بلوچستان میں دہشت گردی کی بزدلانہ واردات

بلوچستان میں متعدد وحشیانہ وارداتوں کے ملزمان آج بھی دندناتے پھر رہے ہیں۔


Editorial May 06, 2018
بلوچستان میں متعدد وحشیانہ وارداتوں کے ملزمان آج بھی دندناتے پھر رہے ہیں۔ فوٹو:فائل

QUETTA: بلوچستان کے ضلع خاران میں دہشتگردوں نے ایک بار پھر مزدوروں کو ٹارگٹ کیا، ابھی اٹک سانحہ میں اہلکاروں کی شہادت کا غم تازہ تھا کہ انسانیت کے دشمنوں نے بلوچستان کی نئی حکومت کو بدامنی کی سوغات دے ڈالی۔

اس بار دہشتگردوں نے ماضی کی طرح مزدوروں کی جان لے لی، جس سے اس اندیشہ کو تقویت ملتی ہے کہ دشمن بلوچستان میں ''سیکٹیرین ٹوئسٹ'' کا سنگین خطرہ ابھار رہا ہے، غیر ملکی رپورٹوں کے مطابق مذہبی، مسلکی، جہادی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے نیٹ ورک فعال ہو چکے ہیں اور اس بار دہشتگردی کی اس بزدلانہ واردات میں ملوث نامعلوم مسلح افراد نے موبائل فون ٹاور نصب کرنے والے مزدوروں پر فائرنگ کر دی جس سے 6 مزدور جاں بحق اور ایک زخمی ہو گیا۔

تمام مزدوروں کا تعلق پنجاب کے شہر اوکاڑہ سے بتایا گیا ہے، اس واقعہ کی دردناک معروضیت اس بات کی علامت ہے کہ دہشتگرد بلوچستان میں قتل وغارت میں علاقائیت اور فرقہ واریت کے ساتھ ساتھ لسانی تفریق اور منافرت پیدا کر کے صوبوں کے عوام کو لڑانا چاہتے ہیں، اس لیے ضرورت فوری ایکشن لینے کی ہے، ملزمان کا موقع واردات سے فرار ہونا سیکیورٹی میکنزم کی صریح ناکامی ہے۔

بلوچستان میں متعدد وحشیانہ وارداتوں کے ملزمان آج بھی دندناتے پھر رہے ہیں، ان تک سیکیورٹی اداروں کے آہنی ہاتھ بلاتاخیر حرکت میں آ جانے چاہئیں، اور اب تو سرحدی تجارتی شہر چمن میں اغوا برائے تاوان، منشیات کا استعمال، ہوائی فائرنگ سمیت جرائم کی واردتوں میں اضافہ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مقامی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ لوٹ مار، چوری، ڈاکے پولیس اور سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں۔

آئی ایس پی آر کے مطابق جمعہ کو سیکیورٹی فورسز نے کوہلو میں خفیہ اطلاع پر کارروائی کی، جب کہ اسلحہ، گولیاں، راکٹوں، مائنز، مارٹر گولوں کی بڑی کھیپ بھی برآمد کرکے قبضے میں لے لی، مذکورہ مواد علاقے میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں استعمال کرنے کے لیے چھپایا گیا تھا۔

لیویز کے مطابق خاران شہر سے 90 کلومیٹر دور لجے کے مقام پر ایک موبائل کمپنی کے ٹاور کی تنصیب کرنے والے مزدوروں پر فائرنگ کی گئی جس سے فخر، جاوید، امانت، مظہر، وقاص، شہزاد عرف باری موقع پر چل بسے جب کہ ایک مزدور فریال ولد منظور زخمی ہوا، نعشیں سول اسپتال خاران لائی گئیں جہاں ڈاکٹروں کی کارروائی کے بعد ان کے آبائی علاقے بھیج دی گئیں۔

دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو، وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی اور معاون خصوصی اطلاعات بلال کاکڑ نے واقعہ کی مذمت اور لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے شرپسندوں کو جلد گرفتارکرنے کی ہدایت کی ہے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ بیرونی ایجنڈے کو آگے بڑھانے والے شکست خوردگی کا شکار ہیں اور بوکھلاہٹ میں عوام کو تقسیم اور انھیں آپس میں دست و گریباں کرنے کی سازش میں مصروف ہیں، بلوچستان کے عوام کبھی دشمن کی چال کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

ادھر ہلاک ہونے والوں کے لواحقین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کو ناحق قتل کرنے والے دہشت گردوں کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دی جائے، تاہم بنیادی سوال مزدوروں کی مناسب سیکیورٹی کا تھا، اس سے پہلے بھی پنجاب کے مزدوروں اور دیگر غیر مقامی اساتذہ، ڈاکٹروں، سیاسی رہنماؤں اور وائس چانسلر کو قتل کیا گیا۔

آج صوبائی حکام کے پاس کم وقت ہے، انہیں علم ہونا چاہیے کہ خاران جیسے دور افتادہ مقام پر مزدوروں کے خلاف متحرک دہشتگرد گروپ کچھ بھی کرسکتے تھے، داعش کی موجودگی سے انکار یا ہر واردات کا ملبہ غیر ملکی قوتوں پر ڈالنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا، سیکیورٹی کی داخلی ذمے داری سے حکومت بری الذمہ نہیں ہوسکتی،

وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے کہا ہے کہ بھٹکے ہوئے نوجوانوں کو قومی دھارے میں شامل کرکے اس ملک کا کارآمد شہری بنانا ہماری ترجیحات میں شامل تھا، تاہم صوبے میں بھرتیوں پر پابندی عائد کرنے سے بلوچستان کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی امیدیں دم توڑ گئی ہیں، بلوچستان میں غربت پسماندگی کے ساتھ غیروں کے ایجنڈے کے خاتمے کے لیے نوجوانوں کے لیے روز گار کے مواقع فراہم کرنا ناگزیر ہے۔

یہ خیالات قابل قدر ہیں، مگر بات یہ ہے کہ جب مزدور دن دہاڑے قتل، انتہاپسند صوبہ میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے کے لیے مزدوروں کو شناخت کر کے بیدردی سے مار رہے ہوں تو نوجوانوں کو گمراہی سے روکنے کی حکمت عملی امن کی عملیت پسندی سے کس طرح ہم آہنگ ہو سکتی ہے؟

کون نہیں جانتا کہ ڈیرہ بگٹی، کوہلو، سبی، بارکھان اور خاران کو بھی مربوط دہشتگردی کے خطرات کا سامنا ہے، دہشتگرد ''ہٹ اینڈ رن'' کی کامیاب پالیسی پر چل رہے ہیں، جس سے نمٹنے کے لیے دہشتگردی مخالف اسٹرٹیجی کم وبیش وزیرستان، سوات اور کراچی جیسے آپریشن کی متقاضی ہے۔

میڈیا رپورٹس ہیں کہ بلوچستان میں عالمی طاقتوں نے مستقبل کے میدان جنگ کا مکروہ منظرنامہ تشکیل دیا ہے، جن قوتوں اور سہولت کاروں کی مدد سے بلوچستان میں دہشتگردی کی نئی لہر اٹھائی گئی ہے اس کے سنگین نتائج و مضمرات پر سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے، دہشتگرد عناصر اس مغالطہ میں نہیں رہنے چاہییں کہ بلوچستان حکومت چونکہ داخلی سیاسی کشمکش اور آئندہ الیکشن کی تیاریوں میں الجھی ہوئی ہے اس لیے صوبہ میں بدامنی کا یہی موقع ہے۔ لہٰذا ایسے عناصر کو عبرت ناک شکست دیے بغیر حکمراں چین سے نہ بیٹھیں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں