زلزلے نے ملک بھر کو لرزا دیا

عراق میں زلزلے سے 10 افراد ہلاک ہوئے جب کہ ہلاکتوں کی تعداد بڑھنے کا خدشہ ہے۔


Editorial April 17, 2013
پاک، ایران سرحد سے ملحقہ بلوچستان کے ضلع چاغی کے علاقے ماشکیل میں مکانات گرنے سے 3 بچوں سمیت 35 افراد جاں بحق جب کہ 250 سے زائد افراد زخمی ہوگئے۔ فوٹو: رائٹرز

ISLAMABAD: منگل کی شام پاک ایران سرحد پر آنے والے زلزلے کے جھٹکے ملک بھر میں محسوس کیے گئے جس سے عوام میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔ پاکستان کا سرحدی علاقہ ماشکیل زلزلے سے سب سے زیادہ متاثر ہوا، بلوچستان کے علاوہ کراچی، اسلام آباد، لاہور، پشاور، حیدرآباد، میرپورخاص اور ملک کے مختلف شہروں میں زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے، ماہرین کا کہنا ہے کہ زلزلے کے آفٹرشاکس کئی دنوں تک آنے کا خطرہ ہے۔

امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق سہ پہر 3 بج کر 44 منٹ پر دو مرتبہ زلزلہ آیا، جھٹکے 25 سیکنڈ تک جاری رہے۔ زلزلے کا مرکز ایران کے صوبہ سیستان، بلوچستان کے علاقے سراوان میں زمین کے اندر 155 کلومیٹر گہرائی میں تھا اور اس کی شدت ریکٹر اسکیل پر 7.9 ریکارڈ کی گئی، جب کہ محکمہ موسمیات کے مطابق یہ گہرائی 76 کلومیٹر تھی۔ پاکستان کے علاوہ زلزلے کے جھٹکے ایران، افغانستان، متحدہ عرب امارات، قطر، سعودی عرب اور بھارت میں بھی محسوس کیے گئے۔

پاک، ایران سرحد سے ملحقہ بلوچستان کے ضلع چاغی کے علاقے ماشکیل میں مکانات گرنے سے 3 بچوں سمیت 35 افراد جاں بحق جب کہ 250 سے زائد افراد زخمی ہوگئے جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں، سیکڑوں افراد کھلے آسمان تلے رات گزارنے پر مجبور ہوگئے۔ دور افتادہ مقام ہونے کی وجہ سے مقامی افراد نے اپنی مدد آپ کے تحت ملبے تلے دبے افراد کو نکالا تاہم بعد میں پاک فوج نے ریسکیو آپریشن شروع کردیا۔ دالبندین نوکنڈی میں کچے مکانات منہدم ہوگئے اور متعدد افراد زخمی ہوگئے۔ متاثرہ علاقوں میں پاک فوج کی فرنٹیئر کور نے امدادی کارروائیاں شروع کردی ہیں اور ڈاکٹروں کی ٹیمیں اور امدادی سامان فوج کے ہیلی کاپٹرز کے ذریعے پہنچایا گیا ہے۔

زلزلہ پیما مرکز اسلام آباد کے مطابق ملک کے دیگر حصوں کی طرح کوئٹہ، زیارت، دکی، مستونگ، سبی، ہرنائی، قلات، خضدار، لسبیلہ، حب، قلعہ سیف اﷲ، قلعہ عبداﷲ، چمن، نصیرآباد جعفرآباد، لورالائی موسیٰ خیل، بارکھان خاران،واشک، چاغی،نوکنڈی دالبندین ماشکیل تربت گوادر پسنی میں بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔ لوگ کافی دیر تک خوفزدہ رہے ، زلزلے سے اندرون صوبہ دور دراز علاقوں میں کچے مکانات منہدم ہونے کی اطلاعات ملی ہیں، پی ڈی ایم اے کے قائم مقام ڈائریکٹرجنرل طاہر منیرمنہاس کے مطابق ماشکیل میں زلزلہ متاثرین کے لیے پہلے مرحلے میں خیمے ،کمبل، خشک خوراک، ہیلی کاپٹروں کے ذریعے روانہ کردی گئی ہے۔

چاغی سے نمایندہ ایکسپریس کے مطابق ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے، دور دراز اور دشوارگزار علاقہ ہونے کی وجہ سے امدادی کارروائیوں میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ پنجگور میں زلزلے کے شدید جھٹکوں سے کئی مکانات منہدم ہوگئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق میڈیکل اسٹاف کے ہمراہ آرمی ہیلی کاپٹر متاثرہ علاقوں کی جانب روانہ ہوگئے ہیں۔ ایف سی ذرایع کے مطابق زلزلے سے ایف سی کی متعدد بیرکس کو نقصان پہنچا۔ گوادر میں پہاڑی تودہ گرنے سے ایک شخص جاں بحق ہوا، پنجگور میں بھی زلزلے کی وجہ سے 5 افراد کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات ہیں۔

کراچی اور حیدرآباد سمیت زیریں سندھ کے 12 اضلاع کے تمام علاقہ جات میرپورخاص، ٹنڈو محمد خان، ماتلی، بدین، ٹنڈوالہیار، عمر کوٹ، ٹھٹھہ، نوابشاہ، دوڑ، مٹھیِ، بدین، کنری، میرپوربھٹورو، سجاول، سانگھڑ، شاہ پورچاکر، کھپرو، اچھرو تھر، ٹنڈو آدم، قاضی احمد، تھرپارکر، جاتی، دھابیجی، ٹنڈو حیدر، قاضی احمد، مٹیاری، ڈگری، نوکوٹ، جھڈو، میرواہ گورچانی اور دیگر علاقوں میں بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔ مرد، خواتین، بچے اور بزرگ خوفزدہ ہو کر کلمہ طیبہ اور استغفار کا ورد کرتے ہوئے کثیر المنزلہ عمارات، گھروں، دفاتر اور دکانوں سے باہر سڑکوں اور کھلے میدانوں میں نکل آئے۔ ابتدائی طور پر کسی بھی جگہ سے کسی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔ ٹھٹھہ و بدین کی ساحلی پٹی میں کئی دیہات میں مکانات کو نقصان پہنچا۔

زلزلے نے ایران کے کئی شہروں میں تباہی مچادی، 57 افراد جاں بحق ہوئے۔ متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیاں شروع کر دی گئی ہیں۔ زلزلے کے بعد تہران کا مواصلاتی رابطہ دوسرے شہروں سے کٹ گیا۔ عراق میں زلزلے سے 10 افراد ہلاک ہوئے جب کہ ہلاکتوں کی تعداد بڑھنے کا خدشہ ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کی تاریخ کا ناقابل فراموش زلزلہ 8 اکتوبر 2005 کو آیا تھا، جب آزاد کشمیر، اسلام آباد، ایبٹ آباد، خیبرپختونخوا اور ملک کے بالائی علاقوں پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ زلزلے سے ہونے والی تباہی کی شدت کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ متاثرہ علاقوں کے باسی ابھی تک اپنے گھروں میں صحیح طریقے سے رہنے کے قابل نہیں ہوئے۔

2005 کے زلزلے میں تقریباً ایک لاکھ افراد جاں بحق ہوئے، ہزاروں زخمی ہوئے اور لاکھوں افراد کو بے گھری کا عذاب بھی سہنا پڑا۔ دنیا میں قدرتی آفات کا سلسلہ جاری ہے، برفانی و سمندری طوفان، موسلادھار بارشیں، قیامت خیز زلزلے وقفوں وقفوں سے زمین پر قدرت کی مکمل بالادستی کا ثبوت دیتے رہے اور دے رہے ہیں۔ تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو قیام پاکستان سے قبل بھی اس خطے نے کافی زیادہ شدت والے زلزلوں کا سامنا کیا ہے جن کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا ضیاع ہوا اور املاک و فصلوں کو بھی شدید نقصان اٹھانا پڑا۔ قدرتی آفات کو روکنا انسانی بس سے باہر ہے لیکن موثر حکمت عملی اور منصوبہ بندی سے قدرتی آفات کے نتیجے میں ہونے والے تباہی کی شدت کو کم کیا جاسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں