ہمارا معاشرہ بے راہ روی کی طرف گامزن کیوں

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آج کل تو حیا والے شخص کو عیب دار، کنزروٹیو اور دقیانوسی خیالات کا مالک شخص سمجھا جاتا ہے


مزنہ سیّد May 06, 2018
معاشرے میں بے حیائی عام کرنے کا سب سے بڑا سبب میڈیا میں دکھائے جانے والے ڈرامے اور اشتہارات ہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

ایک دن اتفاق سے میرا جانا کسی ایلیٹ کلاس کے ریسٹورانٹ میں ہوا۔ وہاں کا ماحول عام ہوٹلوں سے بالکل مختلف تھا۔ بہت ہی اعلی کلاس کے لوگ وہاں موجود تھے جنہوں نے وہاں کچھ اپنا ہی ماحول بنایا ہوا تھا۔ مجھے چائنیز فوڈ بہت پسند ہے، یہی وجہ تھی جو میں اپنے فیملی فرینڈز کو لے کر وہاں ہی پہنچ گئی۔ ان میں ایک خاتون ایسی بھی تھیں جو باقاعدہ پردہ کرتی تھیں۔ جب وہ ہوٹل میں داخل ہوئیں تو وہاں موجود لوگ انہیں عجیب سی نظروں سے دیکھنے لگے۔ اس بات کو برابر میں کھڑی ان کی بہن نے بھانپ لیا اور انہیں نقاب اتار دینے کا اشارہ کیا۔ پہلے تو وہ اس عمل سے تذبذب کا شکار ہوگئیں لیکن پھر مجبوراً ان کے کہنے پر اور لوگوں کی تعاقب کرتی نگاہوں نے انہیں نقاب ہٹانے پر مجبور کردیا۔

ہمارا ملک اور اس کے قوانین ایسے ہیں جو اقلیت سے تعلق رکھنے والوں تک کو آزادی کے ساتھ اپنے مذہب پر عمل کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ وہ ہر تہوار اپنے پورے مذہبی عقائد اور مکمل آزادی کے ساتھ مناتے ہیں۔ پھر کیوں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اگر کوئی شخص مکمل طور اسلام پر عمل کرنا چاہے تو اسے شرم کا باعث سمجھا جاتا ہے اور اسے اس عمل سے روکا جاتا ہے؟ وہ بھی یہ سوچ کر کہ یہ عمل انہیں لوگوں کے سامنے شرمندہ کرادے گا۔ لیکن اگر ہم اپنے ماضی پر نظر ڈالیں تو یہ وہ سرزمین ہے جو اسلام کے نام پر حاصل کی گئی جبکہ یہاں اس مذہب ہی پر عمل کرنا سب سے زیادہ مشکل بنا دیا گیا ہے۔ صرف چند محدود لوگوں کی ذہنیت کو پورے معاشرے میں پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

آج ہمارا معاشرہ بہت تیزی سے بے راہ روی کی طرف گامزن ہے جس کی سب سے بڑی وجہ ہماری نوجوان نسل میں سے حیا کے تصور کوختم کرنا ہے۔ جب آپ کسی قوم میں سے شرم و حیا کے تصور کو مٹادیں گے تو وہ معاشرہ بہت آسانی کے ساتھ تباہ کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے ساتھ بھی یہی کیا جارہا ہے۔

نوجوان نسل کو حیا کا مطلب یہ سمجھایا جاتا ہے کہ نظروں میں حیا ہونی چاہیے۔ اس طرح انہیں حیا کے صحیح مفہوم سے غافل رکھا جاتا ہے؛ یہ کہہ کر انہیں ہر قید اور ہر حد سے آزادی کا پروانہ پکڑا دیا گیا ہے۔ پھر اب وہ جو چاہے کریں، اور جو چاہے سوچیں یا سمجھیں۔

جہاں حیا نہیں ہوتی وہاں ایمان نہیں ہوتا، حضور نبی کریم ﷺ نے عین یہی بات ارشاد فرمائی ہے۔ ہمارے معاشرے میں بے حیائی اور بے پردگی بہت عام ہونے لگی ہے۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آج کل تو حیا والے شخص کو عیب دار، کنزروٹیو اور دقیانوسی خیالات کا مالک شخص سمجھا جاتا ہے؛ اور اگر کوئی عورت پردہ کرتی ہو تو لوگ اسے جماعتی یا کسی تنظیم کا کارکن سمجھنے لگتے ہیں۔ اسے سوالیہ یا مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے، جیسے یہ کوئی گناہ ہو۔

معاشرے میں بے حیائی عام کرنے کا سب سے بڑا سبب میڈیا میں دکھائے جانے والے ڈرامے اور اشتہارات ہیں جن کے ذریعے غلط باتوں کو اس طرح پیش کیا جارہا ہے کہ وہ صحیح معلوم ہوتی ہیں۔ تیزی سے بدلتے ہوئے ہمارے معاشرے نے اپنی تہذیب کو چھوڑ کر پڑوسی ممالک کے کلچر کو اس قدر اپنالیا ہے کہ اب ہمارے اور ان کے میڈیا میں کچھ خاص فرق نظر نہیں آتا؛ کیونکہ اب ہمیں اپنے ڈراموں اور فلموں میں ان کی ثقافت کی جھلک نظر آتی ہے۔

پہلے تو پھر بھی شرم وحیا کے باعث دوپٹے پہن لیے جاتے تھے، لیکن اب تو وہ بھی نظر نہیں آتے اور اشتہارات میں لڑکیوں کا ڈانس تو گویا جزوِ لازم ہوگیا ہے جس کے بغیر نہ تو اشتہار آن ایئر ہوتا ہے، نہ اس کی پبلسٹی ہوتی ہے، اور نہ ہی اسے مؤثر سمجھا جاتا ہے۔

انسانی فطرت ہے کہ جب وہ برائی کا عادی ہوجاتا ہے تو اسے برائی، برائی ہی نہیں لگتی۔ بالکل اسی طرح اب ہمیں بھی بےحیائی، برائی معلوم نہیں ہوتی کیونکہ اس قوم کو عادت جو ڈال دی گئی ہے۔ آج ہماری قوم بے حیائی کو ''بولڈنیس'' اور اعلی تعلیم سے منسلک کررہی ہے۔ یعنی جو جتنا تعلیم یافتہ ہوگا، وہ اتنا ہی بے حیا ہوگا۔

ماڈرن اور براڈ مائنڈڈ، آج کے جدیدیت پرست لوگوں کو اپنا دفاع کرنے کےلیے یہ چند الفاظ مل گئے ہیں؛ اور وہ کہتے پھرتے ہیں کہ حیا تو نظروں میں ہوتی ہے۔ لیکن انہیں کوئی یہ بھی تو سمجھائے کہ اگر سامنے والا حیا کا خیال نہیں رکھے گا تو دیکھنے والے کی نظروں میں حیا کہاں سے باقی رہے گی؟

حجاب عورت کی پاکیزگی اور اس کی نیک سیرت کی علامت ہوتا ہے، اس کی حیا کی علامت ہے۔ ایک بدترین شخص بھی ایک باپردہ باحیا عورت پر بری نگاہ ڈالنے سے پہلے ہزار بار سوچتا ہے کیونکہ وہ بھی جانتا ہے کہ حیا دار عورت کی عزت کیسے کی جاتی ہے۔ اپنے جسم کو ڈھانپنا اور بری نظروں سے بچانا حیا ہے۔

اس دور میں اگر والدین بھی بچوں کو روکیں کہ یہ چیز دیکھنے کی نہیں، تو وہ بھی والدین کو پرانے خیالات کا مالک کہنے لگتے ہیں۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنے معاشرے کو بڑھتی ہوئی بے حیاہی اور بے راہروی سے کیسے بچائیں؟ ہمارے میڈیا کو اپنی ثقافت اور اپنے کلچر کو پروموٹ کرنا چاہیے تاکہ ہماری نوجوان نسل اس ملک کی تہذیب و ثقافت کو جانے اور اپنائے۔ والدین کو یہ بات سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ وہ اپنی اولاد کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی دیں۔ ان کے دلوں میں خوف خدا ڈالیں تاکہ وہ کوئی بھی برائی کرنے سے پہلے سوچیں کیونکہ ایک اسی ذات کا خوف اور اس ذات سے محبت ہی ہے جو انسان کو برے کام کرنے سے بچاسکتی ہے۔ اس طرح انہیں صحیح اور غلط میں فرق کرنے کی سمجھ ہوگی اور جب انسان کو یہ سمجھ آجائے تو وہ خود صحیح راہ پر گامزن ہونے کی کوشش کرتا ہے؛ کیونکہ جہاں بے حیائی ہوتی ہے، وہ معاشرہ جلد ہی بے راہروی کی طرف گامزن ہوجاتا ہے۔ اور جب کوئی بھی معاشرہ بے راہروی کی طرف چل پڑے تو اسے تبائی سے کوئی بچا نہیں سکتا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں