چور مچائیں شور

ہر چور اپنی ہر واردات کو آخری واردات سمجھتے ہوئے سب کچھ سمیٹنے میں مگن ہے۔

کئی کتابوں کے مصنف جیف ملگن لکھتے ہیں ''جب میں سترہ برس کا تھا اور اسکول سے فارغ ہوکر یونیورسٹی کے داخلے کا انتظار کر رہا تھا تو میں ایک اسپتال میں بوتلیں صاف کرنے کاکام کرتا تھا، اس نوکری سے جب میرے پاس کچھ پیسے جمع ہوئے تو میں نے جنوبی ایشیا کی سیر کا ارادہ بنا لیا ،کچھ ہفتوں بعد سری لنکا کے ایک جنگل میں آوارہ گردی کے دوران جب میں نے تھوڑی تھکن محسوس کی تو میں تھوڑی دیر سستانے کے لیے ایک جگہ بیٹھ گیا، اتنے میں، میں نے دیکھا کہ بھکشوؤں کے لباس میں ملبوس ایک بزرگ جو ادھر سے گزر رہے تھے میرے پاس آئے اور سلام دعا کرکے مجھ سے سو ال کرنے لگے کہ میں کس ملک سے ہوں کیا کام کرتا ہوں اور کس چیز کی تلاش میں ہوں۔

انھوں نے اپنا نام نائنا پونکا تھیر بتایا۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ وہ تھیرا وا دا بدھ مت کے ایک بڑے مفکر تھے وہ عالمی شہرت یافتہ نفسیات دان یونگ کے شاگرد رہے تھے اور انھوں نے 1930ء کے عشرے میں جرمنی کو خیر باد کہا تھا، وہ مجھے ایک خانقاہ میں لے گئے اور میرا بدھ مت کی پالی تحریروں سے تعارف کرانے لگے۔ اس کے بعد میں جتنا عرصہ وہاں رہا میری اس بزرگ سے روزانہ ملاقات رہی جس کے دوران ہم پر انی گھتیاں سلجھانے میں لگے رہے تھے۔ کیا دنیا کو بدلنے کے لیے پہلے اپنے آپ کو بدلنا ضروری ہوتا ہے یا کہ جو مجھے سکھایا گیا تھا زندگی بہت مختصر ہے اور وسائل بہت گھمبیر چنانچہ ہمیں پہلے سیاست پر توجہ دینی چاہیے۔

ان مباحث کاکوئی خاص نتیجہ نہ نکل سکا لیکن ان سے میرا ذہن بدلنا شروع ہو گیا تھا اور میں دنیا کو مختلف زاویے سے دیکھنے لگا تھا میں نے اس بات پر غور کر نا شروع کیا کہ اقتدار میں بیٹھے افراد خود بھی کس طرح اس کے چنگل میں آجاتے ہیں اور دوام اور آن بان کے سراب کا شکار ہو کر اپنی زندگیوں کو تلخی اور مایوسی کی بھینٹ کیوں چڑھا دیتے ہیں۔ میرے ذہن میں یہ مغربی مفروضے رہے بسے ہوئے تھے کہ سیاست میں ڈھانچے ہی سب کچھ ہوتے ہیں۔ لیکن نائنا پونیکا سے ملنے کے بعد مجھ پر یہ بات کھلی کہ نہیں صاحبان اقتدار کی شخصیت و کردار کا بھی اس میں بڑا عمل دخل ہے اور ان کی ذاتی صفات وخصائل کی بھی اتنی ہی اہمیت ہوتی ہے۔''


جب روسی تاریخ کے عظیم مصنف کرامازن سے اپنے پیغام کا خلاصہ بیان کرنے کو کہا گیا تو اس نے صرف ایک لفظ بولاتھا '' Voruiut''یعنی سب چور ہیں'' ہمارے متعلق ایک بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ہمیں ہمیشہ ہی تاریخ کے عظیم چوروں سے پالا پڑتا آیا ہے ۔ تاریخ دان لارڈ ایکٹن نے حاکمیت اعلیٰ کی بات کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ''قانونی ذمے داری کی کمی تاریخی ذمے داری کو پوری کرنا پڑتی ہے'' یہ ہی چیز 70 سال سے ہمارے ملک میں ہوتی آ رہی ہے۔ ہمارے اہل اقتدار ہمیشہ اخلاقیات اور اصولوں سے پاک اور مبرا نظر آئے ہیں، اور خو د غرضی، ہیرا پھیری، ظلم، لوٹ مار، کر پشن کی تاریخ میں ہمیشہ پہلی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ ہمارا المیہ بڑا ہی المناک ہے ہم ہر عظیم الشان کے چوروں کے نرغے اور قبضے میں ہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ وہ چھوٹی چھوٹی چوری سے بھی باز نہیں آ رہے ہیں جس کو جہاں جہاں موقع مل رہا ہے وہ اس موقعے سے بھر پور فائدہ اٹھانے میں مست ہے۔ ہر چور اپنی ہر واردات کو آخری واردات سمجھتے ہوئے سب کچھ سمیٹنے میں مگن ہے۔ سب چور ایک دوسرے کو نصیحت کر رہے ہیں کہ کل کا انتظار مت کرو جو کرنا ہے آج ہی کر لو اور اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ سب کے سب چور اپنے آپ کو چور کہے جانے پر اس قدر برہم اور ناراض ہو جاتے ہیں کہ زمین و آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں چیخ و پکار کرنے لگ جاتے ہیں۔ دہائیاں دینے لگتے ہیں اور اپنے آپ کو صادق، امین، ایماندار، دیانت دار کہے جانے کی ضد کرنے لگتے ہیں۔ زور اورزبردستی پر اتر جاتے ہیں عوام کو جمع کر لیتے ہیں اور ان سے پوچھنے بیٹھ جاتے ہیں کہ لوگوں بتاؤکیا میں صادق، امین، ایمانداراور دیانت دار نہیں ہوں۔

ایک انڈین فلم میں ایک صاحب سے سوال کیا جاتا ہے تمہارا پیشہ کیا ہے تو وہ جواب دیتا ہے چوری میرا پیشہ ہے چونکہ فلم کا وہ چور شریف تھا اس لیے اس نے کھلے عام سچ کہہ دیا۔ جب کہ ہمارے پیشہ وارا نہ چور چوری بھی کر رہے ہیں اور سینہ زوری بھی کر رہے ہیں۔ ڈھٹائی میں تو ان کا کوئی جواب ہی نہیں ہے۔ بزرگ کہتے تھے کہ منہ پر اور دریا کے پار سے گالی دینے والوں سے بچ کر رہنا۔ اگر وہ موجودہ زمانے میں زندہ ہوتے تو بر ملا کہہ رہے ہوتے کہ ہمیشہ پاکستانی چور وں سے بچ کر رہنا یہ چوری بھی کرتے ہیں اور الزام دوسروں پر ڈالتے پھرتے ہیں۔

اگر یہ سب معمولی چور ہو تے تو در گزر کیاجا سکتا تھا لیکن ان کی چوری شدہ رقوم سن کر تو چکر آجاتے ہیں ڈاکٹروں کے پاس جانا پڑ جاتا ہے غش کھا کر عام لوگ باربار بے ہو ش ہوجاتے ہیں اتنی رقم تو عام آدمی نے نہ تو کبھی دیکھی ہے اور نہ ہی اس سے پہلے سنی ہے۔ جس طرح جیف ملگن نے نائنا پونیکا سے ملنے اور ان سے بحث و مباحثے کے بعد اپنی سو چ بدل ڈالی تھی اس طرح ہمارے ملک کے بیس کروڑ لوگ بھی اپنے ملک کے فنکاروں کی فنکاری دیکھ دیکھ کر اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ سیاست میں ڈھانچے ہی سب کچھ نہیں ہوتے ہیں، صاحبان اقتدار کی شخصیت و کردار کا بھی اس میں بڑا عمل دخل ہے اور ان کی ذاتی صفات و خصائل کی بھی اتنی ہی اہمیت ہوتی ہے۔
Load Next Story