پیپلز پارٹی اور الیکشن

اب پیپلز پارٹی کی جگہ کسی حد تک بلکہ کافی حد تک ہماری نازک و نخریلی جماعت تحریک انصاف نے سنبھال لی ہے۔

Abdulqhasan@hotmail.com

SAINT-BARTHELEMY, SWITZERLAND:
پانچ سالہ اقتدار اور پانچ سالہ دوستانہ اپوزیشن کے بعد پیپلز پارٹی بڑی مشکل اور سیاسی مشقت کے بعد سیاست کے منظر میں دوبارہ داخل ہوئی ہے البتہ اس دفعہ ایک ان ہونی ہو گئی کہ پارٹی لیڈر اپوزیشن کے دور میں بھی جیل سے باہر رہے بلکہ ملک کی فضاؤں کے ساتھ ساتھ غیرملکی موسموں کے مزے بھی لیتے رہے ایک دو بار جناب آصف زرداری کو گھیرنے کی کوشش بھی کی گئی لیکن وہ بچ بچا کے نکل گئے اور واپسی تب ہی ہوئی جب ان کو پکی یقین دہانی ہو گئی۔

پیپلز پارٹی اور رونق میلہ دونوں لازم و ملزوم ہیں اس لیے جب تک پارٹی قومی سیاست میں فعال نہ ہو سیاست کا رنگ پھیکا ہی رہتا ہے حالانکہ اب پیپلز پارٹی کی جگہ کسی حد تک بلکہ کافی حد تک ہماری نازک و نخریلی جماعت تحریک انصاف نے سنبھال لی ہے ان کے جلسوں میں نئے سے نیا ترانہ سننے کو ملتا ہے بلکہ اس دفعہ تو لاہور کے مشہور منٹو پارک جسے شہبازشریف نے گریٹر اقبال پارک بنا دیا ہے وہاں پر تحریک کے جلسے سے ایک روز پہلے لاہوریوں کی ایک بہت بڑی تعداد گانا بجانا سننے پہنچ گئی اور جلسے سے پہلے ایک بھر پور جلسہ ہو گیا ۔

تحریک انصاف سے پہلے سیاسی میدان میں رونق میلہ پیپلز پارٹی کے حصے میں آیا تھا بلکہ اس کے خمیر میں یہ رونق میلہ گوندھ دیا گیا تھا ان کے لیڈر خوش ذوق ، خوش مزاج اور خوش وضع لوگ رہے ہیں اور یہ روایت جناب آصف علی زرداری تک پوری آب و تاب سے چلی آرہی ہے۔ یہ وصف بیان کرنا تو یاد ہی نہیں رہا کہ پارٹی خوش خوراک بھی ہے اور اپنے سامنے کھاجا دیکھ کر بے تاب اور بے قابو بھی ہو جاتی ہے اور جب کبھی ایسا نہیں ہوتا تو لوگ حیرت زدہ رہ جاتے ہیں لیکن ایسا شاذ ونادر ہی ہوتا ہے ورنہ جیالے تو کھانے کی دیگیں تک ہی الٹ دینے کے ماہر ہیں ۔

جناب زرداری کا آج کل زیادہ وقت پنجاب میں گزر رہا ہے وہ پنجاب کی سیاست پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں ان کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ پارٹی کا مضبوط گڑھ سندھ کے بعد پنجاب ہی ہے جس سے وہ اپنی سیاست اور گزشتہ حکمرانی کے باعث عوام کو ناراض کر بیٹھے اور عوام نے اپنی اس ناراضگی کا بدلہ فوری اتار دیا اور پارٹی پنجاب میں تقریباً ختم ہو کر رہ گئی، پارٹی کی پکی سیٹیں اور نامی گرامی عہدیدار بھی انتخابات کے بعد پارلیمانی سیاست سے باہر ہو گئے ۔ البتہ جنوبی پنجاب سے مخدوم صاحبان نے اپنی نشستیں پارٹی کی جھولی میں ڈال دیں۔

زرداری صاحب سیاست میں اپنا لوہا تو پہلے ہی منوا چکے ہیں انھوں نے محترمہ بینظیر شہید کے بعد پارٹی کی قیادت سنبھالی اور پانچ سال حکمرانی بھی کی ۔ ان کی حکمرانی کے جوہر ہم سب کے سامنے ہیں جس میں وہ ناکام رہے لیکن سیاست میں وہ کامیاب رہے ان کو ایک ناکام حکمران مگر ایک کامیاب سیاستدان کہا جا سکتا ہے، انھوں نے اپنی کامیاب سیاست سے اپنی بری حکمرانی کے باوجود پانچ سالہ اقتدار کا دور مکمل کر لیا ۔


