یاسر مرتجی غزہ کی آنکھ بند کر دی گئی

اسرائیلی فوج نے مظاہرے سے قبل ہی ایک سو ماہر نشانے باز مختلف جگہوں پر تعینات کر دیے تھے۔

غزہ کو یاسر مرتجی کی آنکھ سے دیکھتے وقت کب علم تھا کہ یہ آنکھ جلد ہی بند کردی جائے گی ۔ یاسر مرتجی انتہائی زندہ دل لوگوں میں سے ایک تھا ، یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں اس کے قتل کی ویڈیو دیکھنے کے بعد بھی یقین نہیں آیا کہ موت کے سیاہ بادلوں میں یاسرکی روح پروازکرچکی ہے۔

یاسر مرتجی فلسطین کا ایک ویڈیو جرنلسٹ اور فوٹوگرافر تھا، اس کا تعلق غزہ کی پٹی سے تھا۔ جس کی زندگی کا مقصد غزہ میں ہونے والے اسرائیلی مظالم اور تباہی کی کہانی کیمرے کی آنکھ سے پوری دنیا کو دیکھنا تھا۔ اپنے ڈرون کیمرے سے غزہ شہرکی لی ہوئی ایک تصویر پر یاسر نے کیپشن لکھی، ''مجھے امید ہے کہ وہ دن جلد آئے گا جب میں یہ تصویر زمین کے بجائے آسمان سے کھینچ سکوں گا۔ میرا نام یاسر مرتجی ہے۔ میری عمر تیس سال ہے، میں غزہ شہرکا باسی ہوں۔ میں نے اب تک اپنی زندگی میں سفر نہیں کیا۔''

اس تصویرکے صرف دو ہفتوں کے بعد غزہ کی پٹی پر مہاجرین کی واپسی کے حق میں ہونے والے تاریخی مظاہرے میں جہاں بے شمار فلسطینی شہید ہوئے وہیں یاسر مرتجی کی زندگی کا چراغ بھی عین اس وقت بجھا دیا گیا جب وہ اس تاریخی مظاہرے کی عکس بندی میں مصروف تھا۔ اس دن یاسر سمیت نو صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا لیکن موت تو بس یاسر کے ہی تعاقب میں تھی۔

اسرائیلی فوج نے مظاہرے سے قبل ہی ایک سو ماہر نشانے باز مختلف جگہوں پر تعینات کر دیے تھے۔ یوم الارض پر ہونے والے اس مظاہرے میں اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کے قتل کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ غزہ کی ستر فی صد آبادی جو تقریبا دو ملین لوگوں پر مشتمل ہے، انھیں گھروں سے جبری بے دخل کیا جاچکا ہے۔

غزہ کے حقیقی باشندے اب مہاجرین کے روپ میں 360 مربع کلومیٹر کے رقبے میں محصور ہیں۔ اس جگہ کو دنیا کا سب سے بڑا اوپن ائیر قید خانہ قرار دیا جا چکا ہے۔ ان مہاجرین کے حق میں ہونے والے مظاہرے کے مناظر دنیا کو دکھانے کے لیے، سرحد سے سو میٹرکی دوری پر پریس کی نیلی جیکٹ پہنے یاسر مرتجی کیمرے کی آنکھ کے پیچھے تھا کہ ایک اسرائیلی فوجی نے اسنائیپر سے نشانہ باندھا اورگولی یاسر کے پیٹ میں پیوست ہوگئی۔

یاسر مرتجی نے اپنی زندگی غزہ کے لیے وقف کردی تھی۔ ایک مشغلے کے طور پر شروع کیا جانے والا فوٹوگرافی کا شوق جلد ہی یاسر کے لیے خطرناک پیشہ بن گیا۔ایک دن یاسر فٹبال میچ کے مقابلے کی تصاویر بنانے جا رہا تھا کہ اسے اسرائیلی طیاروں کی بمباری کی آواز سنائی دی۔اس نے یکایک اپنا رخ بدلا اور بمباری کے مناظرکیمرے کی آنکھ میں قید کر لیے۔ اس واقعے نے یاسرکی زندگی کا مقصد ہی بدل دیا اور اس نے پیشہ وارانہ فوٹوگرافی میں مہارت حاصل کرنی شروع کردی۔

