بھیگے ہوئے دامن
صورت حال یہ ہے کہ جوں جوں انتخابات کے دن نزدیک آرہے ہیں توں توں ان لوگوں کی بے صبری بڑھ رہی ہے.
''یہاں کون ہے جس کا دامن تر نہیں۔ البتہ کچھ لوگ اسی تر کپڑے کو چپکے سے دوبارہ پہن لیتے ہیں اور کچھ لوگ اسے سب کے سامنے سوکھنے کو دھوپ میں ڈال دیتے ہیں''۔
یہ شیخ سعدی نے کہا تھا:
ہر کسے را دامن تر ہست امادیگراں
بازی پوشندد من در آفتاب انداختم
اس تردامنی کے کچھ عجیب و غریب جلوے ہمارے ریٹرننگ افسروں نے بھی دکھائے جو یکایک پورے ملک میں ایک ہی طرح کی خوش مزاجی اختیار کرگئے تھے۔ امیدواروں کے منہ تک سونگھ ڈالے۔ اچھا ٹوتھ پیسٹ بنانے والوں کی تخلیقی صلاحیتیں جانے کہاں سوئی ہوئی ہیں کہ موقع کی مناسبت سے اشتہارات وجود میں نہیں آسکے۔ آجاتے تو الیکشن کے بارے میں فکرمند لوگوں کو کچھ دنوں کے لیے ٹی وی کی اسکرین اور اخبار کے صفحے پر چمکتے دانت اور مہکتے سانس ذرا ہنس کھیل لینے دیتے۔
صورت حال یہ ہے کہ جوں جوں انتخابات کے دن نزدیک آرہے ہیں توں توں ان لوگوں کی بے صبری بڑھ رہی ہے جو الیکشن کے بجائے کچھ اور دیکھنے کے متمنی ہیں۔ وہ تنگ ہیں، پریشان ہیں اور یہ دیکھ کے بوکھلائے ہوئے ہیں کہ سارا کھیل ان کے ہاتھ سے نکلا جارہا ہے۔ اس کے باوجود آپ دیکھیے گا وہ الیکشن سے ایک دن پہلے تک بھی اس اندیشے کا اظہار کرتے رہیں گے کہ انتخابات ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔
اس کے لیے سو طرح دلیلیں اور تاویلیں پیش کی جائیں گی۔ امن و امان کا سیاپا ڈالا جائے گا اور عدالتی ظلم کی داستانیں سنائی جائیں گی۔ الیکشن کمیشن پر سو طرح کے الزامات تو پہلے ہی لگائے جاچکے ہیں اب اسے اور بھی مشکوک بنایا جائے گا۔ یہاں تک کہ الیکشن کے بائیکاٹ کی دھمکیاں بھی سنائی دیں گی۔ لیکن ایک بات تو طے سمجھیے کہ یہ بائیکاٹ والی دھمکی سب سے بوگس چیز ہوگی۔ گزشتہ دو تین بائیکاٹوں پر ذرا نظر ڈالیں تو اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس سے بڑی سیاسی خودکشی اور کوئی نہیں ہوتی۔ جب پانچ برس تک اکیلے بیٹھ کے اپنے زخم چاٹنا پڑتے ہیں تو لگ پتہ جاتا ہے۔
بظاہر یوں لگتا ہے کہ جیسے الیکشن سے پہلے سیاسی حادثات امید سے کم ہوئے ہیں۔ کہا گیا کہ منصفی کی تلوار کند نکلی اور چھلنی کے سوراخ بھی بڑے تھے۔ ایسا وہ لوگ سوچتے ہیں جو کسی بڑے قتل عام کے متمنی تھے۔ الزامات کے ٹوکرے اور لال فائلوں کے پلندے اٹھائے بہت سے لوگ پھر رہے ہیں لیکن ہاتھوں کی انگلیوں اور پیروں کے نشان ان کے پاس نہیں ہیں۔ پھر قتل عام کیسا؟ اس کے باوجود ایسا بھی نہیں ہے کہ سبھی کچھ بے حساب ہوگیا ہے۔ کچھ لوگ تو آئے اور ٹکرا کے ٹوٹ گئے۔ بہت سے تر دامن ایسے ہیں جو پہلے ہی سے چپ ہوکر بیٹھ رہے۔
