میرے کہنے کو کیا رہ گیا
سیاستدانوں کا تو کام ہی خیر کیڑے نکالنا ہے۔ظاہر ہے نیب کی کارکردگی پر کیچڑ اچھلنا بھی اسی عادت کا حصہ تھا۔
جب نومبر انیس سو ننانوے میں قومی احتساب بیورو (نیب)قائم ہوا تو مجھ جیسے کئی سادوں نے اطمینان کا سانس لیا جو ہوش سنبھالنے سے اب تک محکمہ اینٹی کرپشن ، جنرل ضیا الحق کے یکطرفہ احتسابی عمل اور سینیٹر سیف الرحمان کے احتساب بیورو کی انتقامی پھرتیاں دیکھ دیکھ کر احتساب کے لفظ سے بیزار ہو چکے تھے۔نیب سے اس لیے امیدیں زیادہ تھیں کیونکہ اس ادارے کو آئینی تحفظ دیا گیا تاکہ کسی بھی اچھے خان کی دھونس نہ چل سکے۔
آئین کی نظر میں چونکہ تمام شہری برابر ہیں لہذا یہ امید برحق تھی کہ نیب بھی تمام پاکستانیوں کو اسی آئینی نگاہ سے دیکھے گی۔نیب کی عقابی نگاہوں سے کوئی محمود و ایاز نہیں بچ پائے گا اور کسی حکمران میں جرات نہیں ہو گی کہ وہ نیب کے عہدیداروں کو اپنی مرضی سے املا دے سکے اور دباؤ میں لے کر تقرریوں اور تبادلوں کا کنٹرول حاصل کرنے کا سوچ بھی سکے۔
جب ملتان کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل سید محمد امجد کو نیب کا پہلا چیئرمین بنایا گیا تو ایک پروفیشنل ایماندار منتظم کا انتخاب اس بات کا اشارہ ہے کہ چیف ایگزیکٹو آف پاکستان جنرل پرویز مشرف نو نان سینس شخص ہیں۔نیب کے سربراہ کی آئینی مدت ویسے تو چار برس تھی۔لیکن جب جنرل امجد نے مدت پوری ہونے سے پہلے ہی استعفی دے دیا تب ماتھا ٹھنکا کہ جیسا نظر آ رہا ہے شائد ویسا نہیں۔
دو ہزار دو کے انتخابات سے پہلے میاں محمد اظہر نے مسلم لیگ ق کی بنیاد رکھی۔پھر معلوم ہوا کہ ق پر جو دو نکتے پڑے ہیں وہ دراصل چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الہی ہیں۔میاں اظہر رفتہ رفتہ نادیدہ نکتے میں تبدیل ہوتے گئے اور چوہدری برادران پورے ق ہو گئے۔ نیب میں کرپشن کے معاملات میں سیاستدانوں کے خلاف بلاامتیاز ریفرنسز بننے شروع ہوئے۔پلی بارگین کا آلہ متعارف کروایا گیا۔ کسی عقلمند نے راہ سجھائی کہ جو جو ثبوت اکٹھے کیے گئے ہیں ان کے شکنجے سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ بقول ایک پنڈی وال راجہ صاحب '' افسراں دی گل دھیان نال سنن تے حکومتِ وقوت دی تابعداری کرن وچ کے ہروج اے ''۔
یہ محضِ حسن ِ اتفاق ہے کہ جوں جوں نیب کی احتسابی گلوٹین کی دھار تیز ہوتی چلی گئی ق کا دڑبہ بھرتا چلا گیا۔پیپلز پارٹی کے پیٹریاٹوں کو بھی بات سمجھ میں آ گئی اور ایک بار پھر سب پہلے سے مستحکم و توانا ''سب سے پہلے پاکستان '' میں ہنسی خوشی رہنے لگے۔
سیاستدانوں کا تو کام ہی خیر کیڑے نکالنا ہے۔ظاہر ہے نیب کی کارکردگی پر کیچڑ اچھلنا بھی اسی عادت کا حصہ تھا۔ مگر کسی نے دھیان نہیں دیا کہ نیب اتنا غیر جانبدار ہے کہ خود اس کے پہلے چیئرمین جنرل امجد کے خلاف فوجی فاؤنڈیشن کی کھوسکی شوگر مل کی فروخت میں خرد برد کے الزامات کی درخواست بھی جون دو ہزار پانچ میں نیب نے قبول کی۔ سینیٹ کی دفاعی امور سے متعلق قائمہ کمیٹی نے بھی اس بابت فوجی فاؤنڈیشن کو طلب کیا۔ معاملہ تب رفع دفع ہوا جب قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ فوجی فاؤنڈیشن ایک نجی ادارہ ہے اور قائمہ کمیٹی کے دائرہِ اختیار سے باہر ہے۔
نیب نے پلی بارگین کے آلے سے اربوں روپے بازیاب کیے مگر سپریم کورٹ اس طریقِ کار کو ناقص سمجھتی رہی۔سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے پلی بارگین کے آؤٹ آف کورٹ فارمولے کو ادارتی بدعنوانی قرار دیتے ہوئے اس کے سخت لتے لیے۔کیونکہ اس فارمولے کی روشنی میں نیب خود ہی طے کرتا ہے کہ جو سو روپے ہڑپ کیے گئے ان میں سے کتنے روپے واپس کرنے پر ملزم کو ایمانداری کا ضبط شدہ سرٹفیکٹ واپس کیا جائے گا۔اس بابت نیب کی سوچ یہ ہے کہ جس نے سو روپے ہڑپ کر لیے اسے اگر گلو خلاصی کا کوئی دروازہ نہیں دکھایا جائے گا تو پھر وہ کیوں ایک پائی بھی واپس کرے۔کم ازکم سزا کا بھوت دکھا کر پلی بارگین کا بخار تو قبول کروایا ہی جا سکتا ہے۔ بھاگتے بھوت کی لنگوٹی ہی سہی۔
ہمیں نہیں معلوم نیب دراصل کتنا خودمختار اور کتنا بندھا ہوا ہے۔کتنا غیر جانبدار یا کتنا فرمائشی اسیر ہے۔ کب چھری آہستہ آہستہ چلاتا ہے اور کب تیز تیز۔مگر کچھ پہلو ضرور ایسے ہیں جن پر سنجیدگی سے دھیان دینے کی ضرورت ہے۔چند روز پہلے ایک ٹی وی ٹاک شو میں لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج اور نیب کے سابق اسپیشل پراسکیوٹر جنرل شاہ خاور نے جو کہا۔اس کا لبِ لباب بلاتبصرہ حاضر ہے۔
'' نوے کی دھائی تک کرپشن کی چھان بین کے لیے صدارتی اجازت سے انکوائری ہوتی اور ریفرینسز دائرکیے جاتے۔یہ اختیار سیاسی انتقام کے لیے بھی استعمال ہوتا تھا۔ نیب جس قانون کے تحت قائم ہوا اس میں پورا ادارہ چیئرمین کے گرد طواف کرتا ہے۔چیئرمین ہی ابتدائی انکوائری اور پھر اسے باضابطہ تحقیقات میں بدلنے اور پھر مقدمہ چلانے کی اجازت دیتا ہے۔اگرچہ نیب قانون میں ترمیم کے نتیجے میں ایک فرد کی جگہ ایگزیکٹو بورڈ وجود میں لایا گیا مگر صوابدیدی اختیارات اپنی جگہ قائم ہیں۔
صوابدید کے درست اور غلط استعمال کا احتمال ہمیشہ برابر برابر رہتا ہے۔لہذا نیب کے پیچیدہ اور الجھے ہوئے قانون میں بہت سی وضاحتوں اور ترامیم کی ضرورت ہے۔شروع شروع میں نیب کے تحت بلاامتیاز کارروائیاں ہوئیں ، ریفرنس دائر ہوئے ، کیسز بنے لیکن بعد میں اسے سیاسی ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا گیا۔بہت سے لوگوں کو سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے رہا کیا گیا۔ صوابدیدی اختیارات کا بھی بلا رکاوٹ استعمال ہوا۔
نیب آرڈیننس تو ہے مگر آج تک اس کے ذیلی رولز نہیں بنے۔لہذا کچھ طے نہیں کہ ایک انکوائری کتنے عرصے میں مکمل ہوگی ، کتنے ٹائم فریم میں ریفرنس دائر ہوگا۔اسی لیے بہت سی تحقیقات سالہا سال سے التوا میں پڑی ہیں ، بہت سی اچانک غائب ہوجاتی ہے اور کئی نمودار ہو جاتی ہیں اور چھان بین کا عمل تیز یا آہستہ ہو جاتا ہے۔حالانکہ ضابطہِ فوجداری تک میں پابندی ہے کہ اگر پولیس کوئی ایف آئی آر کاٹتی ہے تو اسے ہر صورت میں نامکمل ہی سہی مگر پندرہ روز کے اندر اندر چالان عدالت میں پیش کرنا ہوتا ہے۔
نیب کی انویسٹی گیشن ٹیم خاصی کمزور ہے۔بہت سے ناتجربہ کار لوگ ہیں جن کی بنیادی قابلیت ایل ایل بی بھی نہیں۔نہ انھیں کوئی تفتیشی تجربہ ہے۔اور اس بابت انھیں کسی لمبی تربیت کے عمل سے بھی نہیں گذارا جاتا۔اگر نیب کو ایک موثر اور شفاف ادارے کی تصویر بنانی ہے تو ہر مرحلے کے لیے ٹائم فریم پر مبنی ذیلی ضابطے بنانے ہوں گے۔
صوابدیدی اختیارات کا کم سے کم استعمال یقینی بنانا ہوگا۔اگر کسی انکوائری کے نتیجے میں ریفرینس بنانے کے لیے کافی ثبوت نہیں ملتے تو اسی انکوائری کو سالہاسال تحقیقی افسر کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے بجائے فوری طور پر داخلِ دفتر کیا جائے۔گرفتاری تب کی جائے جب ٹھوس ثبوت ہاتھ میں ہوں۔نیب صرف میگا کرپشن کیسز میں ہاتھ ڈالے اور باقی معاملات اینٹی کرپشن کے صوبائی اداروں کو نمٹانے دے۔ اس طرح نیب کو میگا کرپشن کا تعاقب کرنے کے لیے وقت اور توجہ مناسب مقدار میں میسر آئے گی۔یوں ملکی خزانے کا بھی بھلا ہوگا جو کہ نیب کے قیام کا اصل مقصد ہے ''۔
سابق نیب پراسکیوٹر بیرسٹر شاہ خاورکے مندرجہ بالا تبصرے کے بعد میرے کہنے کو کیا رہ گیا ؟
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)