زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے
سیاست دانوں کے درمیان ہونے والے اختلافات کا فائدہ ہمیشہ غیر جمہوری قوتیں اٹھاتی ہیں۔
لاہور:
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ غیر جمہوری اقدامات سے بھری پڑی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ شاید ملک کی سیاسی قیادت کو میچور ہونے میں کافی وقت لگ رہا ہے۔ افسوس آج بھی جمہوری قدریں اور سیاسی رویے پنپ نہیں سکے ہیں۔
سیاست دانوں کے درمیان ہونے والے اختلافات کا فائدہ ہمیشہ غیر جمہوری قوتیں اٹھاتی ہیں اور اسی وجہ سے ملک کو چار بار مارشل لا کا سامنا کرنا پڑا۔ قومی مفادات اور تقاضوں کو نظرانداز کرتے ہوئے پاکستان میں کس طرح آئین و قانون سے ماورا من مانے اقدامات کیے جاتے رہے، ان کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پرویز مشرف کے دور آمریت میں حوالگی کا کوئی معاہدہ نہ ہونے کے باوجود چار ہزار پاکستانیوں کو خفیہ طریقے سے ڈالروں کے عوض دوسرے ملکوں کے حوالے کردیا گیا اور پارلیمنٹ سمیت کسی نے بھی انسانی حقوق کی پامالی کا نوٹس نہیں لیا۔
کون نہیں جانتا کہ بدعنوانی، دہشت گردی اور انصاف کی عدم فراہمی پاکستان کی جڑوں کو تیزی سے کھوکھلا کر رہی ہے۔ یہی وہ سماجی مسائل ہیں جن کی وجہ سے ملک میں غربت، انتشار، معاشی ناہمواری، بے چینی اور بے روزگاری عروج پر ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک قوم غربت میں تو زندہ رہ سکتی ہے لیکن اگر انصاف نہ ہو تو اس کا نتیجہ بھیانک تباہی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ افسوس آج پاکستان کو یہی مسئلہ درپیش ہے۔
یہ ایک مسلم امر ہے کہ سیاست کو کبھی بھی دولت کمانے کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے۔ دولت کمانے کے کئی جائز ذرائع ہیں۔ ہزاروں ارب کھرب پتی افراد ایسے ہیں جو سیاست دان نہیں ہیں۔ دولت اگر سیاسی طاقت کا منبع ہوتی تو میاں محمد نواز شریف آج اس حال کو نہ پہنچتے۔ ایک اندازے کے مطابق ہمارے حکمراں تقریباً 50,000 ارب روپے (500 ارب ڈالر) کی وسیع پیمانے پر بدعنوانی کے مرتکب ہوتے ہیں جوکہ ہمارے بیرونی قرض سے 6 گنا زیادہ ہے۔
اگر یہ رقم ان بدعنوانوں سے برآمد کی جاسکتی اور ان کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا جاتا تو نہ صرف ہم قرض ادا کرنے کے قابل ہوجاتے بلکہ ملک کے بہتر مستقبل کے لیے اہم بنیادی ضروریات فراہم کرنے کے لیے 400 ارب ڈالر اضافی دستیاب ہوتے۔ ہر ذی شعور اس بات سے واقف ہے کہ ملک کی اقتصادی صورتحال اس وقت نہایت پریشان کن شکل اختیار کرچکی ہے۔ ہمارے بجٹ کا خسارہ ایک اندازے کے مطابق 1,276 ارب روپے کے بجائے 1,864 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔
وطن عزیز کی تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ملک میں ہر ماہ ڈھائی لاکھ نوجوان روزگار کی عمر کو پہنچ رہے ہیں لہٰذا شرح ملازمت کو برقرار رکھنے کے لیے سالانہ 14 لاکھ افراد کے لیے روزگار کے مواقعے پیدا کرنا لازمی ہوں گے۔ بلاشبہ کسی بھی ملک کی افرادی قوت اس کی سب سے بڑی دولت ہوتی ہے اور دنیا میں متعدد ایسے ملک ہیں جو قدرتی وسائل سے تقریباً یکسر محروم ہونے کے باوجود محض اپنی افرادی قوت کی بہتر تعلیم و تربیت کے ذریعے آج صف اول کے ترقی یافتہ ملکوں میں شامل ہیں ، جب کہ ہماری اقتصادی منصوبہ بندی کا ایک نہایت منفی رخ یہ ہے کہ ہم اب تک اپنی قومی ضروریات اور جدید تقاضوں کے مطابق پورے ملک کے لیے ایسا نظام تعلیم تشکیل نہیں دے سکے جو دولت کے بجائے اہلیت کی بنیاد پر ملک کے ہر باصلاحیت نونہال کی معیاری تعلیم و تربیت کا ضامن ہو۔
علم پر مبنی معیشت آج کی دنیا میں ترقی و خوشحالی کا بے خطا نسخہ ہے لہٰذا ہمارے معاشی حکمت کاروں کو قوم کے ہر بچے کے لیے معیاری تعلیمی اداروں تک رسائی یقینی بنانے کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرنے کی آج اشد ضرورت ہے۔ ایسا کرنے سے ہمارے نوجوانوں کو روزگار تلاش نہیں کرنا پڑے گا بلکہ روزگار کے مواقعے خود انھیں ڈھونڈیں گے۔
اصل میں ہمارا مسئلہ وہ رہنما ہیں جن کی سوچ کا محور کبھی اپنے مفاد سے آگے نہیں بڑھتا۔ ایک ایسے معاشرے جس میں ترقی کی معراج جائزوناجائز طریقے سے دولت اکٹھی کرنا ہے کسی بھی مقصد کی خاطر بے غرض اور مخلص جذبے رکھنے والے افراد بہت نایاب ہوتے ہیں ۔ ہم میں سے زیادہ تر اخلاص سے تہی داماں ہوتے ہیں، معمولی سا مفاد ہمیں اپنی راہ تبدیل کرنے پر راضی کرلیتا ہے، ہمارے حکمرانوں کے پاس ہمیشہ سے دولت کی نہ سیراب ہونے والی پیاس ہے۔ نتیجے میں یہاں قیادت کا بحران ہمیشہ سے سر اٹھائے کھڑا ہے۔ ہمارے پاس جدید اسلحہ ہے، ایٹم بم ہے اور ایسی جذباتی قوم ہے جو کسی بھی چیلنج پر آپے سے باہر ہوجاتی ہے، لیکن ہماری قیادت کی صفیں خالی اور بے جان چلی آرہی ہیں۔ '' تاجروں'' کو حکمران بنانے اور ''زر'' سمیٹنے کو اپنا مطمع نظر سمجھنے والوں کو حکمران بنانے کا انجام ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ ہی رہے ہیں۔
بہرکیف پاکستان آج بھی تعمیر نو کی طرف بڑھ سکتا ہے لیکن اس کے لیے تخیلات اور دلیر قیادت کی ضرورت ہے۔ ابھی بھی تاریک راہوں میں اجالا ہوسکتا ہے، لیکن تصورات کی محفل میں معقولیت کے چراغ روشن کرنے ہوں گے، فکری پسماندگی کے اندھیرے کو دور بھگانا ہوگا۔ اس وقت ملک کو گڈ گورننس کی فوری اور اشد ضرورت ہے، سیاسی لوگوں کی تربیت کی ضرورت ہے جو سیاسی پارٹیوں ہی کی اولین ذمے داری ہے جو لوگ اسمبلیوں کے رکن منتخب ہوتے اور حکومتیں بناتے ہیں ان کی اہلیت بہتر بنانے کی بڑی گنجائش ہے۔ آئین اور قانون بھی اس کا تقاضا کرتے ہیں اور عوام کو حق دیتے ہیں کہ انتخابات میں برے لوگوں کو چھوڑ کر اہل اور دیانت دار لوگوں کو آگے لائیں تاکہ نظام درست ہوسکے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ جمہوریت کو مضبوط کیا جائے اسے ماحول کے تابع بنانے کی بجائے ماحول کو اس کے تقاضوں کے مطابق بہتر بنایا جائے، تعلیم عام کی جائے، ووٹ کا تقدس بحال کیا جائے، طبقاتی افراط و تفریط کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ بدقسمتی سے پاکستان صرف چار چھوٹے بڑے صوبوں کا مجموعہ ہے اس کی طرز حکمرانی ناقص ہوگی تو چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی بڑھے گا، جمہوریت مضبوط اور موثر ہوگی تو تمام صوبے، تمام طبقے اور تمام لوگ مطمئن اور پرسکون زندگی گزاریں گے۔
ہمارے ارباب اختیار کو یہ سوچنا چاہیے کہ ماں باپ، بہن بھائی اور بیوی بچوں کے علاوہ کچھ رشتے اور بھی ہوتے ہیں جن کا فرض ادا کرنا پڑتا ہے اور پاکستان میں بسنے والے 22 کروڑ افراد کا فرض ہمارے حکمرانوں پر قرض بھی ہے اور فرض بھی جسے انھیں ادا کرنا ہوگا کہ ان کی مسند ان کا اقتدار اسی بات کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہاتھوں کی لکیریں کبھی نہیں بدلتیں ہاں قسمت ضرور بدل جاتی ہے اگر انسان چاہے تو۔ ہمارے ارباب اختیار چاہیں تو ایسے انسان بن سکتے ہیں۔
عام انتخابات (چناؤ) اب معمولی سے فاصلے پر ہیں ہمارے حکمرانوں کے پاس غور کرنے کا ابھی بھی وقت ہے انھیں اپنے منشور میں عوام کی فلاح کو سب سے پہلے مدنظر رکھنا چاہیے، ویسے بھی سوچ سمجھ کر کیے جانے والے فیصلے کسی نہ کسی کے حق میں ضرور بہتر ہوتے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ہمارے ملک کے کرتا دھرتا اپنے اردگرد قائم آہنی حصار سے نکلیں اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ایسا کچھ کریں جو رہتی دنیا تک ان کے نام اور کام کو زندہ رکھے ویسے بھی ضرورت سے زیادہ مضبوط اور اونچے قلعے قلعے نہیں رہتے قید خانے بن جاتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ غیر جمہوری اقدامات سے بھری پڑی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ شاید ملک کی سیاسی قیادت کو میچور ہونے میں کافی وقت لگ رہا ہے۔ افسوس آج بھی جمہوری قدریں اور سیاسی رویے پنپ نہیں سکے ہیں۔
سیاست دانوں کے درمیان ہونے والے اختلافات کا فائدہ ہمیشہ غیر جمہوری قوتیں اٹھاتی ہیں اور اسی وجہ سے ملک کو چار بار مارشل لا کا سامنا کرنا پڑا۔ قومی مفادات اور تقاضوں کو نظرانداز کرتے ہوئے پاکستان میں کس طرح آئین و قانون سے ماورا من مانے اقدامات کیے جاتے رہے، ان کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پرویز مشرف کے دور آمریت میں حوالگی کا کوئی معاہدہ نہ ہونے کے باوجود چار ہزار پاکستانیوں کو خفیہ طریقے سے ڈالروں کے عوض دوسرے ملکوں کے حوالے کردیا گیا اور پارلیمنٹ سمیت کسی نے بھی انسانی حقوق کی پامالی کا نوٹس نہیں لیا۔
کون نہیں جانتا کہ بدعنوانی، دہشت گردی اور انصاف کی عدم فراہمی پاکستان کی جڑوں کو تیزی سے کھوکھلا کر رہی ہے۔ یہی وہ سماجی مسائل ہیں جن کی وجہ سے ملک میں غربت، انتشار، معاشی ناہمواری، بے چینی اور بے روزگاری عروج پر ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک قوم غربت میں تو زندہ رہ سکتی ہے لیکن اگر انصاف نہ ہو تو اس کا نتیجہ بھیانک تباہی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ افسوس آج پاکستان کو یہی مسئلہ درپیش ہے۔
یہ ایک مسلم امر ہے کہ سیاست کو کبھی بھی دولت کمانے کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے۔ دولت کمانے کے کئی جائز ذرائع ہیں۔ ہزاروں ارب کھرب پتی افراد ایسے ہیں جو سیاست دان نہیں ہیں۔ دولت اگر سیاسی طاقت کا منبع ہوتی تو میاں محمد نواز شریف آج اس حال کو نہ پہنچتے۔ ایک اندازے کے مطابق ہمارے حکمراں تقریباً 50,000 ارب روپے (500 ارب ڈالر) کی وسیع پیمانے پر بدعنوانی کے مرتکب ہوتے ہیں جوکہ ہمارے بیرونی قرض سے 6 گنا زیادہ ہے۔
اگر یہ رقم ان بدعنوانوں سے برآمد کی جاسکتی اور ان کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا جاتا تو نہ صرف ہم قرض ادا کرنے کے قابل ہوجاتے بلکہ ملک کے بہتر مستقبل کے لیے اہم بنیادی ضروریات فراہم کرنے کے لیے 400 ارب ڈالر اضافی دستیاب ہوتے۔ ہر ذی شعور اس بات سے واقف ہے کہ ملک کی اقتصادی صورتحال اس وقت نہایت پریشان کن شکل اختیار کرچکی ہے۔ ہمارے بجٹ کا خسارہ ایک اندازے کے مطابق 1,276 ارب روپے کے بجائے 1,864 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔
وطن عزیز کی تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ملک میں ہر ماہ ڈھائی لاکھ نوجوان روزگار کی عمر کو پہنچ رہے ہیں لہٰذا شرح ملازمت کو برقرار رکھنے کے لیے سالانہ 14 لاکھ افراد کے لیے روزگار کے مواقعے پیدا کرنا لازمی ہوں گے۔ بلاشبہ کسی بھی ملک کی افرادی قوت اس کی سب سے بڑی دولت ہوتی ہے اور دنیا میں متعدد ایسے ملک ہیں جو قدرتی وسائل سے تقریباً یکسر محروم ہونے کے باوجود محض اپنی افرادی قوت کی بہتر تعلیم و تربیت کے ذریعے آج صف اول کے ترقی یافتہ ملکوں میں شامل ہیں ، جب کہ ہماری اقتصادی منصوبہ بندی کا ایک نہایت منفی رخ یہ ہے کہ ہم اب تک اپنی قومی ضروریات اور جدید تقاضوں کے مطابق پورے ملک کے لیے ایسا نظام تعلیم تشکیل نہیں دے سکے جو دولت کے بجائے اہلیت کی بنیاد پر ملک کے ہر باصلاحیت نونہال کی معیاری تعلیم و تربیت کا ضامن ہو۔
علم پر مبنی معیشت آج کی دنیا میں ترقی و خوشحالی کا بے خطا نسخہ ہے لہٰذا ہمارے معاشی حکمت کاروں کو قوم کے ہر بچے کے لیے معیاری تعلیمی اداروں تک رسائی یقینی بنانے کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرنے کی آج اشد ضرورت ہے۔ ایسا کرنے سے ہمارے نوجوانوں کو روزگار تلاش نہیں کرنا پڑے گا بلکہ روزگار کے مواقعے خود انھیں ڈھونڈیں گے۔
اصل میں ہمارا مسئلہ وہ رہنما ہیں جن کی سوچ کا محور کبھی اپنے مفاد سے آگے نہیں بڑھتا۔ ایک ایسے معاشرے جس میں ترقی کی معراج جائزوناجائز طریقے سے دولت اکٹھی کرنا ہے کسی بھی مقصد کی خاطر بے غرض اور مخلص جذبے رکھنے والے افراد بہت نایاب ہوتے ہیں ۔ ہم میں سے زیادہ تر اخلاص سے تہی داماں ہوتے ہیں، معمولی سا مفاد ہمیں اپنی راہ تبدیل کرنے پر راضی کرلیتا ہے، ہمارے حکمرانوں کے پاس ہمیشہ سے دولت کی نہ سیراب ہونے والی پیاس ہے۔ نتیجے میں یہاں قیادت کا بحران ہمیشہ سے سر اٹھائے کھڑا ہے۔ ہمارے پاس جدید اسلحہ ہے، ایٹم بم ہے اور ایسی جذباتی قوم ہے جو کسی بھی چیلنج پر آپے سے باہر ہوجاتی ہے، لیکن ہماری قیادت کی صفیں خالی اور بے جان چلی آرہی ہیں۔ '' تاجروں'' کو حکمران بنانے اور ''زر'' سمیٹنے کو اپنا مطمع نظر سمجھنے والوں کو حکمران بنانے کا انجام ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ ہی رہے ہیں۔
بہرکیف پاکستان آج بھی تعمیر نو کی طرف بڑھ سکتا ہے لیکن اس کے لیے تخیلات اور دلیر قیادت کی ضرورت ہے۔ ابھی بھی تاریک راہوں میں اجالا ہوسکتا ہے، لیکن تصورات کی محفل میں معقولیت کے چراغ روشن کرنے ہوں گے، فکری پسماندگی کے اندھیرے کو دور بھگانا ہوگا۔ اس وقت ملک کو گڈ گورننس کی فوری اور اشد ضرورت ہے، سیاسی لوگوں کی تربیت کی ضرورت ہے جو سیاسی پارٹیوں ہی کی اولین ذمے داری ہے جو لوگ اسمبلیوں کے رکن منتخب ہوتے اور حکومتیں بناتے ہیں ان کی اہلیت بہتر بنانے کی بڑی گنجائش ہے۔ آئین اور قانون بھی اس کا تقاضا کرتے ہیں اور عوام کو حق دیتے ہیں کہ انتخابات میں برے لوگوں کو چھوڑ کر اہل اور دیانت دار لوگوں کو آگے لائیں تاکہ نظام درست ہوسکے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ جمہوریت کو مضبوط کیا جائے اسے ماحول کے تابع بنانے کی بجائے ماحول کو اس کے تقاضوں کے مطابق بہتر بنایا جائے، تعلیم عام کی جائے، ووٹ کا تقدس بحال کیا جائے، طبقاتی افراط و تفریط کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ بدقسمتی سے پاکستان صرف چار چھوٹے بڑے صوبوں کا مجموعہ ہے اس کی طرز حکمرانی ناقص ہوگی تو چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی بڑھے گا، جمہوریت مضبوط اور موثر ہوگی تو تمام صوبے، تمام طبقے اور تمام لوگ مطمئن اور پرسکون زندگی گزاریں گے۔
ہمارے ارباب اختیار کو یہ سوچنا چاہیے کہ ماں باپ، بہن بھائی اور بیوی بچوں کے علاوہ کچھ رشتے اور بھی ہوتے ہیں جن کا فرض ادا کرنا پڑتا ہے اور پاکستان میں بسنے والے 22 کروڑ افراد کا فرض ہمارے حکمرانوں پر قرض بھی ہے اور فرض بھی جسے انھیں ادا کرنا ہوگا کہ ان کی مسند ان کا اقتدار اسی بات کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہاتھوں کی لکیریں کبھی نہیں بدلتیں ہاں قسمت ضرور بدل جاتی ہے اگر انسان چاہے تو۔ ہمارے ارباب اختیار چاہیں تو ایسے انسان بن سکتے ہیں۔
عام انتخابات (چناؤ) اب معمولی سے فاصلے پر ہیں ہمارے حکمرانوں کے پاس غور کرنے کا ابھی بھی وقت ہے انھیں اپنے منشور میں عوام کی فلاح کو سب سے پہلے مدنظر رکھنا چاہیے، ویسے بھی سوچ سمجھ کر کیے جانے والے فیصلے کسی نہ کسی کے حق میں ضرور بہتر ہوتے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ہمارے ملک کے کرتا دھرتا اپنے اردگرد قائم آہنی حصار سے نکلیں اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ایسا کچھ کریں جو رہتی دنیا تک ان کے نام اور کام کو زندہ رکھے ویسے بھی ضرورت سے زیادہ مضبوط اور اونچے قلعے قلعے نہیں رہتے قید خانے بن جاتے ہیں۔