ان میں وہ شامل ہیں جو اپنا اعمال نامہ جانتے تھے اور ان کے پاس جو دفاع تھا اس کی ویلیو زر ضمانت سے زیادہ نہ تھی۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو ڈگریوں کے معاملے میں مار کھا گئے۔ ان میں سے سو کے لگ بھگ لوگوں نے ڈگریوں کی تصدیق کے لیے رجوع ہی نہیں کیا۔ اور تو اور اس دور کے دونوں وزیراعظموں کو بھی چلتی گاڑی سے اتار دیا گیا ہے۔ اب وہ پچھلے اسٹیشن پر کھڑے گم ہوتی ہوئی لال بتی کو دیکھ رہے ہیں۔
اب انتخابی مہم کا آغاز ہوا ہے تو وہ بھی زمین سے زیادہ اسکرین اور کاغذ پر ہی ہے۔ پورے پورے صفحے کے اشتہارات میں اوروں کا گیلا دامن تو سرعام دھوپ میں ڈال دیا جاتا ہے پر اپنے بارے میں بس آدھا سچ ہی بولا جاتا ہے۔ مثلاً روٹی والا آدھا سچ۔ تنور کی سستی روٹی شروع تو ہوئی مگر ختم کیوں ہوگئی؟ یہ ایک سربستہ راز ہے۔ گھما پھرا کے اسے کبھی سیلاب میں ڈبودیا جاتا ہے اور کبھی مستقل زر تلافی کے آفاقی حکم نامے میں گم کردیا جاتا ہے۔ گویا سب کچھ کرلینا ہے مگر اسکیم کی خرابی کو تسلیم نہیں کرنا اور نہ ہی یہ جاننے کی کوشش کرنی ہے کہ اس شریفانہ روٹی کے طفیل کتنے روشن دماغ ''نوازے'' گئے۔
دوسری طرف پاور پروجیکٹس والا آدھا سچ ہے۔ پندرہ برس پہلے کی اخباری شہ سرخیاں اس طمطراق سے اچھالی جارہی ہیں جیسے وہ کسی اور دنیا سے اتارا گیا نرالا کارنامہ تھا۔ باقی آدھا سچ یہ ہے کہ پاور پروجیکٹس منسوخ نہیں ہوئے تھے بلکہ ان کے ساتھ نرخنامے کے معاہدے منسوخ ہوئے تھے۔ انھیں بھی نظرثانی کے بعد بحال کردیا گیا تھا۔ یہ تمام پروجیکٹس ابھی تک لگے ہوئے ہیں اور اگر انھیں گیس اور تیل مہیا کردیا جائے تو ضرورت کی تمام بجلی اب بھی پیدا کی جاسکتی ہے۔ ان معاہدوں کے نرخنامے کا معاملہ کچھ یوں تھا جیسے کوئی شخص آج تین سو روپے فی لیٹر کے حساب سے پٹرول خریدنے کا معاہدہ کرلے اور اگر پندرہ برس کے بعد تین سو کا ایک ریٹ آجائے تو بولے کہ میری ڈیل تو صحیح تھی۔ عوام کی یادداشت سے کھیلنے کا ہنر بھی کتنی ترقی کرگیا ہے۔
اسی طرح 35 فیصد ٹکٹ نوجوانوں کو دینے کا معاملہ ہے۔ پہلے تو یہی واضح نہیں کہ یہ شرح کون سی اسمبلی کی ہے لیکن یہ بات واضح ہے کہ ان میں بیشتر ٹکٹ فقط خانہ پری کے لیے دیے گئے ہیں۔ ان میں سے جیتیں گے کتنے؟ چند ایک نوجوانوں کو تو میں بھی جانتا ہوں۔ وہ ٹکٹ ملنے پر حیران ہیں اور اپنی قسمت پر پریشان۔ کوئی مضبوط سیٹ ان کے حوالے نہیں کی گئی ہے۔ ان کا معاملہ قدرت پر چھوڑ دیا گیا ہے جہاں سے ووٹوں کا ایک سونامی برآمد ہوگا اور کھمبوں کو بھی جتوادے گا۔ چلیں دیکھتے ہیں۔
آخر میں ایک بار پھر پرویز مشرف کا ذکر۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ زخم خوردہ بوڑھا جرنیل اب اگر چوری چھپے محفوظ راستہ مانگ رہا ہے تو اپنے بھیگے ہوئے دامن کو یہاں کی دھوپ میں ڈالنے ہی کیوں آیا تھا؟ ارے بھئی! اس نے تو آنا ہی تھا۔ آپ کو مشہور ادیب سر آرتھر کانن ڈائل کی کہانیوں کا کردار شرلاک ہومز تو یاد ہی ہوگا۔ اپنے شکار کو پکڑنے کے لیے اس کی تفتیش کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ مجرم ہمیشہ جائے واردات پر ایک بار پھر لوٹ کے ضرور آتا ہے۔