قائدین ملت سے قائدین قلت تک

لوگ غربت کے مارے خودکشیاں کر رہے ہیں مگر یہ قائدینِ قلّت برائے ملت ہیں کہ ٹس سے مس ہونے کا نام نہیں لیتے


خرم علی راؤ May 07, 2018
سوئس بینکس کی رونق اور دبئی کی بہاروں کو بڑھانے میں ان قائدین قلت کا بھی بڑا حصہ ہے، فوٹو: انٹرنیٹ

کیا اکابرین تھے ہمارے! بہت زیادہ دور کی بات نہیں کرتا، تحریکِ پاکستان کے، صاحبانِ عزم و ہمت، صاحبانِ اخلاص، علم و عمل کے پیکر قائدین... سب سے بڑھ کر حضرت قائداعظم محمد علی جناح کو ہی لے لیجیے، اس زمانے میں اپنی محنت اور قابلیت سے کروڑ پتی بنے، آج کے حساب سے کھرب پتی سمجھ لیں۔ دنیا سے جاتے ہوئے ساری دولت اور جائیداد جس کی مالیت بلا مبالغہ کروڑوں میں تھی، مختلف تعلیمی اداروں کے نام وقف اور حکومتِ پاکستان کو ہبہ کر گئے۔ مانا کہ صاحبزادی کو عاق کر چکے تھے مگر ان کی بہنیں، بھائی بھتیجے بھتیجیاں وغیرہ تو موجود تھے، انہیں بھی دے کر جا سکتے تھے۔ اور تھوڑا بہت چھوڑا بھی، مگر نوے فیصد سے زائد اسلامیہ کالج پشاور، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، سندھ مدرستہ الاسلام کو وقف اور عطیہ کردیا۔

قائد ملت خان لیاقت علی خان، کرنال کے کتنے بڑے نواب تھے، مگر پاکستان میں کلیم (claim) میں کوئی جائیداد نہیں لی۔ جب شہادت کے بعد غسل دینے کےلیے کپڑے اتارے گئے تو پاکستان کے پہلے شہید وزیر اعظم کی بنیان میں سوراخ تھے، وہ سب واقعی سچے اور مخلص لوگ تھے، بجا طور پر قائدینِ ملت تھے۔

اب آتے ہیں قائدینِ قلت کی جانب۔ کون؟ ارے یہی، ہمارے عظیم مدبران، لیڈران، رہبران، قائدین، جو قوم کو انواع و اقسام کی قلتوں، مثلاً پانی کی قلت، بجلی کی قلت، روزگار کی قلت، امن و امان کی قلت، سکون، چین و آرام کی قلت، علاج کی قلت، روٹی کپڑا اور مکان کی قلت، اور دیگر کئی اقسام کی قلتوں میں مبتلا کرکے خود مع اہل و عیال و برادری ہر قسم کی نعمتوں اور ہر قسم کی کثرتوں میں سر تا پا غرق ہیں، ملکی معیشت کا بھٹہ روز بہ روز بیٹھتا جا رہا ہے، مگر ہمارے عظیم قائدینِ قلت کے ہر قسم کے کاروبار، جن میں قانونی اور غیر قانونی (یہی تھوڑا بہت کمیشن، کک بیکس وغیرہ لے لینا) دونوں اقسام کے کاروبار شامل ہیں، اتنی ترقی کر رہے ہیں کہ قومی سے نکل کر بین الااقوامی حدود میں داخل ہو گئے ہیں۔ سوئس بینکس کی رونق اور دبئی کی بہاروں کو بڑھانے میں ان قائدین قلت کا بھی بڑا حصہ ہے، ملک میں عام لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں۔ نہ صرف اپنی جان دے رہے ہیں بلکہ اپنے بچوں کو بھی بھوک اور غربت کے خوف سے مار رہے ہیں، فروخت کر رہے ہیں، خود کو آگ لگا رہے ہیں، اور جانے کس کس طرح احتجاج کر رہے ہیں۔ مگر یہ قائدین قلت برائے ملت ہیں کہ ٹس سے مس ہونے کا نام نہیں لیتے۔

