حکومت نے ریڈ لائن بس منصوبے کی ابتدائی منصوبہ بندی کرلی

خصوصی کوریڈور ماڈل کالونی تا نمائش چورنگی براستہ یونیورسٹی روڈ بنایا جائے گا۔


Syed Ashraf Ali May 05, 2018
یونیورسٹی روڈ کا زیادہ نقصان نہیں ہوگا، منصوبے سے 5 لاکھ سے زائد مسافروں کو روزانہ سفری سہولتیں ملیں گی، ناصر حسین شاہ۔ فوٹو: فائل

سندھ حکومت نے بس ریپیڈ ٹرانزٹ سسٹم(بی آرٹی ایس) کی ریڈ لائن بس منصوبے کی ابتدائی منصوبہ بندی کرلی ہے جس کے تحت خصوصی کوریڈور ماڈل کالونی تا نمائش چورنگی براستہ یونیورسٹی روڈ تعمیر کیا جائے گا۔

ریڈ لائن منصوبے کی خاص بات یہ ہے کہ پیپلز چورنگی سے لے کر صفورا چورنگی تک سائیکلنگ ٹریک بھی تعمیر کیا جائے گا، شہر میں پہلی بار بی آر ٹی ایس کا نیا نظام تھرڈ جنریشن متعارف کرایا جارہا ہے جس میں ریڈ لائن بس منصوبے کے خصوصی کوریڈور سے10 روٹس مزید منسلک ہونگے، بس انڈسٹری ری اسٹرکچرنگ پروگرام کے تحت ان10روٹس پر چلنے والی پرانی بسوں کے مالکان کو ترغیب دی جائے گی کہ وہ اپنی بسیں اسکریب کریں اور نئی بسوں کو ان روٹس پر آپریٹ کریں، نئی بسوں کی خریداری کیلیے حکومت ٹرانسپورٹرز کو سبسڈی دے گی۔

منصوبہ پر 30 ارب روپے کی لاگت آئے گی جو قرضہ کی صورت میں ایشین ڈیولپمنٹ بینک آسان شرائط پر مہیا کرے گی، تعمیرات کا آغاز رواں سال دسمبر میں متوقع ہے اور تکمیل اپریل 2020 میں ہوگی۔

وزیر ٹرانسپورٹ ناصر حسین شاہ نے ایکسپریس کو بتایا کہ کوشش کی جارہی تھی کہ یہ منصوبہ رواں سال مئی میں شروع کردیا جائے تاہم منصوبہ بندی میں کچھ تاخیر ہوئی ہے، اب ابتدائی منصوبہ بن چکا ہے اور دیگر تفصیلات طے کی جارہی ہیں ، یہ منصوبہ رواں سال دسمبر میں شروع کر دیا جائے گا۔

ناصر حسین نے کہا کہ منصوبے کی تکمیل سے5لاکھ سے زائد مسافروں کو روزانہ سفری سہولتیں ملیں گی، انھوں نے کہا کہ ریڈ لائن کا خصوصی کوریڈور نو تعمیر شدہ یونیورسٹی روڈ سے گذرے گا تاہم یہ سڑک کی بیچ فٹ پاتھ پر تعمیر ہوگا اور یونیورسٹی روڈ کا زیادہ نقصان نہیں ہوگا، یونیورسٹی روڈ کی حالت بہت خستہ تھی اس لیے فوری طور پر اسے تعمیر کیا گیا تاکہ شہریوں کو سہولت ملے، اب اگر نئے منصوبہ میں روڈ کا کچھ حصہ متاثر ہوا تو اسے دوبارہ تعمیر کردیا جائے گا۔

صوبائی وزیر نے کہا کہ ریڈ لائن بس منصوبہ کیلیے ایشیئن ڈیولپمنٹ بینک آسان شرائط پر قرصہ فراہم کرے گا۔

صوبائی محکمہ ٹرانسپورٹ کے متعلقہ افسران نے ایکسپریس کو بتایا کہ سندھ حکومت نے بی آرٹی ایس کی ریڈ لائن کی ابتدائی منصوبہ بندی کرلی اور اب کوریڈور کا سروے اور تفصیلی ڈیزائین تیار کیا جارہا ہے، تفصیلی ڈیزائین جولائی تک مکمل کرلیا جائے گا ، بعدازاں پلاننگ کمیشن منظوری کیلیے بھیجا جائے گا۔