2007ء سے اب تک، جنگ زدہ غزہ کے جو اندرونی مناظر دنیا دیکھتی چلی آئی ہے، ان کے پیچھے دراصل یاسر مرتجی کی ہی محنت اور لگن تھی۔ بارہ سال کی عمر میں یاسر نے کیمرے سے دوستی کی۔ اس کے ہاتھوں میں ہر وقت کیمرا اور لبوں پر دھیمی مسکراہٹ ہوتی تھی۔ اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں غزہ کی صورت حال بگڑتی چلی گئی، ایسے میں سوشل میڈیا ہی غزہ کا پوری دنیا سے رابطے کا واحد ذریعہ تھا۔ یاسر مرتجی نے غزہ کے حقائق سامنے لانے کے لیے سوشل میڈیا کا بہترین استعمال کیا اور غزہ کی ویڈیوز پوسٹ کرنی شروع کردیں۔


ان ویڈیوز اور تصاویر نے بین الاقوامی مبصرین کی توجہ غزہ کی جانب مرکوز کروائی جس کے بعد انھوں نے غزہ کا دورہ بھی کیا۔ یاسر نے ابتدا میں مختصر فلمیں بنانی شروع کیں جن کا موضوع غزہ میں بجلی کا بحران، بیروزگاری اور سرحدی پابندیاں تھیں۔ رفتہ رفتہ غزہ کی صورت حال پر فلمیں بنانا یاسرکا جنون بن گیا اور اس نے اپنے دوست رشدی سراج کے ساتھ مل کر عین نامی میڈیا کمپنی کی بنیاد ڈالی۔ جس کی ابتدا ایک چھوٹے سے کمرے دو کیمروں اور چند لوگوں سے ہوئی۔

پھرپندرہ سو ڈالر میں یاسر نے دوست کے ساتھ مل کر ایک لیپ ٹاپ خریدا اور اپنے کام کو آگے بڑھایا۔ انھوں نے مختصر فلمیں بنا کر اپنے فیس بک پیج پر بھی پوسٹ کیں جن میں غزہ کی روزمرہ زندگی کے مسائل وہاں کا قدرتی حسن اور اسرائیلی تنازعہ سمیت غزہ کی ساری تلخ سچائیاں موجود تھیں۔ محدود وسائل کے باوجود بھی عین میڈیا گروپ دنیا میں جلد ہی مقبول ہوگیا۔

نقل وحرکت اور درآمدات پر عائد سخت اسرائیلی پابندیوں کے باعث یاسر مرتجی کے لیے ممکن نہ تھا کہ وہ کمپنی کے لیے جدید آلات کا انتظام کرسکے۔ اس نے غزہ کے دورے پر آئے ہوئے ایک غیر ملکی صحافی سے ڈرون کیمرے کی درخواست کی جو بعد ازاں فراہم کر دیا گیا۔ یاسر مرتجی کی بنائی گئی فلموں کوجلد ہی الجزیرہ، بی بی سی عربیہ، وی آئی سی ای، العربیہ ٹی وی، یو نیسیف، یو این آر ڈبلیو اے اور اوکس فیم پر دکھایا جانے لگا۔

