خرابی بسیار ذمے دار کون
قیام پاکستان کے بعد بھی سیاسی قیادت مختلف نوعیت کے فکری اور نظریاتی ابہام میں مبتلا رہی۔
ہمارے یہاں ایک عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں میں جس قدر عوام دشمن فیصلے اور اقدامات ہوئے، ان میں بالواسطہ یا بلاواسطہ ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان مرحوم کا کسی نہ کسی شکل میں ہاتھ تھا۔
خاص طور پر مسلم اقلیتی صوبوں سے ہجرت کرنے آنے والوں کی سندھ میں آبادکاری، روس کا دعوت نامہ ملتوی کرتے ہوئے امریکا جانے کو ترجیح دینا وغیرہ۔ میرا لیاقت علی خان سے نہ نظریاتی تعلق ہے، نہ ان سے کسی قسم کی کوئی جذباتی وابستگی ہے اور نہ ہی ان کی وکالت کرنے کا شوق ہے۔ لیکن سیاست، صحافت اور تاریخ کے ایک ادنیٰ طالب علم کے طور پر بہرحال یہ ذمے داری ضرور بنتی ہے کہ تاریخ کے صفحات میں جہاں کہیں دانستہ یا نادانستہ غلط فہمیاں پیدا ہورہی ہوں، انھیں اپنے مطالعہ اور مشاہدے کی روشنی میں دور کرنے کی کوشش کروں۔
اس حوالے سے کئی اہل علم ودانش، تاریخ دانوں اور سینئر بیوروکریٹس کی تحاریر موجود ہیں، جن کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے تاریخ کے صفحات کی درستی ممکن ہے۔ قیام پاکستان کے حوالے بعض اہم سوالات اور تحفظات آج بھی موضوع بحث بن سکتے ہیں۔ مگر ان پر اس وقت گفتگو بے محل ہے۔ جہاں تک ملک میں پارلیمانی جمہوری اقدار کی پامالی کا معاملہ ہے، تو یہ سلسلہ روز اول ہی سے جاری ہے۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نئے ملک کے خدوخال کے بارے میں آل انڈیا مسلم لیگ اور تاج برطانیہ کے زیر اثر کام کرنے والی بیوروکریسی کے تصورات (Perceptions) ایک دوسرے سے قطعی مختلف تھے۔ پھر خود مسلم لیگ کے اندر اس حوالے سے ابہام کا ناختم ہونے والا سلسلہ بھی ریاست کے منطقی جواز کو واضح کرنے میں رکاوٹ بنا ہوا تھا۔
سیاستدانوں میں پائے جانے والے کنفیوژن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چوہدری محمد علی مرحوم کی زیر قیادت تاج برطانیہ کے منظور نظر (Blue Eyed Boys) سینئر بیوروکریٹس نے آل انڈیا مسلم لیگ کے تصور ریاست کو ایک طرف رکھتے ہوئے اس ایجنڈے پر کام شروع کر دیا، جو انھیں تاج برطانیہ نے تفویض کیا تھا۔
قیام پاکستان کے بعد بھی سیاسی قیادت مختلف نوعیت کے فکری اور نظریاتی ابہام میں مبتلا رہی۔ اس لیے بیوروکریسی کو گل کھلانے کا مکمل موقع مل گیا۔ جس نے پوری ریاستی منصوبہ سازی کو اپنی مٹھی میں بند کرلیا۔ سیاسی قیادت کی بے بسی کا یہ عالم تھا کہ قیام پاکستان کے سرکاری اعلان سے تین روز قبل بانی پاکستان کی تقریر طاقتور بیوروکریسی کے حکم پر سنسر کردی جاتی ہے اور وہ منھ دیکھتی رہ جاتی ہے۔ اس میں نہ جرأت تھی اور نہ اہلیت کہ وہ بیوروکریسی کا ہاتھ روک سکتی۔
بانی پاکستان چونکہ مقبول شخصیت تھے، اس لیے بظاہر انھیں منظرنامہ میں نمایاں رکھنا ضروری تھا۔ اس دور کی مختلف دستاویزات کا باریک بینی کے ساتھ مطالعہ کرنے کے بعد یہ حقیقت عیاں ہوکر سامنے آجاتی ہے کہ بیشتر ریاستی امور میں بانی پاکستان کو ان کی اپنی زندگی میں انھیں نظر انداز کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ اس پس منظر میں وزیراعظم کی حیثیت کو زیر بحث لانا اور بیشتر غلط فیصلوں کا الزام ان کی ذات پر عائد کرنا کوتاہ بینی اور تنگ نظری سے زیادہ کچھ نہیں۔
یہ بات واضح ہے کہ ریاست کے تقریباً سبھی فیصلے سیکریٹری جنرل کے سیکریٹریٹ میں کیے جاتے اور ان پر گورنر جنرل ہاؤس میں مہر لگوالی جاتی۔ اس پورے عمل میں وزیراعظم سے مشاورت کرنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی جاتی تھی۔ جس کا اظہار کئی مصنفین بالخصوص حمزہ علوی مرحوم نے اپنی بیشتر تحاریر میں کیا ہے۔
پاکستان میں چوہدری محمدعلی اور اسکندر مرزا (میر جعفر کی اولادوں کی اولاد) کے ساتھ بعض اہم بیوروکریٹس کے شیطانی گٹھ جوڑ (Nexus) نے ابتدائی برسوں کے دوران جو گل کھلائے ہیں، پاکستانی عوام آج تک ان کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ جو سرِ آئینہ ہوتا ہے، سارا ملبہ اسی پر گرتا ہے۔ جو پس پشت بیٹھ کر کارستانیاں کرتے ہیں، ہمیشہ فائدے میں رہتے ہیں۔ پاکستان میں سیاسی وزیراعظم (لیاقت علی خان سے میاں نواز شریف تک) کو کبھی بحیثیت ریاست کے چیف ایگزیکٹو قبول نہیں کیا گیا۔ بلکہ اس عہدے کو ہمیشہ ایک مہرے کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی گئی۔
ایسے میں یہ سمجھنا درست نہیں ہر خرابی بسیار کا ذمے دار وزیراعظم ہوتا ہے۔ جہاں تک مہاجرین کی آمد اور ان کے ملک کے مختلف حصوں بالخصوص سندھ کے شہری علاقوں میں آبادکاری کا معاملہ ہے، تو یہ لیاقت علی خان کا نہیں پوری آل انڈیا مسلم لیگ کے غلط فیصلوں اور طرز سیاست کا نتیجہ تھا۔ یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ نے مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کے ساتھ تسلسل کے ساتھ غلط بیانی کی۔ جب کہ مسلم اکثریتی صوبوں کے مسلمانوں کو بھی دھوکے میں رکھا۔
اگر مسلم اکثریتی صوبوں پر مشتمل ریاست کا قیام ہی مقصود تھا، تو پھر مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کو دو قومی نظریہ کی بنیاد پر متحرک کرکے ان کے اپنے صوبوں کی اکثریتی آبادی کے ساتھ دشمنی پیدا کرنے کا کیا جواز تھا؟
کیا اس بات سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ جن علاقوں پر پاکستان وجود میں آیا تھا، وہاں انتظامی مشینری اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کی خاطر خواہ تعداد کا فقدان نہیں تھا۔ کیوں پاکستان کے حصے میں آنے والے 29 مکمل سیکریٹریوں میں سے 23 کا تعلق اترپردیش اور بہار سے تھا اور یہی اوسط دیگر سطحوں کے انتظامی عہدوں کی بھی تھی۔ تقسیم ہند کے بعد لاہور کے گورنمنٹ کالج میں صرف چھ مسلمان اساتذہ رہ گئے تھے۔ جب کہ دیال سنگھ کالج میں صرف دو مسلمان اساتذہ باقی بچے تھے، جن میں ایک عابدعلی عابد تھے۔
اگر مسلم اقلیتی صوبوں سے مسلمان افرادی قوت Opt نہ کرتی تو کیا پاکستان کو چلانا ممکن ہوتا؟ کیا ولبھ بھائی پٹیل کا یہ دعویٰ درست ثابت نہ ہوتا کہ پاکستان چھ ماہ سے زیادہ نہیں چل سکے گا؟ کیونکہ اس کے پاس ریاست چلانے والی مشینری موجود نہیں ہے۔
اب جہاں تک بنگالیوں، سندھیوں، بلوچوں، پشتونوں اور عام پنجابیوں کی شکایات کا تعلق ہے، تو ان کے حقیقی ہونے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنی آزادی کو نئے ملک کے ساتھ شیئر کیا تھا۔ لہٰذا ان کا وفاقیت پر مبنی جمہوریت کی خواہش اپنی جگہ منطقی جواز رکھتی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ حکمران اشرافیہ نے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کی خاطر نوآبادیاتی آقاؤں والا طرز عمل اختیار کرتے ہوئے، مقامی آبادی کو نئے آنے والوں سے متصادم کرا دیا۔
حالانکہ یہ حکومت کی ذمے داری تھی کہ وہ مقامی لوگوں اور نئے آنے والوں کے درمیان روابط پیدا کرنے کے لیے ٹھوس اور پائیدار حکمت عملی تیار کرتی، تاکہ ملک ترقی کی نئی راہوں پر چلنے کے قابل ہوسکتا۔ جس طرح بھارت میں پاکستان سے جانے والے ہندو اور سکھ کمیونٹیوں کو وہاں کی حکومت نے مقامی آبادی کے ساتھ Adjust کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
اس لیے عرض ہے کہ سیاسی قیادتیں خواہ وہ کسی شکل میں ہوں، خرابی بسیار کی اصل ذمے دار نہیں۔ اصل ذمے دار وہ منصوبہ ساز اور بیوروکریسی کے کرتا دھرتا ہیں، جنھوں نے روز اول سے اپنے مخصوص ایجنڈے کی تکمیل اور اقتدار و اختیار پر اپنے قبضہ کو مضبوط رکھنے کی خاطر عوام کو کبھی عقیدے، کبھی فرقہ اور کبھی لسانی بنیادوں پر لڑا کر اپنا الو سیدھا کیا ہے۔ یہ کوششیں آج بھی اسی شدومد سے جاری ہیں۔ جس نے ملک کو تو کوئی فائدہ نہیں دیا، البتہ ان حلقوں کی اقتدار پر گرفت مزید مضبوط ہوئی ہے۔ اس لیے خرابی بسیار کے اصل ذمے داروں کو پہچانے بغیر ملک کو مسائل کی دلدل سے نکالنا ممکن نہیں۔
خاص طور پر مسلم اقلیتی صوبوں سے ہجرت کرنے آنے والوں کی سندھ میں آبادکاری، روس کا دعوت نامہ ملتوی کرتے ہوئے امریکا جانے کو ترجیح دینا وغیرہ۔ میرا لیاقت علی خان سے نہ نظریاتی تعلق ہے، نہ ان سے کسی قسم کی کوئی جذباتی وابستگی ہے اور نہ ہی ان کی وکالت کرنے کا شوق ہے۔ لیکن سیاست، صحافت اور تاریخ کے ایک ادنیٰ طالب علم کے طور پر بہرحال یہ ذمے داری ضرور بنتی ہے کہ تاریخ کے صفحات میں جہاں کہیں دانستہ یا نادانستہ غلط فہمیاں پیدا ہورہی ہوں، انھیں اپنے مطالعہ اور مشاہدے کی روشنی میں دور کرنے کی کوشش کروں۔
اس حوالے سے کئی اہل علم ودانش، تاریخ دانوں اور سینئر بیوروکریٹس کی تحاریر موجود ہیں، جن کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے تاریخ کے صفحات کی درستی ممکن ہے۔ قیام پاکستان کے حوالے بعض اہم سوالات اور تحفظات آج بھی موضوع بحث بن سکتے ہیں۔ مگر ان پر اس وقت گفتگو بے محل ہے۔ جہاں تک ملک میں پارلیمانی جمہوری اقدار کی پامالی کا معاملہ ہے، تو یہ سلسلہ روز اول ہی سے جاری ہے۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نئے ملک کے خدوخال کے بارے میں آل انڈیا مسلم لیگ اور تاج برطانیہ کے زیر اثر کام کرنے والی بیوروکریسی کے تصورات (Perceptions) ایک دوسرے سے قطعی مختلف تھے۔ پھر خود مسلم لیگ کے اندر اس حوالے سے ابہام کا ناختم ہونے والا سلسلہ بھی ریاست کے منطقی جواز کو واضح کرنے میں رکاوٹ بنا ہوا تھا۔
سیاستدانوں میں پائے جانے والے کنفیوژن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چوہدری محمد علی مرحوم کی زیر قیادت تاج برطانیہ کے منظور نظر (Blue Eyed Boys) سینئر بیوروکریٹس نے آل انڈیا مسلم لیگ کے تصور ریاست کو ایک طرف رکھتے ہوئے اس ایجنڈے پر کام شروع کر دیا، جو انھیں تاج برطانیہ نے تفویض کیا تھا۔
قیام پاکستان کے بعد بھی سیاسی قیادت مختلف نوعیت کے فکری اور نظریاتی ابہام میں مبتلا رہی۔ اس لیے بیوروکریسی کو گل کھلانے کا مکمل موقع مل گیا۔ جس نے پوری ریاستی منصوبہ سازی کو اپنی مٹھی میں بند کرلیا۔ سیاسی قیادت کی بے بسی کا یہ عالم تھا کہ قیام پاکستان کے سرکاری اعلان سے تین روز قبل بانی پاکستان کی تقریر طاقتور بیوروکریسی کے حکم پر سنسر کردی جاتی ہے اور وہ منھ دیکھتی رہ جاتی ہے۔ اس میں نہ جرأت تھی اور نہ اہلیت کہ وہ بیوروکریسی کا ہاتھ روک سکتی۔
بانی پاکستان چونکہ مقبول شخصیت تھے، اس لیے بظاہر انھیں منظرنامہ میں نمایاں رکھنا ضروری تھا۔ اس دور کی مختلف دستاویزات کا باریک بینی کے ساتھ مطالعہ کرنے کے بعد یہ حقیقت عیاں ہوکر سامنے آجاتی ہے کہ بیشتر ریاستی امور میں بانی پاکستان کو ان کی اپنی زندگی میں انھیں نظر انداز کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ اس پس منظر میں وزیراعظم کی حیثیت کو زیر بحث لانا اور بیشتر غلط فیصلوں کا الزام ان کی ذات پر عائد کرنا کوتاہ بینی اور تنگ نظری سے زیادہ کچھ نہیں۔
یہ بات واضح ہے کہ ریاست کے تقریباً سبھی فیصلے سیکریٹری جنرل کے سیکریٹریٹ میں کیے جاتے اور ان پر گورنر جنرل ہاؤس میں مہر لگوالی جاتی۔ اس پورے عمل میں وزیراعظم سے مشاورت کرنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی جاتی تھی۔ جس کا اظہار کئی مصنفین بالخصوص حمزہ علوی مرحوم نے اپنی بیشتر تحاریر میں کیا ہے۔
پاکستان میں چوہدری محمدعلی اور اسکندر مرزا (میر جعفر کی اولادوں کی اولاد) کے ساتھ بعض اہم بیوروکریٹس کے شیطانی گٹھ جوڑ (Nexus) نے ابتدائی برسوں کے دوران جو گل کھلائے ہیں، پاکستانی عوام آج تک ان کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ جو سرِ آئینہ ہوتا ہے، سارا ملبہ اسی پر گرتا ہے۔ جو پس پشت بیٹھ کر کارستانیاں کرتے ہیں، ہمیشہ فائدے میں رہتے ہیں۔ پاکستان میں سیاسی وزیراعظم (لیاقت علی خان سے میاں نواز شریف تک) کو کبھی بحیثیت ریاست کے چیف ایگزیکٹو قبول نہیں کیا گیا۔ بلکہ اس عہدے کو ہمیشہ ایک مہرے کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی گئی۔
ایسے میں یہ سمجھنا درست نہیں ہر خرابی بسیار کا ذمے دار وزیراعظم ہوتا ہے۔ جہاں تک مہاجرین کی آمد اور ان کے ملک کے مختلف حصوں بالخصوص سندھ کے شہری علاقوں میں آبادکاری کا معاملہ ہے، تو یہ لیاقت علی خان کا نہیں پوری آل انڈیا مسلم لیگ کے غلط فیصلوں اور طرز سیاست کا نتیجہ تھا۔ یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ نے مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کے ساتھ تسلسل کے ساتھ غلط بیانی کی۔ جب کہ مسلم اکثریتی صوبوں کے مسلمانوں کو بھی دھوکے میں رکھا۔
اگر مسلم اکثریتی صوبوں پر مشتمل ریاست کا قیام ہی مقصود تھا، تو پھر مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کو دو قومی نظریہ کی بنیاد پر متحرک کرکے ان کے اپنے صوبوں کی اکثریتی آبادی کے ساتھ دشمنی پیدا کرنے کا کیا جواز تھا؟
کیا اس بات سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ جن علاقوں پر پاکستان وجود میں آیا تھا، وہاں انتظامی مشینری اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کی خاطر خواہ تعداد کا فقدان نہیں تھا۔ کیوں پاکستان کے حصے میں آنے والے 29 مکمل سیکریٹریوں میں سے 23 کا تعلق اترپردیش اور بہار سے تھا اور یہی اوسط دیگر سطحوں کے انتظامی عہدوں کی بھی تھی۔ تقسیم ہند کے بعد لاہور کے گورنمنٹ کالج میں صرف چھ مسلمان اساتذہ رہ گئے تھے۔ جب کہ دیال سنگھ کالج میں صرف دو مسلمان اساتذہ باقی بچے تھے، جن میں ایک عابدعلی عابد تھے۔
اگر مسلم اقلیتی صوبوں سے مسلمان افرادی قوت Opt نہ کرتی تو کیا پاکستان کو چلانا ممکن ہوتا؟ کیا ولبھ بھائی پٹیل کا یہ دعویٰ درست ثابت نہ ہوتا کہ پاکستان چھ ماہ سے زیادہ نہیں چل سکے گا؟ کیونکہ اس کے پاس ریاست چلانے والی مشینری موجود نہیں ہے۔
اب جہاں تک بنگالیوں، سندھیوں، بلوچوں، پشتونوں اور عام پنجابیوں کی شکایات کا تعلق ہے، تو ان کے حقیقی ہونے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنی آزادی کو نئے ملک کے ساتھ شیئر کیا تھا۔ لہٰذا ان کا وفاقیت پر مبنی جمہوریت کی خواہش اپنی جگہ منطقی جواز رکھتی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ حکمران اشرافیہ نے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کی خاطر نوآبادیاتی آقاؤں والا طرز عمل اختیار کرتے ہوئے، مقامی آبادی کو نئے آنے والوں سے متصادم کرا دیا۔
حالانکہ یہ حکومت کی ذمے داری تھی کہ وہ مقامی لوگوں اور نئے آنے والوں کے درمیان روابط پیدا کرنے کے لیے ٹھوس اور پائیدار حکمت عملی تیار کرتی، تاکہ ملک ترقی کی نئی راہوں پر چلنے کے قابل ہوسکتا۔ جس طرح بھارت میں پاکستان سے جانے والے ہندو اور سکھ کمیونٹیوں کو وہاں کی حکومت نے مقامی آبادی کے ساتھ Adjust کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
اس لیے عرض ہے کہ سیاسی قیادتیں خواہ وہ کسی شکل میں ہوں، خرابی بسیار کی اصل ذمے دار نہیں۔ اصل ذمے دار وہ منصوبہ ساز اور بیوروکریسی کے کرتا دھرتا ہیں، جنھوں نے روز اول سے اپنے مخصوص ایجنڈے کی تکمیل اور اقتدار و اختیار پر اپنے قبضہ کو مضبوط رکھنے کی خاطر عوام کو کبھی عقیدے، کبھی فرقہ اور کبھی لسانی بنیادوں پر لڑا کر اپنا الو سیدھا کیا ہے۔ یہ کوششیں آج بھی اسی شدومد سے جاری ہیں۔ جس نے ملک کو تو کوئی فائدہ نہیں دیا، البتہ ان حلقوں کی اقتدار پر گرفت مزید مضبوط ہوئی ہے۔ اس لیے خرابی بسیار کے اصل ذمے داروں کو پہچانے بغیر ملک کو مسائل کی دلدل سے نکالنا ممکن نہیں۔