اب ایک بار پھر وہ پنجاب میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں فی الحال وہ پارٹی قائدین سے ملاقاتیں کر رہے ہیں اور بیانات داغ رہے ہیں ان کا نشانہ میاں نواز شریف ہیں جن سے وہ گلہ کر رہے ہیں کہ انھوں نے ہر موقع پر میاں صاحب کا ساتھ دیا لیکن انھوں نے ان کو ہر موقع پر بیچ دیا ۔ سیاست میں سب کچھ چلتا ہے اور اب جب عام انتخابات کا عمل شروع ہونے کو ہے تو اس طرح کے الزامات نما بیانات ہر روز سننے کو ملیں گے ۔

آصف زرداری سیاست کرنے کا فن بخوبی جانتے ہیں اور اس کی جھلک انھوں نے سینیٹ انتخابات کے موقع پر دکھا دی تھی، اب وہ ایک بار پھر اس امید کے ساتھ پنجاب میں موجود ہیں کہ انتخابات میں آزاد امیدواروں کی ایک بہت بڑی تعداد الیکشن میں حصہ لینے جا رہی ہے جن کا اگلی حکومت کے قیام میں اہم کردار ہو گا اور آصف زرداری کی یہ کوشش ہو گی کہ وہ ان کو اپنے ساتھ ملا لیں اور حکومت میں حصہ دار بن جائیں کیونکہ ایک بات تو واضح ہے کہ کوئی بھی پارٹی اکیلی حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہو گی اگر کوئی انہونی نہ ہو گئی تو، لیکن جو سیاسی منظر ابھی نظر آرہا ہے اس سے فی الوقت یہی لگ رہا ہے کہ کسی مخلوط حکومت کا قیام ہو گا جو کہ دو پارٹیوں پر بھی مشتمل ہو سکتی ہے اور اگر کسی تیسرے کی ضرورت پڑے گی تو مذہبی جماعتوں کا اتحاد ایک بار پھر فعال کیا جا چکا ہے ۔

جس کی اپنی ایک الگ حیثیت اور وہ بھی انتخابی سیاست میں اہم کردار ادا کرے گا ۔پیپلز پارٹی کو پنجاب میں ایک مشکل درپیش ہے کہ اس کو جیتنے والے امیدوار نہیں مل رہے اور جو مل رہے ہیںوہ گنتی تو ضرور پوری کر سکتے ہیں لیکن جیت ان کے لیے اتنی ہی دور ہے جس کا نظارہ ہم لاہور میں ہونے والے ایک گزشتہ ضمنی انتخابات میں کر چکے ہیں جس میں پارٹی کے امیدوار کا جو حال ہوا وہ سب کے سامنے ہے حالانکہ یہ وہی لاہور ہے جہاں پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی اور اسے پارٹی کاگڑھ کہا جاتا تھا، بلاشبہ لاہوریوں نے پارٹی کوووٹ بھی دیے اور محترمہ بینظیرکا جلا وطنی کے بعد جس طرح لاہوریوں نے تاریخی استقبال کیا وہ بھی تاریخ کا ایک حصہ ہے ۔

پیپلز پارٹی کے لیے پنجاب میں متوقع انتخابی صورت یہ بن رہی ہے کہ اس کا انحصار زیادہ تر پنجاب کے ان اراکین پر ہو گا جو کہ آزاد حیثیت سے منتخب ہوں گے اس کے علاوہ پارٹی کو اپنی چند ایک نشستیں بھی ماضی کی طرح جنوبی پنجاب سے ہی ملنے کی توقع ہے کیونکہ اس کے پاس وہاں سے مخدوم احمد محمود کی صورت میں ایک مضبوط سیاسی شخصیت موجود ہے جن کا اپنا ایک سیاسی حلقہ اثر ہے وہ جنوبی پنجاب کی سیاست میں ایک اہم کردار ہیں ۔ شمالی پنجاب میں اگر قسمت نے یاوری کی تو پارٹی کو ایک دو نشستیں حاصل ہو جائیں گی ۔

یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا کہ پنجاب میں اصل مقابلہ نواز لیگ اور تحریک انصاف میں ہو گا اور پیپلز پارٹی ایک نسبتاً ایک خاموش تماشائی کا کردار ادا کرے گی ۔ پیپلز پارٹی کے لیے اس تمام سیاسی صورتحال کے باوجود ایک بات کی پیش گوئی ضرور کی جا سکتی ہے کہ اس کا آیندہ سیاسی حکومت میں کردار اہم ہو گا دیکھتے ہیں کہ سندھ سے پیپلز پارٹی کا ووٹر اس کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے۔
Load Next Story