اچھا! ہمارے عظیم قائدین ہیں بہت ہی چالاک و عیار، اور بہت ہی بڑے اداکار، قوم کے غم میں کہیں بھی، کبھی بھی آنکھوں میں آنسو لے آنا، بڑے بڑے وعدے جنہیں کبھی وفا نہیں ہونا، کر جانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ جب یہ ائیر کنڈیشنڈ کمروں اور رنگ برنگی روشنیوں میں بیٹھ کر قوم کو لوڈ شیڈنگ کے جلد خاتمے کی نوید سنا رہے ہوں، جب یہ اپنے نزلے کھانسی کے علاج کےلیے بھی بیرون ملک جاتے ہوئے قوم کو علاج معالجے کی ملکی صورتحال میں زبردست بہتری لانے کے اقدامات کا پر زور پروپیگنڈہ کر رہے ہوں، جب یہ منرل واٹر پیتے ہوئے عوام کو پانی کی قلت سے نجات دلانے کے وعدے کر رہے ہوں، تو نہ جانے مجھ دیوانے کو بہت زور سے ہنسی آتی ہے۔

ہمارے پیارے قائدین قلت، قوم کے غم میں روز بہ روز موٹے ہوتے جارہے ہیں۔ قوم کے دکھوں کا احساس انہیں گویا مارے ڈالتا ہے، اسی لیے یہ زیادہ تر وقت بیرون ممالک میں گزارتے ہیں کہ وہاں کم از کم سکون سے ان دکھوں کے ازالے کےلیے حکمت عملیاں تو وضع کر پائیں گے۔ ہمارے قائدین قلت زبردست کاروباری ذہانت کے حامل ہیں، نجکاری اور بیرونی سرمایہ کاری ملک میں لانے کےلیے اتنے اتاولے رہتے ہیں کہ منافع بخش قومی ادارے بھی اونے پونے فوراً بیرونی سرمایہ کاروں کو یوں فروخت کر دیتے ہیں گویا جیسے یہ ان کی پدری میراث تھے، اور مزید بر آں اس خرید و فروخت پر بلکہ خرید کہاں ہمارے نصیب میں، صرف فروخت پر کبھی ملک میں بیرونی سرمایہ کاروں سے، خریداروں سے کوئی کمیشن نہیں لیتے، ہمیشہ باہر کے بینکوں میں براہ راست جمع کروا دیتے ہیں۔

ویسے مجھے اس بات پر یقین تو نہیں ہے اور میں اسے ہمارے عظیم قائدین کے بدخواہوں کا پروپیگنڈہ ہی سمجھتا ہوں۔ میری دلیل یہ ہے کہ ہمارے اتنے نورانی، سرخ و سفید، معصوم چہرے رکھنے والے قائدین اتنی بری حرکت بھلا کیسے کر سکتے ہیں؟ مگر لوگ ہیں کہ مجھے قائل کرنے پر لگے رہتے ہیں کہ نہیں ایسا ہی ہے اور یہ ساری قلّتیں جو ہم عوام جھیل رہے ہیں وہ ان ہی کثرتوں کا نتیجہ ہیں جن کے یہ قائدین حامل ہیں۔ مثلاً مال و اسباب کی کثرت، اندرون و بیرون ملک زمین جائیداد کی کثرت، دنیا بھر کی نعمتوں اور لذتوں کی کثرت وغیرہ۔

اب میری ناقص سمجھ میں ایک حقیر سا تصواراتی سا حل یہ آتا ہے کہ کسی طرح کوئی جگاڑ لگا کر کچھ عرصے کےلیے جیسے فٹبال میچ میں ہاف کے بعد ادھر کی ٹیم ادھر اور ادھر کی ٹیم ادھر ہوجاتی ہے، ان قائدین کو بھی ذرا ایسے حالات سے گزارا جائے جن سے عوام الانعام روز گزرتے ہیں تو شاید کچھ بہتری آجائے۔ اس کےلیے یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے قومی ہمدردی اور غریب عوام کی محبت سے سرشار سیاسی لیڈران مشترکہ طور پر ایک قانون بنائیں کہ کوئی بھی سیاسی شخصیت اپنا کاروبار، اپنا علاج، اپنے بچوں کی تعلیم کےلیے ملک سے باہر نہیں جائیں گے بلکہ یہ سب امور پاکستان کے سرکاری اداروں میں ہی انجام دیئے جائیں گے۔ اگر ایسا ہوگیا تو آپ دیکھیں گے کہ ساری قلتیں کیسے غائب ہو جائیں گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں