مسلم ممالک میانمار کے خلاف کارروائی کے لیے متحد او آئی سی کانفرنس کمیٹی تشکیل
او آئی سی کے سیکریٹری جنرل نے اقدام کو روہنگیا بحران کے حل کے لیے ایک اہم پیش رفت قرار دیا
ڈھاکا میں ہونے والی 2 روزہ او آئی سی وزرائے خارجہ کانفرنس میں مسلم ممالک روہنگیا بحران پر میانمار کے خلاف کارروائی کے لیے متحد ہوگئے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس کے وزرا نے مہم شروع کردی ہے، جس کا مقصد روہنگیا مسلم اقلیت پر ڈھائے گئے مظالم کے تناظر میں میانمار کی حکومت کے خلاف بین الاقوامی سطح پر کارروائی کے لیے دباؤ ڈالنا ہے۔
بنگلادیش سے روہنگیا مہاجرین کی میانمار واپسی کے معاہدے کو عملی ناکامیوں، حقائق سے ہم آہنگ نہ ہونے اور سفارتی سطح پر متضاد بیانات سے شدید نقصان53 رکنی 'آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس' (OIC) کے وزرائے خارجہ اور سفارت کاروں نے کمیٹی تشکیل دے دی ہے جس کا مقصد میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے لیے اس ملک کی حکومت کو انصاف کے کٹہرے تک لانے کے لیے بین الاقوامی حمایت حاصل کرنا ہے۔
یہ پیش رفت بنگلادیشی دارالحکومت ڈھاکا میں او آئی سی کے 2 روزہ اجلاس میں اتوار 6 مئی کو ہوئی، یہ امر اہم ہے کہ میانمار کی راخائن ریاست میں گزشتہ برس شروع کردہ عسکری آپریشن کے بعد لگ بھگ 7 لاکھ روہنگیا مسلمان سیاسی پناہ کیلیے بنگلادیش ہجرت کر چکے ہیں، فرار ہونے والے روہنگیا مہاجرین میانمار کی ملکی افواج پر وسیع پیمانے پر تشدد اور جنسی زیادتی کی وارداتوں کے الزامات عائد کرتے ہیں۔
میانمار کی حکومت ایسے تمام الزامات مسترد کرتی ہے تاہم اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق کی جانب سے میانمار میں جاری مظالم کو متعدد مرتبہ 'نسل کشی' سے تعبیر کیا جا چکا ہے۔
او آئی سی کے سیکریٹری جنرل یوسف بن احمد العثیمین نے اتوار کو ہونے والی پیش رفت کو روہنگیا بحران کے حل کیلیے ایک اہم پیش رفت قرار دیا ہے، ان کے بقول یہ ایک مذہبی معاملہ نہیں بلکہ پچھلے قریب 50 برس سے روہنگیا مسلمانوں کے بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔
او آئی سی کے اجلاس میں بنگلادیشی وزیر خارجہ اے ایچ محمود علی نے کہا کہ رکن ممالک نے میانمار کی حکومت کے خلاف سخت کارروائی پر زور دیا ہے۔
دریں اثنا بنگلادیش نے بھارت کو مسلمان ممالک کی عالمی تنظیم او آئی سی میں بطور مبصر رکنیت دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ غیر اسلامی ممالک جہاں مسلمان آبادی زیادہ ہو انھیں بطور مبصر رکن کے شامل کیا جانا چاہیے، مسلمانوں کی زیادہ آبادی والے غیر اسلامی ممالک کو خود سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس کے وزرا نے مہم شروع کردی ہے، جس کا مقصد روہنگیا مسلم اقلیت پر ڈھائے گئے مظالم کے تناظر میں میانمار کی حکومت کے خلاف بین الاقوامی سطح پر کارروائی کے لیے دباؤ ڈالنا ہے۔
بنگلادیش سے روہنگیا مہاجرین کی میانمار واپسی کے معاہدے کو عملی ناکامیوں، حقائق سے ہم آہنگ نہ ہونے اور سفارتی سطح پر متضاد بیانات سے شدید نقصان53 رکنی 'آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس' (OIC) کے وزرائے خارجہ اور سفارت کاروں نے کمیٹی تشکیل دے دی ہے جس کا مقصد میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے لیے اس ملک کی حکومت کو انصاف کے کٹہرے تک لانے کے لیے بین الاقوامی حمایت حاصل کرنا ہے۔
یہ پیش رفت بنگلادیشی دارالحکومت ڈھاکا میں او آئی سی کے 2 روزہ اجلاس میں اتوار 6 مئی کو ہوئی، یہ امر اہم ہے کہ میانمار کی راخائن ریاست میں گزشتہ برس شروع کردہ عسکری آپریشن کے بعد لگ بھگ 7 لاکھ روہنگیا مسلمان سیاسی پناہ کیلیے بنگلادیش ہجرت کر چکے ہیں، فرار ہونے والے روہنگیا مہاجرین میانمار کی ملکی افواج پر وسیع پیمانے پر تشدد اور جنسی زیادتی کی وارداتوں کے الزامات عائد کرتے ہیں۔
میانمار کی حکومت ایسے تمام الزامات مسترد کرتی ہے تاہم اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق کی جانب سے میانمار میں جاری مظالم کو متعدد مرتبہ 'نسل کشی' سے تعبیر کیا جا چکا ہے۔
او آئی سی کے سیکریٹری جنرل یوسف بن احمد العثیمین نے اتوار کو ہونے والی پیش رفت کو روہنگیا بحران کے حل کیلیے ایک اہم پیش رفت قرار دیا ہے، ان کے بقول یہ ایک مذہبی معاملہ نہیں بلکہ پچھلے قریب 50 برس سے روہنگیا مسلمانوں کے بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔
او آئی سی کے اجلاس میں بنگلادیشی وزیر خارجہ اے ایچ محمود علی نے کہا کہ رکن ممالک نے میانمار کی حکومت کے خلاف سخت کارروائی پر زور دیا ہے۔
دریں اثنا بنگلادیش نے بھارت کو مسلمان ممالک کی عالمی تنظیم او آئی سی میں بطور مبصر رکنیت دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ غیر اسلامی ممالک جہاں مسلمان آبادی زیادہ ہو انھیں بطور مبصر رکن کے شامل کیا جانا چاہیے، مسلمانوں کی زیادہ آبادی والے غیر اسلامی ممالک کو خود سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