یکم مئی کی تقریبات اور چھٹی
یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ آج کی اس ترقی یافتہ دنیا مزدور 1886ء سے برے اور بدتر حال میں زندگی گزار رہا ہے۔
ہر سال کی طرح اس سال بھی یکم مئی آیا اور چلا گیا، روایات کے مطابق جلسے ہوئے، جلوس نکالے گئے، سیمینار اور ورکشاپس کا انعقاد کیا گیا، رات میں مشعل بردار جلوس کا اہتمام کیا گیا، پرجوش تقاریر ہوئیں، یکم مئی کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا گیا، اس طرح یکم مئی کا اختتام ہوا۔
اگر ہم کسی بڑی قربانی دینے والے کی یا والوں کی یاد مناتے ہیں تو دلدوز انداز میں ان کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہیں اور ان کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں لیکن اس حقیقت پر غور نہیں کرتے کہ ان شہدا نے کن مقاصد کے لیے قربانیاں دی تھیں، جن مقاصد کے لیے شہدا نے یہ عظیم قربانیاں دی تھیں کیا وہ مقاصد پورے ہوگئے ہیں، اگر نہیں ہوئے تو ان کو پورا کرنے کے لیے ہم کیا کر رہے ہیں؟
1886ء میں شکاگو کے مزدوروں کا سب سے بڑا مطالبہ یہ تھا کہ کام کے اوقات کا تعین کیا جائے، یہ مطالبہ اس وقت کے مزدوروں کا سب سے بڑا مطالبہ اس لیے بن گیا تھا کہ صنعت کار اس دور میں مزدوروں سے اٹھارہ اٹھارہ بیس بیس گھنٹے کام لیا کرتے تھے، کام کے اوقات کا کوئی تعین نہ تھا، اٹھارہ بیس گھنٹے کام کرنے کی وجہ سے ایک تو مزدوروں کو آرام کا وقت نہیں ملتا تھا دوسرے وہ بے حد تھک جاتے تھے، تیسرے انھیں گھر کے کام کاج کے لیے وقت نہیں ملتا تھا۔
یکم مئی کو مزدوروں نے اپنے اس مطالبے کو سرفہرست رکھ کر صنعت کاروں کے خلاف زبردست ہڑتال کی، صنعت کاروں کی غلام انتظامیہ کے پٹھوؤں نے مزدوروں پر گولیاں چلائیں اور شکاگو کی زمین مزدوروں کے خون سے سرخ ہوگئی۔ مزدوروں نے اپنے کپڑوں کو اس خون میں ڈبو کر اپنا پرچم بنالیا اور اس کے بعد سرخ پرچم مزدوروں اور ترقی پسند پارٹیوں کا نشان بن گیا۔
اس سانحے کو پیش آئے ہوئے اب 132 سال ہو رہے ہیں، اب دنیا سر سے پیر تک بدل گئی ہے، نہ بدلے تو مزدوروں کے دن رات۔ یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ آج کی اس ترقی یافتہ دنیا مزدور 1886ء سے برے اور بدتر حال میں زندگی گزار رہا ہے۔
1886ء میں شکاگو کے مزدوروں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دے کر اوقات کار کے تعین کا جو مطالبہ تسلیم کرایا تھا اب 132 سال گزرنے کے بعد آج کا مزدور خاص طور پر ٹھیکیداری مزدور دن میں 18-18گھنٹے کام کر رہا ہے، یہی نہیں بلکہ ٹھیکیدار مزدوروں کی تنخواہ خود حاصل کرکے اپنی مرضی سے مزدوروں کے گھر بھجواتا ہے۔
حکومت نے مزدوروں کی قربانیوں کے بعد یونین سازی حق ہڑتال اور بارگیننگ جیسے جو حقوق منوائے تھے ہماری غریب نواز حکومتوں نے مزدوروں سے یہ منظور شدہ حقوق بھی چھین لیے، اب عملاً مزدور صنعتی غلام کی طرح کام کر رہا ہے۔ انجمن سازی کا حق آج ساری دنیا کے مزدوروں کو حاصل ہے لیکن ہماری مملکت خداداد میں مزدوروں کو عموماً یہ حق حاصل نہیں۔
اگر کوئی مزدور یونین کا نام لیتا ہے تو اسے کان پکڑ کر گیٹ کے باہر کردیا جاتا ہے، ٹھیکیداری مزدوروں کو اپنے مفادات اور اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے ملوں ہی میں رہائش کا انتظام کردیا گیا ہے، جب بھی ضرورت ہوتی ہے مزدوروں کو نیند سے اٹھا کر مشینوں پر کھڑا کردیا جاتا ہے، ٹھیکیداری مزدوروں کو وہ حقوق حاصل نہیں جو مزدوروں کا قانونی حق ہے۔
