عدم دستیاب سیاسی وژن

پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جو 70سال گزرنے کے باوجود ابھی تک اپنے لیے کوئی نظام منتخب یا تیار نہیں کرپایا۔



الیکشن قریب آتے ہی ملک میں سیاسی اسٹیج سج گیا ہے، جہاں سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوںکی جانب سے تمام اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ کر قلابازیاں و اُچھل کود اور ایک دوسرے پر پے درپے سیاسی و نجی زندگی سے متعلق لفظی حملوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔

زرداری نواز شریف کے خلاف تو نواز شریف آصف زرداری و عمران خان کو برا بھلا کہتے نظر آتے ہیں اور عمران خان، زرداری و نواز کو ایک ہی سکے کے دو رُخ گردانتے ہیں ۔ دنیا بھر میں انتخابات کے لیے سیاسی جماعتیں اپنا اپنا منشور اور آئندہ کے لائحہ عمل کی تشہیر کے ساتھ اپنے ماضی کے کارناموں اور خدمات کو اجاگر کرتی ہیں،لیکن پاکستان میں الیکشن ایک میلے کی طرح آتا ہے جس میں تفریح ، خرید و فروخت ، مختلف مقابلے اور سرکس کے سامان کی دستیابی اور فراہمی کا بندوبست کیا جاتا ہے ۔

پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جو 70سال گزرنے کے باوجود ابھی تک اپنے لیے کوئی نظام منتخب یا تیار نہیں کرپایا ۔ آج بھی جب حکومت اپنی مدت پوری کرنے کے قریب ہوتی ہے تو ملک میں ایک مرتبہ پھر الیکشن ہونے یا نہ ہونے کی افواہیں گردش کرتی ہیں۔ جس کی سب سے بڑی وجہ سیاستدانوں کا ملک میں جمہوری نظام کو مضبوط کرنے کے لیے کام نہ کرنا ہے ۔

جس جمہوری نظام کے لیے کئی رہنماؤں نے اپنی زندگیاں قربان کیں ، کئی رہنما جیل یاتراؤں اور سزاؤں کے مستحق بنے ،ہزاروں کارکنوں نے اور لاکھوں حمایتیوں نے دھرنے ، جلسے ، جلوس اور ہڑتالیں کیں ، وہ جمہوریت آج لاوارث بن چکی ہے ۔ جب ملکی قرضوں میں بے پناہ اضافہ اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ ملک کی بجٹ کا 30% قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہوتا ہے۔

ایسی صورتحال میں ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں اور سیاستدان مہنگائی ، بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ کی دن بہ دن شدید ہوتی ہوئی صورتحال ، بیروزگاری ، بدعنوانی و اقربا پروری کی انتہا ، تعلیم و صحت کے شعبوں کی ابتر حالت جیسے حقیقی ملکی مسائل کے حل کے بجائے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں لگے ہوئے ہیں جب کہ ملک کے داخلی و خارجی اُمور میں انتظامی کردار عسکری قوتیں ادا کرتی نظر آتی ہیں ، جس کی مثال آرمی چیف کی جانب سے داخلی طور پر کوئٹہ میں ہونیوالے بم دھماکوں کے نتیجے میںجاں بحق ہونیوالے ہزارہ کمیونٹی کے لوگوں کے ورثاء سے مذاکرات و یقین دہانی اورپشتون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم ) کی سرگرمیوں اور فاٹا کی صورتحال پرعسکری و سول اداروں میں اہم عہدوں پر فائز رہنے والے سابق سینئر پشتون افسران سے ملاقات وغیرہ ، جب کہ خارجی سطح پر روسی جنرل گراسیموف سمیت دیگر وفود و سربراہان سے بھی اُمور آرمی چیف ہی طے کرتے نظر آتے ہیں ۔

جس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں سیاسی جماعتوں اور قائدین میں شعور اور دور اندیشی کی کمی ہے جو کہ جمہوری و سیاسی قوت کی علامت ہے ۔ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں اس وقت اخلاقی طور پر پست اور نظریاتی طور پر کمزور صورتحال کا شکار ہیں اور مسند اقتدار پر براجمان ہونے کے لیے نادیدہ قوتوں کے ہاتھوں کھلونا بننے میں ایک دوسرے سے بازی لیجانے کی سعی میں لگی ہوئی ہیں ۔

جمہوری و سیاسی افسانوں کے مرکزی کردار کی حیثیت ہمیشہ وزیر اعظم کو حاصل رہی ہے جوکہ وزارت ِ عظمیٰ کے منصب کے حصول اور دوران ِ منصب ہمیشہ اپنے پاؤں مضبوط کرنے میں مصروف رہتا ہے لیکن باوجود انتھک محنت و حرفت کے، یہ کردار ہمیشہ بیچ داستان میں تبدیل ہوجاتا ہے، یا پھر تبدیل کردیا جاتا ہے، کبھی گولی کے ذریعے تو کبھی پھانسی کے ذریعے ، کبھی صدارتی فرمان سے جبری سبکدوشی تو کبھی مارشل لا کے ذریعے ملک بدری تو کبھی عدالتی نااہلی کے ذریعے منظر سے ہٹادیا جاتا ہے۔