منصوبہ پر 30ارب روپے لاگت آئیگی جس کیلیے ایشیئن ڈیولپمنٹ بینک قرضہ فراہم کریگا تاہم وفاقی حکومت کو ساورن گارنٹی دینی ہوگی، توقع ہے کہ یہ تمام مراحل طے ہونے کے بعد رواں سال دسمبر میں تعمیراتی کام شروع ہوجائے گا اور ڈیڑھ سال میں مکمل کرلیا جائے گا، ریڈ لائن بس منصوبے کا خصوصی کوریڈور21.5کلومیٹر طویل ہوگا جس میں 22 اسٹیشن ہونگے، ماڈل کالونی سے نمائش چورنگی براستہ ملیر ہالٹ ، ملیر کینٹ گیٹ نمبر 6، صفورا چورنگی، یونیورسٹی روڈ ، پیپلزچورنگی تعمیر کیا جائے گا۔

جس طرح اورنج لائن اور گرین لائن بس میں مختلف مقامات پر کئی کلومیٹر بالائی(ایلیوٹیڈ) تعمیرات کی گئیں ریڈ لائن کے خصوصی کوریڈور میں نہیں کی جائیں گی، پورا کوریڈور زمین پر تعمیر ہوگا، البتہ عام ٹریفک کیلیے پانچ مقامات پر بالائی ٖ اور ایک مقام پر انڈر پاس تعمیر کیا جائے گا تاکہ ریڈ لائن پر چلنے والی بسیں عام ٹریفک کو بائی پاس کرکے گذرسکیں۔

منصوبہ بندی کے تحت موسمیات چورنگی کے قریب انڈر پاس تعمیر ہوگا جبکہ ملیرکینٹ، صفورا چورنگی، جامعہ کراچی کے قریب، مسجد بیت المکرم اور گلشن اقبال ٹائون آفس کے پاس ایلیوٹیڈ یوٹرن تعمیر کیے جائیں گے۔

افسران نے کہا کہ شہر میں پہلی بار ریڈ لائن تھرڈ جنریشن کے تحت براہ راسٹ ٹرانسپورٹ سروس مہیا کریگا جو شہر کی دیگر روٹس کی پبلک ٹرانسپورٹ سے منسلک ہوگا، لاہور، پنڈی اور ملتان میں فرسٹ جنریشن کے تحت بی آر ٹی ایس تعمیرات کی گئیں جبکہ کراچی میں گرین لائن اور اورنج لائن بھی فرسٹ جنریشن کے تحت تعمیر ہوا ہے، البتہ پشاور میں تھرڈ جنریشن کے تحت بی آرٹی ایس تعمیر ہورہا ہے، فرسٹ جنریشن بی آر ٹی ایس میں صرف ایک ٹرانسپورٹ سروس مہیا ہوتی ہے دیگر روٹس کی گاڑیاں نہیں آپریٹ ہوتیں۔

تھرڈ جنریشن کی خصوصیت یہ ہے کہ مین کوریڈور کے ساتھ دیگر روٹس بھی منسلک ہوتے ہیں اور ان کی بسیں بھی اسی کوریڈور پر چلتی ہیں ماڈل کالونی تا نمائش چورنگی پر ریڈ لائن بس سروس بھی چلے گی اور اس کے ساتھ دیگر دس روٹس کی پبلک ٹرانسپورٹ بھی اس کوریڈور پر آپریٹ ہونگی تاہم یہ ساری نئی بسیں ہونگی، اس ضمن میں سندھ حکومت بس انڈسٹری ری اسٹرکچرنگ پروگرام تشکیل دے رہی ہے جس کے تحت ریڈ لائن سے منسلک موجودہ دس روٹس پر آپریٹ ہونے والی پبلک ٹرانسپورٹ کے مالکان کو ترغیب دی جائیگی کہ وہ اپنی بسیں اسکریب کردیں اور حکومت کی پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت نئی بسیں خرید کر ان روٹس پر آپریٹ کریں۔

