بے وسیلہ ہیں مگر حوصلہ رکھتے ہیں ہم
2013 کے انتخابات میں حصہ لینے والے پچھڑے طبقات کے امیدوار
ہمارے معاشرے کے محروم طبقات ہمیشہ سے اقتدار کے ایوانوں سے دور رہے ہیں۔
ایسا خال خال ہی ہوا ہے کہ غریب طبقے کی نمائندگی کے لیے ان ہی میں سے کوئی سیاست کے خارزار میں اترا ہو، مگر اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ اپنے حقوق کے لیے آواز نہ اٹھائی جا سکے، غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد جمہوری عمل کے ذریعے اب اقتدار کے ایوانوں کی طرف گام زن ہیں، تاکہ اپنے طبقے کے مسائل کو بہتر طریقے سے حل کر سکیں۔ ان میں سے بعض کسی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں، مگر زیادہ تر آزاد امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ نتیجہ کچھ بھی نکلے مگر ان بے وسیلہ لوگوں کی ہمت قابل داد ہے۔
پنجاب
نفیس خان
نفیس خان پی پی 31 مڈھ رانجھا سرگودھا سے آزاد امیدوار کے طو ر پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ وہ اپنے گاؤں میں ایک چھوٹا سا نجی اسکول چلاتے اور اس میں پڑھاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا ایک مدمقابل امیدوار اور اس کے خاندان کے خلاف الیکشن لڑنا ظلم اور جبر کے خلاف آواز بلند کرنا ہے، کیونکہ اس پورے علاقے کو ان لوگوں نے اپنے جاگیردارانہ نظام کے نرغے میں لے رکھا ہے۔
نفیس خان کا کہنا ہے، '' میں نے ان لوگوں کے خلاف آواز بلند کی تو انھوں نے مجھ پر تشدد کیا۔ عوام ان سے ڈرتے ہیں۔ اس لیے میں نے اس الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا کہ عوام کے دلوں سے ان کا خوف نکالا جا سکے اور ان میں شعور پیدا کیا جائے کہ ووٹ کی طاقت سے وہ اپنے حالات بدل سکتے ہیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ الیکشن مہم کے دوران لوگ کھل کر اس بات کا اظہار بھی نہیں کرتے کہ وہ مجھے ووٹ دیں گے۔ اس تمام صورتحال کے باوجود میں نے یہاں کے حالات بدلنے کا مصمم ارادہ کر رکھا ہے۔
سائرہ زبیر
سائرہ زبیر این اے 120 لاہورمیں میاں نواز شریف کے مقابلے پر آل پاکستان مسلم لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہی ہیں۔ وہ عظیم پہلوان زبیر عرف جھارا کی بیوی اور نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز کی کزن ہیں۔ سائرہ زبیر کا کہنا ہے کہ ان کے نظریات چونکہ آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ پرویز مشرف سے ملتے تھے اس لئے انھوں نے ان کی جماعت کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا، ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی مخالفت کی وجہ سے نواز شریف کے خلاف الیکشن نہیں لڑ رہیں بلکہ یہ نظریات کی جنگ ہے اور وہ اپنے نظریے کو ثابت کرنے کے لیے الیکشن کے میدان میں اتری ہیں۔
ملک شبریز عباس اعوان
میں حلقہ این اے 96 گوجرانوالہ سے مسلم لیگ ن کے امیدوار خرم دستگیر کے مقابلے پر الیکشن لڑنے والے عباس اعوان ایک سگریٹ کمپنی میں سیلز مین ہیں اور اس کی پبلسٹی بھی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے عوام کے مسائل دیکھتے ہوئے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے تحت وہ تحریک انصاف سے وابستہ ہوگئے، مگر ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد امیدوار کی حیثیت سے میدان میں اترے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں عوام کے مسائل حل کرنے کا مکمل تہیہ کر چکا ہوں، اس کے لئے ضروری ہے کہ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچا جائے، یہی جذبہ مجھے متحرک رکھے ہوئے ہے۔ غریبوں کے مسائل غریب ہی سمجھ سکتا ہے، امیروں کو کیا پتا غریبوں کے مسائل کا۔ میں الیکشن میں کام یاب ہوکر سب سے پہلے عوام کے بنیادی مسائل حل کر وانے کی کوشش کروں گا، جن میں روزگار، صحت اور تعلیم کی سہولتیں میری ترجیح ہوں گی۔
ناصر مسیح گل
ناصر مسیح گل متحدہ قومی موومنٹ کے ٹکٹ پر این اے 129سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے ہیں۔ وہ ایک فارماسوٹیکل کمپنی میں کام کرتے تھے، مگر گذشتہ ماہ انھوں نے انتخابی مہم پر بھرپور توجہ دینے کی غرض سے نوکری چھوڑ دی۔ ان کی اہلیہ ملازمت کرتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے الیکشن لڑنے کا مقصد غریب او رمتوسط طبقے کی آواز حکومتی ایوانوں تک پہنچانا ہے۔ اسی مقصد کی خاطر میں کافی عرصہ سے سیاست میں دلچسپی لے رہا تھا اور جاب سے واپس آ نے کے بعد شام کو پارٹی کے دفتر میں وقت دیتا تھا۔ میرے حلقے کے عوام مجھے بڑی اچھی طرح جانتے ہیں۔ میرے کردار سے پوری طرح واقف ہیں۔ میں غریب اور مڈل کلاس کے عوام کے لئے رول ماڈل کا کردار ادا کروں گا، تاکہ یہ لوگ بھی سیاست میں نمایاں کردار ادا کریں۔
محمد اقبال
پی پی 159 سے متحدہ قومی موومنٹ کے نام زد امیدوار محمد اقبال کی اٹاری روڈ پر چپلوں کی دکان ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میرا تعلق چوں کہ غریب طبقے سے ہے اس لیے میں ان کے مسائل کو اچھی طرح سمجھتا ہوں ، اس وقت لوڈ شیڈنگ نے پورے ملک کو اپنے نرغے میں لیا ہوا ہے مگر امیروں کے گھروں میں جنریٹر چل رہے ہیں، اس لیے انھیں اس کا کوئی احساس نہیں۔ میں اس عزم کے ساتھ سیاست میں آیا ہوں کہ غریبوں کی مدد کروں گا۔ الیکشن مہم بڑی سادگی سے چلاؤں گا، ایک روپیہ بھی اضافی خرچ نہیں کیا جائے گا۔ عوام سے یہی کہوں گا کہ میں ان کا ہی نمائندہ ہوں کیونکہ میں ان کے طبقے سے تعلق رکھتا ہوں اور میں ہی ان کے مسائل کو صحیح معنوں میں سمجھتا ہوں اس لیے مجھے ووٹ دیں۔
سندھ
وجیہہ الدین ماچھی
ضلع بے نظیر آباد سے قومی اسمبلی کی نشست این اے 213 پر صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ عذرا پیچوہو کے مقابلے پر ان کے ایک ہاری وجیہہ الدین میدان میں آ گئے ہیں۔ تعلقہ دوڑ کے گاؤں فراہم آباد دیہہ 76 کا رہائشی 43 سالہ وجیہہ الدین ماچھی انتہائی غریب ہیں اور محنت مزدوری کر کے اپنی بیوی اور چار بچوں کا پیٹ پال رہے ہیں۔ وجیہہ الدین نے الزام عاید کیا کہ عذرا پیچوہو کی زمین پر پندرہ سال کام کرنے کا معاوضہ ابھی تک ادا نہیں کیا گیا ہے۔ انہوں نے 1995سے2010 تک بطور ہاری کام کیا، جس کا معاوضہ تقریباً اٹھارہ لاکھ روپے بنتا ہے، جو ادا نہیں کیا گیا۔ وجیہ الدین کا کہنا ہے کہ معاوضے کے حصول کے لیے انہوں نے کئی بار زرداری ہاؤس نوابشاہ اور نوڈیرو کے چکر لگائے، لیکن وہاں سے انہیں دھکے اور دھمکیوں کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔
ایک بار عذرا پیچوہو سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ بھائی آصف جیل میں ہیں، رہا ہوجائیں تو پھر دیکھیں گے، مگر آصف زرداری کے رہا ہونے کے باوجود انہیں معاوضہ نہیں ملا۔ وجیہہ الدین ماچھی نے بتایا کہ انہیں اﷲ کے سوا کسی کا خوف نہیں ہے۔ اگر اسے پھانسی ہوئی تو وہ ذوالفقار علی بھٹو کہلائے گا، اگر زہر دیا گیا تو اسے شاہ نواز بھٹو کہا جائے گا اور اگر اسے گولی مار کر قتل کیا گیا تو وہ مرتضیٰ بھٹو کہلائے گا۔ وجیہہ الدین ماچھی کا کہنا ہے کہ اسے شہید بھٹو کی ایک جلسے میں کی گئی تقریر یاد ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا ایک بھٹو وہ ہیں اور دوسرا جلسہ میں شریک عوام۔ وجہیہ الدین نے کہا کہ وہ غریبوں کے دوسرے بھٹو ہیں۔ ان کے پاس بڑی بڑی گاڑیاں نہیں ہیں اور نہ ہی دولت، مگر انہیں خوشی ہے کہ وہ صدر آصف علی زرداری کی بہن کے مدمقابل الیکشن لڑ رہے ہیں اور اس نشست پر کسی صورت دستبردار نہیں ہوگا۔
ویرو کولہن
حیدرآباد سے سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس پچاس سے خاتون شریمتی دھری عرف ویرو کولہن نے آزاد حیثیت میں اپنے کاغذات نام زدگی فارم جمع کرائے ہیں۔ شریمتی دھری عرف ویرو کولہن کی زندگی کا بیشتر حصہ جبری مشقت کا شکار ہاریوں اور بھٹا مزدوروں کو رہا کرانے اور ان کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے میں گزرا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ الیکشن میں کام یاب ہوئیں تو اسمبلی کے فلور پر جبری مشقت کا شکار ہاریوں اور بھٹا مزدوروں کے لیے بھرپور انداز میں آواز اٹھائیں گی۔ ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے موثر قانون سازی کرائیں گی اور بانڈڈ لیبر کے خلاف ہونے والی قانون سازی پر عمل درآمد کرانے کی بھرپور کوشش کریں گی۔ شریمتی دھری عرف ویرو کولہن درجنوں مرد و خواتین ہاری و مزدوروں کے جھرمٹ میں ریٹرننگ آفیسر کے دفتر پہنچیں۔ ان کے حامی انہیں ہاروں سے لاد کر ریٹرننگ آفیسر کے دفتر تک لائے اور مسلسل ان کے حق میں نعرے لگاتے رہے۔
مہرالنساء
کنُری کے نواحی شہر نبی سرروڈ کی رہائشی 70سالہ غیرشادی شُدہ اور غیرتعلیم یافتہ معمر خاتون مہرالنساء صُوبائی اسمبلی کی نشست پی ایس 68سے آزاد امیدوار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک بھر میں خواتین کے حقوق پامال کیے جا رہے ہیں، جن کی حفاظت کے لیے اور ملک میں رائج وڈیرہ شاہی کے خاتمے کے لیے وہ انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس عمر میں انتخابات میں حصہ لے کر میں ملک کے نوجوان طبقے کو بیدار کرنا چاہتی ہوں، کیوں کہ اس وقت ملک کو نوجوان قیادت کی سخت ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر عوام نے میرا ساتھ دیا اور میں منتخب ہوئی تو غریب لوگوں کی خدمت یقینی بناؤں گی۔ میں باقی عمر انہی کی خدمت میں گزارنا چاہتی ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ میر ے مقابلے میں انتخابات میں حصہ لینے والے سیاسی پارٹیوں کے اُمیدواروں کو شکست کا سامنا کرنا پڑے گا، کیوںکہ مجھے حلقے کی عوام نے حمایت کا یقین دلایا ہے۔
واضح رہے کہ اس نشست کے لیے پی پی پی کی جانب سے نواب تیمور تالپور، فنکشنل لیگ اور غوثیہ جماعت کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار ڈاکٹر دوست محمد میمن، پیپلز مسلم لیگ کے میر امان اللہ خان تالپور اور ن لیگ کے نواب زید تالپور میدان ہیں ہیں۔
حاجیانی لنجو
تھرپارکر کی تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون امیدوار میدان میں آگئی ہے۔ گاؤں عالم سر سے تعلق رکھنے والی حاجیانی لنجو دس جماعتی اتحاد کی حمایت سے این اے دو سو انتیس امیدوار کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ ان کے مقابلے پر سابق وزیراعلیٰ سندھ اور پیپلز مسلم لیگ صدر ڈاکٹر ارباب غلام رحیم اور پی پی پی کے امیدوار فقیر شیر محمد بلالانی ہیں۔ اس حلقے سے ارباب غلام رحیم اور ان کے حمایت یافتہ امیدوار ہی الیکشن جیتتے آئے ہیں۔ حاجیانی لنجو نے مٹھی شہر کے محلوں میں اپنی خواتین ساتھیوں کے ساتھ پیدل انتخابی مہم شروع کر رکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تھرپارکر میں خواتین کے ووٹ بھی ان کے شناختی کارڈ لے کر مرد خود ہی ڈال دیتے ہیں۔ مرد امیدواروں نے کبھی بھی تھرپارکر کی خواتین کے لیے اسمبلی میں آواز نہیں اٹھائی۔ انہوں نے کہا کہ وہ جیت کر ایوانوں میں غریب عوام اور خواتین کی آواز بنیں گی۔
مولا بخش سموں
سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس چوالیس ضلع مٹیاری سے آزاد امیدوار مولا بخش سموں ریٹائرڈ ٹیچر اور ایک ٹانگ سے معذور ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک کی ترقی کے لیے تعلیم سب سے زیادہ ضروری ہے۔ جب تک ملک کا نوجوان طبقہ سب سے پہلے تعلیم کا حصول یقینی نہیں بنائے گا، اس وقت تک ملک کی ترقی نہیں ہوسکتی۔
پینسٹھ سالہ مولا بخش ریٹائرمنٹ کے باوجود گذشتہ پانچ سال سے بھٹ شاہ کے سب سے بڑے گرلز ہائی اسکول میں رضاکارانہ طور پر طالبات کو روزانہ انگلش اور ریاضی پڑھاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی پارٹی کے امیدوار کی حیثیت سے الیکشن نہیں لڑیں گے۔ ان کے مقابلے پر پی پی پی کے مخدوم رفیق الزماں، فنکشنل لیگ کے محمد علی شاہ جاموٹ، جے یو آئی کے مولانا رجب علی نوح پوٹو اور ن لیگ کے گل حسن راجپوت میدان میں موجود ہیں۔
خیبر پختون خوا
رحمت شاہ سائل
حلقہ این اے 35 مالاکنڈ سے عوامی نیشنل پارٹی کے نام زد امیدوار رحمت شاہ سائل 1950ء میں ایک پس ماندہ گاؤں ''ورتیر'' میں ایک غریب محنت کش امین گل کے ہاں پیدا ہوئے۔ غربت وناداری کے باعث چوتھی جماعت سے آگے تعلیم حاصل نہ کرسکے۔ عملی زندگی کی ابتدا درزی کی حیثیت سے کی۔ بعدازاں صحافت سے وابستہ ہوئے پشتوکے مشہور رسالے ''ماہنامہ لیکوال'' کے چیف ایڈیٹر رہے اور آج کل باچاخان مرکز پشاور سے شائع ہونے والے میگزین ''پختون'' کے چیف ایڈیٹر ہیں۔
اس سے قبل کچھ عرصہ سوات میں کپڑے کا کاروبار بھی کرچکے ہیں۔ بیس سال تک بطور شاعر خان عبدالولی خان کے ساتھ عوامی جلسوں میں ان کی تقریر سے پہلے نظمیں سناکر حاضر کا خون گرماتے رہے ہیں۔ مالاکنڈ سازش کیس اور الذولفقار طیارہ سازش کیس میں گرفتار کیے گئے تھے۔ اب تک ان کی نظم ونثر کی درجنوں کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ وہ پاکستان اور افغانستان کے پختونوں میں یکساں مقبول شاعر ہیں۔
دس بچوں کے باپ ہیں۔ جمہوریت، امن۔ انصاف، بشردوستی، مساوات اور مظلوموں کے حقوق کے لیے اپنی شاعری کے ذریعے بھرپور آواز اٹھانے والے رحمت شاہ سائل کو حکومت نے1996ء میں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا تھا۔ ان کے بقول منتخب ہوکر طبقاتی اور استحصالی نظام کے خلاف جدوجہد کل بھی ہمارا مشن رہا آج بھی ہمارا مشن ہے۔
حلقہ کے 3 لاکھ 25 ہزار سے زائد ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کرکے قومی اسمبلی کے ایک اور صوبائی اسمبلی کے دو امیدواروں کو منتخب کریں گے۔
پیشے کے لحاظ سے ایک محنت کش، دیہاڑی دار مزدور ہیں۔ وہ ضلع صوابی کے پس ماندہ گاؤں موضع جلسئی میں خدائی خدمت گار، مہابت خان کاکا مرحوم، جوکئی سال تک مسلسل عوامی نیشنل پارٹی تحصیل لاہور کے جنرل سیکرٹری رہے، کے ہاں پیدا ہوئے۔ پینتیس سالہ محمد سیارخان چھٹی جماعت تک پڑھ چکے ہیں۔ والد کی جائیداد میں چار کنال اراضی کے مالک ہیں، شادی شدہ ہیں چھے بچوں کے باپ ہیں۔
سیار خان پی کے 34 صوابی 4 سے آزاد امیدوار ہیں۔ وہ اپنی انتخابی مہم ایک پرانے ماڈل کی موٹرسائیکل پرسوار ہوکر چلارہے ہیں۔ ان کے بقول اصل جمہوریت غریبوں، محنت کشوں، کسانوں اور مزدوروں کی حکومت ہی میں ممکن ہے، جب کہ موجودہ جمہوریت صرف سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور کارخانہ داروں کے نظام کا تحفظ کرتی ہے۔ اس کے خلاف ہم سب غریبوں اور محنت کشوں کومل کر لڑنا ہوگا۔
عالم گیر
حلقہ این اے35 مالاکنڈ سے آزاد امیدوار عالم گیر پیشے کے لحاظ سے ایک ٹیکسی ڈرائیور ہیں۔ وہ تیسری مرتبہ اسی نشست پر قسمت آزمائی کررہے ہیں۔ 1952میں بٹ خیلہ میں پیدا ہوئے۔ ناخواندہ ہیں۔ ان کے چھے بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں۔ ان کا کوئی بینک بیلنس ہے نہ جائیداد۔1971ء میں مردان میں موٹر کار کی ڈرائیونگ لائسنس حاصل کیا اور ایک کاروباری شخص کے کے ڈرائیور ہوگئے۔ بائیس سال تک اس کے ڈرائیور رہے۔
2008ء کے بعد ڈرائیونگ چھوڑدی۔ 1993ء کے الیکشن میں انہوں نے اپنی پارٹی بنائی، جس کا نام ''اچار پارٹی'' رکھا، یعنی اچار کے ساتھ روٹی کھانے والے غریب لوگوں کی جماعت۔ اس پارٹی نے الیکشن میں حصہ لیا۔ عالم گیر کی انتخابی مہم میں علاقے کے تمام ٹیکسی ڈرائیوروں اور غریبوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ انہوں ے1741ووٹ حاصل کیے تھے۔1997ء کے الیکشن میں وہ پھر قومی اسمبلی کے امیدوار بن گئے، مگر دوبارہ ہارگئے۔ 2002ء اور 2008ء کے الیکشن میں بی اے کی شرط کی وجہ سے حصہ نہیں لیا۔
وہ اب بھی کبھی کبھار گزراوقات کے لیے ٹیکسی چلا لیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ غریبوں کے ساتھ ظلم ہوتا نہیں دیکھ سکتے، اس لیے ظلم وستم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اپنی انتخابی مہم کے سلسلے میں وہ پوسٹر اور بینر تک چھپوا اور بنوا نہیں سکے ہیں، کیوں کہ ان میں اس سب کا خرچہ برداشت کرنے کی سکت نہیں۔ ان کے ذمے بجلی بل کا بقایا 31,672روپے تھا، جس کی وجہ سے ان کے کاغذات نام زدگی واپس ہوگئے۔ تاہم دوستوں نے چندہ جمع کرکے ان کا بجلی بل جمع کرادیا۔ انہوں نے کہا کہ منتخب ہوکر تعلیم عام کرنا، روزگار دینا، رشوت وسفارش کا خاتمہ، ڈرائیور طبقے کی ہر ممکن مدد اور ملک میں طبقاتی نظام کے خلاف جدوجہد ہمارا مشن ہے۔
موسلم خان
حلقہ کے پی99 مالاکنڈ ٹو سے پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے نام زد امیدوار موسلم خان شٹرنگ کا کاروبار کرتے ہیں۔ وہ 1960ء میں دیر میں پیدا ہوئے۔ ناخواندہ ہیں۔ ان کے چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں۔ کرائے کے ایک چھوٹے سے بوسیدہ کچے مکان میں رہائش پذیر ہیں۔ بائیس سال سے شٹرنگ کے کام سے وابستہ ہیں۔ پارٹی کے فیصلے اور دوستوں کے پرزور اصرار پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ منتخب ہوکر سب سے پہلے ان لوگوں کے لیے آواز اٹھاؤں گا، جن کا اپنا گھر نہیں۔ مزدور طبقے سے ہوں، اس لیے مزدور طبقے کے مسائل کے حل کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کروں گا۔
محمد زادہ
حلقہ پی کے99 مالاکنڈ ٹو سے پیپلزپارٹی شہید بھٹو کے نام زد امیدوار محمد زادہ المعروف بھٹو، پیشے کے لحاظ سے صندوق بنانے والے کاری گر ہیں۔ ان کا خاندان بہ شمول والد شاہ زادہ، تیمرگرہ میں رہائش پذیر ہے، جب کہ محمد زادہ بٹ خیلہ میں اپنے بہنوئی کے گھر میں رہتے ہیں۔ 1973ء میں وہ محلہ ابراہیم خیل بٹ خیلہ میں پیدا ہوئے۔ دوسری جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے۔ قبیلہ اتمان خیل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی ایک بیٹی ہے۔ افلاس سے مجبور ہوکر وہ کراچی چلے گئے تھے، جہاں ایک ٹیکسٹائل مل میں 2005ء سے 2013ء کے آغاز تک کام کیا۔
وہ مزدوری کے ساتھ گاڑیاں بھی دھویا کرتے تھے، جس کی انہیں الگ اجرت ملتی تھی۔ کراچی کے حالات خراب ہوئے تو واپس لوٹ آئے۔ اب بٹ خیلہ بازار کے ایک صندوق بنانے والے کارخانے میں کام کررہے ہیں۔ ان کے مطابق انہیں چار سو پچاس روپے روزانہ کے حساب سے دیہاڑی ملتی ہے۔ گزر اوقات کے لیے انہیں ایک دن میں چھوٹے چار صندوق بنانا پڑتے ہیں۔ انتخابی مہم چلانے کے ساتھ ساتھ محنت مزدوری بھی کرتے ہیں۔ دن کو صندوق کے کارخانے میں پسینہ بہاتے ہیں اور شام سے رات گئے تک اپنی انتخابی مہم میں مصروف رہتے ہیں۔
پیپلزپارٹی شہید بھٹو مالاکنڈ ڈویژن کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ وہ پارٹی کی صوبائی کونسل کے رکن بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں پارٹی سے ابھی تک کوئی فنڈز نہیں ملا ہے، حالاں کہ وعدہ کیا گیا تھا کہ پوسٹروں کا خرچہ پارٹی برداشت کرے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ شہید مرتضیٰ بھٹو سے عقیدت کی بنیاد پر الیکشن میں حصہ لے رہا ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ میرے ذمے حکومت کے کوئی بقایاجات جات نہیں ہیں۔ سچے جذبے کے تحت الیکشن میں حصہ لے رہا ہوں اور صحیح معنوں میں غریبوں، کسانوں اور مزدوروں کے حقوق کے لیے لڑوں گا۔
بلوچستان
نصراﷲ خان زیرے
پی بی 5کوئٹہ سے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نامزد اُمیدوار نصراﷲ خان زیرے کا تعلق غریب طبقے سے ہے۔ وہ ایم اے ایل ایل بی ہیں۔ گورنمنٹ کی نوکری کو خیر باد کہہ کر سیاست کو بطور عبادت قبول کرتے ہوئے نصراﷲ زہرے نے اپنی تمام تر توانائیاں سیاست کے ساتھ سماجی بہبود کے کاموں میں صرف کیں۔ 1982سے پشتونخوا میپ سے وابستہ اس نوجوان نے دور طالب علمی ہی میں کئی بار جیل کی سلاخوں سے ملاقات کی۔ اپنی محنت اور لگن کی وجہ سے مختلف عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ وہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ضلعی سنیئر معاون کوئٹہ اور صوبائی تنظیم کے ڈپٹی سکریٹری کے عہدوں پر اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نصراﷲ خان زہرے کا کہنا ہے کہ اگر میرے حلقے کے عوام مجھ پر اعتماد کرتے ہیں اور میں اسمبلی تک پہنچ پاتا ہوں تو میری پہلی ترجیح اپنے حلقے میں گیس، پانی، بجلی، صحت اور خاص کر تعلیم ہوگی۔ میں ذات پات سے بالاتر ہوکر انسانیت کی خدمت کروں گا۔
نصیر خان ترین
حلقہ پی بی 1کوئٹہ سے آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لینے والا یہ نوجوان سابق حکم رانوں کے رویے اور کارکردگی سے انتہائی مایوس ہے۔ نصیر خان ترین کوئٹہ میں ایک چھوٹی سی دکان چلاتے ہیں۔ ان کی تعلیم ایف اے تک ہے۔ ان کی جائے پیدائش کلی سیمزئی ضلع پشین ہے۔ نصیر خان سوشل ورکر ہیں۔ ان کی انتخابات میں دل چسپی کی بنیادی وجہ کوئٹہ میں تاجر برادری کے ساتھ روا رکھا جانے والا ناروا سلوک ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شہر میں آئے دن تاجر اغوا ہورہے ہیں۔ لوگ قتل ہورہے ہیں۔ تاجر برادری کا جینا مشکل بنادیا گیا ہے۔
کاروبار تباہ ہوچکا ہے اور لوگ خوف کی وجہ سے شہر کا رخ نہیں کر رہے ہیں۔ یہی وہ بنیادی اسباب ہیں جنہوں نے نصیر خان ترین کو انتخابات میں بطور آزاد اُمیدوار حصہ لینے پر مجبور کیا۔ نصیر خان انجمن تاجران کوئٹہ کے صدر بھی ہیں۔ ان کی ایک خواہش ہے کہ صوبائی اور قومی اسمبلی میں تاجر برادری کی نمائندگی لازمی طور پر ہونی چاہیے۔ نصیر خان کی توجہ اپنے حلقے میں تعلیم، صحت اور سب سے بڑھ کر شہر میں امن وامان کی صورت حال بہتر بنانے پر ہے۔
کونسل اور مجلس عاملہ کے رکن اور کوئٹہ سٹی کے صدر رہے ہیں۔ کوئٹہ کی تاجر برادری میں انہیں مقبولیت حاصل ہے۔
بابر خان خٹک
حلقہ پی بی 1کوئٹہ سے پاکستان کے جوہری پروگرام کے بانی ڈاکٹرعبدالقدیر کی تشکیل کردہ جماعت ''تحریک تحفظ پاکستان'' کے نام زد اُمیدوار اور انتہائی نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے بابر خان خٹک ڈاکٹر قدیر خان کی ملک کے لیے خدمات سے متاثر ہوکر ان کے قافلے میں شامل ہوئے۔ بابر خان خٹک ایک ٹریول ایجنسی میں ملازمت کرتے ہیں اور انٹر پاس ہیں۔ وہ سابق دور حکومت سے انتہائی نالاں اور خاص کر اپنے حلقے کے سابق وزیر کی کارکردگی سے انتہائی مایوس ہیں۔ وہ اُس کے ردعمل میں انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان کی پہلی ترجیح اپنے حلقے میں روزگار کے مواقع پیدا کرنا، سرکاری املاک پر سے قبضہ ختم کرانا، تعلیم اور انصاف کی فراہمی ہیں۔
محمد عمران
حلقہ پی بی 2 کوئٹہ سے تحریک تحفظ پاکستان کے نوجوان اُمیدوار محمد عمران بے روزگار ہیں۔ ان کی تعلیم میٹرک تک ہے۔ محمد عمران کا کہنا ہے کہ وہ ذات پات اور برادریوں کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے۔ وہ کہتے ہیں کہ میڈیا کو چاہیے کہ وہ ہم جیسوں کی بھی سنے اور ہماری آواز بھی ملک کے کونے کونے تک پہنچائے۔
مملکت بشیر
مملکت بشیر وہ واحد خاتون ہیں، جنہوں نے 2013 کے عام انتخابات میں این اے 10 اور پی کے 27 سے آزاد حیثیت سے پہلی بار جنرل سیٹ پر انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ دونوں حلقے ضلع مردان کے دور دراز اور انتہائی پسماندہ علاقوں پر مشتمل ہیں۔ چناں چہ ان دونوں حلقوں سے ایک خاتون کے لیے انتخابات میں حصہ لینا بہت مشکل کام ہے، مگر مملکت بشیر بہت حوصلہ مند اور جرأت مند خاتون ہیںکہ ان مشکلات کے باوجود اپنے موقف پر ڈٹی رہیں اور اور اپنے فیصلہ سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں۔ مملکت نے8 ستمبر 1975 کو جنم لیا، ان کے والد کا نام سیدخان ہے۔ ان کے والد بہت غریب تھے۔ انہوں اپنی بیٹی کی شادی اپنے بھتیجے بشیرخان کے ساتھ 16 سال قبل کی۔
مملکت نے اس کم عمری میں نہ صرف گھر کی ذمے داریاں احسن طریقے سے پوری کیں، بل کہ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ انھوں نے پشاور یونی ورسٹی سے بی اے اور بی ایڈ کرنے کے بعد سی ٹی پھر پی ٹی سی اور بعد میں ڈی ایم کے امتحانات پاس کیے۔ اب ان کا دوسرا امتحان شروع ہوگیا۔ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود انھیں نوکری نہیں ملی اور وہ اوور ایج ہوگئیں۔ مملکت بشیر کے چار بچے ہیں۔ اہلیت کے باوجود ملازمت نہ ملنے پر انہوں نے یہ عزم کیا کہ جن لوگوں نے میرٹ کے نام پر میرٹ کا خون کیا ہے میں ان لوگوں سے انتقام لوں گی۔ اپنے اس عزم کی بنیاد پر وہ الیکشن لڑ رہی ہیں۔ ان کے ساتھ انتخابی مہم چلانے کے لیے مالی وسائل نہیں، چناں چہ وہ گھر گھر جا کر اپنا پیغام لو گوں تک پہنچا رہی ہیں۔ ان کی کل جمع پونجی 50000 روپے ہیں، وہ کہتی ہیں کہ یہ رقم ان کی مہم کے لیے کافی ہے۔