ملک کے جمہوری نظام اور جمہوری وزرائے اعظم کی تاریخ کی داستان ابھی تک شاید زیر ِ قلم ہے اس لیے قیام ِ پاکستان کے بعد ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان سے لے کر آج تک وزیر اعظم نے اپنی آئینی و قانونی مدت پوری نہیں کی لیکن ہرمرتبہ انتخابات عوام سے زیادہ سیاستدانوں کو نئی امیدیں اور خوش فہمیاں فراہم کرتے ہیں ۔

حال ہی میں ایسی ہی ایک امید وخوش فہمی پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری کو بھی ہو چلی ہے کہ اُن کی جماعت کراچی بھر کے حلقوں سے بھی کامیابی حاصل کرے گی۔ اس سلسلے میں انھوں نے 29اپریل کو لیاقت آباد میں ایک بڑاجلسہ عام بھی منعقد کیا ۔ اس جلسے نے جہاں پی پی پی کو خوش فہمیوں کا ماحول فراہم کیا ہے، وہیں کراچی میںٹکڑوں میں بٹی اپنی سب سے بڑی حریف جماعت ایم کیو ایم کومہاجر ووٹ کے نام پر ایک مرتبہ پھر متحد ہونے کی وجہ بھی دیدی ہے ، جس پہ فاروق ستار، بلاول بھٹو زرداری سے اظہار ِ تشکر کرچکے ہیں۔

'' ایک زرداری سب پے بھاری '' والی بات بھی موجودہ تیزی سے بدلتی ملکی سیاسی صورتحال میں اب کہیں دب کر رہ گئی ہے اور آصف زرداری صاحب کے ہاتھوں سے سیاسی پتے ایک ایک کرکے گرائے جارہے ہیں۔ بلاول بھٹو کے ملتان میں خطاب کے ذریعے کھیلا گیا سرائیکی صوبہ بنانے والا پتہ بھی ن لیگ سے مستعفی ہونیوالے سرائیکی رہنماؤں کے ہاتھ میں '' سرائیکی صوبہ اتحاد '' کی صورت میں تھمادیا گیا ہے جب کہ سینیٹ چیئرمین کے انتخابات کے لیے بلوچستان میں کھیلی گئی بازی جیت جانے کے باوجود زرداری اس کا کریڈٹ نہیں اُٹھاسکے اور '' اینٹ سے اینٹ بجانے '' والے بیان کا ملبہ نواز شریف پر گرانے کے باوجود اسٹیبلشمنٹ کے منظور نظر نہیں بن رہے ہیں۔

پی پی پی کی ماضی قریب اور حال میں جاری سرگرمیوں سے واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ بھٹو کی پارٹی کو اب ''طاقت کا سرچشمہ عوام '' نظر نہیں آرہے یعنی پی پی کو اب عوام کے ووٹوں پر بھی شاید اعتماد نہیں رہا ۔ پی پی کا موجودہ گڑھ اندرون سندھ ہے لیکن جہاں اندرون سندھ میں اُسے جی ڈی اے کے تھکے ہوئے مگر تجربہ کار پہلوانوں کا مقابلہ ہے وہیں کراچی میں بھی وقت سے پہلے کھیلے گئے پتوں نے ایم کیو ایم اور دیگر گروپوں کو پی پی پی کے خلاف یکجا کردیا ہے۔ دوسری جانب پی ایس پی ، اے این پی اور مذہبی جماعتوں کو بھی شہ ملی ہے جس سے ایک مرتبہ پھر قومی دھارے کی سیاست سے نکل کر علاقائی و لسانی سیاست کی لپیٹ میں آنے کا خدشہ پیدا کر دیا ہے ۔

ملک میں بڑے عرصے سے دو بڑی جماعتیں(ن لیگ اور پی پی پی) ہی ملک کی جمہوری باگ ڈور سنبھالنے کے لیے تمام دیگر سیاسی پارٹیوں کی قیادت کرتی رہیں ، پھر عمران خان پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے تبدیلی کا نعرہ لگا کر جب میدان میں اُترے تو ملک کی خواتین اور نوجوان بڑی تعداد میں اُن کی طرف کھنچے چلے آئے لیکن 2عشروں کے سیاسی تجربے اور پانچ سالہ کے پی کے کی صوبائی حکومت کے انتظامی تجربے کے باوجود وہ عملی طور پرنہ تو تبدیلی لاسکے ہیں اور نہ ہی تبدیلی کے لیے کوئی واضح پالیسی یا پروگرام دے سکے ہیں۔ 29اپریل کو مینار ِ پاکستان گراؤنڈ میں ڈیڑھ گھنٹے تک اپنے خطاب میں خودثنائی کرکے عمران خان نے ثابت کردیا ہے کہ مصیبتوں کے مارے پاکستانی عوام کو دینے کے لیے اُن کے پاس کچھ بھی نیا نہیں ہے بلکہ نئی ڈبیا میں وہی پرانا چورن بیچنے کی کوشش ہے ۔

موجودہ حکمران جماعت ن لیگ ماضی کی آمر نواز اورحال کی اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور جمہوری چیمپئن جماعت بن گئی ہے ۔پانامہ کیس کے آغاز میں محسوس یہ ہورہا تھا کہ نواز شریف کی فیملی اور ن لیگ کے بوریا بستر اب گول ہونیوالے ہیں مگر نواز شریف کی یکے بعد دیگرے مسلسل 3بار نااہلی کے فیصلوں اور اس پر نواز شریف و ن لیگ کی جانب سے عوامی میدان میں ڈٹ جانے اور سویلین پنجاب کی نمائندگی کی طاقت سے نواز شریف و ن لیگ دنیائے سیاست میں اپنا لوہا منواچکی ہے اور اپنی سیاسی حکمت عملی کی بنیاد پر اسٹیبلشمنٹ سے حالت ِ جنگ میں ہے لیکن تاحال اُ س کے پتے بھی تاش کے ان دو جوکروں کی طرح لگ رہے ہیں جو اضافی ہوتے ہیں اور کسی بھی فریق کو نقصان دینے کے اہل نہیں ہوتے ۔

جب ہم ماضی میں جمہوری و سیاسی قوتوں اور سیاستدانوں کے شعور کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ عالمی دباؤ اور علاقائی طور پر گمبھیر صورتحال ہونے کے باوجود یہاں کے سیاستدانوں نے بڑے پیمانے پر اپنی دور اندیشی کا نہ صرف اظہار کیا بلکہ اس کی بناء پر تاریخ ساز فیصلے بھی کیے ، جیسے : 1929میں قائد اعظم نے اپنے 14نکاتی پروگرام اور بعد ازاں 23مارچ 1940میں قرارداد پاکستان کی صورت میں کیا ، جس کی بناء پر یہ ملک معرض ِ وجود میں آیا۔ اسی تسلسل میں ہم دیکھتے ہیں کہ یہ بھٹو صاحب کے سیاسی شعور ہی کا کمال تھا کہ ملک میں 1973کا آئین بنا ، ایٹمی پروگرام شروع ہوا اورانڈیا کے ساتھ شملہ جیسا مثالی معاہدہ ہوا۔

اس ساری صورتحال کی بنیاد پر تجزیہ کاروں کے مطابق ملک کی جمہوری وسیاسیWill(یعنی قوت ارادی) اب ختم ہوکر رہ گئی ہے اور ملک کی سیاسی بساط کے تمام مہرے اس وقت مکمل طور پر اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہیں۔ اب آئی جے آئی بنانے جیسا کوئی بندوبست ہوتا ہے یا پھر پاکستان نیشنل الائنس (پی این اے ) جیسا کوئی اتحاد بنایا جاتا ہے یہ اُن کے صوابدیدی اختیار پر منحصر ہوگا ۔

ملک میں یہ تجزیے بھی ہورہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کسی بھی تجربہ کار جمہوری و عوامی طاقت کے حامل سیاستدان کی متحمل نہیں ہوسکتی ، جس کے ثبوت کے لیے درج ذیل مثال دی جاتی ہے کہ 1970-71میں جب عوامی طاقت شیخ مجیب کے ساتھ تھی تو اسٹیبلشمنٹ کی پسند بھٹو تھے ، پھر جب 1977میں عوام بھٹو کے ساتھ تھے تو اُن کی پسند و حمایت پی این اے کے ساتھ تھی ، عوام جب بے نظیر بھٹو کے ساتھ تھے تو اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے پسند و سرپرستی آئی جے آئی یعنی نواز شریف کی گئی اور اب جب عوام نواز شریف کے ساتھ ہیں تو یہ عمران خان و دیگر گروہوں کی جانب جھکاؤ رکھتی نظر آتی ہے ۔ لیکن ایک بات تو واضح ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ سیاسی اکھاڑہ سجاتی بھی ہے تو اس میں اترنے اور کھیلنے والے پہلوان تو بہرحال یہی سیاستدان ہوتے ہیں۔

ملک میں عام چہ میگوئیاں اور تجزیے یہ بھی ہیں کہ 2018میں آنیوالا الیکشن 1977کے انتخابات کی طرح خطرناک اور خونی الیکشن ہوگا جس میں غیر سیاسی قوتیں اپنے من پسند لوگوں و جماعتوں کو کامیاب کرانے کے لیے ابھی سے اپنے حربے استعمال کررہی ہیں ۔ اس لیے تمام سیاسی و جمہوری قوتوں کو چاہیے کہ حالات کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے اپنی تعظیم ،جمہوریت کی بقا اور '' ملک کے وسیع تر مفادمیں '' یکجا و یک آواز ہوکر اپنی خودارادی کا اظہار کریں ، بصورت ِ دیگر ملک میں جمہوریت کی بساط ہمیشہ یونہی پلٹی جاتی رہے گی اور منتخب وزیر اعظم کو ہٹانے ، پھانسی چڑھانے ، ملک بدر کرنے ، جیل بھیجنے اور نااہل قرار دینے کا سلسلہ اسی طرح اپنی آب و تاب سے چلتا رہے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں