بنتے بگڑتے تعلقات

امریکا اور بھارت کے درمیان تعلقات 15برس بعد واضح ہوگئے۔

1954ء میں معاہدۂ بغداد کرنے والی پاکستانی قیادت پر تنقید کرنا بہت آسان ہے، لیکن کچھ سوالوں کا جواب بھی ضروری ہے۔ کیا پچاس اور ساٹھ کی دہائیوںمیں امریکی ہتھیاروں کی فراہمی کے بغیر پاکستانی فوج کسی بڑے حملے کا دفاع کرسکتی تھی، بالخصوص سوویت یونین سے بے پناہ ہتھیار حاصل کرنے والے بھارت کا مقابلہ کیا جاسکتا تھا؟

ہم 1965ء کی جنگ میں فضائیہ، آرمر اور توپ خانے کے بل پر بھارتیوں کے سامنے کھڑے رہے۔ اگرچہ ہماری فضائیہ کی تعداد بھارت کے مقابلے میں کم تھی لیکن ہمارے جاں باز پائلٹس نے امریکی ساختہ F86 سیبر طیاروں کی مدد سے فضائی جنگی میدان میں برتری حاصل کی۔ سیالکوٹ میں دوسری عالمی جنگ کے بعد ہونے والے ٹینکوں کے سب سے بڑے معرکے میں پاکستان کے پاس امریکی ساختہ پیٹون ٹینک تھے جو ہماری مضبوط دفاعی لائن ثابت ہوئے۔ اسی طرح امریکی ساختہ توپ خانے (آرٹلری) کی مدد سے لاہور اور سیالکوٹ پر دو طرفہ حملہ پس پا ہوا۔

اللہ کا کرم اور ہماری پیدل فوج کی جاں فشانی اس کام یابی میں شامل حال رہے۔ ''آپریشن جبرالٹر'' جیسے انتہائی ناقص منصوبے کے بعد بس یہ خدا ہی کا فضل ہے کہ ہمارے دلیر جوان افسران اور سپاہیوں نے بھارتیوں کی ہائی کمانڈ کے منصوبوں کو ناکام بنا دیا۔

ہماری انفنٹری کا بہ اعتبار تعداد بھارتی فوج سے کوئی موازنہ نہیں بنتا، میدان میں اترنے والے ہمارے سپاہیوں کا بڑا جانی نقصان ہوا۔ بھارت نے 1971میں پاکستان کو دولخت نہیں کیا ،یہ سانحہ اُسی وقت ہوچکا تھا جب ہمارے ارباب حل و عقد کے احمقانہ فیصلوں کی وجہ سے سیاست، معیشت اور سول و عسکری تعلقات میں ہم تقسیم درتقسیم کا شکار ہوچکے تھے۔

ذوالفقارعلی بھٹو نے جوہری صلاحیت حاصل کرکے ہمیں جنوبی ایشیاء میں بھارتی بالادستی سے بچا لیا، آج بنگلادیش، سری لنکا، نیپال، بھوٹان اور مالدیپ اس کے زیر اثر ہیں۔ سیٹو اور سینٹو کا رُکن ہونے کے باوجود (1963کے سرحدی معاہدے کے بعد) چین کے ساتھ ہماری قربت کے بعد سے پاک امریکا تعلقات میں سرد مہری پیدا ہونا شروع ہوئی۔

1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد امریکا نے ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی عائد کردی۔ جب کہ دوسری جانب بھارت کو سوویت یونین سے ہتھیاروں کی فراہمی جاری رہی، چوں کہ پاکستان ہتھیاروں کے حصول کے لیے امریکا پر انحصار کرتا تھا اس لیے صورت حال انتہائی سنگین ہوگئی۔ چین، ترکی، ایران، اُردن جیسے دوست ممالک کی بدولت ہمیں ہتھیار دست یاب رہے۔

ہتھیاروں کے حصول کے لیے مختلف ذرایع اور مقامی سطح پر ہتھیاروں کی تیاری کا آغاز بھی اسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ہوا۔ ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی کوششوں کی وجہ سے 1970کی دہائی میں ایک مرتبہ پھر ہم امریکا کی آنکھوں میں کھٹکنے لگے۔ 1979میں جب سوویت یونین افغانستان پر چڑھ دوڑا تو حالات یکسر بدل گئے۔ جو جنرل ضیاء الحق بھٹو کو پھانسی دینے کی وجہ سے ''ناپسندیدہ'' قرار پائے تھے ، یک دم وہی کمیونزم کے خلاف آزاد دنیا کے بازوئے شمشیر زن بن گئے۔ ضیاء الحق نے سستا سودا کیا، تیس لاکھ پناہ گزین، منشیات اور کلاشنکوف کلچر، افغان حکومت کی جانب سے بہتان طرازی کی صورت میں ہم آج تک قیمت چکا رہے ہیں۔

افغان جنگ ختم ہوئی تو امریکا کو ہماری ضرورت بھی نہیں رہی، اسی لیے نوے کی دہائی میں ''پریسلر ترمیم'' آگئی، ہمیں ادائیگی کے باوجود ایف 16طیارے فراہم نہیں کیے گئے۔ 1999میں جب ضیاء الحق کی طرح مشرف نے بھی منتخب حکومت کا تختہ الٹا تو دنیا نے پہلے تو ناگواری کا اظہار کیا لیکن نو گیارہ کے بعد وہ بھی مغرب کو محبوب ہوگئے۔


مشرف نے محض جنرل کولن پاؤل کی ایک فون کال پر ڈھیر ہو کر جو خدمات فراہم کیں، اس کے نتیجے میں ضیا کے سستے سودے سے بھی زیادہ گھاٹا ہوا۔ طالبان کے مقابل کھڑے ہونے کے باعث ہمیں بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا اور افغانستان میں لڑنے والی امریکی افواج کو رسد فراہم کرنے کے لیے ہمارے راستے استعمال ہوئے جس کے باعث ہمارا انفرااسٹرکچر بُری طرح متاثر ہوا۔ اس کے بدلے میں ہمارے نقصان کا عشر عشیر بھی ازالہ نہیں کیا گیا۔

امریکا بھارت کے ساتھ جو ''اسٹرٹیجک تعلقات'' بنا رہا ہے اس کا واحد مقصد خطے میں چینی مفادات کو محدود کرنا نہیں بلکہ سوا ارب آبادی رکھنے والے اس ملک میں معاشی امکانات اور مواقع حاصل کرنا بھی ہے۔ نو گیارہ کے بعد امریکیوں نے بھارت کو چھوڑ کر ایک بار پھر پاکستان سے تعلقات کی پینگیں بڑھائیں۔ مشرق وسطی میں ''عرب بہار'' کے بعد آنے والے استحکام کے خاتمے سے اسرائیل کے خطرات میں اضافہ ہوگیا، جس کا تحفظ امریکا کی خارجہ پالیسی کا بنیادی اصول ہے۔ اسی طرح تیل کی پیداوار کرنے والے بڑے ممالک سعودی عرب، کویت اور قطر پر بھی خطرات کے بادل منڈلانے لگے۔

امریکا اور بھارت کے درمیان تعلقات 15برس بعد واضح ہوگئے۔ دوسری عراق جنگ میں صدام حسین کا تختہ تو الٹ گیا لیکن فرقہ وارانہ تقسیم کے عفریت نے عراق اور بعد ازاں شام کو برباد کردیا۔ لیبیا میں بڑھنے والی بے چینی نے انتشار کو جنم دیا، مصر میں اخوان المسلمون کا انقلاب پلٹا دیا گیا۔ اردوان کے بلند حوصلے اور عوامی مقبولیت کی وجہ سے ترکی ایک تباہ کُن خانہ جنگی سے بال بال بچا۔ ایران کئی برسوں سے نہ صرف شام اور لبنان میں مسائل کو ہوا دے رہا ہے بلکہ یمن میں بھی گذشتہ برس سے اس کا یہی طرز عمل ہے۔

اس ہنگامہ خیزی سے محفوظ رہنے والی عرب بادشاہتوں نے جواباً ایران کے خلاف پراکسی جنگوں کا حربہ استعمال کیا اور شام میں اسد کے خلاف بغاوت کی معاونت کی اور یمن میں حوثیوں کی بغاوت کو کچلنے میں مدد فراہم کررہے ہیں۔ اسرائیل بھارت گٹھ جوڑ عرب بادشاہتوں کے لیے خاموش مدد کے مترادف اور پاکستان کے لیے تشویش ناک ہے۔

مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے کے لیے ہم نے ہمیشہ متحرک کردار ادا کیا ہے لیکن یاسر عرفات اور ان کے جانشین کشمیر پر پاکستان کی حمایت کے لیے کبھی زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھے۔ 2003میں ''ممنوع سرزمین کا دورہ'' کے عنوان سے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا ''پاکستان میں اسرائیل پر بحث مضحکہ خیز صورت اختیار کرچکی ہے۔ ہمارے ملک میں یہودیوں سے متعلق پائی جانے والی ناگواری ایک معمہ ہے۔

مجھے کئی یہودیوں سے ملنے کا موقع ملا ہے، میں نے انھیں دوسرے انسانوں کی طرح اچھا(اور برا دونوں) پایا۔ ہم صرف مذہب کی بنیاد پر پوری ایک قوم کو کیسے شیطان قرار دے سکتے ہیں۔ میں یقینی طور پر فلسطینیوں پر اسرائیل کے مظالم کی مذمت کرتا ہوں اور میری ہمدردیاں فلسطینیوں کے ساتھ ہیں۔ اسی طرح میں خود کُش حملوں اور بے گناہ اسرائیلی شہریوں کے جانی نقصان کی بھی مذمت کرتا ہوں۔ ہر عمل کا ردّ عمل ہوتا ہے لیکن اس خونیں سلسلے کو رک جانا چاہیے۔

میں دل کی گہرائیوں سے محسوس کرتا ہوں کہ اسرائیلیوں کے ساتھ ہونے والے مذاکرات اسے بقائے باہمی کے اصول کو سمجھتے ہوئے فلسطینیوں کے ساتھ پرُامن انداز میں رہنے پر آمادہ کرسکتے ہیں۔ اسرائیل کے منفی اور مثبت پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے ہی کوئی رائے قائم کرنی چاہیے لیکن ہمیں بہر حال رنگ ، نسل اور مذہب کی تفریق کے بغیر سبھی انسانوں کو اس وسیع دنیا کا حصہ سمجھنا چاہے۔ ہمیں مسئلہ فلسطین سے متعلق اپنے پُرخلوص جذبات سے متعلق اسرائیل کو قائل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے لیے ہمیں اسرائیل کے بطور قوم وجود کے جواز کو قبول کرنا پڑے گا۔ اگر یہی مستقل امن کی قیمت ہے تو یہ کوئی مہنگا سودا نہیں۔''

اسرائیل کے ساتھ ترکی کے تعلقات بہتر ہوچکے ہیں، قطر اور مراکش کی طرح اس کے ساتھ مصر کی قربت بھی بڑھ چکی ہے۔ حیران کُن بات یہ ہے ، جو میرے دوست فرینک نیومین مجھے گزشتہ چار برسوں سے بتاتے رہے، کہ سعودی عرب بھی خاموشی کے ساتھ اسرائیل کو قبول کرچکا ہے۔ سعودی عرب کے نوجوان ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان جیسی عملیت پسندی اختیار کرنے میں کیا خرابی ہے؟

(فاضل کالم نگار سیکیورٹی امور کے تجزیہ کار ہیں، یہ کالم پاک امریکا تعلقات پران کے سلسلۂ مضامین کا دوسرا حصہ ہے)
Load Next Story