شاعر دیپ جلاتے ہیں
مولانا روم کی مثنوی، حکایت اور اشعار آج پوری دنیا پر چھائے ہوئے ہیں۔
مغرب میں گزشتہ برسوں میں روحانیت کی نئی لہر محسوس کی گئی ہے۔ ایک طرف ہندو مذہب کا فلسفہ انھیں اپنی طرف کھینچتا ہے تو دوسری طرف مولانا جلال الدین رومی کی روحانیت آمیز شاعری نے ان کے دل جیت لیے ہیں۔ رومی کے ساتھ وہ حافظ شیرازی، عطار، خیام وغیرہ کے ناموں سے بھی آشنا ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مشرق ان تمام شاعروں کے کلام کی افادیت سے بہرور نہیں ہو سکا جس کی امید کی جا رہی تھی۔ اگر دیکھا جائے تو پاکستان کے صوفی شاعر خیال کی وسعت اور سوچ کی گہرائی میں ایک منفرد انداز بیان رکھتے ہیں، لیکن ہم نہ تو ان کے کلام سے مستفید ہو سکے ہیں اور نہ ہی اسے عام کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
مولانا رومی اپنے اصل نام جلال الدین سے پہچانے جاتے ہیں۔ آپ کی ولادت بلخ میں جمعہ کے روز 604 ہجری میں ہوئی۔ آپ کے والد شیخ بہاؤالدین اپنے وقت کے عالم و فاضل شخصیت تھے۔ نہ صرف خراسان کا پورا علاقہ ان کا مرید تھا بلکہ اس وقت کے بادشاہ محمد خوارزم شاہ بھی ان کا عقیدت مند تھا۔
مولانا روم کی مثنوی، حکایت اور اشعار آج پوری دنیا پر چھائے ہوئے ہیں۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی مولانا روم کی مثنوی کو اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ موضوع کے اعتبار سے شاہ لطیف کی شاعری مولانا رومی کے تخیل سے زیادہ وسیع، جامع اور گہری ہے۔ رومی ان کے مقابلے میں اظہار کے حوالے سے زیادہ بے باک نظر آتے ہیں۔ وہ عشق کو ذات کا عرفان سمجھتے ہیں۔ ان کی شاعری ایسے پرندے کی مانند ہے جو پنجرے کی قید سے آزاد ہو کر کھلی فضاؤں میں محو پرواز ہے۔ رومی کے بیان کردہ محبت کے دکھ میں ایک مسحور کن خمار محسوس ہونے لگتا ہے جو تمام کائنات کو اپنی تحویل میں لے لیتا ہے۔
دوسری جانب شاہ لطیف کے موضوعات مجاز سے عشق حقیقی تک محدود نہیں ہیں بلکہ دھرتی کے مختلف رنگوں سے منسوب ہیں۔ ان کی شاعری میں سندھ کے پرندوں، جانوروں، پھولوں، جڑی بوٹیوں، دریاؤں کے ذکر کے علاوہ ارض و سماء کی ہر تبدیلی کا تذکرہ ملتا ہے۔ وہ ان تمام چیزوں کو جذبوں کے ساتھ منسوب کرنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ وہ شعر نہیں بلکہ پورے لینڈ اسکیپز ہیں جن کی لفظوں کے رنگوں سے تصویر کشی کی گئی ہے۔
مولانا رومی حضرت شمس تبریز سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔ مگر کچھ لوگوں نے اس محبت میں رخنہ ڈالنے کی غرض سے حالات اس قدر بگاڑ دیے کہ شمس تبریز قونیہ کو خیر باد کہہ کر دمشق تشریف لے گئے۔ ان کے جانے کے بعد مولانا رومی نے درد کی گہرائی میں ڈوبے اشعار کہے۔ ان حالات کے پیش نظر ان کے مریدوں نے شمس تبریز کو واپس قونیہ آنے کی التجا کی۔ قونیہ واپس آنے کے دو سال بعد حضرت شمس تبریز رحلت پا گئے۔ ان کی جدائی نے مولانا رومی پر سکتے کی کیفیت طاری کر دی تھی۔ اسی کیفیت میں آپ فرماتے ہیں: (ترجمہ)
طالب و مطلوب کی روح ایک ہے
ہماری روحیں یکجا ہیں
تم میری ذات سے عیاں ہو
میں تمہاری ذات کا پرتو ہوں
ہم ایک دوسرے میں پناہ گزیں ہیں
مولانا رومی کی مثنوی ایک بیش قیمت تخلیق ہے جس نے انھیں بے پناہ شہرت عطا کی۔ مثنوی میں درج واقعات قاری کو روح کی وسیع دنیا میں لے آتے ہیں، جہاں ''میں'' کا کوئی وجود نہیں ملتا بلکہ ہر طرف تو ہی تو ہے کی تکرار سنائی دیتی ہے۔ سب سے مشکل ترین مرحلہ انسان کے لیے اس کی اپنی انا کو زیر کرنے کا ہے، ان کے جال میں الجھ کر انسانی افکار زنگ آلود ہو جاتے ہیں۔ ''میں'' سے نکل کر ''تم'' میں ضم ہونے کا سفر درحقیقت وجود کی دریافت کا پیش خیمہ بنتا ہے۔ انھی ذات کے سحر میں مگن ہونے کے بجائے سپردگی کا خمار مولانا رومی سے لافانی نظمیں کہلواتا رہا۔ انھوں نے محبوب کے چہرے میں شام و سحر ڈھونڈ لیے۔ جس کا چہرہ چاندنی کے گداز میں ڈوبا ہوا تھا تو کبھی سورج کی شعاعوں کی تپش میں ڈھل جاتا۔ اس سفر میں کسی مبالغے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
میں جانتا ہوں کہ
میرے پاس کوئی
دوسرا راستہ نہیں ہے
سوائے اس کے کہ میں
اپنے آپ کو تمہارے
حوالے کردوں۔۔۔۔
کیونکہ یہ وہ منزل ہے جہاں خود کو کھو کر پانا ایک ایسا راز ہے، جس کی جستجو میں عشاق مارے مارے پھرتے ہیں مگر جس کی گہرائی تک پہنچ نہیں پاتے۔ اور جو پہنچ جائے وہ اس راز کا ہمراز بنتا ہے۔
محبت کرنے والوں کے ہونٹ مئے سے
تر رہتے ہیں
اور توڑ ڈالتے ہیں ذہن کا نقاب
محبت ایک ایسا نشہ ہے
جس میں ڈوب کر
جسم، دل و روح یکجا ہو جاتے ہیں
دنیا کا ہر صوفی اسی اکائی کی بات کرتا ہے۔ یہ ذات سے الگ ہو کر نصیب ہوتی ہے کیونکہ وجود کے انتشار میں ہی ذہن بٹا رہتا ہے۔ ذہن مرکز پر اس وقت آتا ہے، جب ہم اپنا تعلق باہر کی دنیا سے سمیٹ کر اسے الگ تھلگ کر دیتے ہیں۔ جب رابطے وجود سے الگ ہو جاتے ہیں، تو باطن کا عکس نمایاں ہو جاتا ہے۔ جس کی طرف پوری کائنات کھنچتی چلی آتی ہے۔ روح کی کشش ہر چیز کا رخ اپنی طرف موڑ دیتی ہے۔ کشش، کشف میں سمٹ آتی ہے۔ الہامی کیفیت کا نزول ہونے لگتا ہے۔ مولانا رومی کی شاعری میں بے خودی کی کیفیت کی جھلک جا بجا دکھائی دیتی ہے۔
اس سال مولانا رومی کو آٹھ سو سال پورے ہوں گے، لیکن ان کا کلام آج بھی اپنے اندر نیا پن یعنی ندرت اور جدت لیے ہوئے ہے۔ ان کا کلام یورپ میں بہت زیادہ مقبول ہو رہا ہے، جس کی سب سے بڑی وجہ ان کے خیال و افکار کی جدت ہے۔
جب روح کو شامل کر کے
کوئی کام کرو گے
تو تمہیں اپنے اندر ایک
دریا بہتا ہوا محسوس ہو گا
ایک ان کہی خوشی کا احساس
رومی کی خاص بات جدیدیت اور جمہوریت پسندی ہے۔ وہ شخصی آزادی کی بات کرتے ہیں۔ جسم کے زنداں سے باہر نکلنے پر اکساتے ہیں تا کہ ایک کھلی فضا میں آنکھیں تمام مناظر سے آشنا ہو سکیں۔ ایک احتجاج ان کے شعروں میں مستقل محسوس ہوتا رہتا ہے۔ ایک ایسی مزاحمت جو ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھانے پر مجبور کرتی ہے۔ جو زندگی کی تمام تر یکسانیت کو توڑ دیتی ہے۔ رومی یکسانیت سے بغاوت کرتا ہے۔
تمہاری روشنی سے میں نے
محبت کا سلیقہ سیکھا
تمہاری بے کراں خوبصورتی نے مجھے
نظم کہنے کا ہنر عطا کیا
تم میرے سینے میں رقصاں ہو
گو کہ سب سے پوشیدہ ہو
لیکن میری آنکھیں تمہیں
دیکھ لیتی ہیں
اور وہ نظر ہنر بن جاتی ہے
انسان، انسانیت سے تھک سکتا ہے، مگر ایک صوفی نفرتوں میں بھی محبت کے دیے جلائے رکھتا ہے۔
جو شمع تمہارے اندر رکھی ہے اسے جلاؤ
ایک خلا ہے تمہارے اندر اسے پر کر لو
اور یہ محبت کی لوہے جو آٹھ صدیوں سے مسلسل جل رہی ہے۔
مولانا رومی اپنے اصل نام جلال الدین سے پہچانے جاتے ہیں۔ آپ کی ولادت بلخ میں جمعہ کے روز 604 ہجری میں ہوئی۔ آپ کے والد شیخ بہاؤالدین اپنے وقت کے عالم و فاضل شخصیت تھے۔ نہ صرف خراسان کا پورا علاقہ ان کا مرید تھا بلکہ اس وقت کے بادشاہ محمد خوارزم شاہ بھی ان کا عقیدت مند تھا۔
مولانا روم کی مثنوی، حکایت اور اشعار آج پوری دنیا پر چھائے ہوئے ہیں۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی مولانا روم کی مثنوی کو اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ موضوع کے اعتبار سے شاہ لطیف کی شاعری مولانا رومی کے تخیل سے زیادہ وسیع، جامع اور گہری ہے۔ رومی ان کے مقابلے میں اظہار کے حوالے سے زیادہ بے باک نظر آتے ہیں۔ وہ عشق کو ذات کا عرفان سمجھتے ہیں۔ ان کی شاعری ایسے پرندے کی مانند ہے جو پنجرے کی قید سے آزاد ہو کر کھلی فضاؤں میں محو پرواز ہے۔ رومی کے بیان کردہ محبت کے دکھ میں ایک مسحور کن خمار محسوس ہونے لگتا ہے جو تمام کائنات کو اپنی تحویل میں لے لیتا ہے۔
دوسری جانب شاہ لطیف کے موضوعات مجاز سے عشق حقیقی تک محدود نہیں ہیں بلکہ دھرتی کے مختلف رنگوں سے منسوب ہیں۔ ان کی شاعری میں سندھ کے پرندوں، جانوروں، پھولوں، جڑی بوٹیوں، دریاؤں کے ذکر کے علاوہ ارض و سماء کی ہر تبدیلی کا تذکرہ ملتا ہے۔ وہ ان تمام چیزوں کو جذبوں کے ساتھ منسوب کرنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ وہ شعر نہیں بلکہ پورے لینڈ اسکیپز ہیں جن کی لفظوں کے رنگوں سے تصویر کشی کی گئی ہے۔
مولانا رومی حضرت شمس تبریز سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔ مگر کچھ لوگوں نے اس محبت میں رخنہ ڈالنے کی غرض سے حالات اس قدر بگاڑ دیے کہ شمس تبریز قونیہ کو خیر باد کہہ کر دمشق تشریف لے گئے۔ ان کے جانے کے بعد مولانا رومی نے درد کی گہرائی میں ڈوبے اشعار کہے۔ ان حالات کے پیش نظر ان کے مریدوں نے شمس تبریز کو واپس قونیہ آنے کی التجا کی۔ قونیہ واپس آنے کے دو سال بعد حضرت شمس تبریز رحلت پا گئے۔ ان کی جدائی نے مولانا رومی پر سکتے کی کیفیت طاری کر دی تھی۔ اسی کیفیت میں آپ فرماتے ہیں: (ترجمہ)
طالب و مطلوب کی روح ایک ہے
ہماری روحیں یکجا ہیں
تم میری ذات سے عیاں ہو
میں تمہاری ذات کا پرتو ہوں
ہم ایک دوسرے میں پناہ گزیں ہیں
مولانا رومی کی مثنوی ایک بیش قیمت تخلیق ہے جس نے انھیں بے پناہ شہرت عطا کی۔ مثنوی میں درج واقعات قاری کو روح کی وسیع دنیا میں لے آتے ہیں، جہاں ''میں'' کا کوئی وجود نہیں ملتا بلکہ ہر طرف تو ہی تو ہے کی تکرار سنائی دیتی ہے۔ سب سے مشکل ترین مرحلہ انسان کے لیے اس کی اپنی انا کو زیر کرنے کا ہے، ان کے جال میں الجھ کر انسانی افکار زنگ آلود ہو جاتے ہیں۔ ''میں'' سے نکل کر ''تم'' میں ضم ہونے کا سفر درحقیقت وجود کی دریافت کا پیش خیمہ بنتا ہے۔ انھی ذات کے سحر میں مگن ہونے کے بجائے سپردگی کا خمار مولانا رومی سے لافانی نظمیں کہلواتا رہا۔ انھوں نے محبوب کے چہرے میں شام و سحر ڈھونڈ لیے۔ جس کا چہرہ چاندنی کے گداز میں ڈوبا ہوا تھا تو کبھی سورج کی شعاعوں کی تپش میں ڈھل جاتا۔ اس سفر میں کسی مبالغے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
میں جانتا ہوں کہ
میرے پاس کوئی
دوسرا راستہ نہیں ہے
سوائے اس کے کہ میں
اپنے آپ کو تمہارے
حوالے کردوں۔۔۔۔
کیونکہ یہ وہ منزل ہے جہاں خود کو کھو کر پانا ایک ایسا راز ہے، جس کی جستجو میں عشاق مارے مارے پھرتے ہیں مگر جس کی گہرائی تک پہنچ نہیں پاتے۔ اور جو پہنچ جائے وہ اس راز کا ہمراز بنتا ہے۔
محبت کرنے والوں کے ہونٹ مئے سے
تر رہتے ہیں
اور توڑ ڈالتے ہیں ذہن کا نقاب
محبت ایک ایسا نشہ ہے
جس میں ڈوب کر
جسم، دل و روح یکجا ہو جاتے ہیں
دنیا کا ہر صوفی اسی اکائی کی بات کرتا ہے۔ یہ ذات سے الگ ہو کر نصیب ہوتی ہے کیونکہ وجود کے انتشار میں ہی ذہن بٹا رہتا ہے۔ ذہن مرکز پر اس وقت آتا ہے، جب ہم اپنا تعلق باہر کی دنیا سے سمیٹ کر اسے الگ تھلگ کر دیتے ہیں۔ جب رابطے وجود سے الگ ہو جاتے ہیں، تو باطن کا عکس نمایاں ہو جاتا ہے۔ جس کی طرف پوری کائنات کھنچتی چلی آتی ہے۔ روح کی کشش ہر چیز کا رخ اپنی طرف موڑ دیتی ہے۔ کشش، کشف میں سمٹ آتی ہے۔ الہامی کیفیت کا نزول ہونے لگتا ہے۔ مولانا رومی کی شاعری میں بے خودی کی کیفیت کی جھلک جا بجا دکھائی دیتی ہے۔
اس سال مولانا رومی کو آٹھ سو سال پورے ہوں گے، لیکن ان کا کلام آج بھی اپنے اندر نیا پن یعنی ندرت اور جدت لیے ہوئے ہے۔ ان کا کلام یورپ میں بہت زیادہ مقبول ہو رہا ہے، جس کی سب سے بڑی وجہ ان کے خیال و افکار کی جدت ہے۔
جب روح کو شامل کر کے
کوئی کام کرو گے
تو تمہیں اپنے اندر ایک
دریا بہتا ہوا محسوس ہو گا
ایک ان کہی خوشی کا احساس
رومی کی خاص بات جدیدیت اور جمہوریت پسندی ہے۔ وہ شخصی آزادی کی بات کرتے ہیں۔ جسم کے زنداں سے باہر نکلنے پر اکساتے ہیں تا کہ ایک کھلی فضا میں آنکھیں تمام مناظر سے آشنا ہو سکیں۔ ایک احتجاج ان کے شعروں میں مستقل محسوس ہوتا رہتا ہے۔ ایک ایسی مزاحمت جو ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھانے پر مجبور کرتی ہے۔ جو زندگی کی تمام تر یکسانیت کو توڑ دیتی ہے۔ رومی یکسانیت سے بغاوت کرتا ہے۔
تمہاری روشنی سے میں نے
محبت کا سلیقہ سیکھا
تمہاری بے کراں خوبصورتی نے مجھے
نظم کہنے کا ہنر عطا کیا
تم میرے سینے میں رقصاں ہو
گو کہ سب سے پوشیدہ ہو
لیکن میری آنکھیں تمہیں
دیکھ لیتی ہیں
اور وہ نظر ہنر بن جاتی ہے
انسان، انسانیت سے تھک سکتا ہے، مگر ایک صوفی نفرتوں میں بھی محبت کے دیے جلائے رکھتا ہے۔
جو شمع تمہارے اندر رکھی ہے اسے جلاؤ
ایک خلا ہے تمہارے اندر اسے پر کر لو
اور یہ محبت کی لوہے جو آٹھ صدیوں سے مسلسل جل رہی ہے۔