ایسا خال خال ہی ہوا ہے کہ غریب طبقے کی نمائندگی کے لیے ان ہی میں سے کوئی سیاست کے خارزار میں اترا ہو، مگر اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ اپنے حقوق کے لیے آواز نہ اٹھائی جا سکے، غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد جمہوری عمل کے ذریعے اب اقتدار کے ایوانوں کی طرف گام زن ہیں، تاکہ اپنے طبقے کے مسائل کو بہتر طریقے سے حل کر سکیں۔ ان میں سے بعض کسی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں، مگر زیادہ تر آزاد امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ نتیجہ کچھ بھی نکلے مگر ان بے وسیلہ لوگوں کی ہمت قابل داد ہے۔
پنجاب
نفیس خان
نفیس خان پی پی 31 مڈھ رانجھا سرگودھا سے آزاد امیدوار کے طو ر پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ وہ اپنے گاؤں میں ایک چھوٹا سا نجی اسکول چلاتے اور اس میں پڑھاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا ایک مدمقابل امیدوار اور اس کے خاندان کے خلاف الیکشن لڑنا ظلم اور جبر کے خلاف آواز بلند کرنا ہے، کیونکہ اس پورے علاقے کو ان لوگوں نے اپنے جاگیردارانہ نظام کے نرغے میں لے رکھا ہے۔
نفیس خان کا کہنا ہے، '' میں نے ان لوگوں کے خلاف آواز بلند کی تو انھوں نے مجھ پر تشدد کیا۔ عوام ان سے ڈرتے ہیں۔ اس لیے میں نے اس الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا کہ عوام کے دلوں سے ان کا خوف نکالا جا سکے اور ان میں شعور پیدا کیا جائے کہ ووٹ کی طاقت سے وہ اپنے حالات بدل سکتے ہیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ الیکشن مہم کے دوران لوگ کھل کر اس بات کا اظہار بھی نہیں کرتے کہ وہ مجھے ووٹ دیں گے۔ اس تمام صورتحال کے باوجود میں نے یہاں کے حالات بدلنے کا مصمم ارادہ کر رکھا ہے۔
سائرہ زبیر
سائرہ زبیر این اے 120 لاہورمیں میاں نواز شریف کے مقابلے پر آل پاکستان مسلم لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہی ہیں۔ وہ عظیم پہلوان زبیر عرف جھارا کی بیوی اور نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز کی کزن ہیں۔ سائرہ زبیر کا کہنا ہے کہ ان کے نظریات چونکہ آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ پرویز مشرف سے ملتے تھے اس لئے انھوں نے ان کی جماعت کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا، ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی مخالفت کی وجہ سے نواز شریف کے خلاف الیکشن نہیں لڑ رہیں بلکہ یہ نظریات کی جنگ ہے اور وہ اپنے نظریے کو ثابت کرنے کے لیے الیکشن کے میدان میں اتری ہیں۔
ملک شبریز عباس اعوان
میں حلقہ این اے 96 گوجرانوالہ سے مسلم لیگ ن کے امیدوار خرم دستگیر کے مقابلے پر الیکشن لڑنے والے عباس اعوان ایک سگریٹ کمپنی میں سیلز مین ہیں اور اس کی پبلسٹی بھی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے عوام کے مسائل دیکھتے ہوئے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے تحت وہ تحریک انصاف سے وابستہ ہوگئے، مگر ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد امیدوار کی حیثیت سے میدان میں اترے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں عوام کے مسائل حل کرنے کا مکمل تہیہ کر چکا ہوں، اس کے لئے ضروری ہے کہ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچا جائے، یہی جذبہ مجھے متحرک رکھے ہوئے ہے۔ غریبوں کے مسائل غریب ہی سمجھ سکتا ہے، امیروں کو کیا پتا غریبوں کے مسائل کا۔ میں الیکشن میں کام یاب ہوکر سب سے پہلے عوام کے بنیادی مسائل حل کر وانے کی کوشش کروں گا، جن میں روزگار، صحت اور تعلیم کی سہولتیں میری ترجیح ہوں گی۔
ناصر مسیح گل
ناصر مسیح گل متحدہ قومی موومنٹ کے ٹکٹ پر این اے 129سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے ہیں۔ وہ ایک فارماسوٹیکل کمپنی میں کام کرتے تھے، مگر گذشتہ ماہ انھوں نے انتخابی مہم پر بھرپور توجہ دینے کی غرض سے نوکری چھوڑ دی۔ ان کی اہلیہ ملازمت کرتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے الیکشن لڑنے کا مقصد غریب او رمتوسط طبقے کی آواز حکومتی ایوانوں تک پہنچانا ہے۔ اسی مقصد کی خاطر میں کافی عرصہ سے سیاست میں دلچسپی لے رہا تھا اور جاب سے واپس آ نے کے بعد شام کو پارٹی کے دفتر میں وقت دیتا تھا۔ میرے حلقے کے عوام مجھے بڑی اچھی طرح جانتے ہیں۔ میرے کردار سے پوری طرح واقف ہیں۔ میں غریب اور مڈل کلاس کے عوام کے لئے رول ماڈل کا کردار ادا کروں گا، تاکہ یہ لوگ بھی سیاست میں نمایاں کردار ادا کریں۔
محمد اقبال
پی پی 159 سے متحدہ قومی موومنٹ کے نام زد امیدوار محمد اقبال کی اٹاری روڈ پر چپلوں کی دکان ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میرا تعلق چوں کہ غریب طبقے سے ہے اس لیے میں ان کے مسائل کو اچھی طرح سمجھتا ہوں ، اس وقت لوڈ شیڈنگ نے پورے ملک کو اپنے نرغے میں لیا ہوا ہے مگر امیروں کے گھروں میں جنریٹر چل رہے ہیں، اس لیے انھیں اس کا کوئی احساس نہیں۔ میں اس عزم کے ساتھ سیاست میں آیا ہوں کہ غریبوں کی مدد کروں گا۔ الیکشن مہم بڑی سادگی سے چلاؤں گا، ایک روپیہ بھی اضافی خرچ نہیں کیا جائے گا۔ عوام سے یہی کہوں گا کہ میں ان کا ہی نمائندہ ہوں کیونکہ میں ان کے طبقے سے تعلق رکھتا ہوں اور میں ہی ان کے مسائل کو صحیح معنوں میں سمجھتا ہوں اس لیے مجھے ووٹ دیں۔
سندھ
وجیہہ الدین ماچھی
ضلع بے نظیر آباد سے قومی اسمبلی کی نشست این اے 213 پر صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ عذرا پیچوہو کے مقابلے پر ان کے ایک ہاری وجیہہ الدین میدان میں آ گئے ہیں۔ تعلقہ دوڑ کے گاؤں فراہم آباد دیہہ 76 کا رہائشی 43 سالہ وجیہہ الدین ماچھی انتہائی غریب ہیں اور محنت مزدوری کر کے اپنی بیوی اور چار بچوں کا پیٹ پال رہے ہیں۔ وجیہہ الدین نے الزام عاید کیا کہ عذرا پیچوہو کی زمین پر پندرہ سال کام کرنے کا معاوضہ ابھی تک ادا نہیں کیا گیا ہے۔ انہوں نے 1995سے2010 تک بطور ہاری کام کیا، جس کا معاوضہ تقریباً اٹھارہ لاکھ روپے بنتا ہے، جو ادا نہیں کیا گیا۔ وجیہ الدین کا کہنا ہے کہ معاوضے کے حصول کے لیے انہوں نے کئی بار زرداری ہاؤس نوابشاہ اور نوڈیرو کے چکر لگائے، لیکن وہاں سے انہیں دھکے اور دھمکیوں کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔
ایک بار عذرا پیچوہو سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ بھائی آصف جیل میں ہیں، رہا ہوجائیں تو پھر دیکھیں گے، مگر آصف زرداری کے رہا ہونے کے باوجود انہیں معاوضہ نہیں ملا۔ وجیہہ الدین ماچھی نے بتایا کہ انہیں اﷲ کے سوا کسی کا خوف نہیں ہے۔ اگر اسے پھانسی ہوئی تو وہ ذوالفقار علی بھٹو کہلائے گا، اگر زہر دیا گیا تو اسے شاہ نواز بھٹو کہا جائے گا اور اگر اسے گولی مار کر قتل کیا گیا تو وہ مرتضیٰ بھٹو کہلائے گا۔ وجیہہ الدین ماچھی کا کہنا ہے کہ اسے شہید بھٹو کی ایک جلسے میں کی گئی تقریر یاد ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا ایک بھٹو وہ ہیں اور دوسرا جلسہ میں شریک عوام۔ وجہیہ الدین نے کہا کہ وہ غریبوں کے دوسرے بھٹو ہیں۔ ان کے پاس بڑی بڑی گاڑیاں نہیں ہیں اور نہ ہی دولت، مگر انہیں خوشی ہے کہ وہ صدر آصف علی زرداری کی بہن کے مدمقابل الیکشن لڑ رہے ہیں اور اس نشست پر کسی صورت دستبردار نہیں ہوگا۔
ویرو کولہن
حیدرآباد سے سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس پچاس سے خاتون شریمتی دھری عرف ویرو کولہن نے آزاد حیثیت میں اپنے کاغذات نام زدگی فارم جمع کرائے ہیں۔ شریمتی دھری عرف ویرو کولہن کی زندگی کا بیشتر حصہ جبری مشقت کا شکار ہاریوں اور بھٹا مزدوروں کو رہا کرانے اور ان کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے میں گزرا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ الیکشن میں کام یاب ہوئیں تو اسمبلی کے فلور پر جبری مشقت کا شکار ہاریوں اور بھٹا مزدوروں کے لیے بھرپور انداز میں آواز اٹھائیں گی۔ ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے موثر قانون سازی کرائیں گی اور بانڈڈ لیبر کے خلاف ہونے والی قانون سازی پر عمل درآمد کرانے کی بھرپور کوشش کریں گی۔ شریمتی دھری عرف ویرو کولہن درجنوں مرد و خواتین ہاری و مزدوروں کے جھرمٹ میں ریٹرننگ آفیسر کے دفتر پہنچیں۔ ان کے حامی انہیں ہاروں سے لاد کر ریٹرننگ آفیسر کے دفتر تک لائے اور مسلسل ان کے حق میں نعرے لگاتے رہے۔
مہرالنساء
کنُری کے نواحی شہر نبی سرروڈ کی رہائشی 70سالہ غیرشادی شُدہ اور غیرتعلیم یافتہ معمر خاتون مہرالنساء صُوبائی اسمبلی کی نشست پی ایس 68سے آزاد امیدوار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک بھر میں خواتین کے حقوق پامال کیے جا رہے ہیں، جن کی حفاظت کے لیے اور ملک میں رائج وڈیرہ شاہی کے خاتمے کے لیے وہ انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس عمر میں انتخابات میں حصہ لے کر میں ملک کے نوجوان طبقے کو بیدار کرنا چاہتی ہوں، کیوں کہ اس وقت ملک کو نوجوان قیادت کی سخت ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر عوام نے میرا ساتھ دیا اور میں منتخب ہوئی تو غریب لوگوں کی خدمت یقینی بناؤں گی۔ میں باقی عمر انہی کی خدمت میں گزارنا چاہتی ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ میر ے مقابلے میں انتخابات میں حصہ لینے والے سیاسی پارٹیوں کے اُمیدواروں کو شکست کا سامنا کرنا پڑے گا، کیوںکہ مجھے حلقے کی عوام نے حمایت کا یقین دلایا ہے۔
واضح رہے کہ اس نشست کے لیے پی پی پی کی جانب سے نواب تیمور تالپور، فنکشنل لیگ اور غوثیہ جماعت کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار ڈاکٹر دوست محمد میمن، پیپلز مسلم لیگ کے میر امان اللہ خان تالپور اور ن لیگ کے نواب زید تالپور میدان ہیں ہیں۔
حاجیانی لنجو
تھرپارکر کی تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون امیدوار میدان میں آگئی ہے۔ گاؤں عالم سر سے تعلق رکھنے والی حاجیانی لنجو دس جماعتی اتحاد کی حمایت سے این اے دو سو انتیس امیدوار کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ ان کے مقابلے پر سابق وزیراعلیٰ سندھ اور پیپلز مسلم لیگ صدر ڈاکٹر ارباب غلام رحیم اور پی پی پی کے امیدوار فقیر شیر محمد بلالانی ہیں۔ اس حلقے سے ارباب غلام رحیم اور ان کے حمایت یافتہ امیدوار ہی الیکشن جیتتے آئے ہیں۔ حاجیانی لنجو نے مٹھی شہر کے محلوں میں اپنی خواتین ساتھیوں کے ساتھ پیدل انتخابی مہم شروع کر رکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تھرپارکر میں خواتین کے ووٹ بھی ان کے شناختی کارڈ لے کر مرد خود ہی ڈال دیتے ہیں۔ مرد امیدواروں نے کبھی بھی تھرپارکر کی خواتین کے لیے اسمبلی میں آواز نہیں اٹھائی۔ انہوں نے کہا کہ وہ جیت کر ایوانوں میں غریب عوام اور خواتین کی آواز بنیں گی۔
مولا بخش سموں
سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس چوالیس ضلع مٹیاری سے آزاد امیدوار مولا بخش سموں ریٹائرڈ ٹیچر اور ایک ٹانگ سے معذور ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک کی ترقی کے لیے تعلیم سب سے زیادہ ضروری ہے۔ جب تک ملک کا نوجوان طبقہ سب سے پہلے تعلیم کا حصول یقینی نہیں بنائے گا، اس وقت تک ملک کی ترقی نہیں ہوسکتی۔
پینسٹھ سالہ مولا بخش ریٹائرمنٹ کے باوجود گذشتہ پانچ سال سے بھٹ شاہ کے سب سے بڑے گرلز ہائی اسکول میں رضاکارانہ طور پر طالبات کو روزانہ انگلش اور ریاضی پڑھاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی پارٹی کے امیدوار کی حیثیت سے الیکشن نہیں لڑیں گے۔ ان کے مقابلے پر پی پی پی کے مخدوم رفیق الزماں، فنکشنل لیگ کے محمد علی شاہ جاموٹ، جے یو آئی کے مولانا رجب علی نوح پوٹو اور ن لیگ کے گل حسن راجپوت میدان میں موجود ہیں۔
خیبر پختون خوا
رحمت شاہ سائل
حلقہ این اے 35 مالاکنڈ سے عوامی نیشنل پارٹی کے نام زد امیدوار رحمت شاہ سائل 1950ء میں ایک پس ماندہ گاؤں ''ورتیر'' میں ایک غریب محنت کش امین گل کے ہاں پیدا ہوئے۔ غربت وناداری کے باعث چوتھی جماعت سے آگے تعلیم حاصل نہ کرسکے۔ عملی زندگی کی ابتدا درزی کی حیثیت سے کی۔ بعدازاں صحافت سے وابستہ ہوئے پشتوکے مشہور رسالے ''ماہنامہ لیکوال'' کے چیف ایڈیٹر رہے اور آج کل باچاخان مرکز پشاور سے شائع ہونے والے میگزین ''پختون'' کے چیف ایڈیٹر ہیں۔
اس سے قبل کچھ عرصہ سوات میں کپڑے کا کاروبار بھی کرچکے ہیں۔ بیس سال تک بطور شاعر خان عبدالولی خان کے ساتھ عوامی جلسوں میں ان کی تقریر سے پہلے نظمیں سناکر حاضر کا خون گرماتے رہے ہیں۔ مالاکنڈ سازش کیس اور الذولفقار طیارہ سازش کیس میں گرفتار کیے گئے تھے۔ اب تک ان کی نظم ونثر کی درجنوں کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ وہ پاکستان اور افغانستان کے پختونوں میں یکساں مقبول شاعر ہیں۔
دس بچوں کے باپ ہیں۔ جمہوریت، امن۔ انصاف، بشردوستی، مساوات اور مظلوموں کے حقوق کے لیے اپنی شاعری کے ذریعے بھرپور آواز اٹھانے والے رحمت شاہ سائل کو حکومت نے1996ء میں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا تھا۔ ان کے بقول منتخب ہوکر طبقاتی اور استحصالی نظام کے خلاف جدوجہد کل بھی ہمارا مشن رہا آج بھی ہمارا مشن ہے۔
حلقہ کے 3 لاکھ 25 ہزار سے زائد ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کرکے قومی اسمبلی کے ایک اور صوبائی اسمبلی کے دو امیدواروں کو منتخب کریں گے۔
پیشے کے لحاظ سے ایک محنت کش، دیہاڑی دار مزدور ہیں۔ وہ ضلع صوابی کے پس ماندہ گاؤں موضع جلسئی میں خدائی خدمت گار، مہابت خان کاکا مرحوم، جوکئی سال تک مسلسل عوامی نیشنل پارٹی تحصیل لاہور کے جنرل سیکرٹری رہے، کے ہاں پیدا ہوئے۔ پینتیس سالہ محمد سیارخان چھٹی جماعت تک پڑھ چکے ہیں۔ والد کی جائیداد میں چار کنال اراضی کے مالک ہیں، شادی شدہ ہیں چھے بچوں کے باپ ہیں۔
سیار خان پی کے 34 صوابی 4 سے آزاد امیدوار ہیں۔ وہ اپنی انتخابی مہم ایک پرانے ماڈل کی موٹرسائیکل پرسوار ہوکر چلارہے ہیں۔ ان کے بقول اصل جمہوریت غریبوں، محنت کشوں، کسانوں اور مزدوروں کی حکومت ہی میں ممکن ہے، جب کہ موجودہ جمہوریت صرف سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور کارخانہ داروں کے نظام کا تحفظ کرتی ہے۔ اس کے خلاف ہم سب غریبوں اور محنت کشوں کومل کر لڑنا ہوگا۔
عالم گیر
حلقہ این اے35 مالاکنڈ سے آزاد امیدوار عالم گیر پیشے کے لحاظ سے ایک ٹیکسی ڈرائیور ہیں۔ وہ تیسری مرتبہ اسی نشست پر قسمت آزمائی کررہے ہیں۔ 1952میں بٹ خیلہ میں پیدا ہوئے۔ ناخواندہ ہیں۔ ان کے چھے بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں۔ ان کا کوئی بینک بیلنس ہے نہ جائیداد۔1971ء میں مردان میں موٹر کار کی ڈرائیونگ لائسنس حاصل کیا اور ایک کاروباری شخص کے کے ڈرائیور ہوگئے۔ بائیس سال تک اس کے ڈرائیور رہے۔
2008ء کے بعد ڈرائیونگ چھوڑدی۔ 1993ء کے الیکشن میں انہوں نے اپنی پارٹی بنائی، جس کا نام ''اچار پارٹی'' رکھا، یعنی اچار کے ساتھ روٹی کھانے والے غریب لوگوں کی جماعت۔ اس پارٹی نے الیکشن میں حصہ لیا۔ عالم گیر کی انتخابی مہم میں علاقے کے تمام ٹیکسی ڈرائیوروں اور غریبوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ انہوں ے1741ووٹ حاصل کیے تھے۔1997ء کے الیکشن میں وہ پھر قومی اسمبلی کے امیدوار بن گئے، مگر دوبارہ ہارگئے۔ 2002ء اور 2008ء کے الیکشن میں بی اے کی شرط کی وجہ سے حصہ نہیں لیا۔
وہ اب بھی کبھی کبھار گزراوقات کے لیے ٹیکسی چلا لیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ غریبوں کے ساتھ ظلم ہوتا نہیں دیکھ سکتے، اس لیے ظلم وستم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اپنی انتخابی مہم کے سلسلے میں وہ پوسٹر اور بینر تک چھپوا اور بنوا نہیں سکے ہیں، کیوں کہ ان میں اس سب کا خرچہ برداشت کرنے کی سکت نہیں۔ ان کے ذمے بجلی بل کا بقایا 31,672روپے تھا، جس کی وجہ سے ان کے کاغذات نام زدگی واپس ہوگئے۔ تاہم دوستوں نے چندہ جمع کرکے ان کا بجلی بل جمع کرادیا۔ انہوں نے کہا کہ منتخب ہوکر تعلیم عام کرنا، روزگار دینا، رشوت وسفارش کا خاتمہ، ڈرائیور طبقے کی ہر ممکن مدد اور ملک میں طبقاتی نظام کے خلاف جدوجہد ہمارا مشن ہے۔
موسلم خان
حلقہ کے پی99 مالاکنڈ ٹو سے پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے نام زد امیدوار موسلم خان شٹرنگ کا کاروبار کرتے ہیں۔ وہ 1960ء میں دیر میں پیدا ہوئے۔ ناخواندہ ہیں۔ ان کے چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں۔ کرائے کے ایک چھوٹے سے بوسیدہ کچے مکان میں رہائش پذیر ہیں۔ بائیس سال سے شٹرنگ کے کام سے وابستہ ہیں۔ پارٹی کے فیصلے اور دوستوں کے پرزور اصرار پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ منتخب ہوکر سب سے پہلے ان لوگوں کے لیے آواز اٹھاؤں گا، جن کا اپنا گھر نہیں۔ مزدور طبقے سے ہوں، اس لیے مزدور طبقے کے مسائل کے حل کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کروں گا۔
محمد زادہ
حلقہ پی کے99 مالاکنڈ ٹو سے پیپلزپارٹی شہید بھٹو کے نام زد امیدوار محمد زادہ المعروف بھٹو، پیشے کے لحاظ سے صندوق بنانے والے کاری گر ہیں۔ ان کا خاندان بہ شمول والد شاہ زادہ، تیمرگرہ میں رہائش پذیر ہے، جب کہ محمد زادہ بٹ خیلہ میں اپنے بہنوئی کے گھر میں رہتے ہیں۔ 1973ء میں وہ محلہ ابراہیم خیل بٹ خیلہ میں پیدا ہوئے۔ دوسری جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے۔ قبیلہ اتمان خیل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی ایک بیٹی ہے۔ افلاس سے مجبور ہوکر وہ کراچی چلے گئے تھے، جہاں ایک ٹیکسٹائل مل میں 2005ء سے 2013ء کے آغاز تک کام کیا۔
وہ مزدوری کے ساتھ گاڑیاں بھی دھویا کرتے تھے، جس کی انہیں الگ اجرت ملتی تھی۔ کراچی کے حالات خراب ہوئے تو واپس لوٹ آئے۔ اب بٹ خیلہ بازار کے ایک صندوق بنانے والے کارخانے میں کام کررہے ہیں۔ ان کے مطابق انہیں چار سو پچاس روپے روزانہ کے حساب سے دیہاڑی ملتی ہے۔ گزر اوقات کے لیے انہیں ایک دن میں چھوٹے چار صندوق بنانا پڑتے ہیں۔ انتخابی مہم چلانے کے ساتھ ساتھ محنت مزدوری بھی کرتے ہیں۔ دن کو صندوق کے کارخانے میں پسینہ بہاتے ہیں اور شام سے رات گئے تک اپنی انتخابی مہم میں مصروف رہتے ہیں۔
پیپلزپارٹی شہید بھٹو مالاکنڈ ڈویژن کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ وہ پارٹی کی صوبائی کونسل کے رکن بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں پارٹی سے ابھی تک کوئی فنڈز نہیں ملا ہے، حالاں کہ وعدہ کیا گیا تھا کہ پوسٹروں کا خرچہ پارٹی برداشت کرے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ شہید مرتضیٰ بھٹو سے عقیدت کی بنیاد پر الیکشن میں حصہ لے رہا ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ میرے ذمے حکومت کے کوئی بقایاجات جات نہیں ہیں۔ سچے جذبے کے تحت الیکشن میں حصہ لے رہا ہوں اور صحیح معنوں میں غریبوں، کسانوں اور مزدوروں کے حقوق کے لیے لڑوں گا۔
بلوچستان
نصراﷲ خان زیرے
پی بی 5کوئٹہ سے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نامزد اُمیدوار نصراﷲ خان زیرے کا تعلق غریب طبقے سے ہے۔ وہ ایم اے ایل ایل بی ہیں۔ گورنمنٹ کی نوکری کو خیر باد کہہ کر سیاست کو بطور عبادت قبول کرتے ہوئے نصراﷲ زہرے نے اپنی تمام تر توانائیاں سیاست کے ساتھ سماجی بہبود کے کاموں میں صرف کیں۔ 1982سے پشتونخوا میپ سے وابستہ اس نوجوان نے دور طالب علمی ہی میں کئی بار جیل کی سلاخوں سے ملاقات کی۔ اپنی محنت اور لگن کی وجہ سے مختلف عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ وہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ضلعی سنیئر معاون کوئٹہ اور صوبائی تنظیم کے ڈپٹی سکریٹری کے عہدوں پر اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نصراﷲ خان زہرے کا کہنا ہے کہ اگر میرے حلقے کے عوام مجھ پر اعتماد کرتے ہیں اور میں اسمبلی تک پہنچ پاتا ہوں تو میری پہلی ترجیح اپنے حلقے میں گیس، پانی، بجلی، صحت اور خاص کر تعلیم ہوگی۔ میں ذات پات سے بالاتر ہوکر انسانیت کی خدمت کروں گا۔
نصیر خان ترین
حلقہ پی بی 1کوئٹہ سے آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لینے والا یہ نوجوان سابق حکم رانوں کے رویے اور کارکردگی سے انتہائی مایوس ہے۔ نصیر خان ترین کوئٹہ میں ایک چھوٹی سی دکان چلاتے ہیں۔ ان کی تعلیم ایف اے تک ہے۔ ان کی جائے پیدائش کلی سیمزئی ضلع پشین ہے۔ نصیر خان سوشل ورکر ہیں۔ ان کی انتخابات میں دل چسپی کی بنیادی وجہ کوئٹہ میں تاجر برادری کے ساتھ روا رکھا جانے والا ناروا سلوک ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شہر میں آئے دن تاجر اغوا ہورہے ہیں۔ لوگ قتل ہورہے ہیں۔ تاجر برادری کا جینا مشکل بنادیا گیا ہے۔
کاروبار تباہ ہوچکا ہے اور لوگ خوف کی وجہ سے شہر کا رخ نہیں کر رہے ہیں۔ یہی وہ بنیادی اسباب ہیں جنہوں نے نصیر خان ترین کو انتخابات میں بطور آزاد اُمیدوار حصہ لینے پر مجبور کیا۔ نصیر خان انجمن تاجران کوئٹہ کے صدر بھی ہیں۔ ان کی ایک خواہش ہے کہ صوبائی اور قومی اسمبلی میں تاجر برادری کی نمائندگی لازمی طور پر ہونی چاہیے۔ نصیر خان کی توجہ اپنے حلقے میں تعلیم، صحت اور سب سے بڑھ کر شہر میں امن وامان کی صورت حال بہتر بنانے پر ہے۔
کونسل اور مجلس عاملہ کے رکن اور کوئٹہ سٹی کے صدر رہے ہیں۔ کوئٹہ کی تاجر برادری میں انہیں مقبولیت حاصل ہے۔
بابر خان خٹک
حلقہ پی بی 1کوئٹہ سے پاکستان کے جوہری پروگرام کے بانی ڈاکٹرعبدالقدیر کی تشکیل کردہ جماعت ''تحریک تحفظ پاکستان'' کے نام زد اُمیدوار اور انتہائی نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے بابر خان خٹک ڈاکٹر قدیر خان کی ملک کے لیے خدمات سے متاثر ہوکر ان کے قافلے میں شامل ہوئے۔ بابر خان خٹک ایک ٹریول ایجنسی میں ملازمت کرتے ہیں اور انٹر پاس ہیں۔ وہ سابق دور حکومت سے انتہائی نالاں اور خاص کر اپنے حلقے کے سابق وزیر کی کارکردگی سے انتہائی مایوس ہیں۔ وہ اُس کے ردعمل میں انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان کی پہلی ترجیح اپنے حلقے میں روزگار کے مواقع پیدا کرنا، سرکاری املاک پر سے قبضہ ختم کرانا، تعلیم اور انصاف کی فراہمی ہیں۔
محمد عمران
حلقہ پی بی 2 کوئٹہ سے تحریک تحفظ پاکستان کے نوجوان اُمیدوار محمد عمران بے روزگار ہیں۔ ان کی تعلیم میٹرک تک ہے۔ محمد عمران کا کہنا ہے کہ وہ ذات پات اور برادریوں کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے۔ وہ کہتے ہیں کہ میڈیا کو چاہیے کہ وہ ہم جیسوں کی بھی سنے اور ہماری آواز بھی ملک کے کونے کونے تک پہنچائے۔
مملکت بشیر
مملکت بشیر وہ واحد خاتون ہیں، جنہوں نے 2013 کے عام انتخابات میں این اے 10 اور پی کے 27 سے آزاد حیثیت سے پہلی بار جنرل سیٹ پر انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ دونوں حلقے ضلع مردان کے دور دراز اور انتہائی پسماندہ علاقوں پر مشتمل ہیں۔ چناں چہ ان دونوں حلقوں سے ایک خاتون کے لیے انتخابات میں حصہ لینا بہت مشکل کام ہے، مگر مملکت بشیر بہت حوصلہ مند اور جرأت مند خاتون ہیںکہ ان مشکلات کے باوجود اپنے موقف پر ڈٹی رہیں اور اور اپنے فیصلہ سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں۔ مملکت نے8 ستمبر 1975 کو جنم لیا، ان کے والد کا نام سیدخان ہے۔ ان کے والد بہت غریب تھے۔ انہوں اپنی بیٹی کی شادی اپنے بھتیجے بشیرخان کے ساتھ 16 سال قبل کی۔
مملکت نے اس کم عمری میں نہ صرف گھر کی ذمے داریاں احسن طریقے سے پوری کیں، بل کہ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ انھوں نے پشاور یونی ورسٹی سے بی اے اور بی ایڈ کرنے کے بعد سی ٹی پھر پی ٹی سی اور بعد میں ڈی ایم کے امتحانات پاس کیے۔ اب ان کا دوسرا امتحان شروع ہوگیا۔ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود انھیں نوکری نہیں ملی اور وہ اوور ایج ہوگئیں۔ مملکت بشیر کے چار بچے ہیں۔ اہلیت کے باوجود ملازمت نہ ملنے پر انہوں نے یہ عزم کیا کہ جن لوگوں نے میرٹ کے نام پر میرٹ کا خون کیا ہے میں ان لوگوں سے انتقام لوں گی۔ اپنے اس عزم کی بنیاد پر وہ الیکشن لڑ رہی ہیں۔ ان کے ساتھ انتخابی مہم چلانے کے لیے مالی وسائل نہیں، چناں چہ وہ گھر گھر جا کر اپنا پیغام لو گوں تک پہنچا رہی ہیں۔ ان کی کل جمع پونجی 50000 روپے ہیں، وہ کہتی ہیں کہ یہ رقم ان کی مہم کے لیے کافی ہے۔