شہباز شریف سیاسی پل صراط پر

شہباز شریف کی سیاسی گفتگو میں تناؤ اور محاذ آرائی نہیں ہے۔ وہ اداروں کو ٹارگٹ نہیں کر رہے ہیں۔

msuherwardy@gmail.com

مسلم لیگ (ن) تذبذب کا شکار ہے۔ نواز شریف محاذ آرائی سے باز نہیں آرہے۔ شہباز شریف تحمل برد باری اور حکمت سے راستہ بنانے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ مریم نوا ز اداروں سے ٹکراؤ کا ماحول بنارہی ہیں۔ شہباز شریف ٹکراؤ اور محاذ آرائی کی آگ پر پانی ڈال کر اس کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

شاہد خاقان عباسی بھی ریڈ لائن کراس کر رہے ہیں، شہباز شریف اب بھی مل کر چلنے کی بات کر رہے ہیں۔ لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ شہباز شریف نے ایک سیاسی سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کیا ہے۔ انھوں نے نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) سے بے وفائی بھی نہیں کی ہے،اختلا ف بھی واضح کیا ہے۔ انھوں نے اداروں کا احترام بھی کیا ہے لیکن قیادت سے انحراف بھی نہیں کیا ہے۔ شاید چوہدری نثار علی خان کو شہباز شریف سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ شہباز شریف پر دباؤ نہیں ہے۔ اس وقت پنجاب فوکس ہے۔ عدلیہ کے سو موٹو کی اکثریت بھی پنجاب میں نظر آرہی ہیں۔ نیب کا بھی پنجاب پر فوکس نظر آر ہا ہے ۔ پنجاب کے چھوٹے سے چھوٹے معاملہ کو بھی بڑا بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پنجاب کی بیوروکریسی بھی دباؤ کا شکار ہے۔ پنجاب حکومت بھی دباؤ میں نظر آرہی ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ سوموٹو غلط ہیں۔

یہ درست ہیں عوامی فلاح و بہبود کے ہیں لیکن پھر بھی ایسا لگ رہا ہے کہ پنجاب پر ہاتھ سخت ہے۔ شاید شہباز شریف پرہاتھ سخت ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود شہباز شریف محاذ آرائی سے پرہیز کر رہے ہیں۔انھوں نے عدلیہ کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا۔ کسی خلائی مخلوق کا بھی ذکر نہیں کیا۔ وہ مسلم لیگ (ن) کے صدر ہیں۔ انھوں نے ہی مسلم لیگ (ن) کی پالیسی بنانی ہے۔ لیکن شایدابھی ایسا نظر نہیں آرہا۔ میرے دوست تاحال شہباز شریف کی پالیسی کو مسلم لیگ (ن) کی پالیسی ماننے کو تیار نہیں۔

شاید شہباز شریف یہ سبق سمجھانے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیںکہ مسلم لیگ (ن) کا ہد ف اداروں سے لڑنا نہیں ہے بلکہ الیکشن لڑنا ہے اور جیتنا ہے۔ اگر اداروں سے ٹکراؤ میں الیکشن ہار جاتے ہیں تو کوئی فائدہ نہیں۔ اور اگر حالات کو نارمل رکھ کر الیکشن میں جیت کی راہ نکلتی ہے تو اس میں فائدہ ہی فائدہ ہے۔

یہ درست ہے کہ اداروں کو اپنی کارروائیوں میں تمام صوبوں میں برابری کا تناسب برقرار رکھنا چاہیے تھا۔ اس سے قبل مخصوص حالات میں سندھ کو فوکس کیا گیا تو آصف زرداری جو اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ شیرو شکر ہوچکے ہیں تب اینٹ سے اینٹ بجانے پرآگئے تھے۔ آج جب فوکس پنجاب پر ہے تو نواز شریف کا گروپ بھی اینٹ سے اینٹ بجانے پر آگیا ہے۔

دیکھا جائے تو آصف زرداری اور نواز شریف نے مخصوص حالات میں ایک جیسے رد عمل کا ہی اظہار کیا ہے۔ دونوں کی سوچ اور حکمت عملی ایک ہی نظر آرہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آصف زرداری نے جب اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کی تو الیکشن دور تھے اورانھیں اپنے معاملات سمیٹنے کا وقت مل گیا جب کہ نواز شریف کے پاس وقت نہیں ہے اور الیکشن سر پر ہیں۔


آصف زرداری نے ملک سے باہر جا کر ماحول کو ٹھنڈا کر دیا تھا جب کہ نواز شریف نے بیرون ملک جانے کی آپشن کو قبول نہیں کیا۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو یہ ایک بہترین حل تھا۔ اگر حسین نواز اور حسن نواز کی طرح کم از کم مریم نواز تو باہر رہ سکتی تھیں۔ نواز شریف کے بھی باہر رہنے سے ووٹ بینک پر کوئی اثر نہیں پڑنا تھا۔ یہ منطق فضول ہے کہ ووٹ بینک گِر جانا تھا۔

مجھے کیوں نکالا نے ووٹ بینک کوکوئی خاص متحرک نہیں کیا۔ مجھے کیوں نکالا کا کراچی میں کوئی اثر نہیں بلکہ شہباز شریف کے کاموں کا کراچی میں زیادہ چرچا نظر آرہا ہے۔ بلوچستا ن میں کوئی اثر نہیں۔ کے پی کے میں بھی کوئی خاص اثر نہیں۔پنجاب میں تو پہلے بھی ن لیگ جیت رہی تھی، اب بھی جیت رہی ہے۔ اس لیے محاذ آرائی اور مجھے کیوں نکالا نے نواز شریف کے ذاتی غصہ کو تو تسکین دی ہو گی لیکن سیاسی فائدہ نہیں دیا ۔

پہلے بھی شہباز شریف کو صدر بنانے میں دیر کی گئی۔ میں یہاں بھی سمجھتا ہوں کہ شہباز شریف نے وزیر اعظم کا عہدہ قبول نہ کر کے شاید ٹھیک نہیں کیا کیونکہ شاہد خاقان عباسی بھی سنگل ٹریک ہی ہو گئے ہیں۔ اگر ان کی جگہ آج شہباز شریف وزیر اعظم ہوتے تو حالات بہتر ہو سکتے تھے۔ تا ہم اگر نا اہلی کے فورا بعد شہباز شریف کو کمان دے دی جاتی تو آج اس کے ثمرات سامنے آنے والے ہوتے۔

آخر شہباز شریف کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ اب ن لیگ کی کمان کافی حد تک شہباز شریف کو منتقل ہو چکی ہے۔ جماعت کے بڑے فیصلے وہ خود کر رہے ہیں۔ لیکن پھر بھی ایک ابہام موجود ہے ۔ جب شہباز شریف کا بیانیہ ہی مسلم لیگ (ن) کا بیانیہ بن جائے گا تب ہی اس بیانیہ کے فوائد سامنے آئیں گے۔ آجکل بھی دیکھیں۔ شہباز شریف لیہ، وہاڑی، رحیم یار خان میں صحت کی بہترین سہولیات کاافتتاح کر رہے ہیں۔ شہباز شریف جنوبی پنجاب میں اپنے کاموں سے شاید جنوپی پنجاب محاذ کا بھی مقابلہ کر رہے ہیں۔ یہ بھی سوچی سمجھی سیاسی حکمت عملی ہے۔

شہباز شریف کی سیاسی گفتگو میں تناؤ اور محاذ آرائی نہیں ہے۔ وہ اداروں کو ٹارگٹ نہیں کر رہے ہیں۔ وہ اپنے سیاسی مخالفین کو ٹارگٹ کر رہے ہیں۔ انھیں علم ہے کہ الیکشن میں انہی سیاسی مخالفین سے مقابلہ ہونا ہے،کسی خلائی مخلوق یا نادیدہ قوتوں کے خلاف ووٹ نہیں مانگے جا سکتے۔ اس لیے اسی کو ٹارگٹ رکھیں جس کے خلاف ووٹ مانگنے ہیں۔

بیلٹ پیپر اور ووٹ کی پرچی پر کسی نادیدہ قوت اور خلائی مخلوق کا نام نہیں ہونا۔ اس لیے اگر جن سے میدان میں مقابلہ ہے اسی کو ٹارگٹ رکھیں۔ لیکن شاید شہباز شریف کی یہ بات ان کی اپنی جماعت کے ذمے داران کی سمجھ میں ہی نہیں آرہی۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ شہباز شریف سیاسی طورپر ایک پل صراط پر چل رہے ہیں۔ وہ محاذ آرائی کی پالیسی سے انحراف بھی کر رہے ہیں لیکن ساتھ بھی ہیں۔ موجودہ ماحول میں یہ ایک ناممکن کام ہے۔ لیکن سیاست میں ناممکن کو ممکن بنانا ہی اصل کام ہے۔

مجھے ایسا لگتا ہے کہ شہباز شریف کا پیغام محبت اور دوستی نادیدہ قوتوں اور خلائی مخلوق کو پہنچ رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ ابھی تک اس کا مثبت جواب نہیں آرہا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ بات پہنچ نہیں رہی۔ بات سمجھی نہیں جا رہی۔

اسی لیے شہباز شریف ہی وہ واحد امیدوار کے طورپر سامنے آرہے ہیں جو بیک وقت نادیدہ قوتوں، خلائی مخلوق اور نواز شریف کو قابل قبول ہونگے۔ وہ دونوں کے مشترکہ امیدوار بن سکتے ہیں لیکن یہ صورتحال انتخابات کے بعد سامنے آئے گی۔ اس کے لیے مسلم لیگ (ن) کو زیادہ سے زیادہ سیٹیں جیتنی ہیں۔ اور شہباز شریف اس وقت اسی پر کام کر رہے ہیں۔
Load Next Story