2014ء میں جب اسرائیل نے غزہ پر پھر جنگ مسلط کی اس وقت یاسر نے بنا کسی کے تفویض کیے خود ہی اس کی کوریج کا بیڑہ اٹھایا۔ سول سروسزکے عملے اور ایمبولینسوں کے ساتھ ساتھ وہ جنگ زدہ علاقوں میں جاتا اور وہاں کے دردناک مناظر کی تصاویر دنیا کو دکھاتا۔ یہ کام بلا شبہ جان جوکھم میں ڈالنے والا تھا۔ اکثر اوقات پیرامیڈیکس کا عملہ یاسر مرتجی کو ان خطوں میں لے جانے سے انکارکر دیتا کیونکہ وہ یاسرکے ساتھ لگے کیمرے کو سیکیورٹی رسک سمجھتے تھے، لیکن یاسر نے کبھی ہمت نہ ہاری اور اس کی بنائی ہوئی تصایر اور مقصد جاری رھا۔ اس کی بنائی ہوئی فلموں سے جلد ہی دنیا کو احساس ہوا کہ گزشتہ دس سال کے دوران اسرائیل کی طرف سے ہونے والا یہ سب سے خطرناک ملٹری آپریشن ہے۔

silencing Journalism کے نام سے یاسرکی بنائی ہوئی فلم نے بین الاقوامی میڈیا میں بہت شہرت حاصل کی۔ جس کا موضوع وہ صحافی تھے جو دورانِ ڈیوٹی اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں ہلاک کردیے گئے۔ یاسر بلا شبہ ایک نڈر اور بہادر صحافی تھا جو دنیا کو وہ سب دکھاتا جو وہ دیکھنے سے گریزاں تھے۔ وہ سب سناتا جو وہ سننا نہیں چاہتے تھے۔ لیکن اس کی آنکھوں میں اپنے لیے بھی بہت سارے خواب تھے جن میں سب سے بڑا خواب سفرکرنے اور دنیا دیکھنے کا تھا۔ اس کو کئی بار یو اے ای اور گلف سے کام کرنے کی پیشکش ہوئی مگر عین وقت پر اسے سفر کرنے سے روک دیا گیا یوں اسرائیلی پابندیوں کے باعث بیشتر سنہری مواقعے اسے اپنے ہاتھوں سے گنوانے پڑے، لیکن یاسر مایوس نہ ہوا۔ ایک جملہ اکثرکہتا تھا کہ ''ہم فلسطینی صرف ایک ہی لاعلاج مرض کا شکار ہیں اور وہ ہے امید''۔

6 اپریل کو یاسر کی پرواز کی خواہش پوری تو ہوئی مگر یوں کہ اس کے جسم کو غزہ میں ہی دفن ہونا پڑا۔ آج جب میں یاسر کے جنازے کی ویڈیو دیکھ رہی ہوں تو آنکھ کا گوشہ کہیں سے بھیگ رہا ہے۔ یاسرکی موت کے ساتھ ہی اس کا وہ فیچر بھی مکمل ہو گیا، جو اس نے فرائض کی تکمیل کے دوران اسرئیلی فوجیوں کے ہاتھوں قتل کیے جانے والے فلسطینی صحافیوں کو خراج عقیدت دینے کے لیے شروع کر رکھا تھا۔

یاسر کے جنازے کی ویڈیو اس فیچر کا آخری حصہ بن کر اسے پایہ تکمیل تک پہنچا گئی، یاسر ایک نہتا فلسطینی تھا، اس کا واحد ہتھیار کیمرہ تھا۔ کیمرہ جو اسرائیلی فوجیوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ تھا، کیونکہ وہ ان کے کالے کرتوت دنیا کو دکھاتا تھا۔ اسرائیلی فوجیوں نے کتنے ہی کیمرے توڑے اورکتنے ہی جسموں کو ٹھنڈا کیا لیکن وہ تحریک مزاحمت کو نہ کچل سکے۔ اب بھی سیکڑوں مظاہرین غزہ کی پٹی پر موجود ہیں جو یاسرکے ان الفاظ کی تصدیق کر رہے ہیں کہ ہم فلسطینیوں کو ''امید'' کا لاعلاج مرض لاحق ہے۔
Load Next Story