نقل کم عقل

تعلیم کے شعبے میں بدعنوانی کا جال اس قدر پھیل گیا ہے کہ اس سے نمٹنے کے لیے شاید ہمیں کمانڈو فورسز کی ضرورت پڑے

ایک بزرگ کسی بستی میں پہنچے جہاں انھوں نے دو دن قیام فرمایا، تیسرے دن صبح سویرے انھوں نے اپنے شاگرد سے کہا ''اپنا سامان فوراً باندھ لو ہمیں یہاں سے جانا ہے'' شاگرد نے پوچھا کہ ''یہاں آنے کے لیے آپ نے طویل سفر کی مشقت اٹھائی اب آپ اتنی جلدی کیوں روانہ ہونا چاہتے ہیں؟'' تو عالم نے جواب دیا کہ ''مجھے اس بستی میں آئے دو دن ہوگئے ہیں سب کو میرے آنے کی اطلاع بھی ہے پھر بھی کوئی علم کا طالب میرے پاس نہیں آیا، جس بستی کے لوگوں میں علم کا شوق نہ ہو وہاں عذاب الٰہی نازل ہوکر رہتاہے اس لیے جلدی کرو تاکہ ہم اس زمین سے دور نکل جائیں''۔

علم اور اس کا شوق اس جدید ٹیکنالوجی کے دور میں کچھ مبہم سا ہوگیا ہے جو اس کا ذائقہ چکھ چکے ہیں۔ اس کی جستجو اس کی پیاس ابھی تک باقی ہے، حال یہ بھی ہے کہ زندگی کے دن گن رہے ہیں اور علم کی پیاس ہے کہ بجھتی ہی نہیں جب کہ اس نئی نسل کی بیزاری کا یہ عالم ہے کہ اب پرائمری جماعت کے بچے بھی ''پھرّوں'' کی باتیں بڑے مزے لے لے کر کرتے ہیں۔ نویں، دسویں جماعت کے امتحانی مراکز پر پولیس اور رینجرز کے پہرے ہیں، لیکن نقل ہے کہ رکنے کا نام نہیں لیتی۔ یہ کیا سحر ہے جو پھیلتا ہی جارہا ہے، نقل کے اس رجحان نے نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں تباہی مچا رکھی ہے، کیا یہ رجحان عالم دنیا کو ترقی کی جانب لے جارہا ہے یا جعل سازی کے اس نئے گورکھ دھندے نے بربادی کی نئی داستانیں رقم کرنا شروع کردی ہیں۔

امتحانی مراکز پر پولیس اور رینجرز کے پہرے بٹھاکر کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ وہ امتحانی مراکز اب نقل سے محفوظ ہیں تو یاد رہے کہ خود پولیس والوں اور رینجرز کی بھی اپنی اولاد، بہن بھائی، بھانجے، بھتیجے وغیرہ بھی تو پڑھتے ہیں کیا اس کے آگے بھی کچھ کہنے کی ضرورت ہے۔

تعلیم کے شعبے میں بدعنوانی کا جال اس قدر پھیل گیا ہے کہ اس سے نمٹنے کے لیے شاید ہمیں کمانڈو فورسز کی ضرورت پڑے، یہ تعفن پھیلنا کب سے شروع ہوا جب سے بڑی بڑی ڈگریوں نے نوکریوں کے دروازے پر ڈیرے ڈالنے شروع کیے، بے روزگاری عام ہونا شروع ہوگئی، جو اہل تھے، تعلیم یافتہ تھے ٹھیلے لگانے پر مجبور ہوگئے، اس تعلیم نے کیا دیا؟ دل لگاکر پڑھا اور کیا ملا، اس حاصل شدہ نتیجے کی بد نما مثالیں معاشرے میں عام ہیں اور جب ڈگریاں حاصل کرکے، رشوتیں دے کر نوکریاں حاصل کرنا ہی اس زندگی کی ضرورت ہے تو پھر دیدے مار کر پڑھنے سے کیا حاصل۔

یاد کرکے امتحان دینے میں تو بھول چوک بھی ہوسکتی ہے نظر بہ نظر تحریر کرنے میں جو نمبر حاصل ہوتے ہیں اس کے لیے نقل کا سہارا نہ لیں تو پھر کیا عقل پر بھروسہ کریں اور یوں عقل کو سلاکر آگے بڑھنے کے جذبے نے ہمیں کہاں سے کہاں پہنچادیا۔ بات اپنی مرضی کے امتحانی مراکز سے بڑھ کر گھر پر بیٹھ کر آرام سے پرچے دینے تک آپہنچی ہے اور تو اور سی ایس ایس کے قابل قدر امتحانات بھی اسی نقل کے بدنما پھیرے میں آگئے۔


پہلے تو سنتے آئے تھے کہ بہت سے ایسے سی ایس ایس پاس افراد کو اعلیٰ مقامات پر فائز کردیا گیا جو فیل تھے یا کم نمبر لے کر پاس ہوئے تھے جب کہ اعلیٰ نمبر حاصل کرنے والے ''انتظار فرمائیے'' کی فہرست لے کر سوچتے ہی رہے، لہٰذا اس آپشن کو بھی کراس کرلیا گیا۔ فیصل آباد میں سی ایس ایس کے امتحانی پرچے اسلام آباد تاخیر سے پہنچے۔ محکمہ ڈاک سے بات بناکر اس طرح پرچے حل کیے گئے کہ غلطی بھی نہ چھپاسکے اور واضح ہوگیا کہ ان پرچوں کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا ہے، ایسے معتبر مقامات پر پوسٹنگ کے اہل افراد اب کیا سوچ رہے ہوںگے، خدا جانے لیکن اب اگر اس طرح کے امتحانات بھی اس جعلسازی سے نہ بچ پائے تو پھر آگے کیا صورتحال ہوگی؟

سال ڈیڑھ سال پہلے کی بات ہے ایک ایسے ہی معتبر صاحب سے خاصی معتبر جگہ ملاقات ہوئی، انھوں نے گلہ کیاکہ ہمارے یہاں اکثر ایسا ہورہا ہے کہ انتہائی اہم اسامیوں پر نااہل افراد کو صرف سیاسی بنیادوں پر لگایا جارہا ہے، اس طرح لگانے والے تو سرخرو ہوجاتے ہیں لیکن جس طرح بعد میں ہمیں کوفت اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کیفیت کو ہم کیسے بیان کریں، اٹھارہ اٹھارہ گریڈ پر ایسے لوگ بیٹھے ہیں جنھیں ڈھنگ سے کمپیوٹر کی الف کا علم نہیں جب کہ ہمارے پاس سارے کمپیوٹر اپ ڈیٹ ہیں، لیکن شاید سیکھنے کا شوق بھی نہیں کہ چلو اس بڑی پوسٹ پر بٹھا دیا گیا ہے تو اسے حلال کرنے کی کوشش کریں، وہ ڈھنگ سے درخواست تو کیا ٹائپ بھی نہیں کرسکتے۔

انھوں نے نہایت معتبر صاحبہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے چند لوگوں کو بھجوایا اور کہا کہ انھیں اپائنمنٹ لیٹر دے دیں، میں نے عرض کی کہ میڈم کم از کم ان کا انٹرویو ہی لے لیا جائے، تو فرمایا گیا کہ پہلے لیٹر دے دیں انٹرویو بعد میں لے لیجیے گا، اب بتایئے کہ ہم کیا کریں؟ خیر ویسے تو وہ برسوں پارٹی کی خدمت کرکے ایک اعلیٰ گریڈ پر فائز رہتے، اپنے خاندان بھر کے لوگوں کو اچھی پوسٹوں پر فائز کرکے خود بھی حلال ہوچکے ہیں لیکن پھر بھی ان کا انٹرویو کی حد تک گلہ درست تھا۔ کچھ عرصے پہلے نیوز چینل پر ہم اسمبلی کے ممبران کے لیے خطوط و سرکلرز غلط لہجے اور تحریر کے حوالے سے تو دیکھ ہی چکے ہیں، اس سے آپ ان اعلیٰ حضرات کی کارکردگی کو ایک بار پھر اپنے ذہنوں میں تازہ کریں۔

بات ہورہی تھی نقل کی جس کا رجحان ملک میں پھیلتا ہی جارہا ہے اور کورس کی کتابیں ہیں کہ مشکل سے مشکل بنائی جارہی ہیں لیکن علم حاصل کرنے والوں کے لیے مشکلیں کتنی ہی ڈالیں جناب! نقل سب آسان کردیتی ہے۔ چھوٹی جماعتوں کے بچے اب اپنا رزلٹ حاصل کرکے نئی جماعتوں میں جانے کی تیاری کررہے ہیں۔

مہنگی مہنگی کتابیں ان کے استقبال کرنے کو تیار ہیں ایک معروف اسکول کے چھٹی اور چوتھی جماعت کی کتابیں ہم نے بھی دیکھیں جس میں انگریزی زبان بڑے لکھاری کے ڈراموں اور خدا جانے کون کون سے بڑے فرنگی لکھاریوں کے سفرناموں سے مزین ناولز دیکھے اور کتابیں اس قدر متاثر کن کہ اگر دل لگاکر انھیں پڑھا اور پڑھایا جائے تو طالب علم ہیرا بن کر نکلے لیکن رواروی کے اس دور میں محسوس یہ ہوتا ہے کہ بھاری فیسیں دے کر بھی اب نتائج کچھ خاص حاصل نہیں ہوتے، نہ پڑھانے والے میں وہ دلچسپی ہے اور نہ پڑھنے والے کا وہ من ہے، پھر یہ انگریزی میڈیم اور اردو میڈیم کا شور کیسا ہے جب سب کو ایک ہی کشتی میں سوار ہونا ہے تو بیچ کا یہ فرق ختم ہی کردیں لیکن نقل کے اس تناور درخت کو کیسے ختم کریں جس کی جڑیں دور تک پھیلتی ہی جارہی ہیں۔
Load Next Story