132 سال کا عرصہ ایک بڑا عرصہ ہوتا ہے، اتنے طویل عرصے میں منطقی طور پر مزدوروں کی زندگی میں بہت بہتری آجانی چاہیے تھی، لیکن یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ پاکستانی مزدور طبقے کی زندگی میں بہتری کے بجائے بدتری دیکھی جارہی ہے۔ ہمارا حکمران طبقہ آئے دن عوام کو یہ خوشخبری سناتا رہتا ہے کہ ملک ترقی کر رہا ہے ساری دنیا میں ترقی کا مطلب عوام کے معیار زندگی میں ترقی لیا جاتا ہے، اگر اس حوالے سے پاکستان کے مزدور طبقے کی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو سخت مایوسی ہوتی ہے۔
آج سے 70 سال پہلے آج کے مقابلے میں مزدور طبقے کے حالات زیادہ بہتر تھے، بلاشبہ اس دور میں مزدوروں کی اجرتیں بہت کم تھیں لیکن مہنگائی نام کی کوئی چیز نہ ہونے کی وجہ آج کے مقابلے میں مزدور کے معاشی حالات زیادہ بہتر تھے۔
1953ء میں چاول ایک روپے کے چار سیر اور آٹا چار آنے سیر ملا کرتا تھا۔ گوشت، سبزی، تیل، گھی، دالیں وغیرہ غریب کی پہنچ میں تھیں، اب صرف گوشت کو لے لیں چھ سو روپے کلو، چاول ایک سو پچاس روپے کلو، آٹا پچاس روپے کلو فروخت ہو رہا ہے، اس مہنگائی میں مزدور کی محدود اجرت کسی طرح بھی مزدور کی ضروریات زندگی کا ساتھ نہیں دے سکتی، مزدور ہی نہیں ملک کے دوسرے طبقات سے تعلق رکھنے والے غریب عوام بھی شدید مالی مشکلات کا شکار ہیں۔
ہمارا حکمران طبقہ جو صبح شام ترقی کا راگ الاپتا ہے حاتم کی قبر پر لات مارتے ہوئے مزدوروں کی ماہانہ تنخواہ 15 ہزار مقرر کی ہے۔ 8-7 افراد پر مشتمل ایک خاندان 15 ہزار میں زندگی کیسے گزار سکتا ہے۔
اس کا احساس ہماری حکمران اشرافیہ کو اس لیے نہیں کہ اس نے کبھی قریب سے غریب کی زندگی کا مشاہدہ نہیں کیا، آئے دن بھوک سے تنگ آئے ہوئے غریب انسانوں کی خودکشیوں کی خبریں میڈیا میں آتی رہتی ہیں لیکن حکمران اشرافیہ کے قانون کے کان پر عوام کی زندگی جوں کی طرح بھی نہیں رینگتی، کیونکہ ہمارے وزرا اپنی کروڑوں کی آمدنی میں لگژری زندگی گزارتے ہیں اور لالچ کا عالم یہ ہے کہ اتنی بھارتی آمدنی کے باوجود بیرونی ملکوں میں پارٹ ٹائم جاب کرتے ہیں اور 18-18 لاکھ معاوضہ وصول کرتے ہیں۔
ہمارے لیبر لیڈروں کی طرف سے یکم مئی بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے لیکن مزدوروں کو غلام بنائے رکھنے والے ٹھیکیداری نظام کے خلاف ایک موثر تحریک چلانے کا خیال آتا ہے نہ مزدور کی ماہانہ 15 ہزار اجرت کے خلاف تحریک چلانے کا خیال آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ آج کے مزدور رہنما خود آرام دہ زندگی گزار رہے ہیں انھیں مزدوروں کی مشکلات پر متحرک ہونے کی کیا ضرورت ہے۔
اس بے نیازی کا کیا کہنا کہ پاکستان میں یکم مئی یا مے ڈے منانے والوں کو یہ علم بھی نہیں کہ پاکستان میں یکم مئی کو چھٹی کس نے شروع کرائی کب کرائی کیسے کرائی؟ غلیظ لابنگ سسٹم اور خودغرضی ایسے تاریخی کام انجام دینے والوں کو منظر عام پر آنے نہیں دیتی۔ کیا مجھے خود یہ بات یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں یکم مئی کی چھٹی ظہیر اختر بیدری کی تجویز پر بھٹو کے وزیر محنت رانا حنیف نے منظور کرائی تھی؟