پولیس کی ناقص کارکردگی کے باعث شہری قانون اپنے ہاتھ میں لینے لگے
فائرنگ کیس میں پولیس نے دو افراد کو بے گناہ قرار دیا تو مدعی پارٹی نے ان کا رشتہ دار قتل کر دیا
کسی بھی حکومت کی کارکردگی کا اندازہ اس ملک میں امن وامان کی صورت حال سے باآسانی لگایا جا سکتا ہے اور جس حکومتی دور میں اس کے ایک اپنے ڈیپارٹمنٹ یعنی پولیس کی وجہ سے قتل و غارت ہو رہی ہو تو اس پر افسوس کے سوا کچھ نہیں کیا جا سکتا۔
موجودہ دورہ حکومت کے پانچ سال میں محکمہ پولیس اس قدر بے لگام ہو چکا ہے کہ انہیں نہ تو احساس ذمہ داری ہے اور نہ ہی کسی کا خوف۔ اور اس کی بنیادی وجہ ضلعی سطح پر افسروں کی سیاسی تعیناتیاں ہیں۔ یہ افسر ریاست کے ملازم اور عوام کے محافظ بننے کے بجائے اپنے سیاسی آقاوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ایسے غلط کام کر رہے ہیںکہ انہیں عوام کے جان و مال کی کوئی پرواہ نہیں۔
افسروں کی دیکھا دیکھی ان کے ماتحت کام کرنے والے چھوٹے افسران بھی رشوت ستانی اور سفارشات کے بل بوتے پر ظالموں کو تحفظ فراہم کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ مظلوموں کو انصاف دینے کے بجائے انہیں دبایا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں مظلوم، ظالموں سے انتقام لینے کے لئے قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
ضلع چکوال کے اکثر تھانوں میں مظلوموں کو انصاف نہیں مل رہا، ان میں سر فہرست تھانہ صدر چکوال ہے، یہ علاقہ جرائم پیشہ ور عناصر اور قاتلوں کی آما جگاہ بنا ہوا ہے، یہاں قتل و غارت گری کی وارداتیں آئے روز کا معمول بن چکی ہیں اور عوام عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ضلع چکوال میں تعینات سابق ضلعی پولیس افسر کے دور میں امن و امان کی صورتحال انہتائی ناقص رہی۔
ستم ظریفی تو دیکھیں کہ موصوف عوام اور حکمرانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے کھلی کچہریاں لگاتے تھے، لیکن مظلوم کو انصاف فراہم کرنے کے لئے ان کے دور میں کوئی ٹھوس کوشش نہیں کی گئی۔ انصاف کی عدم فراہمی متاثرہ فرد کو مایوسی اور انتقام کی آگ میں جھونک دیتی، جس کا نتیجہ پھر متاثرہ شخص خود نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔
اس طرح کی ایک خونی واردات تھانہ صدر چکوال کے علاقہ موضع کھیوال میں ہوئی، جہاں 24 جنوری 2018 کو دن دیہاڑے تین ملزمان نے ایک شخص نور حسن کو گولیاں مار کر چھلنی کر دیا اور موقع سے فرار ہو گئے۔ ریسکیو 1122 کی ٹیم نے موقع پر پہنچ کر زخمی نور حسن کو اٹھا کر ڈی ایچ کیو ہسپتال پہنچایا، جہاں ڈاکٹروں نے انتھک محنت کر کے اس کی جان تو بچا لی لیکن وہ عمر بھر کے لئے معذور ہو گیا۔
تھانہ صدر پولیس نے مدعی کی درخواست پر تین ملزمان شمریز ولد اللہ داد، مشتاق حسین ولد فتح حیدر اور اس کے بیٹے اسد مشتاق کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ در ج کر لیا، لیکن بعد ازاں متعلقہ تھانہ کے ایس ایچ او اور تفتیشی افسر نے ''چمک'' کے زور پر مشتاق حسین ولد فتح حیدر اور اس کے بیٹے اسد مشتاق کو بے گناہ قرار دے کر مقدمہ سے نکلوا دیا جبکہ ایک ملزم شمریز ولد اللہ داد کا چالان کر دیا گیا۔ اس صورت حال پر مدعی نور حسن اور اس کے عزیز واقارب سخت رنجیدہ ہوئے اور انہوں نے ملزمان سے بدلہ لینے کی ٹھان لی۔
مذکورہ واقعہ کے تقریباً 2 ماہ بعد 29 مارچ کو مدعی پارٹی کے دو نوجوانوں زوہیب اور وقاص نے بے گناہ قرار دیئے جانے والے ملزمان کے رشتہ دار مستنصر کو دن دیہاڑے گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ واقعہ کے روز مستنصر اپنے ٹریکٹر پر سوار ہو کر گھر جا رہا تھا کہ راستے میں زوہیب اور وقاص سے اس کا ٹاکرا ہو گیا۔ قاتلوں نے مستنصر سے پوچھا کہ مشتاق اور اس کا بیٹا کہاں ہے؟
جس پر اس نے کہا کہ ''مجھے معلوم نہیں، لیکن تم لوگ مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہو؟ اگر اس قدر بہادر ہو تو جاؤ ان کے گھر جاکر اپنا بدلہ لے لو'' اس بات پر دونوں ملزمان طیش میں آ گئے اور انہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ ''ہم تمہارے خاندان کو نشان عبرت بنا دیں گے'' مستنصر پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی، جس سے وہ موقع پر ہی ڈھیر ہو گیا جبکہ ملزمان موٹر سائیکل پر سوار ہو کر موقع سے فرار ہو گئے۔ ملزم جائے وقوعہ سے فرار ہوئے باآواز بلند یہ کہتے رہے کہ وہ پولیس کو گرفتاری اس وقت ہی دیں گے جب وہ مشتاق اور اس کے بیٹے کو ختم کر لیں گے۔
اگرچہ پولیس بھی تاحال ملزمان کو گرفتار کرنے میں ناکام ہے، لیکن بنیادی نقطہ یہ ہے کہ اگر پولیس انصاف کے تقاضے پورے کئے بغیر ملزمان کو بے گناہ قرار نہ دیتی تو شائد ایک قیمتی جان ضائع ہوتی نہ دو افراد قاتل بنتے۔ پولیس کی نااہلی اور رشوت کے زور پر ملزمان کا بے گناہ قرار دینے سے قتل و غارت گری کا نہ تھمنے والاسلسلہ شروع ہو چکا ہے اور نہ جانے یہ کتنی انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بنے گا۔ قاتلوں کے گرفتار نہ ہونے کی وجہ سے جہاں دو خاندانوں کے درمیان دشمنی شروع ہو چکی ہے وہاں اہل علاقہ کے عوام میں بھی خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے۔
علاقہ کے باسیوں نے اعلی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ ملزمان کو گرفتار کر کے فریقین کے خاندانوں اور عوام کا تحفظ یقینی بنایا جائے ۔ حکومت کی طرف سے ضلع چکوال میں ذوالفقار احمد کی بطور ڈی پی او نئی تعینات عمل میں لائی گئی ہے، جس کے بعد شہری اس بات کی توقع کر رہے ہیں کہ نئے ڈی پی او قانون کی عملدآری یقینی بناتے ہوئے مظلوموں کو انصاف فراہم کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کریں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں پولیس میں چھپی کالی بھیڑوں کے گرد بھی شکنجہ کسنا ہے تاکہ عوام کا پولیس پر اعتماد بحال ہو سکے۔
موجودہ دورہ حکومت کے پانچ سال میں محکمہ پولیس اس قدر بے لگام ہو چکا ہے کہ انہیں نہ تو احساس ذمہ داری ہے اور نہ ہی کسی کا خوف۔ اور اس کی بنیادی وجہ ضلعی سطح پر افسروں کی سیاسی تعیناتیاں ہیں۔ یہ افسر ریاست کے ملازم اور عوام کے محافظ بننے کے بجائے اپنے سیاسی آقاوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ایسے غلط کام کر رہے ہیںکہ انہیں عوام کے جان و مال کی کوئی پرواہ نہیں۔
افسروں کی دیکھا دیکھی ان کے ماتحت کام کرنے والے چھوٹے افسران بھی رشوت ستانی اور سفارشات کے بل بوتے پر ظالموں کو تحفظ فراہم کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ مظلوموں کو انصاف دینے کے بجائے انہیں دبایا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں مظلوم، ظالموں سے انتقام لینے کے لئے قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
ضلع چکوال کے اکثر تھانوں میں مظلوموں کو انصاف نہیں مل رہا، ان میں سر فہرست تھانہ صدر چکوال ہے، یہ علاقہ جرائم پیشہ ور عناصر اور قاتلوں کی آما جگاہ بنا ہوا ہے، یہاں قتل و غارت گری کی وارداتیں آئے روز کا معمول بن چکی ہیں اور عوام عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ضلع چکوال میں تعینات سابق ضلعی پولیس افسر کے دور میں امن و امان کی صورتحال انہتائی ناقص رہی۔
ستم ظریفی تو دیکھیں کہ موصوف عوام اور حکمرانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے کھلی کچہریاں لگاتے تھے، لیکن مظلوم کو انصاف فراہم کرنے کے لئے ان کے دور میں کوئی ٹھوس کوشش نہیں کی گئی۔ انصاف کی عدم فراہمی متاثرہ فرد کو مایوسی اور انتقام کی آگ میں جھونک دیتی، جس کا نتیجہ پھر متاثرہ شخص خود نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔
اس طرح کی ایک خونی واردات تھانہ صدر چکوال کے علاقہ موضع کھیوال میں ہوئی، جہاں 24 جنوری 2018 کو دن دیہاڑے تین ملزمان نے ایک شخص نور حسن کو گولیاں مار کر چھلنی کر دیا اور موقع سے فرار ہو گئے۔ ریسکیو 1122 کی ٹیم نے موقع پر پہنچ کر زخمی نور حسن کو اٹھا کر ڈی ایچ کیو ہسپتال پہنچایا، جہاں ڈاکٹروں نے انتھک محنت کر کے اس کی جان تو بچا لی لیکن وہ عمر بھر کے لئے معذور ہو گیا۔
تھانہ صدر پولیس نے مدعی کی درخواست پر تین ملزمان شمریز ولد اللہ داد، مشتاق حسین ولد فتح حیدر اور اس کے بیٹے اسد مشتاق کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ در ج کر لیا، لیکن بعد ازاں متعلقہ تھانہ کے ایس ایچ او اور تفتیشی افسر نے ''چمک'' کے زور پر مشتاق حسین ولد فتح حیدر اور اس کے بیٹے اسد مشتاق کو بے گناہ قرار دے کر مقدمہ سے نکلوا دیا جبکہ ایک ملزم شمریز ولد اللہ داد کا چالان کر دیا گیا۔ اس صورت حال پر مدعی نور حسن اور اس کے عزیز واقارب سخت رنجیدہ ہوئے اور انہوں نے ملزمان سے بدلہ لینے کی ٹھان لی۔
مذکورہ واقعہ کے تقریباً 2 ماہ بعد 29 مارچ کو مدعی پارٹی کے دو نوجوانوں زوہیب اور وقاص نے بے گناہ قرار دیئے جانے والے ملزمان کے رشتہ دار مستنصر کو دن دیہاڑے گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ واقعہ کے روز مستنصر اپنے ٹریکٹر پر سوار ہو کر گھر جا رہا تھا کہ راستے میں زوہیب اور وقاص سے اس کا ٹاکرا ہو گیا۔ قاتلوں نے مستنصر سے پوچھا کہ مشتاق اور اس کا بیٹا کہاں ہے؟
جس پر اس نے کہا کہ ''مجھے معلوم نہیں، لیکن تم لوگ مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہو؟ اگر اس قدر بہادر ہو تو جاؤ ان کے گھر جاکر اپنا بدلہ لے لو'' اس بات پر دونوں ملزمان طیش میں آ گئے اور انہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ ''ہم تمہارے خاندان کو نشان عبرت بنا دیں گے'' مستنصر پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی، جس سے وہ موقع پر ہی ڈھیر ہو گیا جبکہ ملزمان موٹر سائیکل پر سوار ہو کر موقع سے فرار ہو گئے۔ ملزم جائے وقوعہ سے فرار ہوئے باآواز بلند یہ کہتے رہے کہ وہ پولیس کو گرفتاری اس وقت ہی دیں گے جب وہ مشتاق اور اس کے بیٹے کو ختم کر لیں گے۔
اگرچہ پولیس بھی تاحال ملزمان کو گرفتار کرنے میں ناکام ہے، لیکن بنیادی نقطہ یہ ہے کہ اگر پولیس انصاف کے تقاضے پورے کئے بغیر ملزمان کو بے گناہ قرار نہ دیتی تو شائد ایک قیمتی جان ضائع ہوتی نہ دو افراد قاتل بنتے۔ پولیس کی نااہلی اور رشوت کے زور پر ملزمان کا بے گناہ قرار دینے سے قتل و غارت گری کا نہ تھمنے والاسلسلہ شروع ہو چکا ہے اور نہ جانے یہ کتنی انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بنے گا۔ قاتلوں کے گرفتار نہ ہونے کی وجہ سے جہاں دو خاندانوں کے درمیان دشمنی شروع ہو چکی ہے وہاں اہل علاقہ کے عوام میں بھی خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے۔
علاقہ کے باسیوں نے اعلی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ ملزمان کو گرفتار کر کے فریقین کے خاندانوں اور عوام کا تحفظ یقینی بنایا جائے ۔ حکومت کی طرف سے ضلع چکوال میں ذوالفقار احمد کی بطور ڈی پی او نئی تعینات عمل میں لائی گئی ہے، جس کے بعد شہری اس بات کی توقع کر رہے ہیں کہ نئے ڈی پی او قانون کی عملدآری یقینی بناتے ہوئے مظلوموں کو انصاف فراہم کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کریں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں پولیس میں چھپی کالی بھیڑوں کے گرد بھی شکنجہ کسنا ہے تاکہ عوام کا پولیس پر اعتماد بحال ہو سکے۔