خالی سلیٹ
اس کا مطلب یہ ہے کہ بری صحبت سے بھی بچیں گے اور والدین کی یہ تشویش بھی ختم ہو جائے گی.
درجہ دہم کی کامیابی و ناکامی طلبا کے بہترین و بدترین مستقبل کی ضامن ہے، میٹرک کی تعلیم اور کامیابی وہ بنیاد ہے جس پر عمل و تدبر کی پوری عمارت تعمیر ہوتی ہے، اگر بنیاد کمزور ہو تب عمارت زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکتی ہے، اس کا مسمار ہونا ضروری ہے، وہ کسی نہ کسی ایسے وقت ڈھے جاتی ہے جب اس کے استحکام کی ضرورت زیادہ محسوس کی جاتی ہے۔
کسی بھی طالب علم کا یہ بہت بڑا نقصان ہوتا ہے جس کا ازالہ ناممکنات میں سے ہو جاتا ہے، چونکہ حالات کیا سے کیا ہو جاتے ہیں، ذمے داریاں بڑھ جاتی ہیں، معاشی تفکرات جان لیوا ثابت ہوتے ہیں، ان حالات میں دوبارہ سے پڑھنا ہی مشکل ہے، لہٰذا ہمارے تعلیمی اداروں کا فرض یہ ہے کہ اپنے طلبا کو اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی دیں اور نقل کے نقصانات سے اچھی طرح آگاہ کریں اور جو طلبا سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کریں ان کا داخلہ منسوخ کر دیا جائے۔
اساتذہ کا ایک اہم فرض اپنے ملک اور قوم سے محبت کے حوالے سے یہ بھی ہے کہ وہ وقت کی اہمیت کا درس دیں بلکہ وقت کے استعمال کے لیے بہترین مواقع فراہم کریں، اسکولوں کی لائبریری سے وہ کتابیں فراہم کر دیں جن میں طلبا کی دلچسپی ہو، ہر گھر میں کمپیوٹر کی سہولت نہیں ہوتی ہے، اس ہی لیے بے شمار بچے اس سے محروم ہیں، ان طلبا کے لیے کمپیوٹر سیکھنے کے مواقع دینا بھی ضروری ہیں اور ان نصابی و غیرنصابی سرگرمیوں کے لیے شام 5 سے 7 بجے تک کا اگر وقت مقرر کیا جائے تو طلبا اور والدین کے لیے باعث اطمینان ہو گا، ایک تو طلبا بے مقصد گلیوں اور شاہراہوں میں کھڑے ہونے سے بچ جائیں گے، خراب لوگ انھیں گھیر نہیں سکیں گے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ بری صحبت سے بھی بچیں گے اور والدین کی یہ تشویش بھی ختم ہو جائے گی کہ ان کا بیٹا بستہ رکھ کر نہ جانے کہاں اور کن دوستوں کے ساتھ ہے۔ حالات خراب ہیں، اغوا، بم بلاسٹ، فائرنگ کے خطرات سے بھی وہ بچے رہیں گے، چونکہ وہ جانتے ہیں کہ اسکول کے پرنسپل صاحب اور اساتذہ کرام بچوں کے روشن مستقبل کے لیے کوشاں ہیں۔ لہٰذا ان کے بچے غلط ہاتھوں میں پہنچنے سے بچ جائیں گے اور وقت کا بہترین استعمال کر رہے ہیں، ذمے دار حضرات اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کرتے ہیں اور جو کہ نہیں کی گئی ہیں، اسی وہی وجہ سے حالات اس نہج پر آ گئے ہیں، اب طلبا کے لیے عقل کی جگہ نقل کا استعمال ناگزیر ہو گیا ہے۔
10 اپریل کی خبر کے مطابق میٹرک کے امتحانات شروع ہوتے ہی اسلحہ برادر میدان میں کود پڑے ہیں اور اپنے پیارے اور راج دلاروں کے مستقبل کو تاریک قبر میں دفن کرنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں، اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ امتحانی مراکز پر نقل مافیا کی من مانیاں، مسلح افراد کی اسکولوں میں نقل کرانے کے لیے مداخلت، میٹروپولیٹن اکیڈمی نے پرچے لینے سے انکار کر دیا ہے مجبوراً بورڈ نے امتحانی مرکز کو شاہین پبلک اسکول بلاک 3 میں منتقل کر دیا ہے، واضح رہے کہ دونوں اسکول گلستان جوہر میں واقع ہیں، میٹرک سائنس کے انگریزی پرچے کے موقع پر نامعلوم افراد اسلحہ کے ساتھ اپنی من مانی کرتے ہوئے اسکول میں داخل ہو گئے تھے اور نقل کرانے کے لیے دبائو ڈالا گیا تھا۔
نقل کرانے کا یہ ظالمانہ طریقہ آج سے نہیں سالہا سال سے جاری ہے۔ اس ہی وجہ سے طلبا قابلیت سے محروم ہیں، چونکہ وہ نقل کے ہی آسرے میں پورا سال گنوا دیتے ہیں اور تعلیم کی طرف توجہ نہیں دیتے ہیں۔ اتفاق سے میرا بھی تدریس سے تعلق ہے، اس لیے میرا ذاتی تجربہ ہے کہ لڑکیاں نہایت شوق اور توجہ سے پڑھتی ہیں جب کہ طلبا پڑھائی سے دل چراتے ہیں، اکثر کلاس سے غائب ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات تعلیمی اداروں میں جانے کے بجائے دوستوں کے ساتھ گھومتے پھرتے اور وقت ضایع کرتے ہیں اور پھر یہی طلبا اپنی حماقتوں کی بدولت غلط لوگوں کی صحبت میں پڑ کر نہ کہ مستقبل برباد کرتے ہیں بلکہ اپنا پورا گھرانہ تباہ کر دیتے ہیں۔
بے چارے والدین نافرمان بیٹے کو راہ راست پر لانے کے لیے دن رات کوشاں رہتے ہیں، ہر ترکیب لڑاتے ہیں لیکن کارگر نہیں ہوتی، اگر ان کی اولاد دہشت گردی میں ملوث ہو جائے تب پکڑے جانے کی صورت میں ماں باپ جیل، تھانہ اور عدالت و کچہری کے چکر کاٹتے نہیں تھکتے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت شروع ہی سے کی جانی چاہیے۔ ماں کی گود بچے کا پہلا مدرسہ ہوتا ہے، لہٰذا جو والدین اپنی اولاد کی پرورش میں اپنا چین و سکون برباد کر دیتے ہیں وہ بچے بھٹک نہیں پاتے ہیں۔ خالی سلیٹ پر لکھا ہوا ہر سبق نمایاں ہوتا ہے۔
نقل کرنے کا رجحان طلبا میں یونیورسٹی لیول تک پہنچ جاتا ہے، عموماً سننے اور پڑھنے میں آتا ہے کہ فلاں کے پی ایچ ڈی کا تھیسس ''سرقہ'' ہے اس شخص نے فلاں صاحب کے مقالے کی کاپی کی ہے، لہٰذا ایسی ڈگریوں کو کینسل کرنے اور مکمل چھان بین کرنے کا اعلان یونیورسٹی کی طرف سے بار ہا کیا جاتا ہے۔ اخبارات میں خبر چھپتی ہے، رہی سہی عزت خاک میں مل جاتی ہے، لیکن عزت والے کی عزت پر داغ لگتا ہے لیکن جسے اپنے وقار کا خیال نہ ہو اس کی بلا سے۔ پچھلے برسوں میں ڈگریوں کی خرید و فروخت عروج پر رہی۔ اور پھر وقت آنے پر جعلی ڈگریوں کی قلعی بھی کھل گئی۔
ایسا کام ہی کیوں کیا جائے کہ بات رسوائی تک پہنچے اور بدنامی صرف وطن عزیز تک ہی محدود نہیں رہتی ہے بلکہ پوری دنیا کا احاطہ لمحے بھر میں کر لیتی ہے۔ دوسری قومیں ہمارے بارے میں کیا سوچتی ہوں گی کہ ہم کس طرح کے لوگ ہیں جو اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کرتے ہیں، لوگ تو علم حاصل کرنے کے لیے دور دراز کے ملکوں میں جاتے ہیں۔ چین جانے کے حوالے سے حدیث بھی موجود ہے۔ ہمارے پاکستان میں بھی گزرے برسوں میں طلبا مختلف علوم سیکھنے آیا کرتے تھے اور یہاں کی ڈگری لے کر فخر محسوس کرتے تھے لیکن اب حالات قدرے مختلف ہو چکے ہیں۔
ہمارے نوجوان قائد اعظم کا پیغام بھی بھلا بیٹھے ہیں، قائد اعظم نے نوجوانوں کے لیے کہا تھا کہ ''میرا پیغام تم نوجوانوں کے لیے یہی ہے کہ ڈسپلن اور تنظیم قائم کرو اور ہر قربانی کے لیے تیار ہو جائو، قوموں کی آزادی کے گلستان خون سے سینچے جاتے ہیں، اور مسلمان قوم بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہو سکتی۔ قوم کو مصائب سے نہیں گھبرانا چاہیے، مصائب سے گزر کر برائیوں کی آلائش دور ہو جاتی ہے اور قوم کے جوہر نکھرتے ہیں''۔
لیکن ہماری قوم، ہمارے ملک کے نوجوان قائد کا پیغام بھلا چکے ہیں، ان کی زندگیوں میں نظم و ضبط سے دور دور کا واسطہ نہیں رہا ہے، بس ان ہی کا کام جلدی ہو جاتا ہے جس کے پاس سفارشی پرچی ہے اور کامیاب بھی وہی ہوتا ہے، حق دار محروم ہے اپنے حق سے اس لیے کہ اس کا حق طاقتور کو دے دیا جاتا ہے، یہ بد دیانتی نہیں تو اور کیا ہے۔ غیر منصفانہ رویہ ہر ادارے میں پایا جاتا ہے، اقربا پروری، بے ایمانی، لالچ اور ہوس نے معاشرے کی فضا کو مکدر کر دیا ہے، کوئی شخص خوش نہیں ہے کہ اس کی خوشیاں چھین لی گئی ہیں۔
اس چھینا جھپٹی کے دور میں امان کس طرح ملے؟ چین و سکون کہاں سے حاصل کیا جائے؟ ہر چیز ملاوٹ زدہ ہو چکی ہے۔ کھانے پینے کی چیزوں پر ہی انحصار نہیں ہے بلکہ تعلیم، ملازمت، ڈگریوں کا حصول غرض ہر معاملے میں دھوکا دہی، منافع خوری اور سفارش و دولت کی ملاوٹ، خوب خوب شامل ہے، اسی وجہ سے ملک پستی کی طرف جا رہا ہے۔
کسی بھی طالب علم کا یہ بہت بڑا نقصان ہوتا ہے جس کا ازالہ ناممکنات میں سے ہو جاتا ہے، چونکہ حالات کیا سے کیا ہو جاتے ہیں، ذمے داریاں بڑھ جاتی ہیں، معاشی تفکرات جان لیوا ثابت ہوتے ہیں، ان حالات میں دوبارہ سے پڑھنا ہی مشکل ہے، لہٰذا ہمارے تعلیمی اداروں کا فرض یہ ہے کہ اپنے طلبا کو اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی دیں اور نقل کے نقصانات سے اچھی طرح آگاہ کریں اور جو طلبا سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کریں ان کا داخلہ منسوخ کر دیا جائے۔
اساتذہ کا ایک اہم فرض اپنے ملک اور قوم سے محبت کے حوالے سے یہ بھی ہے کہ وہ وقت کی اہمیت کا درس دیں بلکہ وقت کے استعمال کے لیے بہترین مواقع فراہم کریں، اسکولوں کی لائبریری سے وہ کتابیں فراہم کر دیں جن میں طلبا کی دلچسپی ہو، ہر گھر میں کمپیوٹر کی سہولت نہیں ہوتی ہے، اس ہی لیے بے شمار بچے اس سے محروم ہیں، ان طلبا کے لیے کمپیوٹر سیکھنے کے مواقع دینا بھی ضروری ہیں اور ان نصابی و غیرنصابی سرگرمیوں کے لیے شام 5 سے 7 بجے تک کا اگر وقت مقرر کیا جائے تو طلبا اور والدین کے لیے باعث اطمینان ہو گا، ایک تو طلبا بے مقصد گلیوں اور شاہراہوں میں کھڑے ہونے سے بچ جائیں گے، خراب لوگ انھیں گھیر نہیں سکیں گے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ بری صحبت سے بھی بچیں گے اور والدین کی یہ تشویش بھی ختم ہو جائے گی کہ ان کا بیٹا بستہ رکھ کر نہ جانے کہاں اور کن دوستوں کے ساتھ ہے۔ حالات خراب ہیں، اغوا، بم بلاسٹ، فائرنگ کے خطرات سے بھی وہ بچے رہیں گے، چونکہ وہ جانتے ہیں کہ اسکول کے پرنسپل صاحب اور اساتذہ کرام بچوں کے روشن مستقبل کے لیے کوشاں ہیں۔ لہٰذا ان کے بچے غلط ہاتھوں میں پہنچنے سے بچ جائیں گے اور وقت کا بہترین استعمال کر رہے ہیں، ذمے دار حضرات اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کرتے ہیں اور جو کہ نہیں کی گئی ہیں، اسی وہی وجہ سے حالات اس نہج پر آ گئے ہیں، اب طلبا کے لیے عقل کی جگہ نقل کا استعمال ناگزیر ہو گیا ہے۔
10 اپریل کی خبر کے مطابق میٹرک کے امتحانات شروع ہوتے ہی اسلحہ برادر میدان میں کود پڑے ہیں اور اپنے پیارے اور راج دلاروں کے مستقبل کو تاریک قبر میں دفن کرنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں، اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ امتحانی مراکز پر نقل مافیا کی من مانیاں، مسلح افراد کی اسکولوں میں نقل کرانے کے لیے مداخلت، میٹروپولیٹن اکیڈمی نے پرچے لینے سے انکار کر دیا ہے مجبوراً بورڈ نے امتحانی مرکز کو شاہین پبلک اسکول بلاک 3 میں منتقل کر دیا ہے، واضح رہے کہ دونوں اسکول گلستان جوہر میں واقع ہیں، میٹرک سائنس کے انگریزی پرچے کے موقع پر نامعلوم افراد اسلحہ کے ساتھ اپنی من مانی کرتے ہوئے اسکول میں داخل ہو گئے تھے اور نقل کرانے کے لیے دبائو ڈالا گیا تھا۔
نقل کرانے کا یہ ظالمانہ طریقہ آج سے نہیں سالہا سال سے جاری ہے۔ اس ہی وجہ سے طلبا قابلیت سے محروم ہیں، چونکہ وہ نقل کے ہی آسرے میں پورا سال گنوا دیتے ہیں اور تعلیم کی طرف توجہ نہیں دیتے ہیں۔ اتفاق سے میرا بھی تدریس سے تعلق ہے، اس لیے میرا ذاتی تجربہ ہے کہ لڑکیاں نہایت شوق اور توجہ سے پڑھتی ہیں جب کہ طلبا پڑھائی سے دل چراتے ہیں، اکثر کلاس سے غائب ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات تعلیمی اداروں میں جانے کے بجائے دوستوں کے ساتھ گھومتے پھرتے اور وقت ضایع کرتے ہیں اور پھر یہی طلبا اپنی حماقتوں کی بدولت غلط لوگوں کی صحبت میں پڑ کر نہ کہ مستقبل برباد کرتے ہیں بلکہ اپنا پورا گھرانہ تباہ کر دیتے ہیں۔
بے چارے والدین نافرمان بیٹے کو راہ راست پر لانے کے لیے دن رات کوشاں رہتے ہیں، ہر ترکیب لڑاتے ہیں لیکن کارگر نہیں ہوتی، اگر ان کی اولاد دہشت گردی میں ملوث ہو جائے تب پکڑے جانے کی صورت میں ماں باپ جیل، تھانہ اور عدالت و کچہری کے چکر کاٹتے نہیں تھکتے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت شروع ہی سے کی جانی چاہیے۔ ماں کی گود بچے کا پہلا مدرسہ ہوتا ہے، لہٰذا جو والدین اپنی اولاد کی پرورش میں اپنا چین و سکون برباد کر دیتے ہیں وہ بچے بھٹک نہیں پاتے ہیں۔ خالی سلیٹ پر لکھا ہوا ہر سبق نمایاں ہوتا ہے۔
نقل کرنے کا رجحان طلبا میں یونیورسٹی لیول تک پہنچ جاتا ہے، عموماً سننے اور پڑھنے میں آتا ہے کہ فلاں کے پی ایچ ڈی کا تھیسس ''سرقہ'' ہے اس شخص نے فلاں صاحب کے مقالے کی کاپی کی ہے، لہٰذا ایسی ڈگریوں کو کینسل کرنے اور مکمل چھان بین کرنے کا اعلان یونیورسٹی کی طرف سے بار ہا کیا جاتا ہے۔ اخبارات میں خبر چھپتی ہے، رہی سہی عزت خاک میں مل جاتی ہے، لیکن عزت والے کی عزت پر داغ لگتا ہے لیکن جسے اپنے وقار کا خیال نہ ہو اس کی بلا سے۔ پچھلے برسوں میں ڈگریوں کی خرید و فروخت عروج پر رہی۔ اور پھر وقت آنے پر جعلی ڈگریوں کی قلعی بھی کھل گئی۔
ایسا کام ہی کیوں کیا جائے کہ بات رسوائی تک پہنچے اور بدنامی صرف وطن عزیز تک ہی محدود نہیں رہتی ہے بلکہ پوری دنیا کا احاطہ لمحے بھر میں کر لیتی ہے۔ دوسری قومیں ہمارے بارے میں کیا سوچتی ہوں گی کہ ہم کس طرح کے لوگ ہیں جو اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کرتے ہیں، لوگ تو علم حاصل کرنے کے لیے دور دراز کے ملکوں میں جاتے ہیں۔ چین جانے کے حوالے سے حدیث بھی موجود ہے۔ ہمارے پاکستان میں بھی گزرے برسوں میں طلبا مختلف علوم سیکھنے آیا کرتے تھے اور یہاں کی ڈگری لے کر فخر محسوس کرتے تھے لیکن اب حالات قدرے مختلف ہو چکے ہیں۔
ہمارے نوجوان قائد اعظم کا پیغام بھی بھلا بیٹھے ہیں، قائد اعظم نے نوجوانوں کے لیے کہا تھا کہ ''میرا پیغام تم نوجوانوں کے لیے یہی ہے کہ ڈسپلن اور تنظیم قائم کرو اور ہر قربانی کے لیے تیار ہو جائو، قوموں کی آزادی کے گلستان خون سے سینچے جاتے ہیں، اور مسلمان قوم بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہو سکتی۔ قوم کو مصائب سے نہیں گھبرانا چاہیے، مصائب سے گزر کر برائیوں کی آلائش دور ہو جاتی ہے اور قوم کے جوہر نکھرتے ہیں''۔
لیکن ہماری قوم، ہمارے ملک کے نوجوان قائد کا پیغام بھلا چکے ہیں، ان کی زندگیوں میں نظم و ضبط سے دور دور کا واسطہ نہیں رہا ہے، بس ان ہی کا کام جلدی ہو جاتا ہے جس کے پاس سفارشی پرچی ہے اور کامیاب بھی وہی ہوتا ہے، حق دار محروم ہے اپنے حق سے اس لیے کہ اس کا حق طاقتور کو دے دیا جاتا ہے، یہ بد دیانتی نہیں تو اور کیا ہے۔ غیر منصفانہ رویہ ہر ادارے میں پایا جاتا ہے، اقربا پروری، بے ایمانی، لالچ اور ہوس نے معاشرے کی فضا کو مکدر کر دیا ہے، کوئی شخص خوش نہیں ہے کہ اس کی خوشیاں چھین لی گئی ہیں۔
اس چھینا جھپٹی کے دور میں امان کس طرح ملے؟ چین و سکون کہاں سے حاصل کیا جائے؟ ہر چیز ملاوٹ زدہ ہو چکی ہے۔ کھانے پینے کی چیزوں پر ہی انحصار نہیں ہے بلکہ تعلیم، ملازمت، ڈگریوں کا حصول غرض ہر معاملے میں دھوکا دہی، منافع خوری اور سفارش و دولت کی ملاوٹ، خوب خوب شامل ہے، اسی وجہ سے ملک پستی کی طرف جا رہا ہے۔