایک طرف عمران خان کو ایسا ریلیف پہنچا دیا جس کا وہ خواب میں بھی تصور نہیں کر سکتے تھے اور شاید ان کی پیرنی نے بھی ایسے سکون و اطمینان کی پیش گوئی کی ہو۔
دوسری طرف مسلم لیگ کا بھی وہ کچھ نہ بگاڑ سکیں، کیونکہ وہ کسی طرح یہ ثابت نہیں کر سکتی تھیں کہ ان کو یا ان کے والد کو سینیٹ کے ٹکٹ کی پیشکش کی گئی۔
نتیجہ یہ ہوا کہ عمران خان پر انھوں نے جو الزامات عاید کیے تھے ان کی طرف سے تو سرے سے توجہ ہٹ گئی اور مسلم لیگ پر لگائے گئے الزامات محض دو جماعتوں کے درمیان توازن پیدا کرگئے جس کی مطلق ضرورت نہیں تھی۔
گلالئی کا یہ آخری اقدامات وہ خودکش حملہ ثابت ہوا جس میں حملہ آور ہی ہلاک ہوا اور کسی کا کچھ نہ بگڑا اور حملہ آور اپنے جس دشمن یا جن دشمنوں کی سرکوبی کے لیے اپنی جان گنوانے کو تیار ہوا تھا وہ زندہ اور مطمئن ہیں، البتہ گلالئی کا خودکش حملہ خودکشی ثابت ہوا۔ اب پاکستانی سیاست میں نہ ان کا نام لیا جاتا ہے نہ انھیں کوئی اہمیت دیتا ہے انھیں شہادت کے مرتبے پر فائز کرانے والے بھی ان کی ''حرام موت'' کے باعث اب ان کی مغفرت کی دعا سے بھی گئے۔
ان کا خودکش حملہ ان کی خودکشی ثابت ہوا جو شاید ان کی سیاسی موت بھی ہو۔