جرگوں کے غیر قانونی فیصلے کراچی میں بھی نافذ کیے جانے لگے
کراچی میں بچیوں کو ونی قرار دینا والدین کی مرضی کے خلاف شادی کرنے پر قتل جیسے سنگین جرائم کا ارتکاب کیا جاتا ہے
GLASGOW:
جرگوں کے فیصلے قبائل علاقوں کے بعد کراچی میں نافذ کیے جانے لگے جب کہ جرگے کے فیصلوں میں سنگین جرائم کا ارتکاب ہورہا ہے۔
جرگے کے فیصلوں پر پولیس کا بھی سرخم ہے، جرگے میں پسند کی شادی کرنے والوں کیلیے قتل کا فیصلہ کیاجاتا ہے، لڑکے اور لڑکی کے بھائیوں اور والدین کوغیرت کی آڑ میں قتل پر اکسایا جاتا، دیگر معاملات میں بھاری رقوم کا جرمانہ عاید کیا جاتا ہے، بچیوں کو ونی قرار دینا والدین کی مرضی کے خلاف شادی کرنے پر قتل جیسے سنگین جرائم کا ارتکاب کیا جاتاہے۔
شہر کے متعدد علاقوں میں قبائلی علاقوں کی طرح جرگہ سسٹم عروج پر پہنچ گیا ،جرگے کے فیصلوں پر متعدد جوڑوں کو قتل کر دیا گیا ، ایسے ہی جرگے کے فیصلے پر 3 روز قبل سپرہائی وے صنعتی ایریا کے علاقے میں واقع سکھیہ گوٹھ میں فائرنگ کرکے پسند کی شادی کرنے والے میاں بیوی عامر سہیل اور مخ تالبہ کو قتل کردیا گیا،جرگے کے ایک رکن نوشیروان کی گرفتاری کے بعد عدالت کے روبرو اصل حقائق سامنے آئے ہیں۔
مقتول عامر سہیل مقتولہ کے گھر کے سامنے واقع گارمنٹ فیکٹری میں الیکٹریشن تھا،اسی دوران اس کی ملاقات مخ تالبہ سے ہوئی تھی بعدازاں دو ڈھائی سال قبل دونوں نے اپنی مرضی سے کورٹ میرج کرلی تھی،مسلم آباد کے علاقے مومن آباد میں رہائشی اختیار کرلی تھی ،مقتول عامر سہیل نے الیکٹریشن کا کام چھوڑ کر رکشہ چلانا شروع کر دیا تھا۔
اس دوران متعدد بار مقتولہ کو اس کے بھائی نوشیروان اور والد ودیگر کی جانب سے سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جارہی تھی جس پر مختالبہ نے اپنے بھائی ودیگر کے خلاف تھانہ مومن آباد میں درخواست دی تھی لیکن پولیس نے ملزمان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔
معاملے کو جرگہ کے حوالے کردیا گیا جرگے میں بظاہر صلح ہوئی جرگے میں مقتول کی بہن کا رشتہ مقتولہ کے بھائی کو دینے پر فیصلہ ہوا لیکن خفیہ طور پر جرگے کے سربراہ مقتولہ کے والد ودیگر نے دونوں میاں بیوی کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا جس پر مقتول کے سالے نے بظاہر ناراضگی ختم کر کے بہن اور بہنوئی کے گھر آنا جانا شروع کر دیا تھا ،بہن اور بہنوئی کا اعتماد حاصل کرنے کے بعد ملزم شیروان نے انھیں گھر آنے کی دعوت دے دی۔
گزشتہ روز میاں بیوی پہلی بار سسرال پہنچے تو فیصلے کے مطابق انھیں واپسی پر قتل کر دیا گیا اگر تھانہ مومن آباد مقتولہ کی درخواست پر کارروائی کرتی اور ان کے خلاف مقدمہ درج کر کے عدالت میں پیش کرتی تو معاملہ یہ نہیں ہوتا۔
پسند کی شادی پر بھائی کی 2 بچیوں کو ونی قرار دیا
فرنٹیئر کالونی کے علاقے میں خاتون یاسمین کے دیور نے پسند کی شادی کی تھی جس پر جرگے میں بھاری رقم کا جرمانہ عائد کیا ، بہن نہ ہونے کے باعث بھائی کی دو بچیوں کو ونی قرار دیا اور بچیاں چھین لی گئیں تھیں۔
بچیوں کی والدہ یاسمین نے عدالت سے رجوع کیا، عدالت نے علاقہ غیر سے بچیوں کو بازیاب کراکے طلب کیا اور بچیوں کو ماں کے حوالے کیا تھا، حال ہی میں مومن آباد کے علاقے میں پولیس اہلکاروں نے فائرنگ کرکے 12 سالہ ریحان کو قتل کر دیا تھا۔
پولیس کے اعلیٰ حکام کے حکم پر چار پولیس اہلکاروں کو گرفتار کر لیا تھا ،ابھی مقدمہ ابتدائی مراحل میں تھا کہ پولیس کی نگرانی میں جرگہ ہوا اور مقتول کے والد پر دباؤ ڈال کر مصالحت پر آمادہ کرلیا جس پر مقتول کے والد نے عدالت میں مصالحت کی،درخواست دائر کی، عدالت کا کہنا تھا کہ مقدمہ ابتدائی مراحل میں ہے، سیشن عدالت سے رجوع کرنے کی ہدایت کی۔
جرگے کے فیصلے پرعمل ،میاں بیوی کو کرنٹ لگایا گیا
اگست 2017 میں ابراہیم حیدری کے علاقے میں غنی الرحمن اور تاج بی بی کوقتل کیا گیا تھا دونوں مقتولین کے اہل خانہ ان سے ناراض تھے دونوں کا قتل جرگے کے فیصلے کے بعد کیا گیا 30 سے 35 افراد کی موجودگی میںجرگہ ہوا ،جرگے میں لڑکے اورلڑکی کے والدین بھی موجود تھے جرگہ میں فیصلہ ہوا کہ لڑکی کو اس کے والدین کرنٹ لگا کر قتل کریں گے۔
لڑکے کے والدین لڑکے کو کرنٹ لگا کرقتل کریں گے، جرگے کے فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے جرگے کے اراکین نے انھیں کرنٹ لگا کر قتل کردیا تھا،معاملہ سامنے آنے کے بعد عدالت نے سخت نوٹس لیا اور ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا جس کے بعد پولیس نے جرگے کے اراکین حکمت خان، زرخطاب خان، محمد افضل، شیر افضل گرفتار کر لیا۔
پولیس نے جرگے کے سربراہ سے ساز باز کی واردات میں ملوث سرتاج، لال رحمن، تاج محمد اور جان محمد کو گرفتاری کے بعد بے گناہ قرار دیا ،پولیس نے مقدمے میں گرفتار 4 ملزمان کو بے گناہ قرار دینے کی رپورٹ جمع کرائی، عدالت نے4ملزمان کو بے گناہ قرار دینے کی رپورٹ مسترد کردی،عدالت نے چاروں ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے۔
پولیس کے اعلیٰ حکام کے حکم پر مقدمہ شاہ لطیف ٹاون منتقل کردیا گیا جرگہ کے سربراہ نے عبوری ضمانت قبل ازیں کرالی تھی مقتولین نے شادی کے بعد تھانے کو بھی آگاہ کیا تھا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے لیکن پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔
جرگوں کے فیصلے قبائل علاقوں کے بعد کراچی میں نافذ کیے جانے لگے جب کہ جرگے کے فیصلوں میں سنگین جرائم کا ارتکاب ہورہا ہے۔
جرگے کے فیصلوں پر پولیس کا بھی سرخم ہے، جرگے میں پسند کی شادی کرنے والوں کیلیے قتل کا فیصلہ کیاجاتا ہے، لڑکے اور لڑکی کے بھائیوں اور والدین کوغیرت کی آڑ میں قتل پر اکسایا جاتا، دیگر معاملات میں بھاری رقوم کا جرمانہ عاید کیا جاتا ہے، بچیوں کو ونی قرار دینا والدین کی مرضی کے خلاف شادی کرنے پر قتل جیسے سنگین جرائم کا ارتکاب کیا جاتاہے۔
شہر کے متعدد علاقوں میں قبائلی علاقوں کی طرح جرگہ سسٹم عروج پر پہنچ گیا ،جرگے کے فیصلوں پر متعدد جوڑوں کو قتل کر دیا گیا ، ایسے ہی جرگے کے فیصلے پر 3 روز قبل سپرہائی وے صنعتی ایریا کے علاقے میں واقع سکھیہ گوٹھ میں فائرنگ کرکے پسند کی شادی کرنے والے میاں بیوی عامر سہیل اور مخ تالبہ کو قتل کردیا گیا،جرگے کے ایک رکن نوشیروان کی گرفتاری کے بعد عدالت کے روبرو اصل حقائق سامنے آئے ہیں۔
مقتول عامر سہیل مقتولہ کے گھر کے سامنے واقع گارمنٹ فیکٹری میں الیکٹریشن تھا،اسی دوران اس کی ملاقات مخ تالبہ سے ہوئی تھی بعدازاں دو ڈھائی سال قبل دونوں نے اپنی مرضی سے کورٹ میرج کرلی تھی،مسلم آباد کے علاقے مومن آباد میں رہائشی اختیار کرلی تھی ،مقتول عامر سہیل نے الیکٹریشن کا کام چھوڑ کر رکشہ چلانا شروع کر دیا تھا۔
اس دوران متعدد بار مقتولہ کو اس کے بھائی نوشیروان اور والد ودیگر کی جانب سے سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جارہی تھی جس پر مختالبہ نے اپنے بھائی ودیگر کے خلاف تھانہ مومن آباد میں درخواست دی تھی لیکن پولیس نے ملزمان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔
معاملے کو جرگہ کے حوالے کردیا گیا جرگے میں بظاہر صلح ہوئی جرگے میں مقتول کی بہن کا رشتہ مقتولہ کے بھائی کو دینے پر فیصلہ ہوا لیکن خفیہ طور پر جرگے کے سربراہ مقتولہ کے والد ودیگر نے دونوں میاں بیوی کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا جس پر مقتول کے سالے نے بظاہر ناراضگی ختم کر کے بہن اور بہنوئی کے گھر آنا جانا شروع کر دیا تھا ،بہن اور بہنوئی کا اعتماد حاصل کرنے کے بعد ملزم شیروان نے انھیں گھر آنے کی دعوت دے دی۔
گزشتہ روز میاں بیوی پہلی بار سسرال پہنچے تو فیصلے کے مطابق انھیں واپسی پر قتل کر دیا گیا اگر تھانہ مومن آباد مقتولہ کی درخواست پر کارروائی کرتی اور ان کے خلاف مقدمہ درج کر کے عدالت میں پیش کرتی تو معاملہ یہ نہیں ہوتا۔
پسند کی شادی پر بھائی کی 2 بچیوں کو ونی قرار دیا
فرنٹیئر کالونی کے علاقے میں خاتون یاسمین کے دیور نے پسند کی شادی کی تھی جس پر جرگے میں بھاری رقم کا جرمانہ عائد کیا ، بہن نہ ہونے کے باعث بھائی کی دو بچیوں کو ونی قرار دیا اور بچیاں چھین لی گئیں تھیں۔
بچیوں کی والدہ یاسمین نے عدالت سے رجوع کیا، عدالت نے علاقہ غیر سے بچیوں کو بازیاب کراکے طلب کیا اور بچیوں کو ماں کے حوالے کیا تھا، حال ہی میں مومن آباد کے علاقے میں پولیس اہلکاروں نے فائرنگ کرکے 12 سالہ ریحان کو قتل کر دیا تھا۔
پولیس کے اعلیٰ حکام کے حکم پر چار پولیس اہلکاروں کو گرفتار کر لیا تھا ،ابھی مقدمہ ابتدائی مراحل میں تھا کہ پولیس کی نگرانی میں جرگہ ہوا اور مقتول کے والد پر دباؤ ڈال کر مصالحت پر آمادہ کرلیا جس پر مقتول کے والد نے عدالت میں مصالحت کی،درخواست دائر کی، عدالت کا کہنا تھا کہ مقدمہ ابتدائی مراحل میں ہے، سیشن عدالت سے رجوع کرنے کی ہدایت کی۔
جرگے کے فیصلے پرعمل ،میاں بیوی کو کرنٹ لگایا گیا
اگست 2017 میں ابراہیم حیدری کے علاقے میں غنی الرحمن اور تاج بی بی کوقتل کیا گیا تھا دونوں مقتولین کے اہل خانہ ان سے ناراض تھے دونوں کا قتل جرگے کے فیصلے کے بعد کیا گیا 30 سے 35 افراد کی موجودگی میںجرگہ ہوا ،جرگے میں لڑکے اورلڑکی کے والدین بھی موجود تھے جرگہ میں فیصلہ ہوا کہ لڑکی کو اس کے والدین کرنٹ لگا کر قتل کریں گے۔
لڑکے کے والدین لڑکے کو کرنٹ لگا کرقتل کریں گے، جرگے کے فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے جرگے کے اراکین نے انھیں کرنٹ لگا کر قتل کردیا تھا،معاملہ سامنے آنے کے بعد عدالت نے سخت نوٹس لیا اور ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا جس کے بعد پولیس نے جرگے کے اراکین حکمت خان، زرخطاب خان، محمد افضل، شیر افضل گرفتار کر لیا۔
پولیس نے جرگے کے سربراہ سے ساز باز کی واردات میں ملوث سرتاج، لال رحمن، تاج محمد اور جان محمد کو گرفتاری کے بعد بے گناہ قرار دیا ،پولیس نے مقدمے میں گرفتار 4 ملزمان کو بے گناہ قرار دینے کی رپورٹ جمع کرائی، عدالت نے4ملزمان کو بے گناہ قرار دینے کی رپورٹ مسترد کردی،عدالت نے چاروں ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے۔
پولیس کے اعلیٰ حکام کے حکم پر مقدمہ شاہ لطیف ٹاون منتقل کردیا گیا جرگہ کے سربراہ نے عبوری ضمانت قبل ازیں کرالی تھی مقتولین نے شادی کے بعد تھانے کو بھی آگاہ کیا تھا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے لیکن پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