اٹک خودکش حملہ سیکیورٹی انتظامات میں سختی کی ضرورت

کہا جاتا ہے کہ خودکش حملوں کو مکمل روکنا ناممکن ہے کیونکہ حملہ آور اپنے ہدف پر پہنچے سے پہلے بھی خودکو تباہ کرسکتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ خودکش حملوں کو مکمل روکنا ناممکن ہے کیونکہ حملہ آور اپنے ہدف پر پہنچے سے پہلے بھی خودکو تباہ کرسکتا ہے۔ فوٹو : آن لائن

اٹک میں بسال روڈ پر حساس ادارہ کے سول ملازمین کی بس پر خودکش حملے میں ڈرائیور سمیت 2افراد شہید اور 18 شدید زخمی ہوگئے۔ دہشت گرد نے موٹر سائیکل کے ذریعے بس کو نشانہ بنایا۔

افسوس ناک امر ہے کہ وطن عزیز میں نہ صرف دہشت گردوں کی باقیات موجود ہیں بلکہ ملک کے اکثر علاقوں میں وقتاً فوقتاً ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیاں ظاہر کررہی ہیں کہ تمام تر کاوشوں اور کوششوں کے باوجود شرپسند عناصر کی مکمل بیخ کنی ابھی ممکن نہیں ہوپائی ہے جب کہ ملک میں ممکنہ دہشت گردانہ حملوں کی انٹیلی جنس معلومات میں سقم کے باعث یہ شرپسند نہ صرف اپنے اہداف تک پہنچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں بلکہ انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بھی بنتے ہیں۔

آخر کیا وجہ ہے کہ ملک کے اکثر علاقوں میں ہونے والی ان خودکش کارروائیوں کا سدباب ممکن نہیں ہوپارہا۔ حالیہ اٹک حملے میں حساس ادارے سے منسلک سویلین افراد کو لے کر جانے والی بس اٹک کی ڈھوک گاما بسال کے قریب جب اسپیڈ بریکر کے قریب آہستہ ہوئی تو ایک موٹر سائیکل سوار حملہ آور نے بس پر فائرنگ شروع کردی، فائرنگ رکتے ہی ڈرائیور نے بس سے اتر کر اسے پکڑنے کی کوشش کی تاہم حملہ آور نے بارودی مواد کے ذریعے خود کو اڑا لیا، جس کے نتیجے میں بس ڈرائیور اور راہگیر شہید ہوگئے جب کہ بس کا اگلا حصہ مکمل تباہ ہوگیا۔


کہا جاتا ہے کہ خودکش حملوں کو مکمل روکنا ناممکن ہے، کیونکہ حملہ آور اپنے ہدف پر پہنچے سے پہلے بھی خود کو تباہ کرسکتا ہے۔ لیکن کیا انٹیلی جنس کا دائرہ کار بڑھا کر دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو قبل از واردات نہیں پکڑا جاسکتا؟ جب کہ موٹر سائیکل یا دیگر ٹرانسپورٹ کے ذریعے لے جائے جانے والے ہتھیار اور بارودی مواد شہر کے پررونق علاقوں سے گزرتے ہیں، کئی چیک پوسٹ اور پٹرولنگ پولیس کا بھی سامنا ہوتا ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ ایک دہشت گرد اپنے ہتھیاروں اور بارودی مواد کے ساتھ نہ صرف اپنے ہدف تک پہنچ جاتا ہے بلکہ حملہ کرنے میں بھی کامیاب ہوجاتا ہے۔

سیکیورٹی اداروں کو اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ ملک میں امن و امان کی مکمل بحالی کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ سیکیورٹی میں موجود اسقام کو دور کیا جائے، انٹیلی جنس اداروں کو فعال جب کہ کالعدم تنظیموں، ان کے حواریوں اور سہولت کاروں کے بارے میں جو معلومات اداروں کے پاس ہیں، ان کی شیئرنگ اور سختی سے نگرانی کی جائے۔ دہشت گردی کی جنگ میں ملک پہلے ہی نقصان اٹھا چکا ہے، ہزاروں جانیں اس دہشت گردی کی نذر ہوچکی ہیں، صائب ہوگا کہ دہشت گردوں کے خلاف ایک نئے عزم اور تیاری کے ساتھ میدان عمل میں سرگرم ہوا جائے، شرپسند عناصر کی باقیات کے مکمل خاتمے تک چین سے نہ بیٹھا جائے۔

حالیہ اٹک حملہ کی طرح ملک کے دیگر حصوں میں بھی دہشت گرد عناصر سرگرم ہیں، چند روز قبل کوئٹہ میں بھی دہشت گردی کی وارداتیں ہوئیں، بلوچستان ایک عرصے سے انارکی میں جھلس رہا ہے، ملک کے معاشی ہب کراچی میں بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس وینز پر حملوں کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔

بڑے شہروں کے ساتھ چھوٹے علاقے بھی دہشت گردوں کی زد پر ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف مکمل فعال ہوا جائے، کسی جانب سے موہوم سا امکان بھی باقی نہ چھوڑا جائے۔ سیکیورٹی انتظامات کو مزید سخت کیا جائے۔ دہشت گرد عناصر اور ان کے سہولت کاروں کی مکمل بیخ کنی وقت کا تقاضا ہے۔
Load Next Story