اس اسکیم میں صوبائی حکومت ان ٹرانسپورٹرز کو بسوں کی خریداری میں سبسڈی بھی دیگی۔ اس وقت ریڈ لائن کوریڈور سے منسلک موجودہ روٹس کی تعداد 20ہے اور ان پر تقریباً 200منی بسیں اور بسیں آپریٹ ہوتی ہیں، ریڈ لائن بس منصوبہ کی اہم ترین خصوصیت شہر میں ماحول دوست اور آلودگی سے پاک ایک ایسے ٹریک کی تعمیر ہے جس میں صرف سائیکلیں چلیں گی، یہ خصوصی ٹریک پیپلزچورنگی سے لیکر صفورا چورنگی تک تعمیر ہوگا، متعلقہ افسران کے مطابق ریڈ لائن کے خصوصی کوریڈور کیلئے چھ میٹر کی جگہ چاہیے جو سڑک کے درمیان میں تعمیر کیا جائے گا ۔

اس رائٹ آف وے کیلئے ماڈل کالونی تا نمائش چورنگی سڑک کا حصہ بھی شامل کرنا ہوگا ، اس وجہ سے نوتعمیر شدہ یونیورسٹی روڈ بھی مختلف مقامات پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگی تاہم یونیورسٹی روڈ کی تعمیر نو ریڈ لائن کے منصوبے میں شامل ہے، انھوں نے کہا کہ یونیورسٹی روڈ کی بیچ کی فٹ پاتھ میں کافی جگہ ہے لیکن کچھ مقامات پر سڑک کا کچھ حصہ لیا جائے گا ، یونیورسٹی روڈ کے دونوں اطراف 3-3 لین پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائیگا، اگر یونیورسٹی روڈ کے کسی مقام پر سڑک کا زیادہ حصہ درکار ہوا تو سائیڈ کے فٹ پاتھ کو کم کرکے تین لین مہیا کی جائے گی۔

یونیورسٹی روڈ سے گزرنے والوںکی پریشانی ترجیحی بنیادوں پر حل کی جائے گی ، نیاز سومرو

پروجیکٹ ڈائریکٹر نیاز سومرو نے کہا کہ یونیورسٹی روڈ بہت خستہ حالت میں تھی ، یہ پروجیکٹ شروع کیا گیا تو ریڈ لائن منصوبہ صرف کاغذات کی حد تک محدود تھا ، اس دوران سندھ حکومت نے فیصلہ کیا کہ یونیورسٹی روڈ سے گزرنے والے طلبااور دیگر شہریوں کی پریشانی ترجیح بنیادوں پر حل کی جائے کیونکہ اس سڑک پر جامعہ کراچی، جامعہ این ای ڈی، جامعہ اردو اور دیگر اسکول کالجز قائم ہیں۔

انھوں نے کہا کہ یونیورسٹی روڈ کی منصوبہ بندی کے دوران ریڈ لائن پروجیکٹ کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے اس لیے درمیان کی گرین بیلٹ میں کافی جگہ رکھی گئی ہے جس کی وجہ سے اہم شاہراہ کو نقصان کم سے کم ہوگا۔

ریڈ لائن بس منصوبہ دنیا کے جدید ٹرانسپورٹ نظام سے ہم آہنگ ہے، افسر


صوبائی محکمہ ٹرانسپورٹ کے ایک افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ ریڈ لائن بس منصوبہ دنیا کے جدید ٹرانسپورٹ نظام سے ہم آہنگ ہے تاہم یہ آئندہ آنے والی وفاقی و سندھ حکومتوں پر منحصر ہے کہ وہ اس منصوبے میں کس حد تک دلچسپی لیتے ہیں۔


ایشیئن ڈیولپمنٹ بینک اس منصوبے کا اسپانسر ہے جو قرضہ کی صورت میں مہیاہوگا جس کیلیے ساورن گارنٹی ضروری ہے جو وفاقی حکومت نے دینی ہے، اگر آنے والی سندھ حکومت اور وفاقی حکومت نے اس منصوبہ میں سنجیدگی دکھائی تو یہ منصوبہ تعمیر ہو جائیگا بصورت دیگر ماضی کی طرح دیگر ماس ٹرانزٹ منصوبوں کی طرح سرح فیتے کا شکار ہوجائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں