مودی کا جھکنا چین کے آگے

جنرل راوت کے نئے بیان سے میڈیا اور عوامی سطح پر تو مایوسی ہوئی ہی ہے خود جنرل راوت کو اپنی بہت بے عزتی ہوئی ہے۔


عثمان دموہی May 06, 2018
[email protected]

لاہور: ابھی چند ماہ قبل بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت نے بڑے فخر سے دعویٰ کیا تھا کہ بھارتی فوج پاکستان ہی کیا چین اور پاکستان دونوں کا بیک وقت مقابلہ کرسکتی ہے اور دونوں کو شکست بھی دے سکتی ہے۔

بھارتی جنرل کے اس بیان کا پاکستان مخالف بھارتیوں نے زبردست خیر مقدم کیا تھا، اس بیان کی بھارتی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بھی بڑی دھوم رہی۔ خاص طور پر ٹی وی چینلز پر تبصرہ نگاروں نے اپنی فوج کی غیر معمولی صلاحیت پر خوب خوشی اور شادمانی کا اظہار کیا۔ بی جے پی کے زرخرید '' زی نیوز'' چینل پر تو کئی روز تک کئی بھارتی سیاستدان تبصرہ نگار اور دانشور پاکستان کا مذاق اڑاتے رہے اور اپنی فوج کی تعریفوں کے پل باندھتے رہے۔

حالانکہ بھارتی جنرل کے بیان کو دیے کئی ماہ گزر چکے تھے مگر بھارتی ٹی وی چینلز پر پھر بھی گاہے بگاہے جنرل راوت کے بیان کی تعریفیں سنائی دی جاتی تھیں کہ گزشتہ دنوں جنرل راوت نے اچانک اپنے ہی پہلے بیان کے خلاف ایک چونکا دینے والا بیان دے ڈالا کہ ہم چین اور پاکستان سے بیک وقت دو محاذوں پر نہیں لڑسکتے، اس لیے کہ چین ہماری سوچ سے بھی آگے ہے۔

چین روز بروز اپنی فوجی طاقت بڑھا رہا ہے۔ اس کی فوجی طاقت تو خود امریکا کے لیے چیلنج بن چکی ہے جب کہ بھارتی فوج کا اڑسٹھ فیصد سامان حرب پرانا ہوچکا ہے جسے فوری طور پر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ جنرل راوت کا یہ بیان بھارتی حکومت کیا بھارتی شیخی خور میڈیا پر بھی بجلی بن کر گرا اور اس کے ساتھ ہی ان کی ساری خوش فہمیاں رفو چکر ہوگئیں۔ اب میڈیا اپنی فوج کی طاقت اور صلاحیت کا ذکر بڑا سوچ سمجھ کر کررہا ہے۔

ایک بھارتی فوجی تبصرہ نگار سوشانت سرین کا کہنا ہے کہ بھارتی جنرلوں کو بیان بازی سے دور رہنا چاہیے۔ پہلے وہ بیان بازی نہیں کرسکتے تھے اس لیے کہ حکومت ان کی بیان بازی کو پسند نہیں کرتی تھی مگر جب سے بی جے پی کی حکومت برسر اقتدار آئی ہے، مودی جی نے جہاں اپنے وزیروں مشیروں اور پارٹی کے دوسرے لیڈروں کو پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف بیان بازی کی کھلی چھوٹ دے دی ہے، وہاں اپنے آرمی چیف کو بھی پاکستان ہی نہیں چین کے خلاف بھی بیان دینے کی آزادی دے دی ہے، چنانچہ جنرل راوت کے پہلے بیان سے تو مودی حکومت کو بہت فائدہ ہوا کہ اس سے ان کی حکومت کی فوجی تیاری کی تعریف ہونے لگی تھی اور ان کی حکومت کو فوجی اعتبار سے ایک مضبوط حکومت تصور کیا جانے لگا تھا مگر اب نئے بیان نے مودی حکومت کی فوجی تیاری کی پول کھول کر رکھ دی ہے۔

جب مودی نے 2014 میں اقتدار سنبھالا تھا بھارت کو فوجی اعتبار سے خودکفیل اور ناقابل شکست بنانے کے لیے میک ان انڈیا کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا گیا تھا ۔ اس پروگرام کی خوب تشہیر کی گئی تھی مگر یہ بھی مودی کی بھارت کو صنعتی اور معاشی طور پر خودکفیل بنانے کے ''شائننگ انڈیا'' پروگرام کی طرح ناکام و نامراد ہی ثابت ہوا ۔

جنرل راوت کے نئے بیان سے میڈیا اور عوامی سطح پر تو مایوسی ہوئی ہی ہے خود جنرل راوت کو اپنی بہت بے عزتی ہوئی ہے۔ انھیں اب ایک بااعتبار جنرل کے طور پر نہیں دیکھا جا رہا۔ ان سے پہلے جو بھی آرمی چیف تھے، انھوں نے کبھی اتنی مبالغہ آرائی نہیں کی تھی۔ لگتا ہے جنرل راوت مودی کی طرح خوش فہم واقع ہوئے ہیں مگر اب دوسرا حقیقت پسندانہ بیان شاید اس لیے دینے پر مجبور ہوئے ہیں کہ انھیں حکومت کی جانب سے ان کی من پسند مراعات حاصل نہیں ہوسکی ہیں۔

بہرحال چند ماہ پہلے مودی کی خوش فہمی کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے ڈوکلام کے محاذ پر چینی فوجوں سے ٹکر لینے کے لیے اپنی فوجوں کو ان کے سامنے لاکھڑا کیا تھا۔ حالانکہ یہاں بھارت کا چین کو سڑک بنانے سے روکنا سرا سر چین سے ''پنگا'' لینے کے مترادف تھا کیونکہ چینی فوجیں بھوٹان کی سرحد کے پاس اپنی سرحد میں سڑک تعمیر کرنا چاہتی تھیں۔

یہ علاقہ بھارتی سرحد سے کافی دور ہے مگر چونکہ بھارت بھوٹان کا نگہبان بنا ہوا ہے چنانچہ وہ بھوٹان کے علاقے کو اپنا علاقہ سمجھنے لگا ہے جب کہ اصل فریق بھوٹان جس کی سرحد کے قریب چین سڑک بنا رہا تھا وہ بالکل خاموش تھا اور اس کی رعایا چین کی فیورکرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھوٹانی شاہی خاندان بھی بھارت کی بھوٹان کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے بیزار ہے مگر بدقسمتی سے بھوٹان تین اطراف سے بھارتی سرحدوں سے گھرا ہوا ہے۔

چوتھی طرف یعنی شمال میں چین ہے جس سے بھوٹان اپنے روابط بڑھانا چاہتا ہے مگر بھارت اس راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ ڈوکلام کے تنازعے پر کئی ماہ تک بھارتی اور چینی فوجیں آمنے سامنے کھڑی رہیں بالآخر دونوں ممالک کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت بھارت کو اپنی فوجیں پیچھے ہٹا کر پسپائی اختیار کرنا پڑی مگر اس پسپائی کو بھی اس کا میڈیا بھارتی فتح قرار دیتا رہا ۔

اب جنرل راوت کا دوسرا بیان سامنے آنے کے بعد مودی کی تمام خوش فہمی ہی دور نہیں ہوگئی ہے بلکہ راتوں کی نیند بھی اڑ چکی ہے۔ مودی چین سے تو پہلے ہی مرعوب تھے اب خوفزدہ ہوکر چین کے چوتھے دورے پر جانے پر مجبور ہوگئے۔ وہ چین سے دوستی بڑھانے کے لیے کافی بے چین و بے قرار تھے۔ انھوں نے چین کے شہر ووہان میں چینی صدر شی چنگ پنگ سے نہایت عاجزانہ انداز میں ملاقات کی۔

اس دورے میں انھوں نے چینی صدر کو پٹانے اور بھارت کا دوست بنانے کی سرتوڑ کوشش کی ہے مگر مبصرین کے مطابق چینی صدر جو مودی کو اچھی طرح پہچان چکے ہیں۔ بھارت کو اپنے قومی مفادات کے خلاف کسی بھی قسم کی رعایت دینے سے انکار کیا ہے۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے اور باہمی رابطوں کو بڑھانے پر ضرور اتفاق ہوا ہے۔ مودی نے چینی صدر کو خوش کرنے کے لیے افغانستان میں مشترکہ منصوبوں کو شروع کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔

کیا مودی کی اس پیشکش سے چینی صدر خوش ہوں گے ایسا نہیں لگتا ہے اس لیے کہ جب بھارت چین کے ون روڈ اینڈ ون بیلٹ جیسے عالمی مفادات کے حامل منصوبے میں شرکت سے انکاری ہے تو چین کیونکر اس کے ساتھ کوئی مشترکہ منصوبہ اور وہ بھی شورش زدہ افغانستان میں شروع کرسکتا ہے۔

بہرحال مودی کی چین کے آگے جھکنے کی کہانی جلد ہی بھارتی عوام کے سامنے آشکار ہوجائے گی لگتا ہے انھوں نے چینی سرزمین پر بھارتی قبضے کو غلطی تسلیم کرلیا ہے یا پھر سی پیک منصوبے میں رکاوٹیں نہ ڈالنے کی یقین دہانی کرادی ہے کیونکہ سی پیک پاکستانی مفادات سے کہیں زیادہ چینی مفادات کا محافظ ہے۔ ویسے بھی بھارت کو سی پیک کے آزاد کشمیر سے گزرنے پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہے، اس لیے کہ کشمیر اس کی جاگیر نہیں ہے ،کشمیر کشمیریوں کا ہے اور وہ پاکستان کے نامکمل نقشے کو اپنی شمولیت کے ذریعے مکمل کرنے پر مصر ہیں ۔

چین کو بھی چاہیے کہ وہ بھارت کے سی پیک پر تحفظات کو رد کردے اور اسے مسئلہ کشمیر کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر راغب کرے کیونکہ وہ امریکا کے بعد دنیا کی بڑی طاقت ہے۔ گزشتہ دنوں چینی حکومت نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے پیرس اجلاس میں پاکستان کے خلاف پاس ہونے والی قرارداد کو روکنے سے راہ فرار اختیار کرکے دوستی کی کوئی اچھی مثال قائم نہیں کی۔ اسے پاکستان کے مفادات کا بہرطور خیال رکھنا چاہیے کیونکہ پاکستان نے اسے سی پیک کے لیے اپنی گوادر بندرگاہ پیش کرکے اس پر کبھی نہ ختم ہونے والا احسان کیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں