انتخابات بروقت ہونے چاہئیں
الیکشن کمیشن نے تو مختلف معاملات پر مختلف قسم کے موقف اپنا کر پہلے ہی اپنے آپ کو متنازع بنایا تھا
عام انتخابات کا عمل شروع ہو چکا ہے، شیڈول کے مطابق 11 مئی کو عام انتخابات کے بعد اقتدار منتخب نمایندوں پر مشتمل اکثریتی پارٹیوں کو منتقل ہو جائے گا۔ لیکن کیا یہ سب کچھ اتنی آسانی سے ہو جائے گا؟ ہماری پرانی تاریخ، اس عمل کے شروع ہوتے ہی چند واقعات کا ظہور پذیر ہونا، غیر ملکی خصوصاً امریکی دلچسپی اور ہماری سیاست میں امن و امان کی صورتحال ایسے عوامل ہیں جن سے دل میں نامعلوم اندیشے اور خدشات جنم لے رہے ہیں۔
ان اندیشوں کو اس وقت زیادہ تقویت ملی جب فخرو بھائی نے پچھلے مہینے کراچی کے کتب میلے میں نجم سیٹھی سے بڑی معصومیت سے پوچھا کہ کیا الیکشن وقت پر ہوں گے؟ (اس وقت تک نگران حکومتیں نہیں بنی تھیں) اس پر نجم سیٹھی سمیت سب لوگ مبہوت ہو کر رہ گئے۔ تازہ واقعہ ملک کے نگراں وزیر داخلہ کا ہے جنہوں نے اپنی پہلے پریس کانفرنس میں کہا کہ ہم اپنے تین سال میں پوری کوشش کریں گے...! جب صحافیوں نے استفہامیہ لہجے میں پوچھا جناب تین سال! تو جواباً کہا کہ یہ زبان کی لغزش تھی میرا مطلب ہے تین ماہ۔ صدر زرداری اور جنرل کیانی کے بیانات بھی ریکارڈ پر ہیں کہ ہم انتخابات کے خلاف ہونے والی سازشوں کو ناکام بنا دیں گے۔
الیکشن کمیشن نے تو مختلف معاملات پر مختلف قسم کے موقف اپنا کر پہلے ہی اپنے آپ کو متنازع بنایا تھا، اب طاہر القادری والا ادھورا کام بھی (یعنی سیاستدانوں کو بدنام کرنا) الیکشن کمیشن خود ہی کرنے لگا ہے، اوپر سے فوجی آمر یحییٰ خان کے وزیر اطلاعات ریٹائرڈ جنرل شیر علی کے خود ساختہ نظریہ پر نئے سرے سے بحث شروع ہو گئی ہے، انتہائی دائیں بازو کے دانشور اور قلم کار بڑی ہنر مندی سے ان لوگوں کے خلاف فضا ہموار کرنے میں لگے ہیں، جو ان کی تشریح ماننے کو تیار نہ ہو۔ یہ لوگ ملک کو فاشسٹ اسٹیٹ بنانے کے لیے خود ساختہ نظریہ پاکستان اور نظریاتی سرحدوں جیسے Myth کو ریاستی ڈاکٹرائن کی حیثیت دے رہے ہیں ۔
پرویز مشرف کے خلاف مقدمات اور نومبر 2007ء کے سپریم کورٹ کے متفقہ فیصلے کے باوجود گرفتار نہ کرنا، اسے صادق اور امین قرار دے کر الیکشن لڑنے کی اجازت دینا جب کہ ایاز امیر جیسے دانشوروں کو کاذب اور خائن قرار دے کر الیکشن سے روکنے کی کوششیں کرنا بھی کچھ معنی رکھتے ہیں۔ مشرف انتخابی دوڑ سے باہر جب کہ ایاز امیر کلیئر ہو گئے ہیں۔ امن و امان کا مسئلہ بھی انتہائی اہم ہے۔ بلوچستان کے مخدوش حالات، خیبر پختونخوا اور فاٹا میں جاری دہشت گردی جس میں اب کراچی بھی مستقل طور پر ایک نئے انداز میں شامل ہو چکا ہے کوئی بھی بڑا سانحہ یا دہشت گردی کی نئی لہر بھی آنے والے انتخابات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ یہاں پر کم ہوتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر جن پر دبائو بڑھتا جا رہا ہے جس سے ملک کی اقتصادی صورتحال مزید ابتر ہو سکتی ہے، اس لیے اقتصادی ایمرجنسی بھی ایک بہانہ بن سکتی ہے۔ اصل خطرہ میری نظروں میں امریکا اور ہماری اسٹیبلشمینٹ کے درمیان تضاد کا ہے۔
امریکی سیکریٹری خارجہ جان کیری کا یہ کہنا کہ میں پاکستان کا دورہ انتخابات پر اثر انداز ہونے کے تاثر کی وجہ سے نہیں کر رہا لیکن اس اعلان کے چند روز بعد جنرل کیانی کا جان کیری سے دبئی میں ملاقات کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ امریکا اور اس کے اتحادی سمجھتے ہیں کہ مذہبی اور قدامت پسند قوتوں کا اقتدار میں آنا اس خطے میں ان کی مشکلات مزید بڑھائے گی، جب کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے کہ مذکورہ بالا قوتوں کا الیکشن میں جیتنا اس حوالے سے مفید ہے کہ یہ لوگ مذاکرات کے ذریعے پاکستانی طالبان کے مسئلے کو حل کر سکتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ لبرل اور قوم پرست جماعتوں کی انتخابات میں کامیابی کی راہ میں ہر قسم کی مشکلات اور رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں، امریکا اور ہماری اسٹیبلشمنٹ کے مابین اگر یہ چپقلش زیادہ تیز ہوئی تو کسی بھی طرف سے بہت ہی آسانی سے ایسے حالات پیدا کیے جا سکتے ہیں جن میں انتخابات کا انعقاد ناممکن ہو جائے۔ یہاں اس بات کا ذکر بے جا نہ ہو گا کہ سعودی عرب بھی ایک اہم کھلاڑی کی حیثیت سے اپنے نظریاتی جماعتوں کی مدد مختلف طریقوں سے کر رہا ہے۔ اس لیے ہمارے سیاسی رہنمائوں اور میڈیا کو چوکنا ہو کر ہر حالت میں بر وقت انتخابات پر زور دینا ہو گا۔
62 اور 63 کے حوالے سے پہلے ہی ہماری پروگریسیو اور قوم پرست سیاسی پارٹیوں نے اٹھارہویں ترمیم کے وقت دائیں بازو کو خوش کرنے کے لیے اسے نظر انداز کر کے بھیانک غلطی کا ارتکاب کیا تھا جس کا اب وہ خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ ہم اب بھی رجائیت سے کام لیتے ہوئے یہی امید کرتے ہیں کہ الیکشن بر وقت ہوں گے، لیکن یہاں پر یہ کہنا برمحل ہو گا کہ انتخابات کے لیے پر امن ماحول بنانا، سب پارٹیوں کو عوام سے رابطوں کے یکساں مواقع فراہم کرنا اور لیول پلیئنگ گرائونڈ Level playing ground مہیا کرنا انتہائی ضروری ہے جس کا فی الوقت فقدان ہے۔ 62، 63 کے کلہاڑے سے بہت سے آزاد خیال اور وطن دوست لوگوں کو الیکشن کے اکھاڑے میں اترنے سے پہلے ہی ناک آئوٹ کر دیا ہے۔
اے این پی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سیکیورٹی اور تحفظ نہ ہونے کی وجہ سے پوری طرح الیکشن مہم نہیں چلا رہے، ان کی بارہا درخواست کے باوجود حکومت اور الیکشن کمیشن سیکیورٹی فراہم نہیں کر رہی ہے۔ اے این پی نے پچھلے پانچ سال میں دہشت گردوں کا بڑی بے جگری سے مقابلہ کیا ہے، جس کی انھوں نے اپنے ہزاروں کارکنوں اور ہمدردوں کی شہادت کی شکل میں بڑی بھاری قیمت ادا کی ہے، وہ عوام سے رابطے کرنے میں انتہائی مشکلات کا شکار ہیں، ان کے امیدواروں کو چن چن کر مارا جا رہا ہے۔ کراچی میں بھی یہ دہشت گرد ان کے ورکرز شہید کرتے اور اعلانیہ ذمے داری قبول کر رہے ہیں۔ حکومت اور الیکشن کمیشن نے نوٹس لینے کے برعکس اے این پی کے صوبائی صدر شاہی سید اور جنرل سیکریٹری بشیر جان سے سیکیورٹی واپس لے کر انھیں اور ساری پارٹی کو دہشتگردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔
خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اے این پی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کا راستہ روکنے کے لیے قبائلی بنیادوں پر اتحاد بنوا کر ان کی ہر طرح سے مدد کی جا رہی ہے، انھی مشکلات کا شکار بلوچ نیشنلسٹ پارٹیاں بھی ہیں۔ دوسری طرف دائیں بازو کی طرف جھکائو رکھنے والی سیاسی پارٹیاں بڑے بڑے جلسوں سے اپنے انتخابی مہم کا آغاز کر چکی ہیں اور بے خوف و خطر عوام سے رابطوں میں لگے ہوئے ہیں۔ نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ان پارٹیوں کو بھی فول پروف سیکیورٹی فراہم کریں ورنہ یہ الیکشن شاید تاریخ کے سب سے متنازع الیکشن ثابت ہوں گے جس کے نتیجے میں ایسی حکومتیں وجود میں آئیں گی جن کے دل میں دہشت گردوں کے لیے نرم گوشہ ہو گا، جو ملک اور اس پورے خطے کے لیے خطرناک ثابت ہو گا اور آنے والے چیلنجوں کو حل کرنے کے برعکس خود ہی مسئلہ بنی رہے گی اور یہ خطرہ بھی رہے گا کہ کہیں ہم عالمی برادری میں دوسرا شمالی کوریا نہ بن جائیں۔
fazalbazai@hotmail.com
ان اندیشوں کو اس وقت زیادہ تقویت ملی جب فخرو بھائی نے پچھلے مہینے کراچی کے کتب میلے میں نجم سیٹھی سے بڑی معصومیت سے پوچھا کہ کیا الیکشن وقت پر ہوں گے؟ (اس وقت تک نگران حکومتیں نہیں بنی تھیں) اس پر نجم سیٹھی سمیت سب لوگ مبہوت ہو کر رہ گئے۔ تازہ واقعہ ملک کے نگراں وزیر داخلہ کا ہے جنہوں نے اپنی پہلے پریس کانفرنس میں کہا کہ ہم اپنے تین سال میں پوری کوشش کریں گے...! جب صحافیوں نے استفہامیہ لہجے میں پوچھا جناب تین سال! تو جواباً کہا کہ یہ زبان کی لغزش تھی میرا مطلب ہے تین ماہ۔ صدر زرداری اور جنرل کیانی کے بیانات بھی ریکارڈ پر ہیں کہ ہم انتخابات کے خلاف ہونے والی سازشوں کو ناکام بنا دیں گے۔
الیکشن کمیشن نے تو مختلف معاملات پر مختلف قسم کے موقف اپنا کر پہلے ہی اپنے آپ کو متنازع بنایا تھا، اب طاہر القادری والا ادھورا کام بھی (یعنی سیاستدانوں کو بدنام کرنا) الیکشن کمیشن خود ہی کرنے لگا ہے، اوپر سے فوجی آمر یحییٰ خان کے وزیر اطلاعات ریٹائرڈ جنرل شیر علی کے خود ساختہ نظریہ پر نئے سرے سے بحث شروع ہو گئی ہے، انتہائی دائیں بازو کے دانشور اور قلم کار بڑی ہنر مندی سے ان لوگوں کے خلاف فضا ہموار کرنے میں لگے ہیں، جو ان کی تشریح ماننے کو تیار نہ ہو۔ یہ لوگ ملک کو فاشسٹ اسٹیٹ بنانے کے لیے خود ساختہ نظریہ پاکستان اور نظریاتی سرحدوں جیسے Myth کو ریاستی ڈاکٹرائن کی حیثیت دے رہے ہیں ۔
پرویز مشرف کے خلاف مقدمات اور نومبر 2007ء کے سپریم کورٹ کے متفقہ فیصلے کے باوجود گرفتار نہ کرنا، اسے صادق اور امین قرار دے کر الیکشن لڑنے کی اجازت دینا جب کہ ایاز امیر جیسے دانشوروں کو کاذب اور خائن قرار دے کر الیکشن سے روکنے کی کوششیں کرنا بھی کچھ معنی رکھتے ہیں۔ مشرف انتخابی دوڑ سے باہر جب کہ ایاز امیر کلیئر ہو گئے ہیں۔ امن و امان کا مسئلہ بھی انتہائی اہم ہے۔ بلوچستان کے مخدوش حالات، خیبر پختونخوا اور فاٹا میں جاری دہشت گردی جس میں اب کراچی بھی مستقل طور پر ایک نئے انداز میں شامل ہو چکا ہے کوئی بھی بڑا سانحہ یا دہشت گردی کی نئی لہر بھی آنے والے انتخابات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ یہاں پر کم ہوتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر جن پر دبائو بڑھتا جا رہا ہے جس سے ملک کی اقتصادی صورتحال مزید ابتر ہو سکتی ہے، اس لیے اقتصادی ایمرجنسی بھی ایک بہانہ بن سکتی ہے۔ اصل خطرہ میری نظروں میں امریکا اور ہماری اسٹیبلشمینٹ کے درمیان تضاد کا ہے۔
امریکی سیکریٹری خارجہ جان کیری کا یہ کہنا کہ میں پاکستان کا دورہ انتخابات پر اثر انداز ہونے کے تاثر کی وجہ سے نہیں کر رہا لیکن اس اعلان کے چند روز بعد جنرل کیانی کا جان کیری سے دبئی میں ملاقات کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ امریکا اور اس کے اتحادی سمجھتے ہیں کہ مذہبی اور قدامت پسند قوتوں کا اقتدار میں آنا اس خطے میں ان کی مشکلات مزید بڑھائے گی، جب کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے کہ مذکورہ بالا قوتوں کا الیکشن میں جیتنا اس حوالے سے مفید ہے کہ یہ لوگ مذاکرات کے ذریعے پاکستانی طالبان کے مسئلے کو حل کر سکتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ لبرل اور قوم پرست جماعتوں کی انتخابات میں کامیابی کی راہ میں ہر قسم کی مشکلات اور رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں، امریکا اور ہماری اسٹیبلشمنٹ کے مابین اگر یہ چپقلش زیادہ تیز ہوئی تو کسی بھی طرف سے بہت ہی آسانی سے ایسے حالات پیدا کیے جا سکتے ہیں جن میں انتخابات کا انعقاد ناممکن ہو جائے۔ یہاں اس بات کا ذکر بے جا نہ ہو گا کہ سعودی عرب بھی ایک اہم کھلاڑی کی حیثیت سے اپنے نظریاتی جماعتوں کی مدد مختلف طریقوں سے کر رہا ہے۔ اس لیے ہمارے سیاسی رہنمائوں اور میڈیا کو چوکنا ہو کر ہر حالت میں بر وقت انتخابات پر زور دینا ہو گا۔
62 اور 63 کے حوالے سے پہلے ہی ہماری پروگریسیو اور قوم پرست سیاسی پارٹیوں نے اٹھارہویں ترمیم کے وقت دائیں بازو کو خوش کرنے کے لیے اسے نظر انداز کر کے بھیانک غلطی کا ارتکاب کیا تھا جس کا اب وہ خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ ہم اب بھی رجائیت سے کام لیتے ہوئے یہی امید کرتے ہیں کہ الیکشن بر وقت ہوں گے، لیکن یہاں پر یہ کہنا برمحل ہو گا کہ انتخابات کے لیے پر امن ماحول بنانا، سب پارٹیوں کو عوام سے رابطوں کے یکساں مواقع فراہم کرنا اور لیول پلیئنگ گرائونڈ Level playing ground مہیا کرنا انتہائی ضروری ہے جس کا فی الوقت فقدان ہے۔ 62، 63 کے کلہاڑے سے بہت سے آزاد خیال اور وطن دوست لوگوں کو الیکشن کے اکھاڑے میں اترنے سے پہلے ہی ناک آئوٹ کر دیا ہے۔
اے این پی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سیکیورٹی اور تحفظ نہ ہونے کی وجہ سے پوری طرح الیکشن مہم نہیں چلا رہے، ان کی بارہا درخواست کے باوجود حکومت اور الیکشن کمیشن سیکیورٹی فراہم نہیں کر رہی ہے۔ اے این پی نے پچھلے پانچ سال میں دہشت گردوں کا بڑی بے جگری سے مقابلہ کیا ہے، جس کی انھوں نے اپنے ہزاروں کارکنوں اور ہمدردوں کی شہادت کی شکل میں بڑی بھاری قیمت ادا کی ہے، وہ عوام سے رابطے کرنے میں انتہائی مشکلات کا شکار ہیں، ان کے امیدواروں کو چن چن کر مارا جا رہا ہے۔ کراچی میں بھی یہ دہشت گرد ان کے ورکرز شہید کرتے اور اعلانیہ ذمے داری قبول کر رہے ہیں۔ حکومت اور الیکشن کمیشن نے نوٹس لینے کے برعکس اے این پی کے صوبائی صدر شاہی سید اور جنرل سیکریٹری بشیر جان سے سیکیورٹی واپس لے کر انھیں اور ساری پارٹی کو دہشتگردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔
خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اے این پی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کا راستہ روکنے کے لیے قبائلی بنیادوں پر اتحاد بنوا کر ان کی ہر طرح سے مدد کی جا رہی ہے، انھی مشکلات کا شکار بلوچ نیشنلسٹ پارٹیاں بھی ہیں۔ دوسری طرف دائیں بازو کی طرف جھکائو رکھنے والی سیاسی پارٹیاں بڑے بڑے جلسوں سے اپنے انتخابی مہم کا آغاز کر چکی ہیں اور بے خوف و خطر عوام سے رابطوں میں لگے ہوئے ہیں۔ نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ان پارٹیوں کو بھی فول پروف سیکیورٹی فراہم کریں ورنہ یہ الیکشن شاید تاریخ کے سب سے متنازع الیکشن ثابت ہوں گے جس کے نتیجے میں ایسی حکومتیں وجود میں آئیں گی جن کے دل میں دہشت گردوں کے لیے نرم گوشہ ہو گا، جو ملک اور اس پورے خطے کے لیے خطرناک ثابت ہو گا اور آنے والے چیلنجوں کو حل کرنے کے برعکس خود ہی مسئلہ بنی رہے گی اور یہ خطرہ بھی رہے گا کہ کہیں ہم عالمی برادری میں دوسرا شمالی کوریا نہ بن جائیں۔
fazalbazai@hotmail.com