عوام کا سیاسی شعور ……

قادری جسارت کا غصہ ٹھنڈا نہیں پڑا لیکن چونکہ غصے میں بھی ہوش کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہیے.


Zahida Javaid April 18, 2013

تبدیلی کی امید کا مرکزی چھناکا سماعت پذیر ہوچکا۔ سانڈ اور ہاتھی اسکروٹنی کی چھلنی سے چھن کر مصفا اور معصومین قرار پائے۔ الیکشن کی ہڑاہڑی ایجاد کرنے کی خاطر صرف موصوفہ دُم کو دو چار پٹخیاں اور تھپیاں مار مہم کو 'بے رحمی' کی اصطلاح سے جامہ جامی کرکے عوام کی خاطر جمع کے لیے پیش کردیا گیا۔ یہ پیشکش عوام کے تبدیلی کے جوش کو کس حد تک خمار آلود کرنے میں کامیاب ہوسکی اس کا فیصلہ تو گیارہ مئی تک موخر ہے لیکن فی الوقت ہم ایسوں کو خود ہی کسی کونے میں جاکر اپنے دو چپت لگا لینے چاہئیں کیونکہ پھیر تو ہماری سمجھ کا تھا جو ہم نے اپنی سیاسی اشرافیہ کو تاریخ ساز لٹیرے اور قومی مجرم قرار دے رکھا تھا اور اب تو وہ حقیقتاً دودھ سے دھل کر آرہے ہیں۔

قادری جسارت کا غصہ ٹھنڈا نہیں پڑا لیکن چونکہ غصے میں بھی ہوش کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہیے اور جوش کو مغلوب کرنا مفید ٹھہرتا ہے لہٰذا جس طرح استاد لوگوں نے انھیں سرکس کا مسخرہ قرار دے کر کھمبے پر چڑھادیا تھا کچھ ایسا ہی حال ان کی فرمائشی باسٹھ تریسٹھ کی دفعات کے ساتھ بھی کیا اور اس اہتمام سے کیا کہ منتظر سی سیاسی فضا میں شریر اور نٹ کھٹ ہمارے نظام کی شیطانی کھی کھی گونجنا شروع ہوگئی ہے۔ اختلافات چونکہ جمہوری نظام کا غازہ و غمزہ ہیں اس لیے جہاں کہیں اتفاق رائے کا منظر نامہ تشکیل پاتا ہے بس وہیں سے ایک تردد کا آغاز عین فطری سا معلوم ہوتا ہے اور ہم پاکستانی جنم جلے اس میں ان دیکھی سازشوں کے تانے بانے کھوجنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔

دفعہ تریسٹھ کے کرشموں کی زیارت تو خیر قوم کو نصیب ہی نہیں ہوئی لیکن دفعہ باسٹھ کے تحت ریٹرننگ افسران کے سوالات نے جو دھوم مچائی اس تماشے سے ایک عالم نے حظ اٹھایا بلکہ عدلیہ اور الیکشن کمیشن کی جانب سے انتہائی مناسب مہلت وقت دے کر ریٹرننگ افسران کی حس مزاح کے جوہر کو خوب کھل کر سامنے آنے کا موقع دیا گیا۔ ان سوالات نے دو طرفہ کام کیا ایک تو آرٹیکل باسٹھ کو بھگتا دیا اور نئی آنے والی پارلیمنٹ کو ممکنہ ٹاسک تھمادیا کہ پہلی فرصت میں آئین کو ان ڈکٹیٹری اختراعات سے پاک کیا جائے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ان کی توضیح کے لیے کسی میکنزم کا مطالبہ سامنے نہیں آیا۔ لہٰذا ان کا صفایا ہوگا یا بحالی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ گویا جمہور کے یہ نمائندے اس بار پار لگ گئے تو پھر وہ کشتیاں جلادینے کا معاملہ اختیار کرسکتے ہیں۔

دوسرا جانے انجانے میں ایک اور جو بہت خاص صورتحال پیدا ہوئی وہ یہ کہ سیکولر پاکستان اور نظریہ پاکستان کے حوالے سے کھدبدے کے طور پر اٹھنے والی آوازیں اب مستحکم سوالات کی صورت میں قوم کے سامنے بڑی بے باکی سے رکھ دی گئی ہیں۔ اب یہ طے کرنا کہ پاکستان سے مذہب کو علیحدہ کرکے ہم واقعتاً نئے پاکستان کی راہ پر گامزن ہیں یا درپے ہیں، ایک مزید سوال ہے، جس کی روشنی میں یہ تصفیہ ممکن ہوسکے گا کہ آیا ہم ساری تاریخ کو حرف غلط سمجھ کر مٹا دیں اور نئے حال کی روشنی میں اپنے نئے پاکستان کی نئی تاریخ بنانا شروع کریں۔ کیا ایسا ممکن ہے؟

پھر سوچیے! دین کو فرد کا ذاتی معاملہ قرار دینا اور نظریہ پاکستان کا حکومتی سطح پر تعین کا نکتہ قومی یک جہتی اور یک سوئی کے ارتکاز کی ایک مخلصانہ کوشش ہے یا پھر سیاسی کھٹراگ؟ یقیناً نہیں کیونکہ ایسے آزاد معاشرے تو قانون کی سرپرستی اور تحفظ کے بغیر Survive کر ہی نہیں سکتے تو پھر یہ حد بندی، رواداری، مساوات اور اخوت جیسے ہمارے اپنے دینی اور سماجی نظریات اور اقدار کے تحت کیوں نہیں ہوسکتی؟ ہم کس قدر بے رحمی اور سفاکی سے اپنی نسلوں، اپنی تاریخ اور اپنے ماضی یعنی کہ خود اپنے آپ کو غلط ٹھہرا رہے ہیں۔ یہ ارتقا کے مرحلے ہیں یا ابتلا کے معاملے؟ اس کا فیصلہ انفرادی سطح پر کرنا وقت کا شدید تقاضا دکھائی دے رہا ہے اور اپنی تہذیب کو انسان اور مذہب کے تصادم سے گریز کی سطح پر رکھنے کا شعوری فریضہ متحرک کرنے کی ضرورت بھی اس صورتحال میں سر اٹھارہی ہے۔

اس کے بعد ہماری پاکستانی جمہوریت میں خاندانی نظام کی بہار دیکھیے پورے جوبن پر ہے۔ ٹکٹوں کی بندربانٹ پر رشتوں کے جھنڈ کے جھنڈ پلے پڑ رہے ہیںاور یہ اس سماج میں ہورہا ہے جہاں پیشے اپنی وقعت کھوچکے ہیں جہاں اب بیٹے یا اولاد، باپ کا نام اور کام آگے بڑھانے کے بجائے خود آگے بڑھنے کی جستجو میں ہے اور نئی نسل کے اس رجحان میں ترقی کی تفہیم، رعب، دولت، تعلقات اور شوکت پر استوار ہے۔

ہمارا سیاسی کلچر یہ ہے کہ ہم نے اس کو طاقت کا مرکز بنادیا ہے۔ ہمارے سیاسی دماغ سیاست اور حکومت کا مطلب خدمت کے معنوں میں یا کارکردگی کے حوالے سے نہیں لیتے بلکہ یہ وہ معراج ہے جو ان کے رویے چاہتے ہیں، جس میں تسلط پسندی، اختیار، حاکمیت اور کافی حد تک استحصال اس بری طرح سے سرائیت ہیں کہ ظاہر سے جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں اور اندر سے آمر ہیں۔ طاقت کے اصول کو ماننے اور سمجھنے والوں کے لیے جمہوریت کے اس بنیادی تصور کو قبول کرنے کے لیے کئی نسلوں کا فاصلہ درکار ہے کہ بحیثیت فرد یا ریاست میں سب یکساں قابل قبول اور قابل احترام ہیں، لیکن خاندان، ذات برادری اور پرانے سیاسی ٹوٹکوں کے روایتی حربوں کے باوجود عوامی شعور کا دباؤ سیاسی جماعتوں پر صاف محسوس کیا جاسکتا ہے۔

یہ دباؤ ہی دراصل وہ خوش آئند امید ہے کہ کسی نہ کسی حد تک ہمارے سیاسی نظام میں وہ داغ بیل پڑ چکی ہے جس میں بہتری کا قوی امکان پوشیدہ ہے۔ پہلے عوام اپنی حالت اور حالات کو اپنے سیاسی عقیدوں اور عقیدت کے مقابل نہیں لاتے تھے لیکن موجودہ دور میں امن وامان، مہنگائی، لوڈشیڈنگ، ابلاغ اور مسابقت کی فضا نے بحیثیت ووٹر کے، عوام کے خیالات اور نظریات کو جس طرح متاثر کیا ہے یہ چیز عوام کو اپنے فیصلے پر سوچ بچار میں مبتلا کرسکتی ہے۔ فیصلے کی ایک طاقت جس سے اس الیکشن میں عوام کو محروم کردیا گیا ہے وہ بیلٹ پیپر میں خالی خانے کا نہ شامل کرنا ہے، اس خانے کی شمولیت سے حلقے کی سطح پر امیدواروں کے انتخابات اور عدم اعتماد کی رائے کا اظہار سیاسی پارٹیوں کی علاقائی سطح کی سیاست میں زبردست تبدیلی کا موجب ثابت ہوسکتا ہے۔

تاہم عوام کے سیاسی شعور اور آزاد ووٹر کے بہ طور ذمے دار رویے کو پختہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پارٹی سطح پر لٹریچر کی روش اختیار کی جائے۔ الیکشن کے دوران مہم کے طور پر رہنمائی کا یہ طریقہ شفاف طریقے سے کھلے مقابلے میں تبدیل ہوسکتا ہے اور ایک عام آدمی کی ہم نوائی کا سبب بن سکتا ہے۔ عام حالات میں سیاسی جماعتوں کو اس امر کا پابند کیا جاسکتا ہے کہ وہ سہ ماہی بنیادوں پر اپنے پارٹی جرائد کا اجرا کریں۔ جس سے پارٹی کی تاریخ، تفصیل، افکار، کارکردگی خود پارٹی کی زبانی سامنے آسکے۔

یہ روایت کئی تغیرات کا پیش خیمہ بن سکتی ہے اگر اس روایت کو خوب صورت طریقے سے فروغ دیا جائے۔ یہ نہ صرف جلسے جلوسوں کے متوازی تحریک کا ہتھیار ثابت ہوسکتی ہے بلکہ ترغیبی رجحان کا کردار بھی ادا کرسکتی ہے۔ یوں بھی تسلسل کی شرط کے ساتھ یہ دعویٰ صد فی صد صادق ہے کہ قلم کا نسخہ خود اپنی ذات میں بنیادی تبدیلیوں کی زبردست طاقت رکھتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں