دور جدید کا انوکھا عجوبہ جہاں شادی کرنا مسئلہ بن چکا
صنف نازک کی کم تعداد چین وبھارت میں سنگین معاشرتی مسائل پیدا کر رہی ہے
جب لی شنگ اٹھارہ سال کا ہوا، تو اس کے والدین نے اسے بڑا انوکھا مشورہ دیا۔ یہ کہ اگر تم شادی کرنا چاہتے ہو تو تمہیں اپنا گھر بنانا ہوگا۔ گھر نہیں بناپاتے تو ساری عمر کنوارے ہی رہوگے۔ چونکہ وہ شادی کرکے اپنا خاندان بسانا چاہتا تھا لہٰذا یہ نصیحت پلے باندھ لی۔
لی شنگ چین کے ایک قصبے، پیانگ فی کا باسی تھا۔ قصبے میں کھیتی باڑی سے متعلق ملازمتیں ہی میسر تھیں جن سے کم رقم وصول ہوتی۔ چنانچہ وہ قریبی شہر، گیانگ چلا گیا تاکہ کوئی اچھی ملازمت کرسکے۔ شہر میں اس نے پلمبنگ کا کام سیکھا اور چند سال بعد یہ ہنر سیکھ کر معقول رقم کمانے لگا۔
آج لی شنگ انتیس سال کا ہوچکا۔ اس نے اپنے آبائی قصبے میں پانچ مرلے پر مشتمل ایک عمدہ گھر تعمیر کرلیا ہے مگر اس کی شادی کا امکان دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ وجہ یہ کہ بیچارے لی کو کوئی دلہن ہی نہیں ملتی۔ قصبے کی آبادی پانچ ہزار ہے اور وہاں شادی کے لائق صرف ڈیڑھ سو لڑکیاں بستی ہیں جبکہ لڑکوں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے۔ لہٰذا لڑکیاں اور ان کے والدین بھی صرف ایسے لڑکوں کے رشتوںکو پسند کرتے ہیں جو مالی و مادی اعتبار سے امیر و خوشحال ہوں۔
یہ صرف لی شنگ کے قصبے کا انوکھا ماجرا نہیں، آج چین اور بھارت میں ایسے کئی علاقے موجود ہیں جہاں شادی کے قابل لڑکیوں کا کال ہے۔ ان علاقوں میں لڑکیوں کی تعداد بہت کم ہوچکی ہے۔ اس غیر فطری عجوبے کی وجہ سے ان چینی و بھارتی علاقوں میں کئی معاشرتی مسائل جنم لے رہے ہیں۔
ایک بچہ فی خاندان
چین میں لڑکیوں کی تعداد میں بنیادی طور پر اس لیے کمی آئی کہ 1979ء میں چینی حکومت نے قوم کو یہ حکم دے ڈالا کہ صرف ایک بچہ پیدا کیا جائے۔ یہ حکم 2015ء تک نافذ عمل رہا۔ اس دوران طب میں جدت آنے کے باعث زچگی سے قبل یہ جاننا ممکن ہوگیا کہ بچہ لڑکا ہے یا لڑکی! چینی خاندانوں کی اکثریت نے لڑکے کو ترجیح دی کیونکہ خاندان کی نسل اسی سے آگے چلتی ہے۔ اگر الٹراساؤنڈ لڑکی کی موجودگی کا اشارہ دیتا تو چینی جوڑااسقاط حمل کرالیتا۔
ایک بچہ فی فیملی پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ چھتیس سال کے دوران چین میں لڑکیاں کم پیدا ہوئیں۔ اسی غیر فطری عمل کے باعث آج چین میں لڑکیوں کی کمی واقع ہوچکی۔ چین کی آبادی ایک ارب چالیس کروڑ ہے۔ انسانی پیدائش کے فطری اصول کی خلاف ورزی کرنے کے باعث چینی معاشرے میں تقریباً ساڑھے چار کروڑ لڑکیاں کم ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ مثلاً ارجنٹائن، یوکرائن، سوڈان، پولینڈ، کینیڈا جیسے بڑے ممالک کی آبادی ساڑھے چار کروڑ نفوس سے کم ہے۔
لڑکیوں کی کمی کے باعث چینی معاشرے میں کئی انوکھے مسائل جنم لے چکے ہیں۔ چین میں رواج ہے کہ لڑکا اور اس کا خاندان لڑکی یا اس کے اہل خانہ کو نقدی یا اشیا بہ شکل جہیز دیتا ہے۔ گویا پاکستان کے مقابلے میں وہاں الٹا حساب ہے۔ ماضی میں تھوڑے بہت جہیز سے چین میں دلہن مل جاتی تھی مگر اب اسے پانے کے لیے بہت جتن کرنے پڑتے ہیں۔ وجہ یہی کہ لڑکیوں کی کمی کے باعث ہر لڑکی اور اس کے اہل خانہ زیادہ سے زیادہ جہیز پانا چاہتے ہیں۔ اسے خودغرضی کہہ لیجیے یا لالچ مگر چین میں یہ چلن جنم لے چکا ہے۔
مثال کے طور پر لی شنگ ہی کو دیکھئے۔ وہ ایک اچھے خاصے گھر کا مالک ہے۔ معقول رقم کماتا ہے مگر کوئی لڑکی اسے چاہت بھری نظروں سے بھی نہیں دیکھتی۔ وجہ یہ کہ بدقسمت لی ایسے علاقے کا باسی ہے جہاں لڑکیاں دیگر چینی علاقوں کی نسبت زیادہ کم تعداد میں ملتی ہیں۔ اس علاقے میں ایک دلہن بیاہ کر لانے میں کم از کم پچاس لاکھ روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ ظاہر ہے اتنی زیادہ رقم صرف امرا ہی فراہم کرسکتے ہیں۔ لہٰذا گنے چنے امیر خاندان سے تعلق رکھنے والے لڑکوں کی تو شادیاں ہوجاتی ہیں، متوسط اور نچلے طبقوں کے لاکھوں لڑکے کنوارے بیٹھے اپنی قسمت کو کوس رہے ہیں۔
لڑکی ایک بوجھ
چین کے پڑوسی بھارت میں بھی کئی علاقے لڑکیوں کی قلت کا شکار ہیں۔ بھارت میں یہ عجوبہ جنم لینے کی وجہ چین سے مختلف ہے۔ بھارت میں لڑکی کا بیاہ کراتے ہوئے والدین کو جہیز کا بندوبست کرنا پڑتا ہے۔ پھر شادی بھی خوب دھوم دھڑکے سے کرنا ہوتی ہے جس پہ مزید پیسا لگتا ہے۔ لہٰذا ایک شادی پر اچھی خاصی رقم لگ جاتی ہے۔ اس خرچ سے بچنے کی خاطر بیشتر بھارتی والدین یہی پراتھنا (دعا) کرتے ہیں کہ ان کے ہاں لڑکا جنم لے۔ بھارتی معاشرے میں لڑکیوں کو بوجھ سمجھا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے جب دوران حمل جنس کی نشاندہی کرنے والے طبی آلات ایجاد ہوئے تو بھارتی والدین کی اکثریت لڑکی ہونے کی صورت میں اسقاط کرانے لگی۔ یہ عمل بعض بھارتی ریاستوں مثلاً ہریانہ، اترپردیش، راجھستان، بہار وغیرہ میں بہت زیادہ اپنایا گیا۔ اسی باعث ان ریاستوں میں لڑکیوں کی شدید قلت پیدا ہوچکی ۔جبکہ مجموعی طور پر بھارت میں تقریباً پانچ کروڑ لڑکیوں کی کمی بتائی جاتی ہے۔ گویا بھارت میں جوڑے بچوں کی پیدائش کے فطری اصول پر عمل کرتے، تو آج یہ پانچ کروڑ بچیاں زندہ ہوتیں۔
فطرت سے بغاوت کرنے کے باعث ہی بھارتی معاشرہ لڑکیوں کی قلت کی وجہ سے بعض سنگین مسائل کا نشانہ بن چکا۔ سب سے بڑا مسئلہ خواتین کی بے حرمتی کا ہے۔ آج کل انٹرنیٹ کے باعث بھارت نوجوانوں کی فحش مواد تک رسائی آسان ہوچکی جس کے نتیجے میں انتہائی افسوناک واقعات پیش آتے ہیں۔ لڑکیوں کی کمی سے شادی نہ ہونا اس معاشرتی مسئلے کو زیادہ خطرناک بناچکا۔ اس باعث آج پورے بھارت میں زیادتی کے واقعات رونما ہورہے ہیں اور ان کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔
بھارتی ماہرین کی رو سے آج بھارت میں ہر 100 لڑکوں کے مقابلے میں 90 لڑکیاں بستی ہیں جبکہ ماضی میں یہ شرح 100 لڑکوں کے مقابلے میں 97 لڑکیاں تھیں۔ یاد رہے، فطری لحاظ سے ہر علاقے میں لڑکے اور لڑکیاں یکساں تعداد میں جنم لیتے ہیں۔ تاہم لڑکیاں زیادہ تعداد میں بیماریوں اور دیگر آفات کا نشانہ بنتی ہیں۔ اس لیے کچھ مدت بعد ان کی تعداد گھٹ جاتی ہے۔ تاہم یہ قلت اتنی زیادہ نہیں ہوتی کہ لڑکوں کو شادی کے لیے لڑکی ملنے پر دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ چین اور بھارت میں غیر فطری طریقے اپنالینے سے لڑکیوں کی کمی نے جنم لیا۔
پاکستان میں ہوئی حالیہ مردم شماری کے مطابق وطن عزیز میں دس کروڑ چونسٹھ لاکھ پچاس ہزار مرد آباد ہیںجبکہ دس کروڑ تیرہ لاکھ چودہ ہزار خواتین بستی ہیں۔ گویا پاکستان میں مردوں کی نسبت اکیاون لاکھ پینتیس ہزار خواتین کم ہیں۔ مگر یہ کمی ایسی خاص نہیں کہ یہاں شادی کرنا چین اور بھارت کے کئی علاقوں کی طرح سنگین مسئلہ اور کٹھن مرحلہ بن جائے۔
شادی بیاہ کے سلسلے میں وطن عزیز میں تو یہ بڑا مسئلہ ہے کہ کئی لڑکیاں گھر بیٹھے بیٹھے بوڑھی ہوجاتی ہیں اور ازدواجی بندھن میں نہیں بندھ پاتیں۔ کبھی والدین کی غربت آڑے آتی ہے، تو کبھی مناسب لڑکا نہیں مل پاتا۔ گویا پاکستان میں معاملہ الٹ ہے کہ یہاں کسی نہ کسی وجہ سے ہزارہا لڑکیوں کی شادی نہیں ہوپاتی۔
انسانی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ دو ممالک (چین و بھارت) میں لڑکیوں کی اچھی خاصی قلت جنم لے چکی۔ یہ اعجوبہ اب ایسے مسائل پیدا کررہا ہے جن سے انسان پہلے دو چار نہیں تھے۔ ماہرین عمرانیات تو انتباہ کررہے ہیں کہ اگر دونوں ممالک کے معاشروں میں کنوارے مردوں کی تعداد بڑھتی رہی تو وہ معاشرے کی امن و سلامتی کے لیے بڑا خطرہ بن سکتے ہیں۔ چین میں تو حکومت لڑکوں اور لڑکیوں کی تعداد میں عدم توازن ختم کرنے کی خاطر مختلف اقدامات کررہی ہے، مگر بھارتی حکمران اپنے حال میں مست ہیں۔ ان کی یہ روش مستقبل میں بھارتی معاشرے کو شورش و ابتری کا شکار بناسکتی ہے۔
قدرتی طور پر مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے کشش رکھتے ہیں۔ لیکن مرد کو ساتھی نہ ملے، تو وہ ڈپریشن اور تنہائی کا نشانہ بن سکتا ہے۔ نتیجتاً آج چین و بھارت کے کروڑوں کنوارے مختلف نفسیاتی عوارض کا شکار ہیں۔ یہی نہیں انہیں مجبوراً ایسے کام سیکھنے پڑے ہیں جو خواتین انجام دیتی ہیں مثلاً کھانا پکانا؟ کپڑے دھونا، گھر کی صفائی کرنا وغیرہ۔
ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اب کنوارے لڑکے کو دن رات محنت کرکے پیسا جوڑنا پڑتا ہے تاکہ وہ خود کو شادی کے قابل بناسکے۔ بعض اوقات محنت کرتے کرتے لڑکا ادھیڑ عمر ہوجاتا ہے اور اسے دلہن نہیں مل پاتی۔
چین اور بھارت میں لڑکیوں کی قلت زمین اور گھروں کی قیمتیں بھی بڑھا چکی۔ وجہ یہ کہ اب کنوارے لڑکے سمجھتے ہیں کہ اگر وہ گھر بنالیں، تو یہ بات شادی کی ضمانت بن جائے گی۔ لہٰذا جب پلاٹوں اور گھروں کی مانگ بڑھی، تو ان کی قیمتیں بھی بڑھ گئیں۔ گویا شادی کرنا ان ممالک میں مہنگا عمل بنتا چلا جا رہا ہے۔
چین میں تو خیر دولہا دلہن کی خدمت میں نقدی پیش کرتا ہے، اب بھارت کے بعض علاقوں میں بھی لڑکیوں کی قلت کے باعث جہیز کی رسم قصّہ پارینہ بن چکی۔ وہاں لڑکے والے لڑکی والوں کو نقدی و اشیا دیتے ہیں تاکہ بیاہ انجام پاسکے۔ یعنی علاقوں کے جن گھرانوں میں لڑکیاں بستی ہیں، بیٹھے بٹھائے ان پر دھن برسنے لگا۔ سچ ہے، زمانے کے انداز نرالے ہیں اور یہ کہ وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا۔
لڑکیوں کی قلت کے باعث اب چین میں دلہنوں کی خریدو فروخت ہونے لگی۔ لالچی والدین کے لیے یہ بڑا منفعت بخش کاروبار بن چکا۔ اب ایک عام لڑکی کے والدین بھی لڑکوں والوں سے کم از کم پندرہ بیس لاکھ روپے، بنگلے اور کار کا مطالبہ کرتے ہیں۔ لڑکے والے یہ جہیز دے دیں تبھی وہ دلہن حاصل کرپاتے ہیں۔ لڑکی خوبصورت ہو، تو اس کی قیمت کروڑوں روپے تک پہنچ جاتی ہے۔
دلہنوں کی بڑھتی قیمت اور ان کی نایابی کے باعث اب چینی نوجوان پڑوسی ممالک مثلاً کمبوڈیا، لاؤس، ویت نام، برما وغیرہ سے دلہنیں خرید کر لارہے ہیں۔ ان ممالک میں کافی غربت ہے، لہٰذا چینی نوجوانوں کو وہاں سے کم داموں پر دلہن مل جاتی ہے۔ مگر بعض ظالم شوہر ان بیرون ممالک سے آئی بیویوں کو اپنا غلام سمجھتے اور ان پر ظلم کرتے ہیں۔
اِدھر بھارت کے خصوصاً دیہات اور قصبات میں لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ معمول بن رہا ہے۔ حد یہ ہے کہ کچھ علاقوں میں لڑکیاں گھر سے باہر نہیں نکل سکتیں۔ وہ سکول کالج یا بازار جائیں تو موٹر سائیکلوں پر منڈلاتے لڑکے ان پر آوازے کستے ہیں۔ یہ عمل بھارتی دیہی معاشرے میں دنگے فساد کرانے کا ایک بڑا محرک بن رہا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ چین اور بھارت کی حکومتوں نے اپنے معاشرے سے لڑکیوں کی کمی دور کرنے کے ٹھوس اور فوری اقدامات نہ کیے تو اس معاشرتی مسئلے کے بطن سے مزید سنگین مسائل جنم لیں گے۔ انسان جب بھی فطرت سے انحراف کرے، تو مصائب میں گھر جاتا ہے۔ لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح دینا بھی ایک غیر فطری چلن ہے۔ یہ چلن اپنانے کے باعث ہی آج چین اور بھارت کے معاشرے عجیب و غریب مسائل میں گرفتار ہوچکے۔ اہل پاکستان اپنے پڑوسیوں کے اعمال دیکھ کر عبرت پکڑیں اور اپنی بچیوں، بیٹیوں اور بہنوں کو سر آنکھوں پر بٹھائیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہیں اور بنی نوع انسان کے لیے ایک بڑا انعام بھی۔
لی شنگ چین کے ایک قصبے، پیانگ فی کا باسی تھا۔ قصبے میں کھیتی باڑی سے متعلق ملازمتیں ہی میسر تھیں جن سے کم رقم وصول ہوتی۔ چنانچہ وہ قریبی شہر، گیانگ چلا گیا تاکہ کوئی اچھی ملازمت کرسکے۔ شہر میں اس نے پلمبنگ کا کام سیکھا اور چند سال بعد یہ ہنر سیکھ کر معقول رقم کمانے لگا۔
آج لی شنگ انتیس سال کا ہوچکا۔ اس نے اپنے آبائی قصبے میں پانچ مرلے پر مشتمل ایک عمدہ گھر تعمیر کرلیا ہے مگر اس کی شادی کا امکان دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ وجہ یہ کہ بیچارے لی کو کوئی دلہن ہی نہیں ملتی۔ قصبے کی آبادی پانچ ہزار ہے اور وہاں شادی کے لائق صرف ڈیڑھ سو لڑکیاں بستی ہیں جبکہ لڑکوں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے۔ لہٰذا لڑکیاں اور ان کے والدین بھی صرف ایسے لڑکوں کے رشتوںکو پسند کرتے ہیں جو مالی و مادی اعتبار سے امیر و خوشحال ہوں۔
یہ صرف لی شنگ کے قصبے کا انوکھا ماجرا نہیں، آج چین اور بھارت میں ایسے کئی علاقے موجود ہیں جہاں شادی کے قابل لڑکیوں کا کال ہے۔ ان علاقوں میں لڑکیوں کی تعداد بہت کم ہوچکی ہے۔ اس غیر فطری عجوبے کی وجہ سے ان چینی و بھارتی علاقوں میں کئی معاشرتی مسائل جنم لے رہے ہیں۔
ایک بچہ فی خاندان
چین میں لڑکیوں کی تعداد میں بنیادی طور پر اس لیے کمی آئی کہ 1979ء میں چینی حکومت نے قوم کو یہ حکم دے ڈالا کہ صرف ایک بچہ پیدا کیا جائے۔ یہ حکم 2015ء تک نافذ عمل رہا۔ اس دوران طب میں جدت آنے کے باعث زچگی سے قبل یہ جاننا ممکن ہوگیا کہ بچہ لڑکا ہے یا لڑکی! چینی خاندانوں کی اکثریت نے لڑکے کو ترجیح دی کیونکہ خاندان کی نسل اسی سے آگے چلتی ہے۔ اگر الٹراساؤنڈ لڑکی کی موجودگی کا اشارہ دیتا تو چینی جوڑااسقاط حمل کرالیتا۔
ایک بچہ فی فیملی پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ چھتیس سال کے دوران چین میں لڑکیاں کم پیدا ہوئیں۔ اسی غیر فطری عمل کے باعث آج چین میں لڑکیوں کی کمی واقع ہوچکی۔ چین کی آبادی ایک ارب چالیس کروڑ ہے۔ انسانی پیدائش کے فطری اصول کی خلاف ورزی کرنے کے باعث چینی معاشرے میں تقریباً ساڑھے چار کروڑ لڑکیاں کم ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ مثلاً ارجنٹائن، یوکرائن، سوڈان، پولینڈ، کینیڈا جیسے بڑے ممالک کی آبادی ساڑھے چار کروڑ نفوس سے کم ہے۔
لڑکیوں کی کمی کے باعث چینی معاشرے میں کئی انوکھے مسائل جنم لے چکے ہیں۔ چین میں رواج ہے کہ لڑکا اور اس کا خاندان لڑکی یا اس کے اہل خانہ کو نقدی یا اشیا بہ شکل جہیز دیتا ہے۔ گویا پاکستان کے مقابلے میں وہاں الٹا حساب ہے۔ ماضی میں تھوڑے بہت جہیز سے چین میں دلہن مل جاتی تھی مگر اب اسے پانے کے لیے بہت جتن کرنے پڑتے ہیں۔ وجہ یہی کہ لڑکیوں کی کمی کے باعث ہر لڑکی اور اس کے اہل خانہ زیادہ سے زیادہ جہیز پانا چاہتے ہیں۔ اسے خودغرضی کہہ لیجیے یا لالچ مگر چین میں یہ چلن جنم لے چکا ہے۔
مثال کے طور پر لی شنگ ہی کو دیکھئے۔ وہ ایک اچھے خاصے گھر کا مالک ہے۔ معقول رقم کماتا ہے مگر کوئی لڑکی اسے چاہت بھری نظروں سے بھی نہیں دیکھتی۔ وجہ یہ کہ بدقسمت لی ایسے علاقے کا باسی ہے جہاں لڑکیاں دیگر چینی علاقوں کی نسبت زیادہ کم تعداد میں ملتی ہیں۔ اس علاقے میں ایک دلہن بیاہ کر لانے میں کم از کم پچاس لاکھ روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ ظاہر ہے اتنی زیادہ رقم صرف امرا ہی فراہم کرسکتے ہیں۔ لہٰذا گنے چنے امیر خاندان سے تعلق رکھنے والے لڑکوں کی تو شادیاں ہوجاتی ہیں، متوسط اور نچلے طبقوں کے لاکھوں لڑکے کنوارے بیٹھے اپنی قسمت کو کوس رہے ہیں۔
لڑکی ایک بوجھ
چین کے پڑوسی بھارت میں بھی کئی علاقے لڑکیوں کی قلت کا شکار ہیں۔ بھارت میں یہ عجوبہ جنم لینے کی وجہ چین سے مختلف ہے۔ بھارت میں لڑکی کا بیاہ کراتے ہوئے والدین کو جہیز کا بندوبست کرنا پڑتا ہے۔ پھر شادی بھی خوب دھوم دھڑکے سے کرنا ہوتی ہے جس پہ مزید پیسا لگتا ہے۔ لہٰذا ایک شادی پر اچھی خاصی رقم لگ جاتی ہے۔ اس خرچ سے بچنے کی خاطر بیشتر بھارتی والدین یہی پراتھنا (دعا) کرتے ہیں کہ ان کے ہاں لڑکا جنم لے۔ بھارتی معاشرے میں لڑکیوں کو بوجھ سمجھا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے جب دوران حمل جنس کی نشاندہی کرنے والے طبی آلات ایجاد ہوئے تو بھارتی والدین کی اکثریت لڑکی ہونے کی صورت میں اسقاط کرانے لگی۔ یہ عمل بعض بھارتی ریاستوں مثلاً ہریانہ، اترپردیش، راجھستان، بہار وغیرہ میں بہت زیادہ اپنایا گیا۔ اسی باعث ان ریاستوں میں لڑکیوں کی شدید قلت پیدا ہوچکی ۔جبکہ مجموعی طور پر بھارت میں تقریباً پانچ کروڑ لڑکیوں کی کمی بتائی جاتی ہے۔ گویا بھارت میں جوڑے بچوں کی پیدائش کے فطری اصول پر عمل کرتے، تو آج یہ پانچ کروڑ بچیاں زندہ ہوتیں۔
فطرت سے بغاوت کرنے کے باعث ہی بھارتی معاشرہ لڑکیوں کی قلت کی وجہ سے بعض سنگین مسائل کا نشانہ بن چکا۔ سب سے بڑا مسئلہ خواتین کی بے حرمتی کا ہے۔ آج کل انٹرنیٹ کے باعث بھارت نوجوانوں کی فحش مواد تک رسائی آسان ہوچکی جس کے نتیجے میں انتہائی افسوناک واقعات پیش آتے ہیں۔ لڑکیوں کی کمی سے شادی نہ ہونا اس معاشرتی مسئلے کو زیادہ خطرناک بناچکا۔ اس باعث آج پورے بھارت میں زیادتی کے واقعات رونما ہورہے ہیں اور ان کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔
بھارتی ماہرین کی رو سے آج بھارت میں ہر 100 لڑکوں کے مقابلے میں 90 لڑکیاں بستی ہیں جبکہ ماضی میں یہ شرح 100 لڑکوں کے مقابلے میں 97 لڑکیاں تھیں۔ یاد رہے، فطری لحاظ سے ہر علاقے میں لڑکے اور لڑکیاں یکساں تعداد میں جنم لیتے ہیں۔ تاہم لڑکیاں زیادہ تعداد میں بیماریوں اور دیگر آفات کا نشانہ بنتی ہیں۔ اس لیے کچھ مدت بعد ان کی تعداد گھٹ جاتی ہے۔ تاہم یہ قلت اتنی زیادہ نہیں ہوتی کہ لڑکوں کو شادی کے لیے لڑکی ملنے پر دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ چین اور بھارت میں غیر فطری طریقے اپنالینے سے لڑکیوں کی کمی نے جنم لیا۔
پاکستان میں ہوئی حالیہ مردم شماری کے مطابق وطن عزیز میں دس کروڑ چونسٹھ لاکھ پچاس ہزار مرد آباد ہیںجبکہ دس کروڑ تیرہ لاکھ چودہ ہزار خواتین بستی ہیں۔ گویا پاکستان میں مردوں کی نسبت اکیاون لاکھ پینتیس ہزار خواتین کم ہیں۔ مگر یہ کمی ایسی خاص نہیں کہ یہاں شادی کرنا چین اور بھارت کے کئی علاقوں کی طرح سنگین مسئلہ اور کٹھن مرحلہ بن جائے۔
شادی بیاہ کے سلسلے میں وطن عزیز میں تو یہ بڑا مسئلہ ہے کہ کئی لڑکیاں گھر بیٹھے بیٹھے بوڑھی ہوجاتی ہیں اور ازدواجی بندھن میں نہیں بندھ پاتیں۔ کبھی والدین کی غربت آڑے آتی ہے، تو کبھی مناسب لڑکا نہیں مل پاتا۔ گویا پاکستان میں معاملہ الٹ ہے کہ یہاں کسی نہ کسی وجہ سے ہزارہا لڑکیوں کی شادی نہیں ہوپاتی۔
انسانی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ دو ممالک (چین و بھارت) میں لڑکیوں کی اچھی خاصی قلت جنم لے چکی۔ یہ اعجوبہ اب ایسے مسائل پیدا کررہا ہے جن سے انسان پہلے دو چار نہیں تھے۔ ماہرین عمرانیات تو انتباہ کررہے ہیں کہ اگر دونوں ممالک کے معاشروں میں کنوارے مردوں کی تعداد بڑھتی رہی تو وہ معاشرے کی امن و سلامتی کے لیے بڑا خطرہ بن سکتے ہیں۔ چین میں تو حکومت لڑکوں اور لڑکیوں کی تعداد میں عدم توازن ختم کرنے کی خاطر مختلف اقدامات کررہی ہے، مگر بھارتی حکمران اپنے حال میں مست ہیں۔ ان کی یہ روش مستقبل میں بھارتی معاشرے کو شورش و ابتری کا شکار بناسکتی ہے۔
قدرتی طور پر مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے کشش رکھتے ہیں۔ لیکن مرد کو ساتھی نہ ملے، تو وہ ڈپریشن اور تنہائی کا نشانہ بن سکتا ہے۔ نتیجتاً آج چین و بھارت کے کروڑوں کنوارے مختلف نفسیاتی عوارض کا شکار ہیں۔ یہی نہیں انہیں مجبوراً ایسے کام سیکھنے پڑے ہیں جو خواتین انجام دیتی ہیں مثلاً کھانا پکانا؟ کپڑے دھونا، گھر کی صفائی کرنا وغیرہ۔
ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اب کنوارے لڑکے کو دن رات محنت کرکے پیسا جوڑنا پڑتا ہے تاکہ وہ خود کو شادی کے قابل بناسکے۔ بعض اوقات محنت کرتے کرتے لڑکا ادھیڑ عمر ہوجاتا ہے اور اسے دلہن نہیں مل پاتی۔
چین اور بھارت میں لڑکیوں کی قلت زمین اور گھروں کی قیمتیں بھی بڑھا چکی۔ وجہ یہ کہ اب کنوارے لڑکے سمجھتے ہیں کہ اگر وہ گھر بنالیں، تو یہ بات شادی کی ضمانت بن جائے گی۔ لہٰذا جب پلاٹوں اور گھروں کی مانگ بڑھی، تو ان کی قیمتیں بھی بڑھ گئیں۔ گویا شادی کرنا ان ممالک میں مہنگا عمل بنتا چلا جا رہا ہے۔
چین میں تو خیر دولہا دلہن کی خدمت میں نقدی پیش کرتا ہے، اب بھارت کے بعض علاقوں میں بھی لڑکیوں کی قلت کے باعث جہیز کی رسم قصّہ پارینہ بن چکی۔ وہاں لڑکے والے لڑکی والوں کو نقدی و اشیا دیتے ہیں تاکہ بیاہ انجام پاسکے۔ یعنی علاقوں کے جن گھرانوں میں لڑکیاں بستی ہیں، بیٹھے بٹھائے ان پر دھن برسنے لگا۔ سچ ہے، زمانے کے انداز نرالے ہیں اور یہ کہ وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا۔
لڑکیوں کی قلت کے باعث اب چین میں دلہنوں کی خریدو فروخت ہونے لگی۔ لالچی والدین کے لیے یہ بڑا منفعت بخش کاروبار بن چکا۔ اب ایک عام لڑکی کے والدین بھی لڑکوں والوں سے کم از کم پندرہ بیس لاکھ روپے، بنگلے اور کار کا مطالبہ کرتے ہیں۔ لڑکے والے یہ جہیز دے دیں تبھی وہ دلہن حاصل کرپاتے ہیں۔ لڑکی خوبصورت ہو، تو اس کی قیمت کروڑوں روپے تک پہنچ جاتی ہے۔
دلہنوں کی بڑھتی قیمت اور ان کی نایابی کے باعث اب چینی نوجوان پڑوسی ممالک مثلاً کمبوڈیا، لاؤس، ویت نام، برما وغیرہ سے دلہنیں خرید کر لارہے ہیں۔ ان ممالک میں کافی غربت ہے، لہٰذا چینی نوجوانوں کو وہاں سے کم داموں پر دلہن مل جاتی ہے۔ مگر بعض ظالم شوہر ان بیرون ممالک سے آئی بیویوں کو اپنا غلام سمجھتے اور ان پر ظلم کرتے ہیں۔
اِدھر بھارت کے خصوصاً دیہات اور قصبات میں لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ معمول بن رہا ہے۔ حد یہ ہے کہ کچھ علاقوں میں لڑکیاں گھر سے باہر نہیں نکل سکتیں۔ وہ سکول کالج یا بازار جائیں تو موٹر سائیکلوں پر منڈلاتے لڑکے ان پر آوازے کستے ہیں۔ یہ عمل بھارتی دیہی معاشرے میں دنگے فساد کرانے کا ایک بڑا محرک بن رہا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ چین اور بھارت کی حکومتوں نے اپنے معاشرے سے لڑکیوں کی کمی دور کرنے کے ٹھوس اور فوری اقدامات نہ کیے تو اس معاشرتی مسئلے کے بطن سے مزید سنگین مسائل جنم لیں گے۔ انسان جب بھی فطرت سے انحراف کرے، تو مصائب میں گھر جاتا ہے۔ لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح دینا بھی ایک غیر فطری چلن ہے۔ یہ چلن اپنانے کے باعث ہی آج چین اور بھارت کے معاشرے عجیب و غریب مسائل میں گرفتار ہوچکے۔ اہل پاکستان اپنے پڑوسیوں کے اعمال دیکھ کر عبرت پکڑیں اور اپنی بچیوں، بیٹیوں اور بہنوں کو سر آنکھوں پر بٹھائیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہیں اور بنی نوع انسان کے لیے ایک بڑا انعام بھی۔